ادا جعفری کی اردو شاعری

ادا جعفری کی اردو شاعری

 ادا جعفری کی اردو شاعری 

دورِ جدید کے شعر و ادب کے معماروں کی پہلی صف میں ادا جعفری کا نام نمایاں حیثت رکھتا ہے۔ ان کے کلام میں بجا طور پر قدیم اور فرسودہ نظام کے خلاف کھلی بغاوت کا ایک بے پناہ جذبہ کار فرما ہے۔ ان کی آواز سرا پا طلب اور احتجاج ہے۔ ان کے انداز بیان سے ایک ایسی قوت ارادی متشرح ہے جس کے بغیر جدید ادب کے کسی معمار کا پیام موثر نہیں ہو سکتا۔" ( میں ساز ڈھونڈتی رہی، پیش لفظ سے ماخوذ) 

ادا جعفری پہلے ادا بدایونی تخلص کرتی تھیں۔ شادی کے بعد ادا جعفری مشہور ہوئیں۔ ان کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے :

1- میں ساز ڈھونڈتی رہی ۔ 1950ء 

2-شہر در - 1967ء (آدمی جی انعام یافتہ) 

3-غزالاں تم تو واقف ہو۔ 1974ء 

4-ساز سخن بہانہ ہے۔ 1982ء 

ان شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تحقیقی کتاب "غزل نما " جو 1991ء میں انجمن ترقی اردو نے شائع کی۔ غزل نما میں کلاسیکل شعراء کے اشعار و حالات مرتب کیے گئے ہیں۔ جاپانی صنف ہائیکو پر مشتمل ان کا ایک شعری مجموعہ بھی زیر ترتیب ہے۔ ادا جعفری کو 1980ء میں اعلمی ادبی خدمات پر تمغہ امتیاز حکومت پاکستان بھی مل چکا ہے۔ 


ادا جعفری کا شعری سفر تقریباً نصف صدی پر محیط ہے۔ انہوں نے نظموں کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی کہی ہیں۔ ان کی بعض نظموں کا شمار یقیناً اردو ادب کی نمائندہ نظموں میں کیا جائے گا۔ جن میں میں ساز ڈھونڈتی رہی " کے علاوہ مسجد اقصی " سر فہرست ہے۔


 غزل میں ادا جعفری کا ایک خاص لہجہ متعین ہو چکا ہے جو غزل کی روایت کے ساتھ جدید انداز شعر گوئی اور لطیف نسوانی احساسات کے خوب صورت امتزاج کا حامل ہے۔ انھوں نے اردو شاعری میں پہلی مرتبہ شاعرہ کی حیثیت سے غزل میں صیغہ تانیث کا استعمال کرتے ہوئے نہایت جرات سے اپنے جذبات اور واردات قلبی کا اظہار کیا۔ 

انجان نگاموں کی یہ مانوس سی خوشبو

کچھ یاد سا پڑتا ہے کہ پہلے بھی ملے ہیں


ابتدا میں ان کے ہاں رومانوی تحریک کے اثرات ہیں اور عورت کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ مقبول و مروج شعری موضوعات اور احساسات نظر آتے ہیں۔ اس دور میں ادا جعفری اس گھٹن اور اس حبس کا احساس دلاتی بھی نظر آتی ہیں جو ایک اٹھارہ انیس سال کی لڑکی کے ذاتی احساسات اور تجربات کی بنیاد بن گیا تھا۔ ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ہوا تو پھر وہ احساس کرب جو محض ایک خواہش کے روپ میں سامنے آیا تھا اب صدا ئے احتجاج بن کر ابھر نے لگا۔ اس مجموعے میں شامل نظم " بیزاری " میں اپنے جذبوں کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں:


