انشائیہ کی تعریف ||اردو میں انشائیہ کا آغاز و ارتقاء
انشائیہ کی تعریف ||اردو میں انشائیہ کا آغاز و ارتقاء
انشائیہ کی تعریف :
کسی بھی صنف ادب کی جامع و مانع تعریف اگرچہ بے حد مشکل کام ہے پھر بھی اصناف ادب کی کوئی متفقہ تعریف متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ایک صنف کو دوسری اصناف سے الگ کیا جا سکے۔ یہ اس پابندی کا نتیجہ ہے کہ ہم غزل، نظم ، قصیدہ اور مرثیہ کو شاعری سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہم کہانی، افسانہ اور ناول کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہونے دیتے اسی طرح انشائیہ کو بھی انشائیہ سے ملتی جلتی ۔ تحریروں یعنی عمومی مضامین اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین سے علیحدہ شناخت کر سکتے ہیں۔
اردو میں انشائیہ کی اصطلاح ایسے (Essay) کے مترادف کے طور پر رائج ہے مگر انشائیہ کی تعریف کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انشائیہ وہ ایسے Essay نہیں جس کے تحت ہر قسم کی مضمون نگاری آ جاتی ہے بلکہ انشائیہ ایسے Essay کا ایک مخصوص انداز ہے۔ جسے ہلکا پھلکا Light یا ذاتی / شخصی Personal ایسے لگتے ہیں۔ اس مخصوص انداز کو سمجھنے کے لیے عمومی ایسے Essay (یعنی مضمون) اور انشائیہ (یعنی لائٹ / پرسنل ایسے ) کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔
مضمون اور انشائیہ کا فرق :
مضمون ایک خاص ترتیب اور توازن کا حامل ہوتا ہے۔ مضمون میں عموماً ایک تمہید ہوتی ہے جس میں موضوع کا تعارف کرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد موضوع کی خوبیاں یا خامیاں دلائل کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں اور آخر میں نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انشائیہ مضمون نگاری کا وہ خاص انداز ہے جس میں نہ تمہید ہوتی ہے، نہ دلائل کا سلسلہ قائم کیا جاتا ہے اور نہ کسی قسم کا نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ بلکہ انشائیہ نگار موضوع کے بارے میں محض اپنے شخصی تجربات اور ذاتی تاثرات پیش کرتا ہے۔ انشائیہ اچانک شروع ہو کر اچانک ختم ہو جاتا ہے اور اس طرح پڑھنے والوں کو موضوع کے بارے میں غورو فکر کی تحریک دیتا ہے۔ انشائیہ میں موضوع کا کوئی ایسا پہلو سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجل رہتا ہے۔
مزید برآن مضمون کڑی منصوبہ بندی کے تحت لکھا جاتا ہے اور لکھنے والے کی ساری توجہ موضوع پر مرکوز رہتی ہے مضمون نگار مضمون میں صرف انہی باتوں کو بیان کرتا ہے جو موضوع سے براہ راست متعلق ہوں جبکہ انشائیہ نگار انشائیہ میں فکری آزاد روی کا مظاہرہ کرتا ہے جسے ذہن کی آوارہ خرامی کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انشائیہ میں بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور انشائیہ نگار کے ذہن میں موضوع کے حوالے سے جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ ان کے بارے میں اپنے شخصی تاثرات پیش کرتا چلا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے انشائیہ کا ڈھانچہ مضمون کے مقابلے میں قدرے لچک دار اور ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے۔
انشائیہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ عام طور پر مختصر ہوتا ہے۔ اگر تحقیقی یا تنقیدی مضمون طوالت کا شکار ہو جائے تو مضائقہ نہیں کیونکہ اس کا مقصد قاری کو معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ انشائیہ کا مقصد چونکہ محفوظ کرنا ہوتا ہے اس لیے انشائیہ نگار کو اختصار سے کام لینا پڑتا ہے تاکہ انشائیہ اپنی دلچسپی نہ کھو بیٹھے کیونکہ انشائیہ میں دلچسپی کا نہ ہونا یا کم ہونا انشائیہ کی خامی ہے۔
