میر تقی میر کے حالاتِ زندگی اور شاعری کی خصوصیات
حالاتِ زندگی
میرمحمد تقی نام اور میر تخلص تھا۔ والد کا نام میرمحمد علی متقی تھا۔ ان کے آباؤ اجداد تجاز سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے۔ پہلے دکن میں قیام کیا، کچھ عرصہ گجرات میں بھی مقیم رہے اور پھر اکبر آباد میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ میر تقی میر ہیں ۱۷۲۳ء میں پیدا ہوئے۔ میر تقی میر کے والد نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سراج الدین خاں آرزو کی بہن تھیں، جن کے بیٹے میر محمدحسن تھے۔
اس رشتے سے خان آرزو میر تقی میر کے سوتیلے ماموں تھے۔ میرا بھی چھوٹے ہی تھے کہ والدہ فوت ہو گئیں ۔ ان کے والد صوفی منش انسان تھے۔ بچپن میں اُن کے والد ان فقیروں اور درویشوں کی محفلوں میں لے کر جایا کرتے تھے اور طرح طرح کی نصیحتیں بھی کیا کرتے تھے۔ ان کے والد نے انھیں درویشی وقناعت، صبر و استقامت سایه، رضا اور توکل کی تعلیم دی۔ عشق حقیقی کا راستہ دکھایا اور یہ نصیحت کی کہ ”بیٹا! عشق اختیار کرو، بے عشق زندگی وبال ہے"۔
میر گیارہ برس کے تھے کہ والد کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا۔ سوتیلے بھائی میر محمد حسن نے انھیں گھر سے نکال دیا۔ چناں چہ وہ اکبر آباد چھوڑ کر تلاش معاش کے لیے دہلی چلے آئے ۔ یہاں سوتیلے ماموں خان آرزو کے پاس قیام کیا۔ خان آرزو کا گھر شعر وادب کا مرکز تھا، جہاں دہلی کے مشہور و معروف شعرا جمع ہوتے اور اپنا کلام سناتے تھے۔ ان کی صحبت سے میر تقی میر کوبھی شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ موزوں طبیعت کی وجہ سے جلد ہی اچھے اور عمدہ شعر کہنے لگے۔ بڑے بھائی میر محمد حسن نے یہاں بھی چین سے رہنے نہیں دیا۔ میر نے حساس طبیعت پائی تھی ، لہذا ان غموں کو برداشت نہ کر سکے ۔ ان کے دماغ پر گہرا اثر ہوا اور ان پر دیوانگی کے دورے پڑنے لگے ۔ علاج کے بعد قدرے افاقہ ہوا۔
نادرشاہ کے حملے میں دہلی تباہ و برباد ہوگئی ۔ اہل دہلی اپنا شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ۔ مجبور امیر تقی میر بھی دیلی چھوڑ کر لکھنو چلے گئے۔ نواب آصف الدولہ نے میر تقی میر کی خوب آؤ بھگت کی اور دوسورو پے وظیفہ مقرر کردیا لیکن انی خود داری اور چڑ چڑے پن کی وجہ سے نواب صاحب سے نباہ نہ ہو سکا اور ان سے ناراض ہو کر گھر میں آن بیٹھے ۔ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی اور اسی فاقہ مستی میں ۱۸۱۰ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے لکھنو ہی میں دفن کیے گئے۔
میر تقی میر کی تصانیف
میر کی تصانیف میں تھے اردو دیوان ، ایک فارسی دیوان ، ایک اردو شاعروں کا تذکرہ نکات الشعرا اور ذکر میر ( خود نوشت سوانح حیات ) شامل ہے۔
میر تقی میر کی شاعری کی خصو صیات
یر کے بال ٹیم دوراں اور جان کا حسین امتزاج بھی پایا جاتا ہے اورتصوف کی جھلکیاں بھی ملی ہیں مجموعی طورپر ان کا نم و بصورت اختیار کر جاتا ہے کہ بقول مولوی عبدالحق : اُن کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرعہ خون کی ایک بوند لیکن یہ هده نتوانم مایوی کی صورت اختیارنہیں کرتی، بل کہ ایک حوصلہ مند انسان کا روپ دھار لیتی ہے، جب حادثات کا بھر پور طریقے سے مقابلہ کرتا ہے۔
غم دوراں
میر کا عہد بنیادی طور پر فساد اور جنگ آرائی کا دور تھا۔ محمد شاہ کے عہد میں سلطنت مغلیہ امرا کی سازشوں کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے کی جانب بڑھ رہی تھی ۔ نور شاہ اسے سنبھالا دینے کی بجائے عیش وعشرت میں مست رہا۔ سکھوں، مرہٹوں اور جانوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اورقتل وغارت کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ نادر شاہ درانی نے رہی سہی کسر پوری کر دی ۔ غلام قادر روہیلہ نے احمد شاہ کی آنکھوں میں سلائیاں پھر واد ہیں۔
شاہ عالم ثانی کے دور میں مرہٹوں سکھوں اور انگریزوں نے رہی کہی کسر بھی پوری کر دی۔ میر بھی دیگر افراد کی طرح ان حالات سے دو چار رہے اور بحیثیت شاعران کا زیادہ اثر لیا۔ اس بحران نے ہر شخص کو بے اطمینانی سے دو چانہ کر دیا۔ یہی میر کا اجتماعی خم بھی ہے اور ان کا ذاتی غم بھی، کیوں کہ میر انفرادی طور پر بھی ان حالات کی بناپر کش مکش کا شکار رہے۔ اس لیے کہتے ہیں :
جہاں کو فتنے سے خالی کبھی نہیں پایا
ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ تھا
غم جاناں
میر کے ہاں دار است عشق اور کیفیات مشق کا بیان بھی ہے اور ایک ایسا انداز ان کے ہاں پایا جاتا ہے، جو انھیں حقیقی عاشق ثابت کرتا ہے۔ ناکامی محبت کے واقعے نے ان کے غم کو درجہ کمال تک پہنچا دیا۔ نیم نھیں تکلیف سے بھی دو چار کتا ہے اور لذت سے ہم کنار بھی :
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا
تصوف
میر کا بچپن اگر چه صوفیانہ ماحول میں گزرا لیکن وہ خودکو تعلاف سے زیادہ ہم آہنگ نہ کر پائے مالہتہ تصوف کے حوالے سے ان کے ہاں صبر و قناعت، خودداری ، بے اختیاری اور فنا کا گہرا احساس پایا جاتا ہے۔ صوفیانہ خیالات کے باعث ان کے ہاں وحدت الشہود کا نظریہ پایا جاتا ہے۔ تصوف کے دیگر نظریات کے تحت دو مسئلہ جبر کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک انسان بے اختیار ہے ۔ اگر کوشش کرے بھی تو حالات و واقعات کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ تصوف کے ان عناصر کی جھلک کبھی ان کی زندگی میں دکھائی دیتی ہے اور کبھی نہیں دیتی۔ چند اشعار:
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرا ظہور تھا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہے، ہم کو عبث بدنام کیا
انداز بیاں
بنیادی طور پر میر کے کلام میں سادگی اور بے تکلفی پائی جاتی ہے۔ منفتگو کیسی روانی کا احساس ان کے کلام میں قدم پر ہوتا ہے۔ مناظر فطرت کی تصویر کشی بھی ان کے ہاں خوب ہے اور محبوب کی سراپا نگاری بھی ۔ ان کے کلام کو معنی آفرینی سے ہم کنار کرنے والا اہم عصر موسیقیت ہے۔ وہ موضوعات اور کیفیات کے مطابق بحروں کا استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ از میں فرسودہ مضامین کو انھوں نے جد تو ادا سے پیش کیا ہے:
کرو کچھ فکر اس دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
اپنے دور کی عکاسی
میر کا عہد اتہائی پر آشوب تھا۔ مغلیہ سلطنت زوال پذیرتھی۔ نادر شاہ درانی کے جملے نے دہلی کی رہی سہی طاقت کو بھی ختم کر دیا تھا۔سیاسی بدحالی اپنے عروج پرتھی تمام اخلاقی اقدارمٹ رہی تھیں، ہر طرف افرا تفری اور نفسانفس کا عالم تھا۔ میر کے کلام میں اپنے عہد کے حالات و واقعات کی جاندار تصویریں بھی ہیں۔ مغلیہ خاندان کی جان اور اخلاقی اقدار کی اہال کا ذکر میر نے بڑے دکھ بھرے انداز میں کیا ہے۔ مغلیہ خاندان کے تاجداروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں
تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا
شاہ عالم ثانی کے بارے میں لکھتے ہیں:
شہاں کہ جواہر تھی خاک پاجن کی
انھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
سیاسی افراتفری اور امن وسکون کے بارے میں لکھتے ہیں:
چور اچکے ، سکھ مرہٹے ، شاہ و گدا سب خواہاں ہیں۔
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقر بھی ایک دولت ہے یاں
دلی کے بارے میں لکھتے ہیں:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
زبان و بیان کی سادگی
میر کی غزلوں میں جذبات کی سادگی ، الفاظ میں سلاست اور صفائی اور بحروں میں روانی پائی جاتی ہے۔ ان کی غزلیس خواہ طویل بحروں میں ہوں، خواہ چھوٹی بحروں میں ، ان میں سادگی اور روانی ہر حال میں موجود ہوتی ہے۔ اس سادگی نے ان کے شعروں میں ہمہ گیری پیدا کردی ہے۔ وہ اپنے ہم عصروں کی طرح مشکل ترکیبیں اور مشکل تشبیہات واستعارات کا استعمال نہیں کرتے ہیں کہ اپنے جذبات و احساسات کو نہایت سہل اور آسان زبان میں بیان کر دیتے ہیں، جس سے اشعار میں عام بول چال کا سا انداز پیدا ہو جاتا ہے۔ میر مجیدہ افکار اور جذباتی سچائیوں کواس طرح عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں کہ قاری کو سمجھنے میں کسی قسم کی دقت پیش نہیں آتی اور ڈاکٹر وحید قریشی کے بقول : " خواص ادب کو بھی ان کا لوہا مانا پڑتا ہے۔ اُن کی غزل پڑھ کر دل متاثر ہوتا ہے، کچھ غم کی باتیں، کچھ کہنے کا بھولا بھالا انداز ، کچھ مشفقانہ سالہجہ جس میں میاں اور صاحب کے کلمات بڑا مزہ دیتے ہیں۔ میر کے اشعار کی سادگی اور سلاست کا اندازہ ان شعروں سے لگایا جا سکتا ہے:
ناز کی اُس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی
ترنم وموسیقیت
میر اپنی غزلوں میں ترنم اور موسیقیت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اُن کی بحریں انتہائی سبک، مترنم اور شیریں ہوتی ہیں۔ انھوں نے لطیف جذبات کی ترجمانی کے لیے صرف فارسی کی مروجہ بحروں سے ہی کام نہیں لیا، بیل کہ ہندی بحریں بھی استعمال کی ہیں ، جن سے پہلے شاعر نا آشنا تھے ۔ ترنم اور موسیقی کا سب سے زیادہ لطف اُن کی لمبی بحروں والی غزلوں میں آتا ہے۔ موسیقیت اور ترنم پیدا کرنے کے لیے وہ الفاظ کو تکرار کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ کی تکرار سے وہ دو ہرا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
عالم عالم عشق و جنوں ہے ، دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں ، صحرا صحرا وحشت ہے
پتا پتا ،بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے
غزل- (متن)
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
گور کسی دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اُٹھتا ہے
ناله سر کهینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے
لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اُٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے
یوں اٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اُٹھتا ہے
غزل کی تشریح
شعر نمبر :1
میر تقی میر ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:
کیا کروں شرح، خستہ جانی کی
میں نے مرمر کے زندگانی کی
میر نے انفرادی و اجتماعی طور پرغم والم سے پر زندگانی بر کی۔ انفرادی طور پر بھی مشکل حالات سے دوچارہ ہے اور اجتماعی طور پر اقدار کی پامالی اور سیاسی حالات نے ہر خاص و عام کو از حد متاثر کیا۔ ایسے میں میر کے لیے بھی ان حالات سے فرار ممکن نہیں تھا۔ یہ درد و الم جذبات میں ذحل کر شاعری بن گئے، جن کا ذکر دیوان میر میں جابجا ملتا ہے، کیوں کہ ایسی درد بھری زندگی میں نالہ و فریاد اور آہ وزاری امر لازم ہے۔ میر بھی ان عناصر سے جان نہیں چھڑا پائے اور مسلسل آہ وزاری میں مصروف رہے اور یہ آہ وزاری بقول غالب:
ضعف سے گر یہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جاتا
آنسو خشک ہو چکے ہیں، لیکن دل کی تڑپ کم نہیں ہوئی۔ نالہ و فریاد کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ آمیں دل پر سوز سے دھوئیں کی صورت اُٹھتی ہیں، اس لیے میر کہتے ہیں کہ میری آہ وزاری سے دھو ان اٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ یہ سوز دل کا نتیجہ ہے یا سوز جاں گا ۔ مجھے تو کچھ خبر نہیں، ذرا تم دیکھو اور مجھے بتاؤ کہ دلی و جان میں سے کون سی شے ہے، جو اس قدر مائل بہ سوز ہے۔
شعر نمبر ۲:
اے فلک ! یہ کس دل جلے کی قبر ہے کہ دل کی سوزش ہر صبح شعلے کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ غم جاناں اور غیم دوراں کے ہاتھوں تباہ حالی نے شاعر کا نا تا دنیا سے تو ڑ ڈالا لیکن بعد از مرگ بھی اسے چین وسکون میسر نہ آسکا۔ آغوش گور میں بھی وہ حالات بھلائے نہیں بھولتے۔ دل آہ وزاری میں مبتلا ہے اور دل کا سوز شعلوں کی صورت میں عیاں ہوتا ہے۔ فلک سے پوچھتے ہیں کہ یہ کس مبتلائے در دو الم کی قبر ہے کہ ہر صبح یہاں سے شعلے اٹھتے دکھائی دیتے ہیں ، یہ کون بدنصیب ہے کہ تم کی چنگاریاں اس کی قبر سے لینی ہیں کہ موت بھی اُسے دکھوں سے نجات نہ دلا سکی :
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا ، تو کدھر جائیں گے
میری آووزاری جب حد سے بڑھ جائے، تو اس کا اثر آسمان پر شور شرابے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ میر کہتے ہیں کہ میر اور اور غم باب صلہ سے با رہ جاتا ہے، تو میں آہ و زاری کرتا ہوں ۔ یہ آہ و زاری جب طوالت اختیار کر لیتی ہے، و آسمان کو لا کر رکھ دی ہے میر تقی میر بنیادی طور پرغم والم کے شاعر ہیں ہیں غم والم جوان کی حقیقی زندگی کاحصہ ہیں ) اجب ان کی شاعری میں نمایاں ہوتے ہیں تو حد درجہ پر تاثیرین جاتے ہیں۔ مذکورہ شعر میں بھی نم اپنی پوری حدت سے جلوہ گر ہے اور اس میں اس قدر تاثیر پائی جاتی ہے کہ آسمان تک ان کی آووزاری سن کر بل جاتا ہے اور وہاں ایک شور بپا ہو جاتا ہے۔ گویا وہ بھی فریاد کرنے وا۔ کنے کی بتی میں مبتلا ہے کہ کہیں یہ آنسو اور آ میں اس کا سینہ چاک نہ
کردیں ۔
شعر نمبر 4
محبوب کی شوخ نگاہ جس کسی پر پڑتی ہے؟ جہاں کہیں پڑتی ہے، وہیں سے ایک فساد انھتا ہے۔
اک نظر میں ہزار دل مارے
سادگی کی کہ دلربائی کی
