Farhat Abbas Shah Poetry In Urdu||Latest Urdu Poetry By Farhat Abbas Shah
غزل نمبر 1
بیناٸی ہے یا پھر ہے کوٸی روگ برہنہ
آتے ہیں نظر چاروں طرف لوگ برہنہ
سرماٸے کا بندوق سے رشتہ رہا خفیہ
آخر کو ہوا چوک میں سنجوگ برہنہ
رکھوں گا ترے درد کو پردوں میں ہمیشہ
میں ہونے نہیں دوں گا ترا سوگ برہنہ
یہ ننگ ِ دہن ننگ ِ شکم ہم ہی ہیں ورنہ
رزاق نہیں کرتا کبھی چوگ برہنہ
کیونکر ترے کردار پہ اٹھے گی نہ انگلی
کر دیتی ہے اک حرص اگر جوگ برہنہ
سمجھایا تھا بےپردہ کیا کر نہ کسی کو
جو باقی ہیں دن بیٹھ کے اب بھوگ برہنہ
فرحت عباس شاہ
غزل نمبر 2
جہاں جہاں ترا جور و ستم علامت ہے
فغاں کہ سب کے لیے باعث ِ ندامت ہے
مرا کنایہ سمجھ ظاہری متن پہ نہ جا
ترا قصیدہ نہیں غور کر ملامت ہے
ہے سرو قد تِرا نیزہ ، کمر بگولہءگُل
اور اس پہ ناز سے چلنا ترا قیامت ہے
کسی کے غم کا مداوا ہوا اگر مجھ سے
مِری نہیں یہ مِرے شعر کی کرامت ہے
نہیں ہے دنیا و دیں سے کوٸی علاقہ ہمیں
ہمارے ذمے فقط عشق کی امامت ہے
نہ تھی ، نہ ہے ، نہ کبھی ہوگی بخت کی خواہش
یہی بہت ہے کہ اب تک بھرم سلامت ہے
جتن وہ کرتےہیں جب بھی مجھے چھپانےکا
تو دور سے نظر آتا ہوں میں کہ قامت ہے
مرے مقام کی تکذیب ہو نہ ہو ، ہوگی
ہمیں پتہ ہے کہ آج آپ کی نظامت ہے
تمہارے شعر میں جدت کہاں سے آٸے گی
تمہاری ملبہ صفت فکر میں قدامت ہے
خیال اُس کا ، زمیں اِس کی لفظ لغت کے
حضور شاعری کب ہے نِری ضخامت ہے
فرحت عباس شاہ۔
غزل نمبر 3
میں زیرٍ بحرٍ عزاء عرض و طول ہوں اور ہوں
ملول پیدا ہوا تھا ملول ہوں اور ہوں
بہت بلند ھے افلاک سے مری پرواز
میں خاکٍ پائے علی و بتول ہوں اور ہوں
میں اپنےآپکودیکھوں توخار وخس بھی نہیں
پہ آل ہونے کی نسبت سے پھول ہوں اور ہوں
تری خوشی مجھے کرتی ھے رد تو کرتی رہے
مگر میں لشکرٍ غم کو قبول ہوں اور ہوں
گناہگار ہوں ، ادنٰی ہوں ، دنیار دار ہوں میں
پہ امتیِ جناب رسول ہوں اور ہوں
منافقت سے بہت دور ہوں اسی لیے تو
کسی کو نیم کسی کو ببول ہوں اور ہوں
جنہوں نے مانا محمد کا آخری خطبہ
میں ان صحابہ کےپیروں کی دھول ہوں اور ہوں
علی سے بغض رکھو گے تو مجھ سے دور رہو
میں حق پرست بہت با اصول ہوں اور ہوں
نہ زاہدوں کے مطابق ہوں اور نہ رندوں کے
سو میں یہی ہوں جو حاصل وصول ہوں اور ہوں
فرحت عباس شاہ
غزل نمبر 4
تازہ غزل
جیسے ہی نظر آٸی لب ِ ناز کی رنگت
اڑنے لگی فرحت دل ِ ناساز کی رنگت
تصویر سنی ہے کبھی آنکھوں میں بکھرتی
اُڑتی ہوٸی دیکھی کبھی آواز کی رنگت
ہونے لگی محسوس کوٸی موت سنورتی
یاد آٸی اچانک مجھے اک راز کی رنگت
پھیکی ہی پڑی دیکھی ہے اس عشق میں یارو
انجام کی رنگت ہو یا آغاز کی رنگت
یہ موقع محل دیکھ کے پل پل ہے بدلتی
ٹھہری کہاں رہتی ہے دغاباز کی رنگت
خوش اتنے تھے احباب کہ ڈسنے لگے مل کر
نیلی ہے ابھی تک میرے اعزاز کی رنگت
میرے ہی خلاف اس کو بلایا گیا جس وقت
تھی دیکھنے والی مرے ہمراز کی رنگت
فرحت عباس شاہ
غزل نمبر 5
چبھنے لگے آنکھوں میں خد و خال ِ شکستہ
آنے لگا ہے منہ کو مرے حال ِ شکستہ
طے تھا کہ بسر ہونا ہے تجھ کو لب ِ ایزا
اے عمر ِ پریشان ِ مہ و سال ِ شکستہ
سوچا کہ وہ بیکار چلے آۓ تھے ملنے
یاروں نے سنے جب مرے احوال ِ شکستہ
اک اجڑے ہوے دیس کے سہمے ہوۓ بازار
کچھ دھجیاں اور چند پر و بال ِ شکستہ
مایوس مفکر کی طرح لوٹ رہا ہوں
سینے سے لگاۓ ہوۓ اقوال ِ شکستہ
آتی ہی نہیں یاد محبت کی کہانی
پیچھا ہی نہیں چھوڑتے سُرتال ِ شکستہ
ہونٹوں سے ادا ہوتا نہیں شکوہء موہوم
آنکھوں سے نکلتا نہیں سیال ِ شکستہ
اے شعر ِ فغاں خیز گزارش ہے بس اتنی
دنیا کو بتانا نہ مرا حال شکستہ
اب دیکھٸیے کیا شکل اُٹھاتی ہے ہزیمت
بسمل ہوں میں اور اس پہ ترا جال شکستہ
فرحت عباس شاہ
غزل نمبر 6
چوک خاموش ، چمن خوف زدہ
سارے کا سارا وطن خوف زدہ
آرزو ، خواب ، تصور ، امید
بے کلی ، درد ، تھکن خوف زدہ
میتیں اپنی جگہ ہیں لیکن
میں نے دیکھے ہیں کفن خوفزدہ
سامنے والے اِدھر اور اُدھر
گُم نشیں ، کار فگن خوفزدہ
بوریے والے تو تھے اور اب ہے
صاحب ِ سرو و سمن خوفزدہ
کل تری لاش بھنبھوڑیں گے یہی
آج لگتے ہیں جو تن خوفزدہ
بم کو بزنس پہ لگانے والو
کیوں نہ ہو ٹینک شکن خوف زدہ
ہم پہ مولا کا کرم تو دیکھو
ہیں سبھی دکھ میں مگن ، خوفزدہ
غزل نمبر 7
وقت خاموش ، ہوا خوف زدہ
چار سُو خلق ِ خدا خوف زدہ
میں نے پوچھا مری جاں کیسے ہو
اس نے ہولے سے کہا خوف زدہ
اپنی بستی کے گلی کوچوں میں
دوڑی پھرتی ہے وفا خوف زدہ
اک مرا باغ ہے اس باغ سے اب
لوٹ جاتی ہے صبا خوفزدہ
میرا لاہور بھی دلی کی طرح
آج کل پایا گیا خوف زدہ
بعد میرے کوٸی پوچھے گا ضرور
کون اس جا سے گیا خوفزدہ
کوٸی مت بولے کہ ہے سارا وطن
سخت مایوس خفا خوف زدہ
فرحت عباس شاہ
0 Comments