انشائیہ اور طنز و مزاح :
بعض اوقات انشائیہ نگار دلچسپی پیدا کرنے کے لیے طنز و مزاح سے بھی کام لیتا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ شاید طنزیہ و مزاحیہ مضامین بھی انشائیے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ طنزیہ و مزاحیہ مضامین میں مزاح کا ہونا ضروری ہے جبکہ انشائیہ میں طنز و مزاح کا ہونا ضروری نہیں البتہ اس کا ہلکا پھلکا اور شگفتہ ہونا ضروری ہے۔
خلاصہ کلام :
اب تک انشائیہ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
1- انشائیہ اگرچہ انگریزی ایسے Essay کے مترادف ہے مگر یہ عمومی ایسے Essay یعنی مضمون نہیں بلکہ لائٹ یا پرسنل ایسے Essay ہے۔
2 ۔انشائیہ کا نہ کوئی آغاز ہوتا ہے نہ اختتام بلکہ یہ اچانک شروع ہو کر اچانک ختم ہو جاتا ہے۔
3۔ انشائیہ نگار موضوع کے بارے میں شخصی تجربات اور ذاتی تاثرات پیش کرتا ہے۔
4-انشائیہ میں موضوع کا کوئی نیا اور انوکھا پہلو سامنے لایا جاتا ہے۔
5- انشائیہ میں بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے۔
6 انشائیہ عام طور پر مختصر ہوتا ہے۔
7-انشائیہ میں طنزو مزاح سے کام لیا جا سکتا ہے مگر طنزیہ و مزاحیہ " کو انشائیہ نہیں کہتے۔
امید ہے کہ انشائیہ کی اہم خصوصیات سے آپ آگاہ ہو گئے ہوں گے۔ انشائیہ کی تعریف اور اس کی خصوصیات جاننے کے بعد اردو میں انشائیہ کے آغاز و ارتقاء کے بارے میں بنیادی باتوں کا جانتا بھی ضروری ہے۔ تو آئیے! اردو میں انشائیہ کے آغاز و ارتقاء پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
اردو میں انشائیہ کا آغاز و ارتقاء :
اردو انشائیہ کی کچھ خصوصیات تو سرسید احمد خاں کے بعض مضامین میں بھی مل جاتی ہیں لیکن ان کے مضامین میں چونکہ تمہید اور دلائل و نتایج بھی موجود ہوتے ہیں اس لیے ان کے مضامین کو مکمل انشائیہ نہیں کہا جا سکل بلکہ سرسید احمد خان ہی کے زمانے میں عبدالحلیم شرر نے بعض ایسے مضامین لکھے جن میں انشائیہ کی بہت سی خصوصیات ملتی ہیں۔ اس بنا پر انہیں اردو کا پہلا انشائیہ نگار کہا جا سکتا ہے، شرر کے بعد میر ناصر علی، سجاد حیدر یلدرم ، جوش ملیح آبادی، فلک پیا، خلیقی دهلوی، آغا حشر قزلباش، مولوی عزیز مرزا اور شیخ محمد اکرام کے ہاں بھی ایسی تحریریں ملتی ہیں جنہیں انشائیہ کہا جا سکتا ہے۔
اردو کے بعض طنز و مزاح نگاروں نے ایسے مضامین بھی لکھے ہیں جو طنزیہ و مزاحیہ مضامین ہوتے ہوئے بھی انشائیہ کی بعض خصوصیات رکھتے ہیں۔ ایسے طنز و مزاح نگاروں میں خواجہ حسن نظامی، رشید احمد صدیقی، شوکت تھانوی، کینا لال کپور، کرشن چندر ، امجد حسین اور مشتاق احمد یوسفی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ممتاز مفتی کے بعض مضامین بھی انشائیہ کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔
اولین انشائیہ نگار :
عزیز قارئین! اوپر جن مصنفین کے ہاں انشائیہ کی نشاندہی کی گئی ہے ان مصنفین نے اپنے مضامین کو انشائیہ کے نام سے پیش نہیں کیا تھا کیونکہ انشائیہ کی اصطلاح 1958ء کے آس پاس عام ہوئی۔ اول اول جن اہل قلم نے انشائیہ کے نام سے اپنی تخلیقات پیش کیں ان میں ڈاکٹر وزیر آغا ، نظیر صدیقی اور مشکور حسین یاد کے نام شامل ہیں۔ اب تک ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیوں کے چار مجموعے چھپ چکے ہیں جن کے نام یہ ہیں۔
(1)خیال پارے (2) چوری سے یاری تک (3) دوسرا کنارا (4) سمندر اگر میرے اندر گرے (یہ سب مجموعے ان کی کلیات پگڈنڈی سے روڈ رولر تک" میں شامل ہیں)