میر کہتے ہیں کہ میرے محبوب کی نگاہ جادو جری ہے ، جس کسی پر پڑتی ہے، اسے اپنے جال میں اسیر کر لیتی ہے اور دو تا عمر اس سحر سے نکل نہیں پاتا۔ یہ نگاہیں اس فتنے کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں، وہ وقتی طور پر الحتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے لیکن اس کے اثرات ایک طویل مدت تک قائم رہتے ہیں۔ محبوب کی نگاہ بھی اگر چہ ایک لحظہ کے لیے اٹھتی ہے لیکن دلوں پر گھاؤ لگادیتی ہے کہ اس کی حدت ہمیشہ قائم رہتی ہے اور عاشق کے لیے یہی باعث مسرت ہے، بصورت دیگر کوئی عشق کی کسک سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔ بقول غالب:
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
شعر نمبر 5
اے میرے محبوب ! جو شخص تیرے دردست احتکار دیا جائے اسے پھر اپنے ساتھ بیٹھنے کی اجازت کون دے سکتا ہے۔ اللہ تعالی محبوب حقیقی ہے، جو اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ ہندوں کے لیے اس کی چاہت ہے حد و حساب ہے ، معا اس کی صفت ہے۔ اتنابے نیاز ہے کہ بلا تفریق مذہب و اعمال عطا پر عطا کیے جاتا ہے لیکن جب ناراض ہو جاتا ہے تو ایسا کہ اس شخص کوئی بھی عزت نہیں دے سکتا۔ اس لیے میر کہتے ہیں کہ اے باری تعالی تو جو ہمارا محجوب حقیقی ہے ہمیں عزت اور نام عطا فرما، ہمیں بہت مقام عطافرما۔دنیا کی نظر میں ہماری کچھ بھی حیثیت ہو لیکن اپنے ہاں ہمارا مرتبہ بلند رکھ، کیوں کہ جو تیرے دربار سے بے آبرو ہو کے نکلا ، اس کا ٹھکانہ کہیں نہیں ۔
محبوب جو اہل دنیا کی نظر میں پارسا بھی ہے اور نیک خو بھی۔ اگر عاشق کو برا بھلا کہہ کر اپنے در سے اٹھاتا ہے، تو محض عاشق کی بدخوئی یا کسی اور عیب کی بنا پر ایسے عاشقوں کو اپنی محفل میں بیٹھنے کی اجازت کوئی نہیں دے گا ، کیوں کہ وہ نہ اپنا راز عشق چھپار کا، نہ محبوب کی عزت کا خیال کر پایا۔
شعر نمبر 6
مبوب کی گلی سے ہم رخصت ہوئے، جیسے کوئی اس دنیا سے ناطہ توڑ کر ہمیشہ کے لیے چلا جاتا ہے۔ عاشق بہت کی توقعات لے کر محبوب کی گلی تک آیا تھا لیکن محبوب کی فطری بے رخی اور ظالمانہ رویے میں بال برابر فرق نہ آیا وہ اپنی روش پر قائم رہا، نہ تو عاشق سے ہم کلام ہوا اور نہ اس کا احترام کیا۔ عاشق نہایت افسردہ دلی سے محبوب کی گلی سے واپس جاتا ہے۔ وہ سب کچھ محبوب کے لیے بار چکا ہے، لیکن اس کے طعنوں میں کمی نہ آئی ؛ عاشق حوصلہ ہار گیا اور اس کی آرزوئیں دم تو ڑگئیں ۔ اس کی رخصت کا انداز ایسا ہے کہ جیسے زندگی سے اس کا رشتہ نوٹ گیا ہے۔
شعر نمبر 7
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
مقطع میں میر خود سے کہتے ہیں کہ تو تو بے حد نا تواں ہے، مشق کا بھاری پتھر اپنے سینے پر کیوں کر اٹھا سکتا ہے ۔ اردو غزل میں محبوب کے رویے کو برداشت کرنا جان جوکھوں کا کام ہے، کیوں کہ وہ عاشق کے لیے وصل کی تمام راہیں مسدود کر دیتا ہے۔ حیلے بہانے سے عاشق کو تر پانا اس کا شیوہ ہے۔ اپنے ناز و ادا سے دور اسے وہ اس کے دل پر گھاؤ تو لگا تا ہے لیکن اپنی قربت سے ہمیشہ محروم رکھتا ہے۔
عاشق کو اپنے اشتیاق کے صلے میں ہمیشہ ہے نیازی اور بے رخی ہی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور محبوب کا رقیب کے لیے پیار بھرا انداز تو گویا سونے پر سہا گہ ثابت ہوتا ہے، اس لیے میر کہتے ہیں کہ میں بہت نا تواں ہوں ۔ غم روزگار کے بعد مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں عشق کے زخم سہہ سکوں ۔ عشق کرنے کے لیے تو محبوب کے رویے کو برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن میں ایسا نہ کرسکوں گا۔
0 Comments