ناصر کاظمی کا تعارف||ناصر کاظمی کی شاعری کی خصوصیات
ناصر کاظمی کا پورا نام ناصر رضا کاظمی اور ناصر تخلص تھا ۔ وہ دسمبر 1925ء کو انبالا (مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان فوج میں ملازم تھے ۔ ناصر کاظمی نے ابتدائی تعلیم انبالا میں حاصل کی۔ مڈل اور میٹرک کے امتحانات وہیں سے پاس کئے۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے میں داخلہ لیا لیکن وہ اپنی تعلیم مکمل کئے بغیر 1945 میں انبالہ واپس چلے گئے ۔ جب پاکستان بنا تو ناصر دوبارہ لاہور آگئے اور یہیں پر مستقل سکونت اختیار کرلی ریڈیو پاکستان لاہور میں کچھ عرصہ ملازم رہے۔ رسالہ اوراق نو اور ہمایوں کی ادارت بھی کی ان کے شعری مجموعوں کے نام حسب ذیل ہیں :
برگ نے
دیوان
پہلی بارش
نشاط خواب
ناصر کاظی نے 1940ء میں شعر کہنا شروع کیا۔ اپنی شاعری کی ابتدا نظم سے کی لیکن بعد میں وہ غزل کی طرف آگئے جس وقت ناصر کاظمی نے شاعری کا آغاز کیا اس وقت تک اردو غزل ایک طویل سفر طے کر چکی تھی عشق و محبت کے دائرے سے نکل کر اب غزل میں ہر طرح کے مضامین بیان کئے جارہے تھے ۔
اردو غزل کا باقائدہ آغاز ولی دکھنی سے ہوا اور پھر غزل میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کے عہد میں داخل ہوئی اس وقت تک غزل میں زیادہ تر عشق و محبت اور تصوف کے مضامین ہی کو مرکزئیت حاصل رہی۔ مرزا غالب نے غزل میں فلسفیانہ افکار( فلسفے سے متعلق خیالات) اور زندگی کے حقائق کو داخل کیا۔ حالی اور اقبال نے غزل کے دائرے کو اور وسیع کیا۔ مولانا حالی نے غزل میں تخیل کے زور شور کو قدرے کم کر کے اسے اپنے ارد گرد کی زندگی سے قریب کر دیا اور غزل میں معاشرتی اور قومی مسائل کو جگہ دی ۔
اقبال نے غزل کو نہ صرف ایک فلسفہ حیات کا ذریعہ اظہار بنایا بلکہ اپنے عہد کے قومی اور بین الاقوامی مسائل کا ترجمان بھی۔ اقبال کے علاوہ حسرت ، اصغر، فانی ، جگر یگانہ فراق، حفیظ جالندھری، صوفی تبسم اور حفیظ ہوشیار پوری وغیرہ نے اپنے اپنے طور پر غزل میں نئے مضامین داخل کئے لیکن ان میں فیض احمد فیض کا نام سب سے نمایاں ہے فیض نے غزل میں سیاسی و نظریاتی اور اقتصادی موضوعات کو بیان کیا ۔
قیام پاکستان سے پہلے اردو غزل کے چند نمائندہ شعرا اور غزل کے چند نمایاں رجحانات اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ 1935ء کی ترقی پسند تحریک اور قیام پاکستان کے درمیانی وقفے میں غزل کے مقابلے میں ! اردو نظم کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اور غزل قدرے دب گئی مگر قیام پاکستان کے بعد غزل نے دوبارہ اپنا مقام حاصل کر لیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد غزل کو دوبارہ اسکا کھویا ہوا مقام دلانے میں دیگر شعرا کے ساتھ ساتھ ناصر کاظمی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ناصر کاظمی کے قریب المر معاصرین جمیل الدین عالی، ابن انشا ،شهرت بخاری ، شہزاد احمد، احمد فراز، حامد عزیز مدنی، سلیم احمد اور دیگر شاعروں نے غزل گوئی میں خاصی شہرت حاصل کی مگر ناصر کاظمی کا نام ان سب میں نمایاں ہے۔ ناصر کاظمی نے غزل میں بہت سے موضوعات پر شعر کہے مگر چند اہم موضوعات یہ ہیں ۔
1947ء کی ہجرت کے واقعات اور ان کے اثرات۔
ماضی کی یادیں
غم روزگار
عشقیہ مضامین
ناصر کاظمی کی غزلوں کے جن چار موضوعات کا ذکر کیا گیا ہے انہیں پڑھ کہ ہمارے ذہن میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی زندگی سے متعلق بے شمار موضوعات میں سے ناصر کاظمی نے اپنی غزلوں میں ان چار موضوعات کے اظہار کو زیادہ اہمیت کیوں دی؟ تو آیئے اس ضمن میں سب سے پہلے 1947ء کی تقسیم ہند کے موضوع پر نظر ڈالیں ۔
1947ء کی ہجرت ناصر کاظمی کے لئے بڑا تلخ تجربہ تھی۔ ناصر کاظمی کی غزلیں پڑھ کر آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ ناصر کے نزدیک ہجرت صرف نقل مککانی نہیں بلکہ یہ تو ایک جانے پہنچانے مانوس ماحول اور گہرے انسانی رشتوں کو چھوڑ کر نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کا عمل تھا اسی طرز احساس کی وجہ سے ناصر نے تبادلہ آبادی کے اس عمل کو بڑی شدت سے محسوس کیا، ہجرت کے عمل سے اچھے اور برے دونوں طرح کے تاریخ برآمد ہوئے لیکن شاعر کی نظر ہجرت کے منفی پہلوؤں یعنی قتل وغارت ، لوٹ گھسوٹ، افراتفری اور بے یقینی کی فضاء پر زیادہ پڑتی ہے اس کا اظہار ناصر کے اشعار میں اس طرح ہوتا ہے
انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے نامر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجل ہو گئے ہیں
ناصر کاظمی کے موضوعات میں گزرے زمانے کی یاد ایک اہم موضوع ہے یہ ایک قدرتی بات ہے کہ انسان ہے اطمینانی اور پریشانی کے دور میں سکون کے زمانے کو یاد کرتا ہے۔ 1947ء کے واقعہ سے پیدا ہونے والی مایوسی اور اداسی کے عالم میں ناصر کو اس سے پہلے کا پرسکون زمانہ بڑی شدت سے یاد آتا ہے ، ناصر کاظمی کے ہاں بیتے دنوں کی یاد کا انداز دیکھیئے۔
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے
ناصر کاظمی کے کلام میں ہجرت اور ماضی کی یاد کے ساتھ ساتھ ہم نے ناصر کے کلام میں غم روز گار اور عشقیہ مضامین کی نشاندہی کی تھی ناصر کاظمی چونکہ بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہے لہذا غم روزگار اور عشقیہ مضامین کا اظہار اس کے ہاں ایک قدرتی بات ہے۔ غزل کو غم عشق کی روداد کا نام دیاگیا ہے۔ ناصر کاظمی کی غزل میں بھی جذبہ عشق کی کسک اور خلش موجود ہے ۔ غم روزگار کا اظہار ہر شاعر کے کلام میں کسی نہ کسی طریقے سے ضرور ہی رہے لیکن ناصری نام کانٹی نے غم روزگار کو اپنا اور اپنے دل کی آواز بن کر غزل میں اس طرح پیش کیا ہے کہ اپنے زمانے کے غزل کے شعر میں ناصر کا یہ انداز سب سے منفرد نظر آتا ہے تقسیم ہند کی جو تصویر ناصر کاظمی نے اپنے اشعار میں کھینچی ہے آپ اس کی ایک جھلک آئندہ صفحات میں پیش کی جانے والی غزلوں میں بھی دیکھیں گے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناصر نے پہلے غم روز گار کو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ کیا اور پھر اپنے اشعارمیں اس کی تصویر کشی کی ہے۔
ناصر کاظمی کی غزلیات میں موضوعات کے ذکر کے بعد اب آئیے ان کی غزل میں طرزِ بیان کی چند خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں اور پھر الگ الگ ان کی وضاحت کریں گے: ناصر کاظمی کے طرز بیان کی چند نمایاں خوبیاں یہ ہیں۔
1 کلاسیکیت وہ طرزِ شاعری جس میں اصول و قواعد زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ، اور رومانیت (وہ طرز شاعری جس میں تخیل اور جذبے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، )کا ملاپ ۔
2 رنگ میر کا اثر
3 انداز بیان کی سادگی
کلاسکیت اور رومانیت کے ملاپ کی خصوصیت کا اندازہ آپ ناصر کاظمی کی غزلیات پڑھنے کے بعد لگا سکتے ہیں کہ تخیل اور جذبے کی مدد سے ناصر کاظمی ایک خوبصورت رومانی رعشق و محبت سے متعلق فضا پیدا کرتے ہیں ۔ پھر کلاسکیت کے تحت وہ اس فضا کی اس طرح تربیت کرتے ہیں کہ مضمون میں ایک طرح کے اعتدال و توازن کی خوبی پیدا ہو جاتی ہے مثلاً اس طرح کے اشعار :
حسن دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کسی کے لئے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لئے اور دن سے بھی بلانا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاوں کسی کے لئے
کلام ناصر پر رنگِ میر کا اثر کے ضمن میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ناصر کاظمی سے پہلے اور بعد کے کم وبیش تمام شعراً نے کسی نہ کسی طریقے سے میر تقی میر جیسے عظیم غزل گو شاعر کا اثر قبول کیا لیکن ناصر کاظمی کے ہاں میر کا رنگ کچھ زیادہ گہرا نظر آتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ ناصر کاظمی کے عہد میں سنہ ۱۹۴۷ء کی ہجرت کی وجہ سے جو افراتفری اور بربادی ہوئی کسی نہ کسی طریقے سے اس قسم کے انتشار اور مایوسی کی مالک میر تقی میر کے عہد میں دلی کے اجڑتے وقت بھی دیکھی جاسکتی ہے اس لحاظ سے ناصر کاظمی کو اپنا عہد میرتقی میر کے عہد سے قریب محسوس ہوا چنانچہ ناصر کاظمی کی غزل میں میر کی غزل کا عکس جھلکتا نظر آتا ہے اس کے علاوہ ناصر کاظمی کے نزدیک اردو کا بہترین سرمایہ غزل میں سے میر جیسے عظیم غزل گو کا نسبتاً زیادہ مطالعہ کیا جس کے نتیجے میں میر تقی میر سے متاثر ہونا قدرتی بات تھی ۔
ان باتوں کے باوجود ناصر اور میر کو ایک دوسرے کے قریب لانے والی بات دونوں کے مزاج کی مماثلت ہے ۔ غزل میں میر نے لمبی اور چھوٹی دونوں قسم کی بحریں استعمال کی ہیں۔ لیکن ناصر کاظمی نے چھوٹی بحروں میں غزلیں زیادہ کہی ہیں ۔ میرتقی میر کے رنگ سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ناصر نے میر کے اسلوب میں شعر بھی کہے ہیں مثلاً ایسے اشعار
ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفل سخن میں
ہر دور کی غزل میں میرا نشاں ملے گا
ہم نے آباد کی ملک سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے
ناصر کاظمی کی غزلوں کے الفاظ آپ دیکھیں گے کہ انتہائی سادہ اور آسان ہیں۔ یہ ان کے کلام کی بڑی نمایاں خوبی ہے ناصر کاظمی لفظوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں اور غزل میں گہری کیفیت اور مشکل مضمون کو آسان لفظوں میں بیان کرنا بھی جانتے ہیں۔
0 Comments