ان کے معاصر نظیر صدیقی کے انشائیوں کا صرف ایک مجموعہ "شہرت کی خاطر" کے نام سے چھپا ہے جس میں انشائیوں کے ساتھ طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور خاکے بھی شامل ہیں۔ وزیر آغا کے ایک اور معاصر مشکور حسین یاد کے انشائیوں کے مجموعے کا نام "جوہر اندیشہ " ہے۔
وزیر آغا ، نظیر صدیقی اور مشکور حسین یار کا تعلق اگرچہ ایک ہی دور سے ہے کیونکہ ان کی انشائیہ نگاری کا آغاز پچاس کی دھائی میں ہوا۔ لیکن انشائیہ کے سلسلے میں تینوں کا نقطہ نظر اور انشائیہ نگاری کا انداز ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ وزیر آغا اپنے انشائیوں میں موضوع کا نیا پہلو اجاگر کرنے پر زیادہ توجہ صرف کرتے ہیں اور طنزو مزاح سے کہیں زیادہ شگفتگی اور تخلیقی تازگی سے کام لیتے ہیں۔ نظیر صدیقی کے انشائیوں میں طنزو مزاح کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے اور مشکور حسین یاد کے انشائیوں میں طنزو مزاح کے ساتھ ساتھ وہ سنجیدگی بھی ملتی ہے جو عمومی مضامین سے " اردو میں انشائیہ کو ایک الگ صنف ادب کے طور پر متعارف کرانے کے سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا کے ادبی جریدہ " اوراق نے سب سے زیادہ کوشش کی ہے۔ خود وزیر آغا نے انشائیے بھی لکھے اور انشائیہ کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بہت سے مضامین بھی لکھے اور اس لیے بعد کے لکھنے والوں کی اکثریت نے وزیر آغا کے نقطہ نظر اور انداز نگارش کو بطور مثال اپنے سامنے رکھا۔
اردو کے جدید انشائیہ نگاروں میں جو انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا سے براہ راست متاثر ہیں ان میں مشتاق قمر جمیل آذر، غلام جیلانی اصغر، انور سدید، اکبر حمیدی، سلیم آغا قزلباش، کامل القادری، احمد جمال پاشا، جان کاشمیری محمد اسد اللہ طارق جامی، حامد برگی، رشید احمد گوریجہ کے نام شامل ہیں البتہ سلمان بٹ، محمد یونس بٹ اور ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی کے ہاں وزیر آغا، نظیر صدیقی اور مشکور حسین یار تینوں کے ملے جلے اثرات نظر آتے ہیں۔
دیگر انشائیہ نگاروں کے مطبوعہ مجموعے :
مندرجہ بالا انشائیہ نگاروں میں سے جن انشائیہ نگاروں کے انشائیوں کے مجموعے چھپ چکے ہیں ان میں سے چند ایک کے نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
ہم ہیں مشتاق،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشتاق قمر
(1) شاخ زیتوں (2) رت کے مہمان۔۔۔۔۔۔۔جمیل آذر
(1) جزیرے کا سفر(2) تتلی کے تعاقب ۔۔۔۔۔اکبر حمیدی
(1) ذکر اس پری وش کا (2) آسمان میں پتنگیں۔۔۔انور سدید
(1) سرگوشیاں (2) آمنا سامنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلیم آغا قزلباش
سوچ زاویے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رشید احمد گریجہ
آم کے آم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رام لعل نابھوی
اردو انشائیہ کی تاریخ و تنقید کے حوالے سے درج ذیل کتب چھپ چکی ہیں۔
انشائیہ کے خدوخال۔ ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر وزیر آغا
انشائیہ اردو ادب میں۔ ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر انور سدید
انشائیہ کی بنیاد۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر سلیم اختر
ممکنات انشائیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشکور حسین یاد
اردو میں انشائیہ نگاری۔ ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر بشیر سیفی
0 Comments