علامہ محمد اقبال کی نظم خضر راہ کا تعارف||خضرراہ کا فکری و فنی تجزیہ

علامہ محمد اقبال کی نظم خضر راہ کا تعارف||خضرراہ کا فکری و فنی تجزیہ

خضر راہ کا تعارف :

علامہ اقبال نے یہ نظم 1921 ء میں لکھی۔ خضر راہ بانگ درا کی چند طویل اور مشہور نظموں میں سے ہے۔ یہ نظم شاعر کے سوالات اور جواب خضر کے تحت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ ہندوں کی کل تعداد گیارہ ہے۔ علامہ اقبال نے خضر راہ انجمن حمایت، اسلام کے سینتیسویں
 سالانہ جلسے میں اپریل 1922ء میں پڑھی۔ دنیائے اسلام کے لئے وہ ایک نازک اور مشکل وقت تھا انجمن کے اس جلسے میں سامعین کی تعداد ایک اندازے کے مطابق بیس ہزار کے لگ بھگ تھی جو اقبال کی نظم سننے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ 
 اس نظم سے ایک طرح سے اقبال کی انقلابی شاعری کا آغاز ہوتا نظر آتا ہے ۔ اقبال نے اس نظم کو بڑے درد انگیز لہجے میں پڑھا ۔مولانا غلام رسول مہر کے نقول چند اشعار پر علامہ محمد اقبال خود بھی بے اختیار رونےلگے اور پورا مجمع بھی اشک بار ہوگیا ۔ کہتے ہیں کہ اقبال پر جتنی رقت نظم خضر راہ ، پڑھنے کے دوران میں طاری ہوئی آتنی کسی نظم کے دوران میں نہ ہوئی ۔

نظم خضرراہ کا پسِ منظر :


نظم نثر کے کسی فن پارے کی معنوی گہرائی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس فن پارے کے خالق (شاعر یا ادیب) کی افتاد طبع کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے ان سیاسی سماجی اور معاشرتی حالات کا بھی بغور مطالعہ کیا جائے جو فنکار کی طبیعت پر اثر اندازہ ہوئے اور اس فن پارے کی تخلیق کا باعث بنے۔ یہی سیاسی سماجی اور معاشرتی حالات پس منظر کے ذیل میں آتے ہیں ۔

نظم خضر راہ کو سمجھنے کے لئے جب ہم اس فن پارے کے پس منظر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے یہ نظم مخصوص حالات کے تحت لکھی۔ وہ حالات عالم اسلام کے لیے بڑے کٹھن اور نازک تھے مسلمان ہر طرف مصیبتوں میں گھرے ہوئے تھے۔ جنگ عظیم نے دنیا کے تمام مسلمان کو بھی تباہی اور مصیبت سے دو چار کر دیا تھا ۔ اتحادیوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا تھا ترکی بدامنی اور اتراتفری کا شکار تھا۔ شریف مکہ یعنی حسین نامی شخین نے عین جنگ کے زمانے میں ترکی سے غداری کر کے انگریزوں سے دوستی کر لی اور اس طرح سے اس نے سلام کی وحدت کو بہت نقصان پہنایا اس نقصان کے باعث جہان ایک طرف سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا وہاں دوسری طرف انگریزوں اور فرانسیسیوں کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ عرب ممالک کے حالات میں براہ راست مداخلت کر سکیں یہ مداخلت مسلمانوں کے لئے پریشانی کا باعث تھی ۔ اس کے علاوہ بہت ہندوستان میں خلافت کی تحریک ہجرت کی تحریک نے اور ترک موالات کا دور شروع ہوا تو ہزاروں مسلمان قید ہو گئے 1917 میں انقلابِ روس بر پا ہوا جو ایک طرح سے سامراج سے کھلی ٹکر تھی اقبال نے اس لحاظ سے اس انقلاب کی حمائیت کی اور اس سے متاثر ہوئے ۔

