میر حسن کا تعارف||میر حسن کی مثنوی نگاری کی خوبیاں

میر حسن کا تعارف||میر حسن کی مثنوی نگاری کی خوبیاں

 میر حسن کا تعارف||میر حسن کی مثنوی نگاری کی خوبیاں

میر حسن کا اصل نام میر نظام سن تھا اور حسن تخلص۔ ان کے والد کا نام میر رضا خنک تھا۔ وہ ایک معروف بجو گو شاعر تھے۔ میر حسن ۱۷۲۷ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد یہ حاصل کی ۔ نادر شاہ اور اجہ شاہ ابدالی کے حملوں میں جب دتی تباہ ہوئی تو ان کا خاندان فیض آباد منتقل ہو گیا اور جب آصف الدولہ نے لکھنو کو دارالحکومت بنایا تو وہو میں منتقل ہو گئے اور ۱۶ ۱۷ء میں لکھنوی میں وفات پائی.

میر حسن کا خاندان علمی مرتبت میں بلند مقام تھا۔ ان کے والد اعلیٰ پائے کے شاعر ، ان کا بیٹا میر مستحسن مشہور مرثیہ نگار اور ان کے پوتے میر انیس نے مرثیہ نگاری میں دو بلند مریہ حاصل کیا کہ آج تک کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکا۔ اگرچہ میرانیس کا بیٹا بھی مرشد نگار تھا، لیکن میرا نہیں کے بعد کسی کا رنگ نہ جم سکا۔ 

مثنوی میں میر حسن کا مقام نہایت بلند ہے۔ اگر چہ انھوں نے تذکرہ بھی لکھا ، غزلیں بھی کہیں اور قصائد بھی لکھے، لیکن ان کی اصل ربۂ شہرت مثنوی نگاری ہے۔ مثنوی سحر البیان اردو ادب میں خاصے کی چیز ہے۔

میرحسن کی مثنوی نگاری کی خوبیاں

 زبان و بیان

میر حسن کے ملالہ اس کا ایک پہلو زبان ، بیان ہے۔ انھوں نے "سحر البیان میں جو زبان استعمال کی : سادہ اور شیریں بھی ہے اور فصیح اور بیع بھی مارے نہایت برجستہ ہیں اور دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی وہ زمانہ حال کے شاعر کا کلام دکھائی دیتا ہے۔ میرحسن نے نادرات اور استعاروں کا استعمال بھی خوبی سے کیا ہے۔

 مکالمہ نگاری

میر حسن کی مثنوی کی ایک اور خوبی ان کی مکالمہ نگاری ہے۔ ہر کردار اس فنکاری سے برمحل مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے کہ اس سے بہتر کی طرف ذہن نہیں جانتا ۔ عورتوں کے کالموں میں خالص عورتوں کے محاورے استعمال ہوئے ہیں۔

کرداری نگاری

میر حسن کے زمانے میں ادب پر داستان کا رنگ غالب تھا، اس لیے میر حسن کے کچھ کر دار مافوق الفطرت بھی ہیں۔کردارنگاری میں میر حسن کا کمال یہ ہے کہ ہر کردارا ان پرکشش ہو جاتا ہے۔

 منظر نگاری

میرحسن کے ہاں منظر نگاری اور تصویر کشی کے مرقعے ان کے فن کی چھنگی کی دلیل ہیں۔ انھوں نے جو نقشہ کشی کی گویا تصویر بنادی ، اس میں جزئیات نگاری کا رول زیادہ ہے۔ ہر منظر کے ہر گوشے کو واضح کرتے ہیں۔ چنانچہ جزئیات نگاری اور معرکشی نے مثنوی کو چار چاند لگا نہ میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

 معاشرت کی تصویریں

شنوی " سحر البیان' اپنے دور کی معاشرت کی عکاس ہے۔ لوگ کن رسموں کے پابند تھے ان کے تہذیبی و تمدنی حالات کیا تھے اور معاشرے میں ان کا رہن سہن کیسا تھا؟ یہ سب کچھ مثنوی میں موجود ہے۔

 جذبات نگاری

جذبات نگاری بھی تھی مہارت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہر کردار اپنے معاشرتی پس منظر، عمر، جنس اور مقام امر ہے کے لحاظ سے جذبات کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔

ان خوبیوں کے علاو و واقعات میں رابطہ تسلسل موجود ہے، جو مثنوی کا بنیادی تقاضا تھا۔ گو یا مجموعی طور پر اس مشوری میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں، جو ایک اچھی مثنوی کا لازمہ ہوتی ہیں۔

 باغ کی تیاری (متن)

دیا شہ نے ترتیب اک خانہ باغ 

ہوا رشک سے جس کے لالے کو داغ


عمارت کی خوبی دروں کی وہ شان

لگے جس میں زربفت کے سائبان


 چھتیں اور پردے بندھے زر نگار 

 دروں پر کھڑی دست بستہ بہار


وہ مقیش کی ڈوریاں سر بسر 

کہ مہ کا بندھا جس میں تار نظر


چقوں کا تماشا تھا آنکھوں کا حال

نگہ کو وہاں سے گزرنا محال


 دیے ہر طرف آئینے جو لگا 

 گیا چوگنا لطف اس میں سما


وہ مخمل کا فرش اس کا ستھرا کہ اس

 بڑھے جس کے آگے نہ پائے ہوس


رہیں کھلے اس میں روشن مدام

 معطر شب و روز جس سے مشام

 

 چھپر کھٹ مرصع کا دالان میں

  چمکتا دمکتا تھا ہر آن میں 

  

زمیں پر تھی اس طور اس کی جھلک

 ستاروں کی جیسے فلک پر چمک

 تشریح

ایک طویل قصے یا داستان کا مسلسل بیان مثنوی کافی تقاضا ہے، اس لیے نمونے کے طور پر کہیں سے کوئی مکڑالیا جا سکتا اگر پس منظر نہ بتایا جائے تو ابہام رہتا ہے۔ یہ بادشاہ سلامت کے باغ کی ، جوانھوں نے گھر کے اندر لگوایا خوب صورتی کا خوب صورت انداز میں ذکر ہے۔

بادشاہ نے گھر میں جو باغ لگوایا، وہ حسن انتظام اور خوب صورتی میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ بادشاہ نے اپنے شہزادے بے نظیر کی خاطر یہ باغ لگوایا اور اسے اس طرح آراستہ کیا گیا کہ اس کی خوب صورتی دیکھ کرگل لالہ ، جو خود خوب صورتی کا استعارہ ہے، حسد سے جل گیا، وہا گل لالہ کا سیاہ رائج ہی حسد کی علامت ہے۔ 

دروازے خوب صورت ہیں اور بائی زریعہ کے خیموں سے آراستہ کیا گیا۔ نہ صرف پردے، بلکہ پوری عمارت کی چھتیں سنہری ہیں اور نہری رنگ کے پردے دروازوں پر لٹک رہے ہیں۔ اس خوب صورت منظر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ خود بہار دست بستہ در پر آن کھڑی ہے۔ ستمبری اور دپیلی تاریں لنک رہی ہیں اور ان چنکی تاروں کو دیکھ کر چاند بھی تنکی لگائے دیکھے چلا جاتا ہے۔ چھتوں میں اس قدر کشش ہے کہ نگاہ جم جاتی ہے۔ چاروں طرف آئینے لگا دیے گئے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ اگتا ہے کہ ہر منظر بیک وقت منعکس ہو کر چار چار منظر پیش کرنے لگا۔

میرحسن بادشاہ کے اس باغ کا مزید ذکر کرتے ہیں کہ حمل کی طرح ریشمی سبزے کا فرش اس قدر دیدہ زیب ، الکش اور خوب صورت ہے کہ بس دیکھتے رہ جائے اور اگر اس سے بڑھ کر طلب حسن کی جائے، تو تخیل ساتھ نہیں دیتا، گویا مزید خوب صورتی کا تصور محال ہے۔ اس پر مزید یہ کہا کروں میں نکلنے لگا ک فضا کو خشبودار بنایا گیا ہے اور یہ ہر وقت خوشبو میں ہے رہتے ہیں۔ مزید یہ کہ چھت والے پلنگ پر ہیرے جواہرات جڑے ہیں، اور یہ ہر وقت چمکتا رہتا ہے، جیسے آسمان ستاروں سے مرین اور روشن رہتا ہے، بالکل اسی طرح دالان کا یہ پانگ چمکتا دمکتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments