پروین شاکر کی اردو شاعری

 پروین شاکر کی اردو شاعری

پروین شاکر اردو شاعری کی ایک مقبول ترین آواز ہے۔ پروین شاکر کی شاعری کا منفرد وصف اس کا عورت ہوتے ہوئے ایک فرد اور ایک مکمل انسان کی حیثیت میں سوچنا ہے۔ پروین شاکر کی شاعری جذبے کے بے ساختہ اظہار کی شاعری ہے۔ جس میں جدید انداز فکر کا رچاؤ بھی ہے۔ پروین شاکر ایک قادر الکلام شاعرہ تھیں کیوں کہ اٹھارہ بیس سال کے عرصے میں ہی ان کے چار شعری مجموعے شائع ہو گئے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے جو دس ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہیں۔ شعری مجموعوں کی تفصیل یہ ہے:

پروین شاکر کی اردو شاعری


1-خوشبو ۔ 1977ء (آدم جی ایوارڈ یافتہ )

2-صد برگ۔ 1980ء

3-خود کلامی - 1985, (ہجرہ ایوارڈ یافتہ)

4-انکار - 1990ء

5-ماہ تمام - 1994، (چاروں شعری مجموعوں کی کلیات)

 پروین شاکر کو ان کی ادبی خدمات پر حکومت پاکستان نے 1991ء میں صدارتی تمغہ حسن کار کردگی سے نوازا ہے۔کشور ناہید کی طرح پروین شاکر بھی جذباتی کیفیت سے ایک فکری منزل کی طرف سفر کرتی ہیں۔ اس کی ابتدائی شاعری میں عنفوانِ شہاب کے اولین نسوانی جذبوں کے کچے اور انوکھےتجربوں اور وارداتوں کا قدرے شائستہ اور رمزیاتی اسلوب میں بیان نکلتا ہے۔

 پروین شاکر کی ترجیحات بھی عورت کی آزادی، غیر متعلق جکڑ بندیوں سے رہائی اور اپنے طور پر زندگی جینے اور فکر کرنے پر ہیں لیکن مرد کے تعلق سے کسی نفرت کا اظہار ان کے منصب میں شامل نہیں ہے۔ پروین شاکر نے اپنے احساسات کو ایک فنی پختگی کے ساتھ اپنی گرفت میں لیا ہے۔

میرا بھی اک سورج ہے

جو میرا تن چھولے

 تو مجھ میں قوس و قزح کے پھول اگائے 

 ذرا بھی اس کا زاویہ بدلا 

 اور میں ہو گئی 

 پانی کا ایک سادہ قطرہ

  بے منظر، بے رنگ

   (پرزم)


میں کیوں اس کو فون کروں 

اس کے بھی تو علم میں ہوگا 

کل شب

موسم کی پہلی بارش تھی

(ضد)

 اپنے پہلے مجموعے "خوشبو" سے "صد برگ اور پھر خود کلامی سے انکار تک کی نظموں اور غزلوں میں پروین شاکر چھوٹی حقیقتوں سے بڑی حقیقتوں تک سفر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ "خوشبو" میں یہ سفر نسائی جذبات و احساسات کی شدت اور اظہار تک محدود تھا۔ اس میں ایک فطری پن اور لہو میں تیرتی گرمی اور جذبے کی سرشاری تھی۔ 


چھوٹی حقیقتوں کے انکشاف بہت جذباتی اور کسی حد تک احساساتی ہوتے ہیں۔ پروین خوشبو کے دائرے سے نکلیں تو بڑی حقیقتوں سے آشنائی کے دروازے کھلے : 

 

شب وہی لیکن ستاره اور  ہے 

اب سفر کا استعاره اور ہے


 خواہشوں کے ہفت خواں سے آگے والا سفر نئی دنیاؤں کے دروازے وا کرتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے المیاتی تجربے بڑے سانحوں میں ڈھل جاتے ہیں اور خارج و باطن کے امتزاج سے ایک بڑی فکر اور انداز نظر وجود میں آتا ہے۔

 

ذات کے حصار سے باہر کی دنیا سچی بھی ہے اور تلخ بھی۔ یہ سفر شاعر کو ذاتی خوابوں سے نکال کر بڑے آورش سے ہم کنار کرتا ہے۔ پروین شاکر اپنے جسم و جذبے کی اسیری سے نکل کر جس راہ کی مسافر بنی اس نے انہیں صد برگ اور خود کلامی سے انکار تک پہنچایا، اور آخر ان کے اندر موجود کے خلاف ایک مزاحمت کا رویہ پیدا کیا۔ یہ مزاحمت جو سامنے کی سچائی سے انکار کی شکل میں وجود میں آئی۔ دراصل سامنے کی حقیقت سے گزر کر ازلی سچائی کی تلاش تھی۔ چنانچہ ذات کی بجائے بستی اور میں کی بجائے اجتماع نے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ اس حوالے سے ان کے یہاں جو مزاحمتی رویہ ابھرا اس کا اظہار ان کی کئی نظموں میں ہوا، اس طرح کی نظموں میں سے شام غریباں " " علی مشکل کشا " سے تقیہ " ظل الہی کے پرابلمز " ایک نکاح اور کتوں کا سپاسنامہ " ایسی نظمیں ہیں جن میں طنز اور نشریت سے ایک بیمار معاشرے کو جگانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان نظموں میں طنز اور خطابت کے ساتھ فکر اپنے معمول میں برقرار ہے۔


 تباہی کے قاصد، مری جاں، مرے سبز پا

  خداوندا بلیس ترے ارادوں میں برکت کرے 

   دیہہ موعودہ کی ممکنہ دسترس دیکھ

    نان و نفقہ کی مسجد کو بھلا فکر کیا

غم کا موضع 

اداسی کی تحصیل

تنہائی کا پرگنہ

مرے بوم نر، صاحب بارگاہ حماقت

قاضی شہر بہرام کو حکم ہو 

صیغه عقد پڑھ۔ 

(ایک معقول نکاح)


اس دور کی غزلوں میں بھی یہی انداز ملتا ہے۔ 


کسی بستی میں ہو گی سچ کی حرمت

ہمارے شهر میں باطل بڑا ہے


 خوشبو کے بعد کے سفر کی ساری شاعری ایک باشعور فنکار کا رد عمل ہے۔ پروین شاکر نے جس طرح اور جتنی جلدی نو عمری کے جذبات سے رہائی پا کر بڑی حقیقتوں اور سچائیوں کا سفر اختیار کیا ہے وہ ان کے باشعور ہونے کی دلیل ہے۔ زندگی ان سے وفا کرتی تو ابھی بہت سی بڑی انوکھی منزلیں ان کی راہ دیکھ رہی تھیں۔

Post a Comment

0 Comments