خدیجہ مستور کے ناول آنگن کا تنقیدی جائزہ
آج کے اس آرٹیکل میں ہم خدیجہ مستور کے ناول آنگن کا تنقدی جائزہ لینے جا رہے ہیں ۔ناول کے مختلف اجزاء پر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہیں۔
آنگن کا پلاٹ
(۱) آنگن کا پلاٹ سادہ ہے مرکب نہیں
مرکب پلاٹ میں بیک وقت کئی کہانیاں متوازی طور چلتی ہیں اور آخر میں اصل کہانی کے ساتھ مل جاتی ہیں ۔ آنگن میں شروع سے لے کہ آخر تک عالیہ کی کہانی بیان کی گئی ہے اس میں متوازی کہانیوں کا سلسلہ نہیں ملتا تہمینہ کی خودکشی عالیہ کی اپنی کہانی کاحصہ ہے کسم اور نجمہ پھوپھی کے قصے بظاہر عالیہ کی کہانی سے الگ معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ ناول میں دور تک نہیں جاتے ۔ ناول کے پلاٹ میں یہ قصے اپنا اپنا حصہ ادا کر کے ختم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے انہیں مرکب پلاٹ کی کہانیوں کی طرح اصل کہانی کے متوازی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
(۲) آنگن کے پلاٹ میں واقعات مربوط اور مسلسل ہیں۔
(الف) ایک اچھے پلاٹ کی سب سے بڑی خوبی اس میں واقعات کا ربط و تسلسل ہوتا ہے۔ پہلی نظر میں آنگن کا پارٹ بالکل مربوط و مسلسل نظر آتا ہے۔ واقعات ایک ترتیب سے ہمارے سامنے آتے ہیں ایک واقعہ دوسرے سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ پہلی نظر میں کسم دیدی کا قصہ کچھ بے جوڑ سا لگتا ہے لیکن اسے تہمینہ کی خودکشی کے واقعے سے ملا کر دیکھیں تو پلاٹ کسم کی خودکشی کے واقعے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح نجمہ پھوپھی کے واقعے سے عالیہ کا کردار ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے ۔
(ب) ماضی حال کے عنوان سے آنگن کی کہانی دوحصوں میں تقسیم کی گئی ہے بہ ماضی نسبتاً مختصر ہے اور اس میں عالیہ کے بچپن کسم اور تہمنیہ کی خودکشی ، عالیہ کے والد کی قید اور اس کے نتیجے میں عالیہ اور اس کی والدہ کے بڑے چچا کے ہاں منتقل ہونے کے واقعات بیان ہوتے ہیں" خال " میں بڑے چچا کے گھر میں عالیہ کے قیام سے اس کی پاکستان ہجرت تک کی کہانی بیان کی گئی ہے ناول کا آغاز بڑے چچا کے گھر میں عالیہ کی پہلی بے خواب رات سے روتا ہے ۔
عالیہ جن حالات اور جس ذہنی کیفیت کے ساتھ اس گھر میں آتی ان کے پس منظر کی وضاحت بھی ضروری تھی ۔ یا سارا پس منظر ماضی میں آگیا ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حال کے اکثر واقعات نے ماضی کے واقعات سے جنم لیا ہے اور ماضی کے واقعات کے بغیر ان کو سمجھا نہیں جاسکتا اس طرح نادل کے ان دونوں حصوں میں بھی گہرا ربط موجود ہے۔
(ج ) آنگن کی کہانی میں شکیل اور صفدر بھائی کی عالیہ سے ملاقاتیں بالکل اتفاقی لگتی ہیں اگرچہ یہ دونوں خصوصاً صفدر بھائی سے ملاقات بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں۔۔
ناول آنگن کے کردار
آنگن میں آپ کی ملاقات بے شمار کرداروں سے ہوئی ہے ان میں بعض بہت اہم اور بعض زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔ آئندہ سطروں میں اس ناول کی نسبتاً اہم کرداروں کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
(1) عالیہ
عالیہ آنگن کا مرکزی کردار ہے ۔ ناول کی کہانی اس کے بچپن سے اس کی جوانی تک پھیلی ہوئی ہے ۔ عالیہ اپنے گھر کی کشیدہ فضا میں پرورش پاتی ہے۔ اس کشیدگی کا باعث صفدر ہے جو عالیہ کا بے سہارا پھوپھی زاد بھائی ہے ۔ حالیہ کی ماں کو یہ دکھ ہے کہ صفدر ان کے خاوند کی کمائی پر پل اور بڑھ رہا ہے۔ عالیہ کی بڑی بہن تہمینہ اسے پسند کرتی ہے عالیہ کے ابا بھی تہمینہ کی شادی صفدر بھائی سے کرنا چاہتے ہیں ۔ اماں اس شادی کے سرے سے خلاف ہے۔ صفدر بھائی کو پڑھنے کے لیے علی گڑھہ بیچ دیا جاتا ہے وہ وہاں جا کر عالیہ کے ابا کے منی آرڈر واپس بھیج دیتے ہیں اس سے گھر کی فضا میں کشیدگی ذرا کم ہو جاتی ہے۔
عالیہ کو اپنے لڑکپن میں خودکشی کے دو صدمے برداشت کرنے پڑتے ہیں ایک میں اس کی بہن کی خوبصورت ہندو سیلی کسم ایک المناک موت سے دوچار ہوتی ہے اور دوسرے واقعے میں خود اس کی بہن تہمینہ اپنی زندگی ختم کرلیتی ہے۔ تہمینہ کی شاری بڑے چچا کے بیٹے جمیل بھیا سے ہونے والی ہوتی ہے شادی میں شرکت کے لیے مہمان بھی آنے شروع ہو جائے ہیں ان ہی دنوں صفدر بھائی کا ایک خط تہمینہ کے ہاتھ لگتا ہے جسے پڑھ کر وہ خود کشی کر لیتی ہے تہمینہ کی موت کے بعد عالیہ اس گھر میں اکیلی رہ جاتی ہے۔ ان دونوں واقعات سے مرد کی وفا پر سے اس کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے جمیل بھیا عالیہ میں دلچسپی لیتے ہیں لیکن یہ کوئی توجہ نہیں دیتی اور جمیل بھیا کے ساتھ اس کی ایک طرح کی یہ بے تعلقی آخر وقت تک قائم رہتی ہے۔
بڑے چچا کے ساتھ اسے بڑی محبت ہے ۔ وہ ان کا سر سہلاتی ہے بڑے چچا بھی اس پر مہربان ہیں اور وہ اپنی کتابوں کی الماری کی چابیاں صرف عالیہ کو دیتے ہیں۔ بڑے چچا کے گھر میں عالیہ بی اے ۔بی ٹی تک اپنے تعلیم مکمل کرتی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد عالیہ کے ماموں عالیہ اور اس کی ماں ہی کو پاکستان بلاتے ہیں تو عالیہ بڑے چچا اور ان کے آنگن سے جدا نہیں ہوتی لیکن مجبوراً اسے آنا پڑتا ہے۔ عالیہ کا دل محبت اور ہمدردی کے جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ اسے رہ رہ کر اپنے ابا کا خیال آتا ہے اور وہ کہتی ہے ابا جیل میں تمہارا کیا حال ہو گا بڑے چچا میں اسے اپنے ابا کی صورت دکھائی دیتی ہے ساجدہ آپا اسے تہمینہ کی یاد دلاتی ہیں۔ بڑی چچی اسے اس گھر میں عبرت کی لاش لگتی ہیں حتی کہ اسرار میاں سے بھی وہ گہری ہمدردی رکھتی ہیں۔ اسے اپنی ماں کے رویے سے اختلاف ہے وہ اس اختلاف کا اظہار بھی کر دیتی ہے اس کے باوجود وہ ماں کی فرمانبردار رہتی ہے۔ گھر سے بھاگا ہوا شکیل پاکستان میں پولیس سے بچتا ہوا ۔ اس کے ہاں آنکلتا ہے تو وہ بڑی محبت سے ملتی ہے ۔
عالیہ کا کردار توازن کی بہترین مثال ہے۔ ناول اس کی پریشانی سے شروع ہوتا ہے اور اس کی پریشانی پر ختم ہوتا ہے لیکن عالیہ کے توازن میں فرق نہیں آتا ایک غلط فہمی کی بنا پر چھمی کے حسد کا نشانہ بنتی ہے مگر وہ خود سے منالیتی ہے آخر میں بڑی فراخدلی سے چھمی کے مقابلے میں اپنی شکست تسلیم کرلیتی ہے تہمینہ اور کسم کی موت نے اس کے شعور کو جگہ دی ہے اس کے اندر جذبات پر قابو پانے کی قوت آگئی ۔ وہ جمیل بھیا کو ایک نظر میں پہچان لیتی ہے ان کے چھونے سے اس پر غشی طاری ہو جاتی ہے مگر اس کی قوت ارادی میں کمزوری نہیں پیدا ہونے دیتی اس کی اماں تک آخر کو اسے جمیل کو دے دینے کو تیار ہے مگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اور اس شادی پر رضامند نہیں ہوتی عالیہ معمولی گھرکی معمولی لڑکی ہے وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نجمہ پھوپھی کی طرح چھچھوری نہیں ہے آرام کی تمنا اور روپے پیسے کا لالچ ہر عورت میں ہوتا ہے لیکن عالیہ اس سے بھی بالاتر ہے۔ والٹن کیمپ میں کام کرنے والا ڈاکٹر اور صفدر بھائی دونوں کو لالچی پا کر وہ ان سے شادی کرنے سے انکار کر دیتی ہے ۔ اس کے ذہن میں ایک معیار ضرور ہے جس پر ڈاکٹر اور صفدر بھائی دونوں پورے نہیں اتر تے ۔
(2) چھمی
چھمی آنگن کا بہت ہی زور دار کردار ہے ۔ ان کا اصل نام شمیمہ ہے۔ یہ عالیہ کی چچازاد بہن ہے اس کی ماں مر چکی ہے اور باپ کو شادیوں سے فرصت نہیں اسے ماں باپ، سوتیلی ماؤں اور بھائی بہنوں سے نفرت کرتی ہے ۔ ایک بار عید کے موقع پر اس کے ابا اسے پانچ روپے بھیجتے ہیں تو یہ نفرت سے نوٹ پھاڑ کر پرزہ پرزہ کر دیتی ہے چھمی جمیل بھیا سے عشق کرتی ہے عالیہ کے آنے کے بعد جب جمبیل بھیا عالیہ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں تو یہ ان کے خلاف ہو جاتی ہے اور عالیہ سے بدظن ۔ تھانیدار کے لڑکے سے بھی عشق لڑاتی ہے لیکن ایک دیہاتی جواں سے شادی بھی خوشی خوشی کر لیتی ہے۔ مسلم لیگ سے وابستگی رکھتی ہے اور محلے کے بچوں کو جمع کرکے مسلم لیگ کا ایک جلسہ کرتی ہے اور اس میں گانگرس اور گاندھی جی کے خلاف گانے گاتی ہے یہ بات بڑے چچا کو ناگوار گزرتی ہے جو پکے کانگرس ہیں لیکن منہ پھٹ اور سرکش میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتی ایک بار تو ان کے ہاتھوں اپنی اسیحرکت پر پٹ جاتی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اس کا میاں پاکستان آجاتا ہے لیکن یہ آنے پر رضامند نہیں ہوتی اور اس اختلاف پر وہ اسے طلاق دے دیتا ہے یہ اپنی بیٹی کے ساتھ بڑے چچا کے گھر آجاتی ہے اور آخر میں جمیل بھیا اس سے شادی کرلیتے ہیں۔
چھمی آنگن کا ایک زندہ و توانا کردار ہے۔ حال کے حصے میں یہ ناول پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے تمام رونقیں اس کے دم سے ہیں ۔ہر کشمکش کا سبب رہی ہے۔ ایک طرف اس کی کشمکش جمیل بھیا سے ہے کیونکہ وہ عالیہ کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں دوسری طرف اس کی بڑے چچا سے ٹھنی ہوئی ہے کیونکہ وہ کانگرسی ہیں اور چھمی مسلم لیگی ۔چھمی کی شکیل سے بھی تو تو میں میں ہے ۔ وہ برقع اوڑھ کر مسلمانوں کے گھروں میں پھرتی ہے اور ہندوؤں سے اسے خدا واسطے کا بیر ہے ۔ اسے اپنے باپ سے ، سوتیلی بہن بھائیوں سے نفرت ہے وہ کہتی ہے " پھر آپ ہی بتائیے تاکہ ہمارے ابا جتنی شادیاں کریں اور ان سے جتنے پلے ہوں وہ سب میرے بہن بھائی ہوں گے ۔
