اردو شاعری میں ریختی سے کیا مراد ہے ؟
ریختی کی تعریف :
اردو شاعری میں ریختی ایک ایسی صنف سخن ہے جو اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں ملتی۔ ریختی سے مراد ایسا کلام ہے جس میں عورتوں کی زبان میں ان کے خاص معاملات نظم کئے جائیں( لیکن لکھو کی ریختی قدرے مختلف ہے اس کا ذکر بعد میں آئے گا) اگر ریختی سے مراد عورتوں کی زبان میں شاعری ہو تو دکنی شاعری بالخصوص غزل کا خاص حصہ ریختی کی تعریف میں آجائے گا۔ کیونکہ یہاں بالعموم تخاطب عورت کی زبان سے ہے اور مرد اس کا محبوب و مطلوب ہے۔
افضل کی " بارہ ماسہ " کی بھی یہی صورت ہے کہ اس میں ایک فراق زدہ عورت کے معاملات ہجر کا بیان عورت ہی کی زبان سے ہوتا ہے۔ صوفیانہ شاعری کے بعض نمونوں، چکی نامے، چرخہ نامے، اور شادی نامے وغیرہ بھی سالک کو ایک عورت اور اس کے محبوب و مقصود کو مذکر تصور کیا گیا ہے۔ ان سب میں عورتوں ہی کی زبان میں بات کی گئی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریختی ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں نہ صرف عورتوں کی مخصوص زبان ، محاورات ، کہاوتیں اور اشارے کنائے برتے جاتے ہیں بلکہ عورتوں کی مخصوص تہذیب اور طرز فکر کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔
ریختی ایک خاص انداز کی کاریگری ہے۔ اگر کاریگری سے کام نہ لیا جائے تو یہ بے حیائی بن جاتی ہے۔ اس قسم کی شاعری کے ابتدائی نمونے بھی دکنی شاعری میں مل جاتے ہیں۔ تاہم ہاشمی بیجا پوری ریختی کے ایک اہم شاعر ہیں۔ اگرچہ ریختی ان کی ایجاد نہیں لیکن انہوں نے اس صنف سخن پر خصوصی توجہ دی اور دیوان مرتب کیا۔ ان کی ریختی دکن کی نسوانی زندگی کا ایک ایسا مرقع ہے جس میں دکن کی عورتوں کی زبان اور ان کی پوری تہذیب، طرز فکر، نفسیات، اس عہد کے سیاسی اور معاشی حالات کا اثر خانگی زندگی پر ، ایسی تمام تفصیلات محفوظ ہو گئی ہیں۔ ان کی ریختی کا دیوان عورتوں کی گھریلو زبان، محاوروں اور کہاوتوں کا خزانہ ہے۔
وہ عورتوں کے جذبات کو، عورتوں کی زبان میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان کے اشعار میں دکنی عورتوں کی آواز اور ان کا لب و لہجہ صاف سنائی دیتا ہے۔ ان کی ریختیوں میں، اس عہد کے عقائد، لباس، رسم و رواج، سنگھار کے لوازمات غرض ساری تفصیلات موجود ہیں۔
مثال دیکھیں :
سجن آویں تو پردے ے نکل کر بھار بیٹھوں گی
بہانا کر کے موتیاں کا پروتی بار بیٹھوں گی
او نوں یاں آؤ کہیں گے تو کہوں گی کام کرتی ہوں
اٹھلتی اور مٹھلتی چپ گھڑی دو چار بیٹھوں گی
(سید میراں باشمی)
0 Comments