  شوق کو رخصت پرواز نہیں

رفعت روح کا در باز نہیں

 چشم آسودہ سہی ، روح مگر ہے بے تاب

 ایک بے نام تغیر کے لیے 

 درد کی ٹیس سی ، الفت جاوید نہیں 

 نغمہ امید نہیں

 سوچتی ہوں کہ کوئی جملہ تاریک ہے

  کیا یہ گراں بار تسلسل، یہ حیات جاوید

 جس کی دیواروں کی سنگینی سے لرزاں ہے خیال کوئی روزن بھی نہیں، کوئی دریچہ بھی نہیں

 ایک دنیا ہے کہ ہے تیرہ و محدود و اداس


اور بھولے سے کبھی کوئی آوارہ سی چنچل سی کرن آ نکلے

 ایک لمحے کے لیے میرے تاریک گھروندلے میں اجالا ہو جائے

( بے زاری) 


ادا جعفری کے ہاں اجالے کی یہ خواہش محض ایک فرد کی خواہش نہیں ہے بلکہ عصری آگہی کی عکاس ہے۔ ادا جعفری اپنے پورے تخلیقی عہد میں اپنے ماحول اور اپنے گردو پیش سے غافل نہیں رہی ہیں۔ انھوں نے ہماری گہری اور فکری شاعری کو پہلی مرتبہ وہ لہجہ دیا۔ جس میں

عورت کا دل دھڑکتا سنائی دیتا ہے۔


 لیکن دوسرے مجموعے "شہر درد تک آتے آتے ان کے یہاں نہ صرف فنی ارتقا ہوا بلکہ موضوعات اور خیالات و احساسات میں بھی بہت تبدیلی آئی۔ عمومیت کی بجائے انفرادیت کے پہلو نمایاں ہوئے اور ان کے ہاں عورت محبوبہ کی منزل سے نکل کر مامتا کے اعلی درجے تک پہنچی۔ جذباتی مسائل کی بجائے ان کی نظر بڑے بڑے مسائل تک پہنچی۔ آزادی وطن سے قومی تہذیب اور نظام نو تک ایک بڑا افق ان کی شاعری میں در آیا۔ لیکن بنیادی اور غالب جذ بہ مامتا ہی رہا۔ ادا کی دنیا ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ اس میں ایک عالمگیریت ہے، ایک وسعت ہے جس کے جوہر نظم اور غزل دونوں اصناف میں کھلتے ہیں۔


صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت انساں

میں جنت انسان کا پتہ پوچھ رہی ہوں


میں جو اسیر ہوں تو خود اپنی نگر کی ہوں

 دل کی خوشی کو لاکھ بہانے تراش لوں

 

 غزل میں ہئیت و تکنیک کی مجبوریاں بہت سی پابندیاں لاگو کر دیتی ہیں، لیکن ادا جعفری نے اس میں بھی اپنے لیے نئی راہیں نکالی ہیں۔ ان کی غزل میں ایک نسوانی لہجہ ہی نہیں ملتا اشیاء اور دنیا پر نظر ڈالنے کا بھی ایک مختلف رویہ نظر آتا ہے۔ جس میں مامتگی کا پہلو جو عورت کی بنیادی صفت ہے نمایاں ہے۔ غزل کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی ان کا کام انفرادی نوعیت کا بلکہ ایک حوالے سے دیکھا جائے تو نظم میں ان کے یہاں زیادہ وسعت اور پہلو داری دکھائی دیتی ہے۔ ان کے چاروں مجموعوں میں نظموں کی بڑی تعداد متنوع موضوعات، احساسات اور رویوں کی نمائندہ ہے۔ حب وطن سے لے کر انسان کے ازلی وا بدی مسائل اور کائناتی وسعتوں کو چھونے کی تمنا، چھوٹے بڑے دکھ، مختلف احساسات، جذبے اور فکر میں گندھ کر فنی خوب صورتیوں سے آراستہ ہو کر شعر میں ڈھلتے ہیں تو ادا جعفری کی شاعرانہ عظمت اور انفرادیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کی نظم سلسلے میں انسانی رشتوں کے حوالے سے اقوام عالم کی چھوڑی ہوئی تہذہبی، فکری، علمی اور فنی میراث پر بنی نوع انسان کا یکساں حق، جس حسن و خوبی سے ادا ہوا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔


تمام لمحے

 جو نسل انسان کو چھو کر کے گزرے

 حوا بن آدم کے رازداں ہیں

جو بنت حوا کی داستاں ہیں

گلوں کی صورت

مثال خوشبو ہماری میراث ہیں ازل سے

وہ سب صحیفے

ہمارے صداقتوں کے جو ترجماں ہیں

ہمارےلفظوں کے آئینوں میں

ان آیتوں کی گواہیاں ہیں

 وہ سارے الفاظ جوا بھی تک

کسی زمین پر

کسی زبان میں لکھے گئے ہیں

 ہمارے خوابوں کے سلسلے ہیں

وہ سارے جذبے

وہ سارے رشتے

خلوص جاں کے، نزول غم کے

تمام پیماں

تمام پیکاں


عالمی سطح پر سوچ کا یہی وہ لہجہ ہے جو ادا جعفری کا رشتہ روئے زمین پر پھیلی ہوئی انسانیت سے جوڑ دیتا ہے اور انہیں انسان کی اجتماعی آرزوں اور ولولوں کا بے باک ترجمان بنا دیتا ہے۔ ادا جعفری کے مہذب اور تربیت یافتہ اجتماعی شعور نے انہیں زندگی کو مختلف خانوں میں باٹنے کے بجائے اسے اکائی کی شکل میں دیکھنا سکھایا ہے اور اسی سے ان کی شاعری میں رنگارنگی اور دم خم قائم ہے۔


نظم و غزل کے علاوہ ادا جعفری نے جاپانی مصنف بائیکو کے طرز پر بھی متعدد نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی ان نظموں میں فطری جذبے مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مظاہر فطرت اور اشیاء ان جذبوں کی معنی خیز ترسیل کا وسیلہ ہیں۔ وہ موسموں کی بات جذبے کے حوالے سے کرتی ہیں۔ مشرقی شاعری میں ہجر کی کیفیت کو ایک لازوال موضوع کی حیثیت حاصل ہے۔ ادا جعفری نے اس موضوع کو ہائیکو میں بڑی ندرت اور لطافت خیال سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔


 ایک آنسو ہی تھا

  رات کی جھیل میں اک ستارہ گرا

کس سے کیا کہہ سکا۔ 

(ایک آنسو ہی تھا)


ابھی تک دعا کی گھڑی ہے

 ہزاروں برس سے ہتھیلی پر حرف تمنا اٹھائے

  وہ لڑکی ابھی تک کھڑی ہے۔

   (صدیوں کا سفر)


یہ سانحہ کبھو نہ ہو

 کہ میں نماز ہجر پڑھ سکوں

  اور آنکھ باوضو نہ ہو۔

  (کبھو نہ ہو)


 مختصر طور پر یہ کھا جا سکتا ہے کہ ادا جعفری کی شاعری سماجی سچائیوں ، امن و آشتی اور انسان

دوستی کی شاعری ہے۔ زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں سے محبت اور لگاؤ ان کی تخلیقی کاوشوں کی بڑی بنیادی خصوصیت ہے۔فکر کی ندرت فن کی شائستگی اظہار کی متانت اور عالمگیر شعور کی نوعیت ان کے لہجے کی انفرادیت ہے ۔


پاکستان بننے کے بعد بہت سی ایسی شاعرات نے اپنی شعری پہچان کرائی جن کے یہاں نہ صرف اظہار کی سطح پر بلکہ جذبات و احساسات بلکہ موضوعات کے حوالے سے بھی ایک نئی دنیا کا احساس ہوتا ہے اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار مرد نہیں بلکہ ایک عورت ہے ۔


Post a Comment

0 Comments