اقبال کا دل پہلے ہی مسلمانوں کی زبوں حالی سے پریشان تھا پھر دنیائے اسلام کی ان تازہ ترین پریشانیوں سے دل اور بھی کڑھنے لگا۔ عالم اسلام کو درپیش ان تمام مسائل کے اسباب معلوم کرنے اور ان کے حل کے لیے اقبال کو اپنے سے زیادہ کسی صاحب بصیرت کی تلاش تھی چنانچہ اس مقصد کے لئے شاعر نے حضرت خضر کا انتخاب کیا ہر چند کہ حضرت خضر کی زبان میں خود اقبال ہی عالم اسلام سے مخاطب ہیں لیکن اپنی بات کو زیادہ وزنی اور موثر بنانے کے لئے انہوں نے حضرت خضر کا سہارا لیا کیونکہ مصائب کے نازک دور میں وہی انسان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ نظم کا نام خضر راہ رکھنے کی بڑی وجہ یہی ہے۔

نظم خضرراہ کا فکری تجزیہ :


آپ نے اب تک نظم کا تعارف ، پس منظر پڑھ لیا ہے اب آئیے اس کے بعد نظم کا فکری و فنی تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ فکری لحاظ سے اس نظم میں کون سے خیالات بیان کیئے گئے ہیں اور فنی لحاظ سے یہ نظم کونسی خوبیاں اپنے اندر رکھتی ہے تو آیئے سے پہلے نظم کا فکری تجزیہ کرتے ہیں ۔
فکری تجزئے کی رو سے یہ نظم دو حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے شاعر کے عنوان سے پہلا حصہ ایک طرح سے پیس منظر خضر کی آمد اور شاعر کے سوالات پر مبنی ہے۔ دوسرے حصے کا نام جواب خضر ہے ۔ اور اس کے بندوں کی کل تعداد نو ہے حضرت حضر کی آمد اور شاعر کے سوالات والے پہلے حصے میں حضرت خضر اس اضطراب کی جھلک دیکھ لیتے ہیں جو کائنات کے اسرار جاننے کی کوشش میں شاعر کے چہرے پر نمایاں ہے ۔ حضرت خضر سوالات پوچھنے کے ضمن میں شاعر کا حوصلہ بند ہاتے ہیں۔ چنانچہ شاعر حضرت خضر سے سب سے پہلے ان کی صحرائی زندگی کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ اس کا راز کیا ہے ؟ پھر شاعر زندگی کی حقیقت کے بارے میں حضرت خضر سے پوچھتا ہے پھر بادشاہت اور ملوکیت کے بارے میں حضرت خضر سے سوال کیا جاتا ہے کہ موجودہ عہد میں اس کا جواز کیا ہے ؟ اس کے بعد سرمایہ و محنت اور آخر میں حضرت حضر سے ملت اسلامیہ کے زوال کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔

حصہ اول میں شاعر کے سوالات کے بعد دوسرے حصے میں حضرت خضر کی طرف سے ان سوالوں کے جواب دیئے گئے ہیں۔ قدرت کی طرف سے اقبال کو ایک دردمند اور حساس دل عطا ہو ا تھا وہ برصغیر اور عالم اسلام کے تمام واقعات سے باخبر اور ان کے بارے میں خیالات اظہار کے لئے بڑے بے چین تھے اور ایک مناسب وقت کے انتظار میں تھے۔ حصہ اول میں شاعر کے سوالات اور حصہ دوم میں خضر کے جوابات سے اقبال ایک طرف تو امت مسلمہ کو اس کی کمزوریوں اور خامیوں کا احساس دلاتے ہیں۔ اور دوسری طرف زندگی کے مختلف شعبوں میں اسے وہ راہنما اصول بتاتے ہیں کہ جن کو اپنا کر وہ اس عرصہ محشر میں اپنا د فتر عمل بہتر طریقے سے پیش کرنے کے قابل ہو سکے حضرت خضر کو اپنا پیر ومرشد بنا کر اقبال نے بنی نوع انسان کو عمومی اور اہل اسلام کو خصوصی طور پر در پیش مسائل اور ان کے حل کا صحیح علم دیا ہے حضرت خضر سے کشف حقائق کرانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کو باور کرایا جاسکے کہ یہ افکار و خیالات کسی انسانی فکر کا نتیجہ ہیں اور یہ ہر لحاظ سے قابل تقلید اور قابل عمل ہیں۔ 

صحرانوردی کے بارے میں شاعر کے سب سے پہلے سوال کے جواب میں حضرت خضر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ زندگی سخت جانی اور سخت کوشی سے عبارت ہے اور سعی عمل اور محنت پیم کا مقصد صحرانوردی کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا اسی طرح زندگی بھی مسلسل حرکت اور کوشش ناتمام کا نام ہے اور دنیا کی اس آزمائش گاہ سے انسان کو کندن بن کر نکلنا چاہیئے۔

 شاعر کا تیسرا سوال سلطنت کے بارے میں تھا یہ سوال دراصل موجودہ طریق حکمرانی کے بارے میں تھا جس کے جواب میں شاعر کو بتایا گیا کہ مغرب کا موجودہ جمہوری نظام حکومت در حقیقت شہنشاہت کا نظام ہے اور رعایا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اسے جہور بیت کانام دیا گیا ہے۔ سرمایہ محنت کے بارے میں شاعر کے سوال کے جواب میں حضرت خضر مزدور سے مخاطب ہو کر اسے بہلاتے ہیں کہ پرانا درد ختم ہو چکا ہے۔ مزدور کا زمانہ آ گیا ہے۔ مزدور کو سرمایہ دار کے شکنجے سے نکلنا چاہیئے اور اسے انقلاب برپا کرنا چاہیئے۔ 
 
آخری سوال جو دنیائے اسلام کے بارے میں تھا حضرت خضر نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ مسلمان کا نصب العین سیاست نہیں بلکہ دین ہونا چاہیئے۔ اور مسلمانوں کو چاہیے کہ دین کی حفاظت اور سر بلندی کے لئے اپنے تمام اختلافات کو بھول کر ایک ہو جائیں اور اگر مسلمان دین کے بتائے ہوئے راستوں پر عمل پیرا ہوں تو یورپ اپنی برتری قائم نہ رکھ سکے گا اور عنقریب ملوکیت اور سرمایہ داری کے نظام کا دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا اور اسلام کی بالا دستی کا خواب شرمندہ تعمیر ہو گا۔

نظم خضرراہ کا فنی تجزیہ :


اس نظم کے کل گیارہ بند ہیں۔ یہ نظم ترکیب بند ہیت میں ہے ترکیب بند نظم کی کوئی الگ اور مخصوص قسم نہیں ہے بلکہ ترکیب بند کے تحت چند ہم قافیہ اشعار کے بعد مخالف ہم وزن مگر الگ قافیہ رکھنے والے شعر یا مصرعے کی تکرار ملتی ہے۔خضرراہ ڈرامے کے انداز میں لکھی گئی ہے اور تمام ڈرامائی عناصر مثلا پس منظر سیٹیج مکالمہ اور کرداروں وغیرہ کا التزام نظم میں کیا گیا ہے۔ 
اقبال اپنے قارئین یا سامعین کے لئے جس قسم کی باتیں خضر راہ میں بیان کرنا چاہتے تھے اس کے لیے ڈرامائی کیفیت کا پیدا کرنا اشد ضروری تھا تاکہ شاعر کا پیغام ہر لحاظ سے موثر ہو سکے ۔ ایک حقیقی اور سچے فنکار کی طرح اقبال کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر اس نظم کے سنجیدہ افکار و خیالات کو سیدھے سادے سپاٹ انداز میں ہی بیان کر دیا گیا تو نہ تو بات با وزن اور موثر ہوگئی اور دوسرے وہ قاری میں توجہ اور انہماک بھی پیدا نہ کر سکے گی۔

 نظم خضرراہ کا پیام چونکہ نہائت سنجیدہ افکار کا حامل ہے لہذا اس پیغام کے اظہار کے لیئے حضرت خضر جیسے کردار کا انتخاب نہایت موزوں ہے ۔ حیات و کائنات اور بین الاقوامی سیاست کے چیدہ موضوعات پر صرف حضرت خضر جیسی چشم جہاں بین ہستی ہی با اعتماد طریقے سے گفتگو کر سکتی تھی۔ 
 
