فیض احمد فیض کی نظم نگاری کی خصوصیات

 فیض احمد فیض کی نظم نگاری کی خصوصیات

فیض احمد فیض کی نظم نگاری کی خصوصیات

فیض کی نظم نگاری

اُردو شاعری کی سب سے مقبول اور ترقی یافتہ صنف غزل ہے۔ اُردو غزل میں میر، غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعروں کے علاوہ ہر دور میں بہت سے ممتاز غزل گو شاعر پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اگر اردو کے غزل گو شاعروں کی کوئی مختصر فہرست بھی بنائی جائے تو اس میں فیض کا نام نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فیض اردو کے نہایت اچھے غزل گو شاعروں میں سے ہیں ۔

فیض بیک وقت ایک منفرد غزل گو اور ایک ممتاز نظم نگار شاعر ہیں۔ اردو کا تقریبا ہر نظم کا شاعر غزل گو ضرور رہا ہے۔ لیکن یہ خوش نصیبی بہت کم شاعروں کو نصیب ہو سکی ہے کہ وہ شاعری کی ان دونوں قسموں میں مسادی اہمیت کے مالک ہوں ۔ مثلاً جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی کو لے لیجئے۔ ان دونوں کے یہاں غزلیں خاصی اچھی تعداد میں موجود ہیں لیکن دونوں کے شاعرانہ مرتبے کا دار ومدار صرف ان کی نظموں پر ہے۔ ان کے یہاں غزل کے کچھ اچھے شعر ضرور ملتے ہیں لیکن ایک غزل گو کی حیثیت سے ان کا کوئی مقام نہیں بنتا۔

چونکہ اس آرٹیکل کا موضوع فیض کی نظمیں ہیں اس لیے اس آرٹیکل میں ان کی غزلوں سے بحث نہیں کی جائے گی۔ فیض کے ساتھ جن شاعروں کا ذکر آئے گا وہ بھی وہی شاعر ہوں گے جو نظم نگاری کے اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں یوں تو اردو شاعری میں ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے نظم کی کئی قسمیں شروع سے رائج رہی ہیں مثلاً قصیدہ ، مثنوی، قطعه، مسدس، مخمس ،شهر آشوب، مرثیه ، واسوخت وغیرہ لیکن اردو میں نظم نگاری کےنئے دور کی بنیاد انیسویں صدی کے آخر میں محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے رکھی ۔ ان سے پہلے یعنی اٹھارہویں صدی میں اردو نظم کے ایک عظیم شاعر نظیر اکبر آبادی گزر چکے تھے لیکن وہ اپنی تمام شاعرانہ عظمت کے باوجود اپنے زمانے کے پڑھنے والوں اور لکھنے والوں پر اثر انداز نہ ہو سکے تھے۔ ان کے اثرات بیسویں صدی میں محسوس کیے گیے اور کئے جا رہے ہیں ۔

 نظیر اکبرآبادی نے اردو شاعری کا رخ غزل سے نظم کی طرف پھیرنے کی جو کوشش کی تھی وہ انکے زمانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ لوگ یہ محسوس نہ کر سکے کہ زندگی کے بہت سے موضوعات، اور مناظر ایسے ہیں جنہیں غزل اپنے دامن میں جگہ نہیں دے پاتی۔ پھر بھی لوگ غزل ہی کی شاعری میں مگن رہے ۔

 ۱۸۵۷ء میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے اور ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال سے پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے سنہ ۱۸۷۴ء میں جدید شاعری کی بنیاد ڈالی۔ اس تحریک سے تعلق رکھنے والے شاعر غزلیں کہنے کی بجائے مناظر فطرت اور معاشرتی واخلاقی موضوعات پر نظمیں لکھنے لگے جس سے اردو نظم نگاری کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ آزاد، حالی، اور شبلی وغیرہ اس دور کے بانیوں میں سے تھے۔ اس تحریک نے جن نے نظم نگاروں کو جنم دیا ان میں اقبال ، ظفرعلی خاں ، نادر کا کوروی، پنڈت برج نارائن چکبست ، جوش ملیح آبادی ، سیماب اکبر آبادی اور اختر شیرانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔

1936 ء میں اُردو ادب میں ادب کی ایک عالمی تحر یک ترقی پسند تحر یک شروع ہوئی جس کا بنیادی مقصد ہندوستان کی سیاسی غلامی کے خلاف ادبی جد و جہد کرنا اور ہندوستان کے بنیادی مسائل مثلاً غربت، جہالت اور غلط رسم ورواج سے متعلق مسائل کو ادب میں جگہ دینا تھا تاکہ لوگوں میں ان کا احساس بیدار ہو اور وہ ان چیزوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں ۔

اس تحریک نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی شکل اختیار کی جس کی پہلی کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی۔ اسی زمانے کے آس پاس لاہور میں میرا جی نے حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد اردو ادب بالخصوص اردو شاعری کو مغربی شاعری کے نئے رحجانات اور نئے اسالیب سے روشناس کرانا تھا۔ 

۱۹۳۶ء کے آس پاس کے زمانے میں جن لوگوں نے لکھنا شروع کیا ان میں سے اکثر اردو ادب کی ان دونوں تحریکوں سے متاثر ہوئے یا ان دونوں میں سے اپنے ذہن اور ذوق کے مطابق کسی ایک کے اثرات کو ضرور قبول کیا ۔ 

اس زمانے میں تین شاعر جدید شاعر کی حیثیت سے ابھرے۔ میرا جی ،ن م راشد اور فیض یہ جدید شعرا آزاد، حالی ، شبلی اور اقبال جیسے جدید شاعروں سے بالکل مختلف تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا جی ن م راشد اور فیض کے مقابلے میں آزاد اور حالی کی نسل کے شعرا جدید نہیں رہ گئے تھے قدیم بن چکے تھے۔ 

لفظ جدید صرف تاریخی اعتبار سے استعمال نہیں ہوتا۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ ۱۹۳۵ ء میں ابھرنے والا شاعر ۱۸۷۴ء میں ابھرنے والے شاعر کے مقابلے میں جدید ہو گا ہو سکتا ہے کہ ۱۸۷۴ء کا شاعر ۱۹۳۵ء کےشاعر سے زیادہ جدید ہو۔ جدید کا تعلق تاریخ سے کم اور تصور سے زیادہ ہے ۔ جو ادیب یا شاعر اپنے زمانے کے رجحانات سے جتنا زیادہ قریب ہو گا وہ اتنا ہی جدید ہو گا ۔ اگرچہ اقبال کی شاعری طرح طرح کی جدتوں سے بھری پڑی ہے پھر بھی میرا جی ، ن م راشد اور فیض جیسے شاعر ان کے مقابلے میں زیادہ جدید محسوس ہونے لگے ۔ 

ترقی پسند تحریک نے ادبیوں اور شاعروں کو ہندوستان کی سیاسی غلامی سے نفرت اور بہت سی معاشرتی اور اخلاقی بندشوں سے بغاوت سکھائی۔ حلقہ ارباب ذوق نے شاعروں میں ، روایتی زبان و بیان سے ہٹ کر نظم کی پرانی قسم کی بجائے نئی ہیئتوں میں نظم نگاری کا رجحان پیدا کیا۔ 

اگرچہ یہ تحریکات غزل کی مخالف نہیں تھیں پھر بھی ان تحریکات کے اثر سے نئے شاعروں میں غزل گوئی سے زیادہ نظم نگاری مقبول ہونے لگی ۔

۱۹۳۷ ء سے لے کر آج تک اردو ادب کا زمانہ پرانی چیزوں سے بغاوت اور نئی چیزوں کے تجر ہے کا زمانہ رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۱۹۳۹ء سے پہلے اُردو ادب میں نئی چیزوں کا تجربہ نہیں ہوتا تھا لیکن اس کی رفتار نہایت سست تھی جس کا ایک سبب غالباً یہ تھا کہ آج سے پچاس سال پہلے خود انسانی زندگی کی رفتار سست تھی ۔
ترقی پسند تحریک نے ادیبوں اور شاعروں کو اس بات پر مائل کیا کہ وہ اپنے زمانے کے بنیادی مسائل کے بارئے میں لکھیں ۔ اس زمانے میں ہندوستانی ادیبوں اور شاعروں کے سامنے جو بنیادی مسائل تھے وہ یہ تھے کہ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی جائے، ملک سے غربت اور جہالت کا خاتمہ کیا جائے ، غلط قسم کے سماجی اور اخلاقی بندھنوں کو توڑا جائے ۔

حلقہ ارباب ذوق کے اثر سے جو تبدیلیاں اُردو ادب اور اردو شاعری میں آئیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ شاعری میں پابند نظم کے ساتھ ساتھ آزاد نظم اور نظم معرا کو مقبولیت حاصل ہوئی اور شاعروں کو یہ آزادی میسر آئی کہ وہ نظم کی مقررہ شکلوں سے ہٹا کر نظم کونئی شکلوں سے آراستہ کرنے لگے۔ دوسری اہم تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ شاعری کے عام فہم ہونا ضروری نہ رہا۔ انیسویں صدی میں فرانس میں جو علامتی شاعری شروع ہوئی اس نے شاعری کو بہت مبہم بنا دیا میرا جی کے اثر سے ابہام پسندی اردو شاعری میں بھی آگئی ۔

فیض شعوری طور پر ہمیشہ ترقی پسند تحریک کے ساتھ رہے۔ ترقی پسند تحریک کے نزدیک شعر و ادب کے سماجی اور سیاسی مقاصد زیادہ اہم ہوتے ہیں یہ نسبت ان ادبی تجربات کے جن کا تعلقی زبان وبیان اور بیت وغیرہ سے ہوتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک چونکہ شعر وادب کو عوام تک پہنچانے کی قائل ہے اس لئے وہ شعر ادب کو مشکل اور مہم بنانے کی روادار نہیں ۔ 

اردو شاعری کی روایت کا تقاضا بھی یہی رہا ہے اک شعر و ادب میں جو کچھ کیا جائے صاف ستھرے انداز میں کیا جائے تاکہ پڑھنے والے کو اس کے معنی کے سمجھنے کی دشواری نہ ہو۔ اقبال کی طرح فیض بھی چونکہ اپنے زمانے کے دوسرے شاعروں (مثلاً میرا جی ،ن م راشد) کی بہ نسبت اردو کے قدیم ادب سے زیادہ گہرا تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کی شاعری میں وہ ابہام نہیں ہے جومیرا جی ، ن - م - راشد اور بہت سے جدید شاعروں کے یہاں پایا جاتا ہے ۔ تاہم فیض اپنے زمانے کے اثر سے بالکل محفوظ بھی نہیں کہیں کہیں ابہام کا احساس ان کے یہاں بھی ہوتا ہے۔

فیض اپنے آپ کو جس طرح بڑی حد تک میرا جی قسم کے ابہام پسند۔ شاعروں کے اثر سے بچانتے میں کامیاب رہے ہیں اسی طرح وہ اپنے آپ کو اس قسم کی ترقی پسندانہ شاعری سے بھی بچانے گئے ہیں جو لوگوں کی اصلاح کرنے اور دنیا میں انقلاب لانے کے چکر میں بالکل پر درپیگنڈا اور نعرے بازی بن کر رہ جاتی ہے۔

فیض اردو ادب کی ترقی پسند تحریک کا ایک ایسا خوبصورت پھول ہیں جس کی خوبصورتی اور خوشبو ان لوگوں کو بھی عزیز ہے جو ترقی پسند تحریک سے کوئی دل چسپی یا ہمدردی نہیں رکھتے ۔ واقعہ یہ ہے کہ فیض ترقی پسند تحریک کا گل سرسبد (سب سے اچھا پھول) ہیں۔

جہاں ایک جدید شاعر کی حیثیت سے فیض کا نام میرا جی اور ن م راشد کے ساتھ لینا ضروری ہے وہاں ایک ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے وہ اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی ، امین احسن جذبی ، سردار جعفری اور احمد ندیم قاسمی جسے شاعروں کے ممتاز ترین معاصر (ہم زمانہ ) ہیں۔

میراجی اور راشد کو فیض سے زیادہ جدید کہا جاسکتا ہے۔ شاعری میں جدیدیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جدید شاعر بڑی حد تک اپنی ذات کا شاعر ہوتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی محسوسات اور تجربات میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ اس میں داخلیت زیادہ پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے سماجی ماحول یا عالمی ماحول کی ناہمواریوں کو موضوع سخن نہیں بناتا۔ اس لحاظ سے میرا جی فیض سے زیادہ جدید ہیں ۔

جدید شاعری کا ایک دوسرا نمایاں پہلو شاعری کے نئے سانچوں سے کام لینا ہے مثلاً پابند شاعری کی قسموں (غزل ،مثوی، رباعی، قطعہ، مسدس وغیرہ ) کی بجائے اس سے مختلف زبان نظم میں نئے نئے تجربےکرنا روایتی زبان کے بجائے اس سے مختلف زبان استعمال کرنا تاکہ ذاتی تجربہ بہتر طریقے سے اپنی انفرادیت کے ساتھ ظاہر ہو سکے۔ سادہ اور سال بیان کی بجائے بیان میں علامتوں تلمحیوں اور اشاروں سے کام لینا جس کی وجہ سے جدید شاعری عام فہم نہیں رہی۔ ان سب باتوں کے اعتبار سے راشد فیض سے زیادہ جدید ہیں ۔

 فیض نے کسی حد تک آزاد نظم یعنی پابند شاعری کی طرح تمام مصرعے برابر نہیں ہوتے اور نظم معرا کے سانچے ضرور استعمال کئےہیں لیکن ان سانچوں اور زبان وبیان کے معاملے میں وہ بڑی حدتک اقبال سے مشابہ ہیں جو زبان و بیان میں توڑ پھوڑ کرنے اور شاعری کے قدیم سانچوں کے اندر رہ کر بھی شاعری میں ایک نیا پن پیدا کر گئے۔
 
ایک ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے فیض کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ اول تو ان کی شاعری سرتا سر خارجی مسائل اور موضوعات کی شاعری نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی شاعری میں جو خارجی مسائل اور موضوعات ملتے ہیں ان میں بھی فیض نے داخلیت کا رنگ پیدا کر دیا۔ فیض کی شاعری کو موضوع کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

 (۱) رومانی (۲) سیاسی ۔ 

 
فیض نے وطن ، عوام اور انسانیت سے متعلق جو سیاسی نظمیں لکھی ہیں ان کی زبان اور طرز بیان رومانی ہے ۔ ان نظموں کر کبھی پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فیض اپنے عشقیہ جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ جو نرمی اور دردمندی ان کی رومانی شاعری میں ہے وہی ان کی سیاسی شاعری میں بھی ہے لیکن وہ اپنے مزاج کی ساری نرمی اور لطافت کے با وجود مایوسی اور دل شکستگی کا اظہار نہیں کرتے۔ ان کی شاعری انسانیت کے روشن مستقبل پر امید اور اعتماد کی شاعری ہے فیض اپنے تلخ موضوعات کے باوجود نرم و شیریں لہجے کے شاعر ہیں۔

خلاصہ :


(1) فیض ایک منفرد غزل گو ہونے کے علاوہ ایک ممتاز نظم نگار بھی ہیں۔ یہ خوش نصیبی بہت کم شاعروں کو نصیب ہو سکی ہے کہ وہ شاعری کی ان دونوں قسموں میں مساوی اہمیت کے مالک ہوں۔
 
 (2)۱۹۳۶ ء کے آس پاس کے زمانے میں تین شاعر جدید شاعر کی حیثیت سے ابھر سے۔ میرا جی ,ن - م راشد اور فیض ۔ یہ جدید شعرا آزاد، حالی ، شبلی اور اقبال جیسے جدید شاعروں سے مختلف تھے ۔
(3) آزاد، حالی اور اقبال وغیرہ بھی اردو کی جدید شاعری ہی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس جدید شاعری سے جو انیسویں صدی کے آخر میں یعنی ۱۸۷۴ ء سے شروع ہوئی تھی۔ 
(4) فیض کا تعلق جدید شاعری کی ان تحریکات سے ہے جو ۱۹۳۶ ، اور اس کے آس پاس کے زمانے میں شروع ہوئیں۔ ۱۹۳۶ء میں اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی اور ۱۹۳۸ء میں لاہور میں حلقہ ارباب ذوق قائم ہوا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے لکھنا شروع کیا ان میں سے اکثر اردو ادب کی ان دونوں تحریکوں سے متاثر ہوئے یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے اثرات کو ضرور قبول کیا ۔
(5) ترقی پسند تحریک نے ادیبوں اور شاعروں کو ہندوستان کی سیاسی غلامی سے نفرت اور بہت سی معاشرتی اور اخلاقی بندشوں سے بغاوت سکھائی ۔
حلقہ ارباب ذوق نے شاعروں میں روایتی زبان وبیان سے ہٹ کر تنے نظم کی پرانی قسموں کی جائے نئی ہیئتوں میں نظم نگاری کا رجحان پیدا کیا۔ مثلاً آزاد نظم اور نظمِ معرا کی شکلوں میں حلقہ ارباب ذوق کے اثر سے اردو میں ایسی شاعری بھی ہونے لگی جو قدیم شاعری کے برعکس آسان یا عام فہم نہیں تھی۔ 
(6) نظم آزاد کیا ہے ؟ 
چھوٹے بڑے مصرعوں والی نظم ،نظم معرا کیا ہے ؟ ایک ایسی نظم جس کے مصرعے برابر ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں قافیے نہیں ہوتے ۔

 قافیہ کسے کہتے ہیں ؟ 

 
پہچان کے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ قافیہ ہم آواز لفظ کو کتے ہیں۔ مثلاً چمن کا قافیہ وطن - وطن کا قافیہ کرن یہ سب الفاظ ایک دوسرے کے قافیے ہیں ۔ 
(7) فیض شعوری طور پر ہمیشہ ترقی پسند تحریک کے ساتھ رہے ۔ انہوں نے نظم کی جدید شکلیں (نظم آزاد، نظم معرا )ضرور اختیار کیں لیکن حلقہ ارباب ذوق کے بعض شاعروں کی طرح اپنی نظموں کو زبان وبیان کے اعتبار سے مشکل اور نا قابل فہم نہیں بنے دیا کیونکرترقی پسند تحریک شعرو ادب کو عوام تک پہنچانے کی قائل ہے۔
 (8) دوسرے جدید شاعروں کے برعکس فیض کی نظموں میں وضاحت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہ دوسرے جدید شاعروں کی بہ نسبت اردو کے قدیم ادب سے زیادہ گہراتعلق رکھتے ہیں۔ پھربھی فیض اپنے زمانے کے اثرسے بالکل محفوظ نہیں۔ کہیں کہیں ان کے کلام کو بھی سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔
 
 (9) فیض نے جہاں ایک طرف اپنی شاعری کو حلقہ ارباب ذوق کے بعض شاعروں کے برعکس مشکل اور مبہم ہونے سے بچایا ہے وہاں انہوں نے دوسری طرف اپنی شاعری کو بہت سے ترقی پسند شاعروں کے بر عکس نعرے بازی سے بھی محفوظ رکھا ہے۔
  (10) فیض ترقی پسند تحریک کے سب سے اچھے شاعر ہیں اور غیر ترقی پسند حلقوں میں بھی بے حد مقبول ہیں۔
(11) فیض کی شاعری میں ذاتی اور سماجی دونوں قسم کے موضوعات ملتے ہیں۔ وہ نہ تو صرف اپنی ذاتی میں ڈوبے رہنے والے شاعر ہیں اور نہ صرف خارجی اپنی ذات سے باہر یا باہر کی دنیا سے تعلق رکھنے والے مسائل میں گم ہو جانے والے شاعر۔
(12) فیض نے آزاد نظم اور نظم معرا کے سانچے ضرور استعمال کئے ہیں لیکن اقبال کی طرح انہوں نے نظم کے قدیم سانچوں کے اندر بھی نیا پن پیدا کیا ہے۔ اسی لیے اقبال کی طرح فیض کی شاعری بھی جدید ہوتے ہوئے مانوس اور مانوس ہوتے ہوئے جدید معلوم ہوتی ہے۔
 (13) ایک جدید شاعر کی حیثیت سے فیض نظم نگاری کے جدید فن پر امتیازی قدرت رکھتے ہیں ۔
 (14) موضوع کے اعتبار سے فیض کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے 
 (1)رومانی (2) سیاسی 
 جو نرمی اور دردمندی ان کی رومانی شاعری میں ہے وہی ان کی سیاسی شاعری میں بھی ہے۔ اس وقت تک فیض کی شاعری کے چھ مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کے نام یہ ہیں۔

فیض احمد فیض کے شعری مجموعے

1 -نقش فریادی

2- دست صبا

3- زنداں نامہ

4-دست تہہ سنگ

5- سر وادی سینا

6- شام شہر یاراں
(والسلام)

Post a Comment

0 Comments