جمیل بھیا کے ساتھ ان کی محبت وائمی ہے مگران کی تہمینہ سے شادی ٹھہرنے پر یہ ہے راہ ہو جاتی ہے اور پھر ان کی عالیہ کی طرف توجہ سے اور بھی چوٹ کھاتی ہے۔ بڑے چچا کے ساتھ اس کی ضد اور ہر بڑی بوڑھی سے بد تمیزی توازن کے دائرے سے نکلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ منظور کو خط بھیچ کر اور مسلم لیگ کے جلسے کر کے اپنا توازن قائم کرنا چاہتی ہے پہلی شادی اس کیلئے اپنے ماحول سے فرار کی صورت سامنے لاتی ہے اور دیہاتی میاں کو وہ پسند کر لیتی ہے۔ جمبیل بھیا سے شادی ہو جانے پر وہ اپنی مراد پا لیتی ہے اور توازان حاصل کر لیتی ہے۔ جمیل کی پیدائش بھی اس کے کردار میں کچھ تبدیلی لاتی ہے چھمی ہر طرح سے عالیہ کا نقطہ مخالف ہے۔
عالیہ ذہین، خود دار پڑھی لکھی اور بلند اخلاق ہے تو چھمی جوشیلی، بے باک اور خود سر ہے۔ اسے اپنے ان پڑھ ہونے کا بڑا احساس ہے ۔ نجمہ پھوپھی سے اس لیے مرغوب ہو کہ وہ ان کی خدمت گزاری کرتی ہے۔ بھارت میں عالیہ بڑے چچا سے قریب، تو دکھائی دیتی ہے اور وہ پاکستان آنا نہیں چاہتی مگر آجاتی ہے چھمی مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہوئے بھی پاکستان نہیں آتی لیکن اس کے با وجودہ پاکستان سے عقیدت ضرور رکھتی ہے چنانچہ وہ عالیہ کو لکھتی ہے ۔
پاکستان جانا مبارک ہو، ضرور جائیے ۔ اس پاک سر زمین کو میری طرف سے چوہیے گا اور مجھے وہاں کی تھوڑی کی مٹی بھیج دیجیے گا، میں اسے اپنی مانگ میں لگاوں گی میں بد نصیب تو وہاں بھی نہیں جا سکتی۔ چھمی کے کردار کا یہ پہلو ہندوستان کے ان لاکھوں مسلمانوں کی یاد دلاتا ہے جہنوں نے پاکستان کے لیے جدوجہد کی لیکن مادی فوائد حصوں کے لیے پاکستان نہیں آئے لیکن پھر بھی وہ اس سرزمین سے ایک دلی وابستگی
ضرور رکھتے ہیں ۔
ناول کے آخر میں جملہ " میں نے آپ کو ہرا دیا میں نے آپ کو ہرا دیا بجیا " یہ ظاہر کرتا ہے کہ جمیل بھیا سے چھمی کی شادی سے عالیہ کو اپنی شکست کا احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس اس لیے نہیں کہ عالیہ خود جمیل سے شادی کرنا چاہتی ہے اور نہ کر سکی کیونکہ عالیہ تو جمیل بھیا سے ہمیشہ بے تعلق رہی اس احساس کی بنیاد شاید یہ ہے کہ چھمی اپنا آئیڈیل پانے میں کامیاب ہو گئی اور عالیہ کو اپنا آئیڈیل مرد نہ مل سکا۔
(3) بڑے چچا
بڑے چچا آنگن کا سب سے اہم مردانہ کردار ہیں، ہمدردی محبت اور سیاست ان کے کردار کے خاص اوصاف ہیں ان کے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے علاوہ بوڑھی ماں ہے چھمی ہے اور اسرار میاں بھی ہیں ۔ عالیہ کے ابا جب اقدام قتل میں قید ہو جاتے ہیں اور عالیہ کے ماموں ان کی کوئی مدد نہیں کرتے تو بڑے چچا ان کو اپنے ہاں لے آتے ہیں۔ ان کی مغرور اور خود پسند بہن نجمہ پھوپھی بھی ان کے ہاں مقیم ہے ۔ عالیہ سے انہیں خاص محبت ہے اس کو اپنی کتابوں کی الماریوں کی چابیاں دے رکھی ہیں ۔
گھر کے معاملات میں زیادہ دخل نہیں دیتے دکانوں سے آمدنی کم ہے جمیل خود ہمت کر کے بی ۔ اے کر گیا ہے شکیل باکل آوارہ ہو گیا کیونکہ چاچا کو سیاست سے فرصت نہیں ہے ۔ سیاست ہی ان کی دنیا ہے وہ سیاست میں اس قدر مگن ہیں کہ اپنے گھر کی دنیا کو بالکل بھول چکے ہیں ۔
مندرجہ ذیل اقتباس سے گھر کے ساتھ ان کے تعلق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
بڑے چچا سے جب گھر کی ضرورتوں کا ذکر کیا جاتا وہ سرخ پڑ جاتے جانے کیوں جھینپ جھینپ کر سب کی طرف دیکھتے اپنے بڑے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے اور پھر بڑی امنگ سے سب کو سمجھاتے جب ملک، آزاد ہو جائے۔
گا تو سب تکلیفیں دور ہو جائیں گی تم لوگ ذرا گہرائی میں جاکر سوچو ۔
وہ سیاسی آدمی ہیں ۔ اس قدر کٹر کانگرسی ہیں کہ خالص مسلمانوں کی کسی جماعت کو برداشت نہیں کر سکتے کانگرسں کے سوا ہر جماعت کے لوگ ان کی نظر میں ملک کے غدار ہیں ۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ اور پاکستان کو انگریز کی سازش ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے سیاسی عقائد سے ان کا رویہ متعین ہوتا ہے وہ اپنے مسلم لیگی بیٹے جمیل سے ہمیشہ ناراض رہتے ہیں اپنی اکیلی بیٹی ساجدہ کا نکاح ایک معمولی لڑکے سے کر دیتے ہیں وہ بھی صرف اس لیے کہ لڑکا کانگرسی تھا چھمی کو پیٹ ڈالتے ہیں کہ وہ گاندھی جی کے خلاف کوئی گانا گا رہی ہوتی ہے ۔
عالیہ کو بڑے چچا سے عقیدت کی حد تک محبت ہے۔ ان کی انگریزوں سے نفرت، ان کی گاندھی سے محبت آزادی کے بعد ہندوستان میں آرام اور چین کا خواب ، لالٹین کی جگہ گھر میں بجلی کی دوسنی کر انے کا خیال، دوکانوں کے لیے قرضہ مل جانے کی امید ان کا عالیہ اور اس کی ماں کو پاکستان جانے سے روکنا اور آخر میں ان کا جواہر لال نہرو سے ملنے جانا اور دلی میں ایک ہندو کے ہاتھوں شہید ہو جانا ان کو ناول کا سب سے زیادہ پر عظمت
کردار بنا دیتا ہے ان کی موت سے ناول نگار نے ان مسلمانوں کا حسرت ناک انجام دکھایا ہے جنہوں نے کانگریس اور آزاد ہندوستانی سے بڑی امید میں وابستہ کر رکھی ہیں ۔
(4) عالیہ کی اماں
ںخوت و نفرت ۔ عالیہ کی اماں کے کردار کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اپنے اپنے اونچے خاندان اپنے بھائی کے انگلستان پڑھنے اور انگریز بھابھی کا بڑا غرور ہے اسے بھائی سے نفرت ہے کیونکہ اس کا باپ خاندانی آدمی نہیں تھا ۔ اگر سلمہ پھوپھی اس کے باپ کے ساتھ نہ بھاگتی تو عالیہ کے دادا کی جاگیر کوڑیوں کے ہاتھ نہ بکتی اور اگر جاگیر سلامت رہتی تو عالیہ کی اماں اس کی جانشین ہوتی کیونکہ سب بہوؤں میں یہی بڑے خاندان کی تھی۔ اسے اس بات کا بھی بڑا دکھ ہے کہ صفدر اس کے میاں کی کمائی پر تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ وہ تہمینہ کی شادی صفدر کے ساتھ کرنے پر تیار نہیں ہے ۔ انگریز حاکم ہے اور اماں کو اس سے اس طرح ہمدردی ہے جیسے عام عورتوں کو مصاحبان اقتدار سے ہے ۔ اپنے میاں کی انگریز دوشمنی کو نمک حرامی کہتی ہے ۔ میاں بیوی کے ان اختلافات کی وجہ سے گھر کی فضا کشیدہ رہتی ہے۔ اماں کو اپنے بھائی کا بڑا خیال رہتا ہے اپنے میاں کا روپیہ بھی اس نے بھائی کو دے رکھا ہے ۔ عالیہ کے ابا قید ہو جاتے ہیں تو اس کے بھائی کوئی مدد نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اقدام قتل بہت بڑا جرم ہے ایسے آدمی کے بیوی بچوں کی سر پرستی کرتے ہیں انہیں بھی خطرہ ہے ۔ لیکن عالیہ کی اماں بھائی کی اس بات کو چھپا لیتی ہے اور بڑے چچا کے ہاں آجاتی ہے ۔ بڑی چچی اپنی توفیق کے مطابق ان کا خیال رکھتی ہے لیکن یہ وہاں مطمئن ہیں نہ راحتی۔ پاکستان آتے وقت ان ساری خاطر داریوں کا صلہ وہ ان لفظوں میں دیتی ہے ؟ کھلانے کے نہ پلانے کے کون سا دکھ تھا جو یہاں نہیں جھیلا، میرے شوہر کو بھی آپ ہی نے چھین لیا آپ ہی نے انہیں مار ڈالا، میری لڑکی کو یتیم کر دیا۔
پاکستان آ کر ان کے بھائی انہیں بڑی سی کوٹھی الاٹ کر دیتے ہیں تو ماں کی ساری مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اس کوٹھی میں شکیل اور صفدر بھائی بھی آتے ہیں لیکن دونوں اماں کی نفرت و نخوت کا شکار بنتے ہیں۔
(5) عالیہ کے ابا
عالیہ کے ابا انگریز کے ملازم ضرور تھے ۔ لیکن انگریز سے نفرت ان کے کردار کا سب سے نمایاں پہلو ہے اپنی دونوں بیٹیوں تہمینہ اور عالیہ سے بڑی محبت کرتے تھے لیکن نخوت و نفرت کی ماری ہوئی بیوی سے وہ صرف نباہ ہی کرتے تھے ۔ اپنی مرحوم بہن کی نشانی صفدر کی پرورش کر رہے تھے۔ پڑھا لکھا کے اس کی شادی تہمینہ سے کرنا چاہتے تھے لیکن بیوی کے لیے تو صفدر کا وجود ہی ناقابل برداشت تھا۔ اس اختلاف نے گھر کی فضا کو خاصا تلخ کر رکھا تھا صفدر کو تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیج دیا جاتاہے اور وہ وہاں جا کر ان کی مالی امداد بھی قبول نہیں کرتا۔ اس سے گھر کی فضا کچھ ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن عالیہ کے ابا زیادہ وقت اپنے دوستوں میں گزارتے ہیں گھر سے وہ کچھ بے تعلق ہی ہو جاتے ہیں عالیہ کی ماں تہمینہ کا رشتہ جمیل بھیا سے لے کر دیتی ہے لیکن تہمینہ خود کشی کر لیتی ہے عالیہ کے ابا کو تمینہ کی موت کا اس قدر صدمہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے زیر اثر اپنے انگریز افسر کو مار بیٹھتے ہیں اور اقدام قتل کے الزام میں انہیں سات سال کی سزا ہو جاتی ہے لیکن انہیں رہا ہونا نصیب نہیں ہوتا اور قید ہی میں انتقال کر جاتے ہیں۔
(6) تہمینہ
عالیہ کی بڑی بہن ہے جسے صفدر بھائی اچھے لگتے ہیں وہ اماں کے ڈرسے چوری چھپے صفدر بھائی کا خیال رکھتی ہیں ہمیشہ ڈری ڈری اور سہمی سہمی رہتی ہیں۔ مہندی کی پتیاں نوچ نوچ کر بکھیرتی ہے۔ یہ حرکت اس کے سہاگ اجاڑے کا عمل ہے کسم اس کی ہندو سہیلی ہے وہ جوان اور خوبصورت مگر بیوہ ہے۔ ہندوؤں میں بیوہ کی دوسری شادی کا رواج نہیں اس لئے وہ کسی کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور اس کی بے وفائی کی وجہ سے ڈوب کر خود کشی کر لیتی ہے۔ تہمینہ کی شادی جمیل بھیا سے طے پا جاتی ہے، عین شادی کے دنوں میں صفدر بھائی کا ایک خط اس کے ہاتھ لگتا ہے اور یہ معصوم و مغموم لڑکی کچھ کھا کر اپنی زندگی ختم کرلیتی ہے۔
(7) صفدر بھائی
عالیہ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ ان کی اماں سلمہ پھوپھی اپنی مرضی سے کسی مزارع سے شادی کر لیتی ہے ۔ صفدر کی ولادت کے بعد دق میں مبتلا ہو کر مرجاتی ہے ۔ عالیہ کے ابا صفدر کو اپنے گھر لے آتے ہیں۔ وجیہ مگر مسکین صورت میں ان کی مسکینی کی وجہ اماں کی بھر پور نفرت ہے۔ عالیہ کے ابا ان کی ذرا ذرا سی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں ۔ تمہینہ کی شادی اس سے کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی بیوی کے سامنے ان کی پیش نہیں جاتی۔ صفدر بھائی علی گڑھ چلے جاتے ہیں وہاں کسی کی مدد کے بغیر بی ۔ اے کر کے لاپتہ ہو جاتے ہیں عالیہ کے ایا ان کے بارے میں بڑی بُری خبریں سن کر فکرمند ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں اطلاع ملتی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان کا ایک خط تمہینہ کی خود کشی کا باعث بنتا ہے۔ اس واقعے سے اس خاندان کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس لیے عالیہ بھی ان سے نفرت کرنے لگتی ہے ناول کے آخر میں یہ عالیہ کو لاہور میں ملتے ہیں اسے یقین دلاتے کہ تہمینہ کی یاد میں اب تک شادی نہیں کی وہ عالیہ سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ ماں کی مخالفت کے باوجود عالیہ راضی بھی ہو جاتی ہے لیکن جب وہ کار کوٹھی اور امپورٹ، لائسنس ہے کہ بڑا آدمی بنے کے لئے اپنی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں تو عالیہ انہیں مسترد کر دیتی ہے اس کردار کے ذریعے ناول نگار نے دکھایا ہے کہ پاکستان آکر بڑے بڑے اشتراکی کار کوٹھی وغیرہ کے لالچ میں سب کچھ بھلا بیٹھے۔
(8)جمیل بھیا
بڑے چچا کے بیٹے ہیں۔ باپ اپنے سیاسی جھمیلوں کی وجہ سے ان کی تعلیم و تربیت کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے اس کے باوجود یہ اپنی ہمت سے بی۔ اے پاس کر لیتے ہیں۔ گھر کے لئے مالی وسائل فراہم کرتے ہیں پہلے چھمی سے محبت کرتے ہیں ۔ لیکن اس محبت میں وہ حد سے تجاوز نہیں کرتے اور اس کی گواہی اور بھی دیتی ہے جب سے تہمینہ سے ان کی شادی طے پاتی ہے تو وہ خود کشی کر لیتی ہے جب عالیہ ان کے ہاں آجاتی ہے تو یہ اس کی طرف توجہ دیتے ہیں اسے عالیہ بیگم کہتے ہیں لیکن عالیہ جواباً کوئی سرگرمی نہیں دکھاتی ہے۔ فوج میں ملازمت بھی کرتے ہیں اپنے کانگریسی کے مقابلے میں کٹر مسلم لیگی ہیں ۔ باپ سیاسی بحث میں کبھی کبھی بد تمیزی پر اتر آتے ہیں لیکن ماں سے محبت کرتے ہیں۔ چھوٹے بھائی شکیل پر بھی سختی کرتے ہیں۔ مسلم لیگ سے اتنی وابستگی رکھتے ہیں کہ 1940ء میں جلسے میں شرکت کے لئے لاہور آتے ہیں لیکن پاکستان بن جانے کے بعد بیکاری کے باوجود پاکستان نہیں آتے ۔
عالیہ کے پاکستان آنے کا انہیں صدمہ ہے بڑے چچا کی شہادت پر پنڈت نہرو نے ان کے خاندان کی امداد کے لئے تین ہزار روپے کے عطیے کا اعلان کیا تھا جمیل بھیا یہ امداد لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اپنی غیرت کا ثبوت دیتے ہیں آخر میں وہ ایک بچی کی طلاق یافتہ ماں سے شادی کر کے اپنے کردار کی بلندی کا مظاہرہ کرتے ہیں ناول میں اپنی بعض حرکات کی وجہ سے وہ قارئین کی نظر میں اپنا مقام گرا لیتے ہیں لیکن ہندستان میں رہ کر بندو کی مالی امداد مسترد کر کے اور چھمی سے شادی کر کے ہماری نظروں میں آبرومندانہ مقام دوبارہ حاصل کر لیتے ہیں۔
(9) بڑی چچی
بڑی کشادہ دل اور سب کا خیال رکھنے والی خاتون ہیں، چھمی اسرار میاں، عالیہ اور اس کی اماں کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہیں۔ عالیہ کو بڑی چچی اس گھر میں عبرت کی لاش معلوم ہوئیں ان کی آنکھوں میں، صدیوں کا دکھ سمایا ہوا تھا اپنی بہت سی باتوں کی فکر صرف ان کے کاندھوں پر سوار رہتی ہے چھمی جیسی بد زبان لڑکی اور عالہ کی اماں جیسی بدلحاظ عورت سے نباہ کرنا انہیں کا کام ہے ۔ اپنے بچوں سے انہیں خاص محبت ہے۔ شکیل کے بھاگ جانے کا انہیں بڑا غم ہے جس طرح دادی اماں اپنے چھوٹے بیٹے کو دینے سے پہلے ایک بار دیکھنا چاہتی ہیں یہ بھی شکیل کے لئے اسی طرح تڑپتی ہیں۔ عالیہ کی اماں کے طعنے سننے کے باوجود انہیں رو رو کے رخصت کرتی ہے۔ شوہر کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں ہے جمیل بھیا کو اسی لئے ڈانٹتی رہتی ہے کہ وہ اپنے باپ کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ سراپا محبت و ہمدردی میں آخر میں طلاق یافتہ چھمی کو اپنی بہو بنا لیتی ہیں۔
(10) - دادی اماں
ناول کے دوسرے کرداروں سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی جوانی میں دادی اماں بڑے رعب داب کی مالک تھیں ملازم ان کے ڈر سے تھر تھر کانپتے تھے۔ دادی اماں کا حکم ملتا تھا لیکن ہم انہیں بڑھاپے میں دیکھتے ہیں ۔ دمے کی مریض ہیں ان کا چھوٹا بیٹا خلافت کی تحریک میں کہیں نکل گیا پھر
پھر نہیں آیا اسی کے لئے تڑپتی رہتی ہیں اور سیاست کے بارے میں کہتی ہیں یہ سب فضول باتیں ہیں ۔ ان کی پرانی ملازمہ کریمن بوا نے ان کے ہاتھوں سختیاں سہی ہیں لیکن پھر بھی وہ ان پر قربان ہونے کو تیار ہے
(11)۔ نجمہ پھوپھی
تعلیم اور وہ بھی انگریزی میں ایم۔ اے نے ان کو بےحر مغرور اور خود پسند بنا دیا ہے۔ وہ سب کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ گھر کے عام لوگوں کی جہالت کی شاکی ہیں گھر میں صرف چھمی ان سے مرغوب نظر آتی ہے وہ چھمی کو اپنی لونڈی بنا کر اس سے خوب کام لیتی ہیں۔ لیکچرار ہونے پر بڑا فخر کرتی ہیں ایک مالدار سے شادی کر لیتی ہیں پھر اس کو جاہل کہہ کر اس سے طلاق لینا چاہتی ہیں ۔ یہ خاصہ دلچسپ کردار ہے اس پر ہم کو کبھی ہنسی آتی ہے اور کبھی غصہ۔ نجمہ پھوپھی کے کردار کی وجہ سے عالیہ کے کردار کی عظمت ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عالیہ نجمہ کی طرح چھچھوری اور مغرور نہیں ہے ۔
(12) - کریمن بوا
کریمن بوا کی ماں دادی اماں کے جہیز میں ساتھ آئی تھی ۔ اس نے بھی اسی خاندان میں پرورش پائی۔ اس خاندان کا اس نے نمک کھایا ہے اور نمک حلالی اس کے کردار کا سب سے بڑا وصف ہے کریمن بوا کو تو پرانے زمانے کی یادیں دھرانے کے سوا اگر کوئی کام ہے تو اسرار میاں کو باتیں سناتا ہے۔
(13) - اسرار میاں :
اسرار میاں عالیہ کے دادا کی ناجائز اولاد ہیں۔ دکانداری میں ہی چچا کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور گھر باہر کے چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ ناول میں وہ کبھی سامنے نہیں آتے مگر ان کی آواز کریمن بوا اگر سب لوگ کھانا کھا چکے ہوں مجھے بھی کھانا دیدو بڑے درد کے ساتھ آنگن میں برابر آتی رہتی ہے وہ تمام کرداروں سے دور اور یک طرفہ ہیں۔ عالیہ کو ان کے ساتھ خاص ہمدردی ہے اور ہم بھی ان کی قسمت پر افسوس کرنے لگتے ہیں ۔
آپ نے آنگن کے کرداروں کا تجزیہ پڑھا۔ کرداروں کے مطالعے سے آنگن میں خدیجہ مستور کی کردار نگاری کے مندرجہ ذیل قابل ذکر پہلو سامنے آتے ہیں :
الف۔۔۔ نسوانی کرداروں کی تعداد مردانہ کرداروں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور نسوانی کرداروں پر توجہ بھی زیادہ دی گئی ہے آنگن میں بقول ڈاکٹر احسن فاروقی خواتین کی چار پشتوں کی تصویر نظر آتی ہے۔ پہلی پیشت میں دادی اور ان کی نمک حلال کریمن بوا ہیں دوسری ہیں بڑی چچی اور اماں تیسری میں تہمینہ اور کسم ہیں جو روایات سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں مگر خود کشی کے سوا اور کوئی رستہ نہیں پاتیں۔ چوتھی پشت میں چھمی اور حالیہ ہیں جو بناوت سے اپنا کوئی نہ کوئی مقام بنا لیتی ہیں ۔
ب۔۔۔۔۔مردانہ کرداروں میں صرف بڑے چچا کا کردار ہی مکمل نظر آتا ہے۔ عالیہ کے ابا ایک جانکاہ حادثےسے زیادہ نہیں ہیں صفدر بھائی اور جمبیل بھیا بھی جاندار نہیں ہیں اور اسرار میاں تو صرف ایک اشارہ ہی ہیں ۔
(ج)۔۔۔۔ کرداروں کے ساتھ کچھ کیری کیچر کردار بھی نظر آتے ہیں کیری کیچرا دھورے اور احمق کردار کو کہتے ہیں ۔کریمن بوا ، اسرار میاں اور نجمہ پھوپھی کردار سے زیادہ کیری کیچر ہیں۔
(د) ۔۔۔۔۔۔ پیش کردار ہمارے سامنے نہیں آتے مگر دوسروں کی زبانی ان کا ذکر ملتا ہے ۔ ان میں عالیہ کے خود عرض ماموں اور ان کی انگریز بیوی ہیں۔ چھمی کے ابا ظفر چاچا ہیں۔ سلمہ پھوپھی تھیں ۔
منظر نگاری
خدیجہ مستور نے آنگن میں منظر نگاری کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا ہے کہانی کا تعلق جس ماحول اور معاشرے کے جس طبقے سے ہے اس کے پس منظر کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے کہانی کا بیشتر حصہ یوپی کی قصباتی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اور کہانی کے کردار زیادہ ترنچلے متوسط درجے کے لوگ ہیں ۔ اس سرزمین اور ان لوگوں کے ماحول کی تصویر کشی کی بڑی
خوبصورت مثالیں ناول میں ملتی ہیں
سرزمین کی منظر کشی کا ایک نمونہ دیکھیں :
وہاں درخت کس قدر تھے۔ دھول سے اٹی ہوتی کچی سڑکوں پر دونوں طرف آم جامن اور چیپل کے گھنے درخت تھے ان درختوں کے سائے میں راہ گیر انگوچھے بچھائے گٹھڑیاں سر کے نیچے رکھ کر مزے سے سویا کرتے۔ ان دنوں بہار کا موسم تھا۔ آموں میں بور آ چکا تھا کوئی ہر وقت کوکا کرتی۔۔۔۔۔۔۔
ناول کا آغاز اس منظر سے ہوتا ہے ۔
سردیوں کی رات کتنی جلدی سنسان ہو جاتی ہے ۔ آج بھی شام سے بادل چھا گئے تھے۔ خنکی بڑھ گئی تھی کھڑکی کے پاس لگے ہوئے بجلی کے کھمبے کا بلب، خاموشی سے جل رہا تھا۔ گلی کے اس پار اسکول کی ادھ بنی عمارت کے قریب کے درختوں کے جھنڈ سے الو کے بولنے کی آوانہ آرھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلوب
آنگن کی کہانی تین طریقوں سے بیان کی گئی ہے۔
ماضی کا حصہ عالیہ کی یادوں پرمشتمل ہے۔ اپنا گھر چھوڑ کر بڑے چچا کے گھر آئے ہوئے اس کا پہلا دن ہے کوشش کے باوجود اسے نیند نہیں آتی ۔ اس کے ذہن میں گزشتہ یادوں کے نقوش ابھرتے ہیں اور واقعات کی تصویریں ایک تسلسل کے ساتھ اس کے ذہن میں آتی ہیں اس طرح کی فلمی تکنیک کے ذریعے بچپن سے عالیہ کے بڑے چچا کے گھر آنے تک کے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ یادوں کا یہ سلسلہ چھمی کی بڑ بڑا ہٹ دروازے کی زنجیر کی کھڑ کھڑاہٹ اور عالیہ کی نیند کی خواہش سے کہیں کہیں ٹوٹتا ہے اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ عالیہ بڑے چچا کے گھر میں ہے اور یہ گزری یادوں کا سلسلہ ہے۔
حال کے سارے واقعات و کردار ہمارے سامنے سے گزرتے ہیں۔ کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن کا علم ہمیں دوسرے کرداروں کے ذریعے ہوتا ہے مثلاً سلمہ پھوپھی اور اسرار میاں کا قصہ عالیہ کی ماں سناتی ہے نجمہ پھوپھی اور چھمی کی شادی کے انجام کا پتہ چھمی کے خط سے چلتا ہے۔
کہانی کا بیشتر حصہ عالیہ کی زبان سے بیان ہوا ہے۔
آنگن کے مکالمے فطری اور سادہ ہیں خاص طور پہ عالیہ کی ماں اور چھمی کے مکالمے اپنے طنز نجمہ کے اپنی خود پسندی اور چھمی کے اپنی ہے باکی کی وجہ سے بھی دلچسپ ہوتے ہیں تینوں کی ایک ایک مثال دیکھیں۔
بات تو ساری یہ ہے کہ تم انگریزوں کے خلاف ہو ان کی نوکری کرو گے مگر بیٹی کو ان کے اسکول میں نہیں پڑھاؤ گے اس خاندان میں تو صرف تمہاری بہن اور بھانجا پڑھے گا ..... (امان)
واہ صرف بی اے کرنے سے کیا ہوتا ہے آدمی حاصل ہی رہ جاتا ہے ... کرنا ہے تو ایم ۔ اے بی ٹی کرو مگر ایم ۔ اے بھی کرو تو انگلش ہیں. .... (نجمہ پھوپھی)
" خود آپ دونوں دروازہ کھولنے آتے تھے کتنی سخت زنجیر تھی ۔۔۔۔چھمی
آنگن کے اسلوب میں کہیں کہیں گہری رمزیت یا استعاریت پائی جاتی ہے اس ناول کا نام آنگن بھی استعاراتی ہے ۔ جس ماحول سے یہ ناول تعلق رکھتا ہے وہاں آنگن گھر کا اہم ترین حصہ ہے کبھی تو یہ آنگن اتنا مختصر لگتا ہے کہ اس میں رہنے والے لوگ اپنے ذاتی مسائل میں الجھے نظر آتے ہیں اور کبھی اس میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ پورا ملک آنگن لگتا ہے جس کی سیاست سے اس گھر کے رہنے والے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ناول میں ایسے کردار بھی ملتے ہیں جن میں المناک اشاریت پائی جاتی ہے۔ یعنی آنے والے واقعات کی جانب واضح اشارے ملتے ہیں مثلاً
اور صحن میں قطار سے پلنگ بچھے ہوتے تھے ۔ آپا کا پلنگ مہندی پودے کے پاس بچھا ہوا تھا۔ ان کے پاس اس کا پلنگ تھا ۔ وہ اپنے بستر پر خاموشی سے لیٹ گئی ۔ چاند ابھر رہا تھا آسمان روشن تھا مگر آپا کا چہرہ صحن کے ہلکے سے اندھیرے میں آسمان سے بھی زیادہ صاف نظر آرہا تھا ۔ اسے تو اس دن احساس ہوا کہ آپا ہر وقت گم رہتی ہیں اس وقت وہ اپنے بستر پر بیٹھی بڑے کھوئے ہوئے انداز میں مہندی کی پتیاں نوچ نوچ کر بکھر رہی تھیں .....
تہمینہ کے حسرت ناک انجام کی طرف کیسے واضح اشارے اس عبارت میں موجود ہیں مہندی کی پتیاں نوچ نوچ کر بکھیرنا سہاگ کو اجاڑنے کا وہ عمل ہے جس تک اس کی بے بسی اسے لے جاسکتی ہے۔
ایک جگہ عالیہ اماں کہتی ہے ۔۔۔۔۔
کاش سلمہ میری بیٹی ہوتی تو پہلے ہی دن اسے اپنے ہاتھوں سے زہر کھلا دیتی ، تہمینہ کا حشر ایسا ہی ہوا لیکن یہ جملہ عالیہ کی اماں کے منہ سے اس واقعہ سے پہلے نکلا تھا۔
آنگن کا موضوع
آنگن کے پلاٹ، کردار نگاری ، منظر نگاری اور اسلوب کے بارے میں کچھ نکات آپ کی نظر سے گزرے اس طرح اس ناول کے بارے آپ کو کچھ ضروری معلومات حاصل ہوئیں لیکن شاید ایک اہم سوال کا جواب ابھی تک آپ کو نہ ملا ہو اور وہ سوال ہے کہ آنگن کا موضوع کیا ہے ؟ در رومان ہے ؟ اخلاق ہے ؟ یا سیاست۔۔۔۔ آنگن کا اصل موضوع یہ رومان ہے نہ اخلاق ۔ یہ موضوع سیاست ہے۔ آیئے اس بات کا جائزہ لیں کہ آنگن سیاسی ناول کیوں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول میں کچھ عشقیہ کہانیاں آتی ہیں لیکن جس طرح یہ قصے آنگن میں بیان ہوئے ہیں اس کے پیش نظر یہ ناول داستان عشق نہیں لگتا۔ اپنی فضاء پلاٹ اور کرداروں کی وجہ سے اس ناول کو رومانی ناول نہیں کہا جاسکتا۔
آنگن میں کوئی خاص اخلاقی مسئلہ بھی زیر بحث نہیں آیا اور اسے پڑھنے کے بعد ناول سے کوئی خاص اخلاقی سبق بھی نہیں ملتا اس لئے یہ ناول اخلاقی ناولوں میں بھی شمار نہیں کیا جا سکتا ۔
آنگن کو مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر سیاسی ناول کیا جا سکتا