نظم کے آغاز میں حضرت خضر کی آمد سے پہلے کے اشعار میں ساحل دریا شب سکوت افزا ہوا آسودہ نظر حیران مروج مضطر اور انجم کم ضو وغیرہ کے الفاظ بڑی خوبصورتی سے پس منظر اور سٹیج کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں گویا یہ یہ ڈرامے کا پہلا سین ہے پہلے سین کے تمام اشعار سکونت تحیر اور اضطراب کی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور سیٹج پر پیش ہونے والے ڈرامے کی طرح قدرتی طور پر یہ اشعار قاری ہیں یہ تجس پیدا کرتے ہیں کہ نہ جانے اب کیا ہونے والا ہے ؟ اسی موقعہ پر حضرت خضر نمودار ہو کر مکالمے کی ابتدا کرتے ہیں پھر شاعر کے سوالات سے باقاعدہ مکالمے کا آغاز ہوتا ہے ان سوالات سے ایک طرح سے قاری کی دلچسپی اور تجس میں اضافہ کیا ہے اور قاری شاعر کا ہمنوا بن کر حضرت خضر سے ان سوالات کا جواب جاننا چاہتا ہے اور اس طرح سے آخر یک نظم میں بچی کی فضا قائم رہتی ہے۔

 خضر راہ کی ایک اور بڑی خصوصیت اس کی تصویر کاری ہے اسے محاکات بھی کہتے ہیں ۔ شاعر نے الفاظ کی مدد سے اس نظم کو نہایت خوبصورت تصویریں عطا کی ہیں۔ تصویر کاری کا سب سے عمدہ نمونہ نظم کا پہلا بند ہے کہ جس میں شاعر دریا کے کنارے ٹہل رہا ہے یہاں پر الفاظ کا استعمال اتنی فنی مہارت اور خوبصورتی سے کیا گیا ہے کہ ایک طرح سے پر سکوت ماحول کا عمل تصویر بھیج دی گئی ہے۔

اقبال کی دیگر نظموں کی طرح اس نظم میں بھی تخزل کا رنگ پایا جاتا ہے۔ یہ رنگِ تغزل اقبال کے مزاج کا ایسا نمایاں پہلو ہے کہ جس کے تخت، ان کے کو کلام میں داغ اور غالب کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ غزل کے رنگ کی آمیزش نے خضر راہ کے اس طرح کے اشعار کورنگ تغزل کا خوبصورت کا نمونہ بنا دیا ہے۔

ؑبر تر از اندیشہ سودوزیاں ہے زندگی
 ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
 
 جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
  دیکھی ہے حلقہ گردن میں ساز دلیری

نظم حضراہ میں محاکات اور رنگ تغزل کے ساتھ ساتھ نہایت خوبصورت اور نادر تراکیب بھی ملتی ہیں۔ شاعر نے اپنے مطلب کی وضاحت کے لیے ایسی بلیغ اور عمدہ تراکیب بھی ملتی ہیں۔شاعر نے اپنے مطلب کی وضاحت کے لئے بلیخ اور عمدہ ترکیب سازی سے کام لیا ہے کہ نہایت دقیق اور مشکل بات کو دو لفظوں کی مدد سے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ مثلاً شہید جستجو نقد حیات ساز و لبری شاخ آہو اور ضمیر کن فکاں جیسی خوبصورت تراکیب سے خضر راہ کا دامن بھرا پڑا ہے۔ 

نظم خضر راہ کا دھیما اور پرسکون لجہ اپنے مضمون سے مطابقت رکھتا ہے خضر جیسے صاحب بصیرت بزرگی کے لیجے میں نرمی اور دھیمے پن کا دخل ضروری تھا۔ بیان کی متانت اور سنجیدگی نے بھی نظم کی دلکشی میں اضافہ کیا ہے۔ خوبصورت تشبیہات تخلیق کرنے میں اقبال کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ چنانچہ اس نظم میں بھی اقبال نے اچھوتی تشبیہات کے استعمال سے اس کی خوبصورتی اور دلکشی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ چند ایک تشبیہات دیکھیے۔ 

غنچہ ساں، غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک

اور
 جس کی پیروی میں ہے مانند سحر رنگ شباب 
 جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار