پطرس بخاری کی مزاح نگاری

پطرس بخاری کی مزاح نگاری

  پطرس بخاری کی مزاح نگاری

یوں تو پطرس بخاری عالم، ماہر تعلیم، استاد ، براڈ کاسٹر ، مترجم، مصنف، منتظم، مدیر اور صاحب سیاست سب ہی کچھ تھے۔ لیکن ادبی دنیا میں ان کی سب سے نمایاں حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک بہت بڑے مزاح نگار تھے، ان کی مزاح نگاری کی کل کائنات ایک مختصر سی کتاب ہے جس کا نام " پطرس کے مضامین ہے۔ اس کتاب میں کل گیارہ مضامین شامل ہیں لیکن اس قدر مختصر مجموعہ ہونے کے باوجود قدرو قیمت کے اعتبار سے یہ کتاب اردو کے مزاحیہ ادب میں ایک اعلی منفرد مقام رکھتی ہے۔ چنانچہ شوکت تھانوی مضامین پطرس کے بارے میں لکھتے ہیں۔ اگر ایک پلڑے میں اردو کا تمام مزاحیہ ادب (اکبر الہ آبادی کی شاعری کو چھوڑ کر ) اور دوسرے پلڑے میں مضامین پطرس رکھ دیا جائے تو مضامین پطرس والا پلڑا بھاری رہے گا ۔

موضوعات کے اعتبار سے پطرس کے مضامین بڑی وسعت اور تنوع کے حامل ہیں۔ اس میں زندگی کے ان گنت پہلو دکھائی دیں گے اور ہر طرح کے رنگ چمکتے اور لہراتے نظر آئیں گے ۔ طالب علمانہ بے فکریوں اور ہے اعتدالیوں کے مزے ، گھریلو زندگی کے مسائل اور دلچسپ واقعات، دوستوں کی نواز شات اور کرم نوازیاں، میونسپل کمیٹی کی بدانتظامیاں اور سیاسی لیڈروں کی منافقین اور نا اہلیان ، ان موضوعات میں سے ہیں جن پر پطرس

نے قلم اٹھایا ہے۔

 آل احمد سرور نے لکھا ہے ۔ " بات کہنے اور مزاج پیدا کرنے کے عام طور پر تین طریقے ممکن ہیں۔ ایک بات کو بڑھا چڑھا کربیان کرنا۔ دوسرے سے ہلکا کرکے دکھانا۔ یہ دونوں طریقے مشہور مزاح نگاروں نے استعمال کیے ہیں۔ بعض بڑے مزاح نگاروں نے تیسرا یعنی صاف بات کہنے کا طریقہ بھی بتایا ہے برناڈشا کہتا ہے کہ سچی بات سب سے زیادہ ظریفانہ ہوتی ہے یہ پطرس کے مضامین میں بھی عام طور سے یہی تیسرا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ وہ کسی واقعہ کیفیت یا منظر بیان کرتے ہوئے دور ازکار مثالوں ، مبالغہ آمیز تشبیہات اور غیر حقیقی عناصر کی آمیزش سے حتی الامکان گریز کہتے ہیں اور اس کے برعکس جس واقعہ یا ماحول کا بھی بیان مقصود ہوتا ہے۔ اس کوحقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے معرکتہ الارا مضمون "کتے" میں لکھتے ہیں ۔ 

علم الحیوانات کےکئی پروفیسروں سے پوچھا اور سلوترلوں سے بھی دریافت کیا۔ خود بھی سر کھپاتے رہے لیکن کبھی بھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر ان کتوں کا فائدہ کیا ہے؟ گائے کو ہی لیجئے یہ دودھ دیتی ہے۔ بکری کو ہی لیجئے دودھ بھی دیتی ہے اور مینگنیاں بھی دیتی ہےمگر یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتابہت وفادار جانور ہے اب جناب انکی وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ وہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کرتےہیں تو لگاتار بغیر دم ہلائے صبح کے چھ بجے تک بھونکتےہی چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے "

ان سطور میں کوئی بات بھی خلاف واقعہ اور حقیقت سے دور نہیں ہے۔ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ زبردستی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے برعکس جو کچھ بیان کیا گیا ، وہ امر واقعہ کے عین مطابق ہے ۔ کتے رات کے وقت جس تواتر اور تسلسل سے بھونکتے ہیں اس کا تھوڑا بہت تجربہ ہم سب کو ہے۔ اس بات کو بڑی سادگی ، بھولین اور بے ساختگی کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے مضمون " سینما کا عشق “ میں لکھتے ہیں ۔

ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو اندھیرا گھپ ، بہترا آنکھیں جھپکتا ہوں، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آوز دیتا ہے ۔ یہ دروازہ بندکر دوجی یا یا اللہ اب جاؤں کہاں، رستہ ، کرسی، دیوار، آدمی ، کچھ بھی تو نظرنہیں آتا۔ ایک قدم بڑھاتا ہوں تو سر ان بالٹیوں سے ٹکرا جاتا ہے جو آگ بجھانے کے لئے دیوار پر لٹکی رہتی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں تاریک تر سا دھبہ دیکھائی دے جائے وہاں میں سمجھتا ہوں کہ شائد خالی کرسی ہوگی۔ خمیدہ پشت ہو کر میں اُس کا رخ کرتا ہوں۔ اس کے پاؤں کو پھاند ، اُس کے ٹخنوں سے ٹھکرا ، خواتین کے گھٹنوں سےاپنا دامن بچا ،اور آخر کار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں“

 یہ ایسے شخص کا حال ہے جو فلم شروع ہونے اور ہال میں تاریخی ہو جانے کے بعد ہال میں قدم رکھتا ہے ۔ اب ظاہر ہے کر ایسی حالت میں اُسے جس قسم کی صورتحال سے واسطہ پڑے گا ، وہ بجائے خود اپنی جگہ مضحکہ خیز ہے اور پطرس کے قلم نے اس مضحکہ خیزی کو اس قدر اُبھار کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ اس کی ایک ایک تفصیل نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے اور ہم

ہر ہر جملے پر اس بد حواسی کا لطف اُٹھاتے ہیں جس سے وہ شخص دو چار ہے۔ 

یہ تحریریں جو آپ نے پڑھیں ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں واقعات کے چھوٹے سے چھوٹے پہلو کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اچھے مزاح نگار کی طرح جزئیات کے بیان سے پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ یہی پطرس کا اسلوب ہے کہ بے جا خیال آرائی کرنے کی بجائے روزآنہ کے حالات ، تجربات اور مشاہدات کو سیدھی سادھی پر لطف زبان میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اسی ماحول میں پانے لگتا ہے۔

 اُن کے کردار بھی ہماری ہی دنیا کے جیتے جاگتے اور ہنستے بولتے کردار نظر آتے ہیں جن میں ایک طرف اگر کچھ صفات ہیں تو دوسری طرف کچھ انسانی کمزوریاں بھی ہیں جن سے مبرا ہونے کا کوئی انسان دعویدار نہیں ہوسکتا ۔ ہوسٹل میں پڑھنا اور سویرے جو کل آنکھ میری کھلی میں بڑی عمدگی سے طالب علمانہ زندگی کے معمولات اور طالب علموں کی نفسیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خاص طور پر سویرے جو کل آنکھ میری کھلی میں ایک، ایسے طالب علم کی بڑی معصوم تصویر پیش کی ہے۔ جو بڑے خلوص سے صبح اُٹھ کر مطالعہ کرنے کا خواہش مند تھا لیکن اپنی تمام کوششوں کے باوجود دیر تک سونے کی عادت کو سحر خیزی میں تبدیل نہ کر سکا۔ 

پطرس کا مطالعہ بہت گہرا اور معلومات بہت وسیع تھیں ۔ مشرق و مغرب کے ادبیات عالیہ پر ان کی نظر تھی ۔ اردو انگریزی دونوں زبانوں پر انہیں یکساں عبور حاصل تھا۔ ان کی تحریریں ان کے ہم عصر مزاح نگاروں سے اس لیے مختلف ہیں کہ انگریزی زبان وادب کا استاد ہونے کی وجہ سے انہوں نے انگریزی ادب کی روح کو ایشیائی مزاج دے کر اپنی تحریروں میں ایک نیا لطف اور چاشنی پیدا کر دی تھی۔ انگریزی اور یورپی مصنفین اور ان کے اسالیب کا یہ غیر شعوری طور پر ان کے مضامین میں در آیا ہے اور اس اثر نے ان کے اسلوب کو بگاڑنے یا خراب کرنے کی بجائے اس میں ایک خوشگوار اور خوشنما پیوند کی شکل اختیار کرلی ہے۔

Post a Comment

0 Comments