مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری

مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری

 مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری

مزاح پیدا کرنے کے لیہ مزاح نگار یا تو بات کو بڑھا دیتا ہے یا کھٹا دیتا ہے یا بات کو سیدھے اور صاف انداز میں بیان کرتا ہے۔ مشتاق یوسفی کی مزاح نگاری میں ہمیں پہلے دو طریقوں کا استعمال زیادہ نظر آتا ہے ۔ ان کی مزاح نگاری ایسا آئینہ ہے۔ جس میں واقعات اور کرداروں کے عکس کو حسب منشا وہ کبھی بہت چھوٹا اور کبھی بہت بڑا کر کے پیش کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ دونوں صورتوں، میں وہ تصویر ہمیں مضحکہ خیز ہی نظر آتی ہے اور یہ ہی ان کا مقصد بھی ہے کہ ہماری نظر تصویر کے اُسی رخ پر پڑے جو وہ ہمیں دکھانا چاہتے ہیں، اور جس پر اب تک ہماری نگاہ نہیں پڑی تھی۔ 

انہوں نے زندگی کے بے شمار چھوٹے بڑے واقعات اور ان گنت معاشرتی اور مجلسی پہلوؤں میں مزاح کے وہ گوشے تلاش کئے ہیں جو اُن کی نشاندہی کے بغیر شاید اب تک ہماری نظروں سے اوجھل ہی رہتے۔ ان کا مشتاق قلم اور تیکھی ذہانت پرانی چیزوں میں وہ تازگی پیدا کر دیتی ہے کہ پڑھنے والا ایک خوشگوار حیرت اور انجانے انبساط کے عالم میں ڈوب جاتا ہے۔ آیئے دیکھیں کہ اشیاء کے اوصاف کو گھٹانے اور بڑھانے میں یوسفی کا قلم مزاح کے کیسے کیسے کرشمے دکھاتا ہے۔ 

مثال نمبر 1 :

 اپنی پسندیدہ خوشبو کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں خوشبوؤں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو بہت مرغوب ہے میرا خیال ہے کہ سرسبز تازہ تازہ اور کرارے کرنسی نوٹوں کا عطر نکال کر ملازمت پیشہ حضرات اور ان کی بیویوں کو مہینے کی آخری تاریخوں میں سنگھایا جائے تو گر ہستی زندگی جنت کا نمونہ بن جائے "

خوشبو کا بیان کرتے ہوئے کسی روایتی یا مشہور عطر اور سینٹ کا نام لینے کے بجائے کرنسی نوٹوں کی خوشبو کا تذکرہ کرنا بجائے خود ایک انوکھی بات ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان نوٹوں کا عطر نکال کر ملازمت پیشہ حضرات اور ان کی بیویوں کو سنگھانے کی تجویز بظاہر ایک مبالغہ آمیز بات نظر آتی ہے۔ لیکن اس میں معاشی نا آسودگی پر جو ایک لطیف طنز پنہاں ہے اس سے

ملازمت پیشہ حضرات اور ان کی بیویاں بخوبی لطف اندوز ہو سکتی ہیں کہ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس سے ہمارےملک کے کم و بیش نوے فیصد گھرانے دوچار ہوتے ہیں۔ 

مثال نمبر 2:

 اپنے ایک سگریٹ نوش دوست کے بارے میں لکھتے ہیں قدرے تفصیل سے بتانے لگے کہ سیگریٹ نہ پینے سے حافظے کا یہ حال ہوگیا تھا کہ ایک رات پولیس نے بغیر بتی کے سائیکل چلاتے ہوئے پکڑ لیا تو اپنا صحیح نام اور ولدیت تک نہ بتا سکا اور اب بفضلہ یہ عالم ہے کہ ایک ہی دن میں آدھی ٹیلی فون ڈائریکڑی ” حفظ ہو گئی۔ مجھے لا جواب ہوتا دیکھ کر انہوں نے فاتحانہ انداز سے دوسری سگریٹ سلائی ۔ ماچس احتیاط سے بجھا کہ ہونٹوں میں دبا لی اور سگرٹ ایش ڑے میں پھینک دی۔

اس اقتباس میں اپنے دوست کی سگریٹ نوشی پرطنز کیا ہے کہ سگریٹ نوشی شروع کرنے کے بعد یادداشت اتنی زیادہ خراب ہو گئی کہ سگریٹ اور ماچس میں تمیز نہ کر سکے جبکہ اُن کا دعوی یہ تھا کہ سگریٹ نوشی کے بعد یاداشت پہلے سے بہتر ہو گئی ہے۔

مثال نمبر 3:

ایک مضمون میں مرغیوں کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے " ایک اور سنگین غلط فہی جس میں خواص و عوام مبتلا ہیں اور جس کا ازالہ میں رفاہ عام کے لئے نہایت ضروری خیال کرتا ہوں یہ ہے کہ مرغیاں ڈربے اور ناپے میں رہتی ہیں۔ میرے ڈیڑھ سال کے مختصر مگر بھرپور تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ مرغیاں ڈربے کے سوا ہر جگہ نظر آتیں ہیں اور جہاں نظر نہ آئیں وہاں اپنے ورود و نزول کا ناقابل تردید ثبوت چھوڑ جاتی ہیں۔ ان آنکھوں نے بارہا غسل خانے سے انڈے اور کتابوں کی الماری سے جیتے جاگتے چوزے نکلتے دیکھے۔ لحاف سے کڑک مرغی اور ڈربے سے شیو کی پیالی بر آمد ہونا روز مرہ کا معمول ہو گیا، اور یوں بھی ہوا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور میں نے لپک کو ریسیور اٹھایا مگر میرے ہیلو کہنے سے پیشتر ہی مرغی نے میری ٹانگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اذان دی اور جن صاحب نے ازراہ لطف مجھے یاد فرمایا تھا انہوں نے سوری رانگ نمبر کہہ کر جھٹ فون بند کر دیا "

ہو سکتا ہے کہ ان سطور میں آپ کو تھوڑا سامبالغہ نظر آئے لیکن یہی یوسفی کا فن ہے کہ وہ بیان میں تھوڑا سا مبالغہ کر کہ زیادہ مزاح پیدا کرنے کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ اس اقتباس میں ایک ایسے گھر کا نقشہ بڑی خوبی سے کھینچا گیا ہے۔ جہاں مرغیاں نہ صرف پلی ہوئی ہیں بلکہ انہیں گھر میں گھومنے پھرنے کی بھی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ایسی صورت میں گھراور گھر والوں کی جو حالت زارہ ہوگی وہ شاید اس سے ذرا بھی مختلف ہو جو یوسفی نے بیان کی ہے۔

یوسفی کے اسلوب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ عبارت میں چند ایسی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں جن کا بظاہر آپس میں معنوی تعلق نہیں ہوتا وہ ایک ہی جملے میں ان بظاہر بے ربط اجزاء کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ ان میں ایک معنوی ربط اور تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ یوسفی سے پہلے یہ خصوصیت ہمیں رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں بھی ملتی ہے لیکن یوسفی نے اس کو اس طرح اپنے یہاں برتا ہے کہ اسے درجہ کمال پر پہنچا دیا ہے۔ وہ جب ایسی مختلف النوع اشیاء کا ذکر کرتے ہیں تو ان اشیاء کا تعلق ثابت کرنے کے لئے کسی منطقی جواز با عقلی دلیل کے بجائے ایسی ظرافت آمیز توجہہ

پیش کرتے ہیں کہ ہم اس پر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ذیل کی مثالوں سے شاید اس بات کی کچھ وضاحت ہو سکے ۔ 

مثال نمبر 1 : 

" پھر اس بہانے اپنے متعلق چند ایسے نجی سوالات کا دندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے جو ہمارے یہاں صرف چالان اور جہلم کے موقع پر پوچھے جاتے ہیں۔ 

مثال نمبر 2: 

میں دماغی صحت کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان کو صحیح غذا اور غلط مشورہ ملتا ہے ۔ اسی سے ذہنی توازن قائم رہتا ہے۔ 

مثال نمبر 3 : 

بالآخر اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کہ راز دارانہ انداز میں کچھ ایسے بھی سوالات کئے جن کے پوچھنے کا حق میری ناچیز رائے میں بیوی اور منکر نکیر کے علاوہ کسی کو نہیں پہنچتا ۔

 لفظوں کو نئے معنی پہنانے اور تازہ بہ تازہ ظرافت آمیز تراکیب وضع کرنے میں یوسفی کو خاص ملکہ حاصل ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس خصوصیت کو مشتاق یوسفی نے اس فنی مہارت سے اپنے اسلوب کا جزو بنایا ہے کہ انہی سے مخصوص ہو کر رہ گئی ہے تو شاید نا مناسب نہ ہوگا۔ موضوع کی مناسبت سے وہ زبان پر چڑھے ہوئے جملوں ، محاوروں ضرب الامثال اور مشہور اشعار میں ایسی کانٹ چھانٹ اور تبدیلی کرتے ہیں اور اس طرح الفاظ کی شکل بدل کر اسے نیا رنگ دیتے ہیں کہ اصل لفظ، جملہ اور محاورہ بالکل بے وقعت ہو کر رہ جاتا ہے اور ان کا تراشا ہوا جملہ اور ان کی وضع کی ہوئی ترکیب ہمارے دل میں گھر کر لیتی ہے۔ چونکہ وہ لہجے کی نزاکتوں ، زبان کی باریکیوں اور لفظ کے مزاج سے گہری واقفیت رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ کسی لفظ میں کہاں کوئی حرف بدلنے سے جملے کا حسن بڑھ جائے گا۔ اس لیے ان کے لفظی تصرفات میں ایک تخلیقی شان نمودار ہو جاتی ہے۔ ایسے نادر تراشے ترشائے ہیرے کی طرح جگمگاتے ۔ بیساختہ اور برجستہ جملے پطرس اور رشید احمد صدیقی کے بعد مشتاق یوسفی کی تحریروں میں بھی نظر آتے ہیں۔

مثال نمبر 1 :

اپنے مضمون " پڑھیئے گر ہمار" میں لکھتے ہیں ۔ سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں بے دخل ہے کہ بقائمی ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضل خدا چاق و چوبند ہوں ۔ صرف پیچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں ۔ مگر وہ اس مسئلے کو قابل دست اندازی مریض نہیں سمجھتے " 

مثال نمبر 2 : 

" اور اُس کے بعد وہ مجھے نہایت تشخیص ناک نظروں سے گھورنے لگے " 

مثال نمبر 3:

 اپنے مضمون کافی میں انہوں نے کافی کی بڑی برائی کی ہے۔ اس مضمون میں جب ایک دوست کی بات کا جواب نہیں بن پڑتا تو کہتے ہیں۔ مجھے غصہ تو بہت آیا مگر کافی کا سا گھونٹ پی کر رہ گیا " 

مثال نمبر 4 : 

کراچی کے موسم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہاں بارش بہت کم ہوتی ہے ۔ چناچہ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لئے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی روپیہ کی طرح بہایا جاتا ہے۔ "

 مثال نمبر 5: 

ایک مضمون میں رات کے وقت کتوں کی لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ رات کو گھمسان کارن پڑا۔ کتوں کے پشتے لگ گئے ۔ 

مشتاق یوسفی کے ALLITERATION کی صنعت کا استعمال بھی جگہ جگہ ہے۔ ALLITERATION کا مطلب یہ ہے کہ جملے میں دو ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جو ایک ہی حرف سے شروع ہوتے ہوں۔ ایسے دو الفاظ کا بیک وقت ایک ہی جملے میں استعمال کرنے سے جو ایک صوتی حسن اور لفظی خوش آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے جملے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے یہاں صرف دو مثالیں دی جاتی ہیں۔ 

1-خود ہمارے یہاں ایسے لائق قیافہ شناس دال روٹی پر جی رہے ہیں جو ذرا سی بوٹی چکھ کہ نہ صرف بکری کے چارے بلکہ چال چلن کا بھی مفصل حال بتا سکتے ہیں

2 - پوچھا " خیام پڑھ رہے ہویا کہنے لگے ۔ " نہیں تو ۔ ہسٹری ہے " مگر آثار تو ہسٹریا کے ہیں۔

3-مرغ اور ملا کے رزق کی فکر تو خدا کو بھی نہیں ہوتی ۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ یوسفی نے لفظی اختراعات کے ذریعے مزاج کے نئے نئے پہلو تلاش کرنے میں جو کمال حاصل کیا ہے وہ کچھ انہی کا حصہ ہے لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یوسفی کامزاج محض الفاظ کے الٹ پھیر تک محدود ہے۔ ان کی مزاح نگاری میں زبان کا ایک خاص لطف اور چٹخارہ ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں وہ طنز بھی ہے جو ہمارے دل کے تاروں کو جھنجھوڑتا ہے اور ہمارے ذہن کو چونکاتا ہے۔ انہوں نے ہماری تہزیبی اور مجلسی زندگی کے بعد کمزور پہلوؤں کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں اور اس طرح ان کی تحریر معنی خیز اشارے کئے ہیں اس طرح انکی تحریر طنز وظرافت کا ایک خوشگوار امتزاج لے کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ جملے دیکھتے جن کے طنز میں بلا کی گہرائی اور غضب کی کاٹ ہے۔ 

1 - " انصاف کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں نانوے فی صد لوگ ایک دوسرے کو مشورہ کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتے ہیں۔

2- سچ تو یہ ہے کہ حکومتوں کے علاوہ کوئی بھی اپنی موجودہ ترقی سے مطمئن نہیں ہوتا ۔ 

3-اونچے گھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کو غریب رشتے داروں کی طرح کونے کھدروں میں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔

4- ہماری ہو شامت آئی تو بول اُٹھے۔ 

مرزا کرکٹ رئیسوں کا کھیل ہے۔ دیکھتے نہیں یہ مر رہا ہے۔ اس کا کوئی مستقبل نہیں ۔ کیونکہ اسے نہ روسی کھیلتے نہیں اور نہ امریکی

مرزا نے چھوٹتے ہی دہلا لگایا۔ اسی سے کچھ امید بندھتی ہے کہ شاید یہ کھیل زندہ رہ جائے۔

(واسلام)

Post a Comment

0 Comments