۔۔۔۔ ناول میں کچھ ایسے واقعاتی اشارے ملتے ہیں جن سے ناول کے زمانے کا تعین کیا جا سکتا ہے مثلاً
کسم کے شوہر جلیانوالہ باغ کے قتل عام میں مارے جاتے ہیں۔
جمیل بھیا لاہور میں مسلم لیگ کے جلسے میں شرکت کرنے لاہور آئے ہیں جس میں قرار داد پاکستان منظور ہوتی ہے۔
پاکستان معرض وجود میں آتا ہے۔
ان سیاسی اشاروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناول کا زمانہ جلیانوالہ باغ کے واقعے سے قیام پاکستان تک پھیلا ہو ا ہے ناول نگار نے ناول کے لئے ایسا زمانہ منتخب کیا ہے جو سیاسی افراتفری کا دور ہے خدیجہ مستور نے آنگن میں جس دور کی ترجمانی کی ہے، اس پر سیاست کا سایہ ہے اور پھر ناول نگار نے سیاسی واقعات کے ذریعے ہی ناول کے زمانے کا تعین کر کے سیاست کی طرف اپنے میلان کا واضع اظہار کیا ہے۔
(2) اس دور کے تمام سیاسی رجحانات، اس ناول میں آگئے ہیں۔ دادی اماں تک خلافت کی تحریک کا ذکر کرنا
ضروری سمجھتی ہے وہ سیاست کو فضول باتیں قرار دیتی ہے۔
ابا انگریز سے نفرت کی مثال ہیں اور اسی سلسلے میں مارے جاتے ہیں۔ بڑے چچا کا نگریرسی مسلمان ہیں چھمی اور جمبیل بھی مسلم لیگی ہیں۔ انگریز دوستی بھی بہا رہی سیاست کا ایک یہ جان رہی ہے اس کی مائندگی ماموں سے ہوتی ہے یا اماں سے اس ناول کے بیشتر کر دار سیاست کے زیر اثر نظر آتے ہیں۔ عالیہ کا گھر ہو یا بڑے چچا کا دونوں سیاست کی بدولت ہی بیاہ ہوئے
آنگن میں سیاست کی پیشکش کا اندازہ
اردو کے بیشتر سیاسی جدوجہد کی تفصیلات اس طرح پیش کی گئی ہیں کہ نادل کے ان حصوں پر اخباری رپورٹوں کا شبہ ہوتا ہے۔ ان میں جلسے جلوسوں کا بیان ہوتا ہے لیڈروں کے مفصل بیانات ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو پڑتال اور گولی چلنے کے واقعات کی پوری تفصیل بھی ناول میں آجاتی ہے پریم چند کے ناول میدان عمل اور قرۃ العین حیدر کے ناول "آگ کا دریا میں ایسی مثالیں بکثرت ملتی ہیں لیکن آنگن میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ چنانچہ مستور نے اپنے ناول میں سیاست کی ایسی ٹھونس ٹھانس نہیں کی آنگن میں سیاست کو اس حدتک پیش کیا گیا ہے۔ جس حد تک سیاست انسانی کردار پر اثر انداز ہوتی ہے۔
خدیجہ مستور نے آنگن میں مختلف سیاسی رحجانات کے کرداروں کو پیش کیا۔ ۔ لیکن کسی کردار کے سیاسی عقائد کی انہوں نے حمائت نہیں کی چھمی اور جمیل بھیا کے ذریعے مسلم لیگ کی وکالت بڑی کمزور محسوس ہوتی ہے بڑے چچا اور ان کے نظریات کی طرف شروع شروع میں ناول نگار زیادہ مائل نظر آتی ہیں لیکن دہلی میں ایک ہندو کے ہاتھوں گاندھی اور نہرو کے اس عقیدت مند کا قتل کا نگریسی سیاست کو بھی بے نقاب کر دیتا ہے ۔ کمیونسٹ صفدر بہت زیادہ ہمارے سامنے نہیں آتے مگر جب آتے تو ایکسپورٹ امپورٹ لائسنس کے ذریعے سرمایہ داروں میں شامل ہونے کا خواب دیکھتے ہیں اور ساری اشتراکیت بھول جاتے ہیں۔ ان مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدیجہ مستور کو سیاست سے زیادہ انسانی کرداری سے دلچسپی ہے ۔ انہوں نے سیاست میں مصروف جیسے کردار دیکھے ویسے ہی دکھائے۔
آنگن میں ناول نگار کا نقطہ نظر
آنگن کا موضوع اگر چه سیاست ہے لیکن اس ناول میں خدیجہ مستور کا نقطہ نظر سیاسی نہیں ہے بلکہ انسان دوستی کا ہے۔ یہ بات ناول کے کرداروں سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ بڑے چچا اس ناول کا سب سے بڑا زور دار کردار مردانہ پن وہ عالیہ کو بہت عزیز ہیں اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانیت کی وجہ سے عزیز ہیں۔ بڑے چچا چھمی کو مارتے ہیں تو وہ عالیہ کو سیاسی ڈا کو نظر کرتے ہیں ۔ عالیہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے اس کی بنیاد بھی اس کے اعلیٰ انسانی اوصاف ہیں۔ وہ تحمل اور وقار کا پیکر ہے۔ وہ صفدر بھائی اور ڈاکٹر کو اس لئے مسترد کردیتی ہے کیونکہ یہ دونوں اس انسانی معیار پر پورے نہیں اترتے جو عالیہ کے ذہن میں قائم ہو چکا ہے۔
عالیہ کو تو یہ دونوں لالچی انسان پاکستان کے شہری کے طور پر پسند نہیں وہ ان میں سے کسی کو اپنے شوہر کے طور پر کس طرح قبول کر لیتی ۔ اسرار میاں ، عالیہ کے دادا کی ناجائز اولاد ہیں اس قسم کے افراد ہمارے معاشرے میں ہمیشہ نفرت کا شکار رہے ہیں لیکن خدیجہ مستور اس کردار کو پوری طرح ہمارے سامنے لائے بغیر اس گہرے نقوش ہمارے ذہنوں پر چھوڑ گئی ہیں۔ ناول نگار نے اسرار میاں کے کردار کو ایسے دردناک انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر پڑھنے والا ان سے شدید ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ اسرار میاں کا کردار خدیجہ مستور کی انسان دوستی کی بہترین مثال ہے۔
0 Comments