اردو کے گیارہ مشہور معروف شعراء||اردو شعراء کا مختصر تعارف

اردو کے گیارہ مشہور معروف شعراء||اردو شعراء کا مختصر تعارف


(1) حفیظ جالندھری کا مختصر ترین تعارف :


(1900ء۔۔۔۔۔۔۔۔1982ء)


محمد حفیظ نام اور حفیظ تخلص تھا۔ جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ گھر یلو حالات سازگار نہ تھے، اس لیے تعلیم ادھوری رہ گئی ۔ شعر و شاعری کا فطری ذوق رکھتے تھے ، چناں چہ بچپن ہی میں شعر کہنے لگے۔ مولانا غلام قادر گرامی کی شاگردی اختیار کی۔ مختلف ادبی رسائل میں لکھتے رہے۔ مشاعروں نے انھیں شہرت دی۔ مختلف سرکاری محکموں سے وابستہ رہے۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان چلے آئے۔ ۱۹۸۲ء میں لاہور میں فوت ہوئے۔ ان کا مزار اقبال پارک میں، مینار پاکستان کے قریب واقع ہے۔


 زبان کی صفائی اور سادگی سوز وگداز اور موسیقیت ان کے کلام کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ پاکستان کا قومی ترانہ ان کی ایک باعث فخر تخلیق ہے۔ انھوں نے دیگر بہت سی قومی نظمیں بھی لکھی ہیں ۔ حفیظ جالندھری ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے مختلف اصناف سخن ( مثنوی، گیت ، غزل اور نظم وغیرہ ) میں طبع آزمائی

کی۔


شاہ نامہ اسلام ان کی ایک قابل قدر تخلیق ہے۔ یہ اردو کی قومی ،ملی اور رزمیہ شاعری میں عمدہ اضافہ ہے۔ ان کی چند تصانیف یہ ہیں: تلخابۂ شیریں، سوز و ساز، حفیظ کے گیت ،حفیظ کی نظمیں ، چیونٹی نامہ ۔


(2) احسان دانش کا مختصر ترین تعارف:


(1914ء۔۔۔۔۔۔۔1982ء)


احسان الحق نام اور دانش تخلص تھا۔ احسان دانش کے قلمی نام سے مشہور ہوئے ۔ کاندھلہ، ضلع مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ والد کی مالی حالت نا گفتہ بہ تھی ۔ عربی اور فارسی حافظ محمد مصطفی سے پڑھی۔ سکول میں صرف چند جماعتیں پڑھ سکے اور غربت کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا ۔ بچپن ہی سے محنت مزدوری کرنے لگے۔ مزدوری کرنے لاہور آئے تو اینٹیں ڈھوئیں ، معماری کی ، چوکیداری کرتے رہے، چپراسی اور مالی بھی رہے۔ اس دوران میں لائبریریوں میں بھی جاتے رہے اور مطالعہ جاری رکھا۔ موزوں طبع تھے ، شعر گوئی کا شوق بھی تھا، قاضی محمد ذکی کی صحبت ملی تو شعر کہنے لگے۔ 


احسان دانش قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کی شاعری مشرقی اقدار کی آئینہ دار ہے۔ انھیں غزل اور نظم دونوں پر یکساں قدرت حاصل تھی مگر ان کی وجہ شہرت ان کی نظمیں ہیں۔ ان کی نظموں میں جہاں عام آدمی کے دکھوں کا اظہار ملتا ہے، وہاں قدرتی مناظر کی عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے۔ انھیں مزدور شاعر کہا جاتا


ان کی تصانیف میں حدیث زندگی، درد زندگی، نوائی کارگر، آتش خاموش، گورستان، زخم و مرہم اور شیرازہ شامل ہیں۔ ان کی آپ بیتی جہان دانش بہت مقبول ہوئی۔


(3) میرانیس کا مختصر ترین تعارف:


(1800ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔1874ء)


میر انیس کا اصل نام سید ببر علی اور تخلص انیس تھا۔ آپ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ فارسی اور عربی اپنے والد میر خلیق سے پڑھی۔ دیگر مروجہ علوم فیض آباد کے ایک عالم میر نجف علی سے حاصل کیے۔ حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ شہسواری اور سپہ گری کے فن بھی سیکھے۔ میرا نیس موزوں طبع تھے۔ ان کے خاندان کے اکثر لوگ شعر کہتے تھے۔ فیض آباد کے جس ماحول میں میرانیس پروان چڑھے، اس میں ہر طرف شاعری کا چرچا تھا۔ اس ادبی فضا نے میر انیس کے طبعی رجحان کو جلا بخشی اور وہ بچپن ہی سے شعر کہنے لگے۔ کبھی کبھی والد کے ساتھ لکھنو کے مشاعروں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ اس کے بعد لکھنو آگئے ۔ 


میر انیس ایک بلند پایہ مرثیہ نگار تھے ۔ ان کے مراثی میں سوز و گداز ، کردار نگاری ، جذبات نگاری اور منظر کشی کے بے مثال نمونے ملتے ہیں، جو ان کی قادر الکلامی کی دلیل ہیں۔ انھوں نے واقعات و جذبات کے نہایت خوب صورت مُرقعے پیش کیے ہیں۔ مرثیہ پڑھنے کا انداز ایسا تھا کہ سماں باندھ دیتے تھے۔ اردو کے معروف محقق حافظ محمود شیرانی کے بقول : 


"وہ اقلیم مرثیہ گوئی کے شہنشاہ تھے ۔ " میر صاحب بہت پُر گو تھے۔ انھوں نے متعدد مرثیے لکھ ڈالے اور کوئی مرتبہ ڈیڑھ سو، دوسو بند سے کم کا نہ ہوگا، لیکن باوجود پُر گوئی کے، ان کے کلام میں کہیں ابتذال یا عامیانہ پن نہیں آنے پایا۔ 


ان کے کچھ مراثی انتخاب مراثی انیس کے نام سے مجلس ترقی ادب لاہور سے اور انیس کے مرثیے (دو جلدیں، مرتبہ: صالحہ عابد حسین)، رباعیات انیس اور انیس کے سلام نامی کتب بھارت سے شائع ہو چکی ہیں ۔


(4) جوش ملیح آبادی کا مختصر ترین تعارف :


(1800ء۔۔۔۔۔۔۔۔1874ء)


جوش ملیح آبادی لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ پورا نام شبیر حسن خاں اور جوش تخلص تھا۔ قلمی نام جوش ملیح آبادی اختیار کیا۔ ان کے خاندان میں علم وادب کی روایت موجود تھی۔ ان کے دادا بھی شاعر تھے۔ جوش نے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی۔ ان کا گھرانا، مالی طور پر آسودہ تھا۔ سینٹ پیٹرک کالج آگرہ اور علی گڑھ کالج میں زیر تعلیم رہے، مگر سینیئر کیمبرج سے آگے نہ بڑھ سکے۔ 


اوائل میں رابندر ناتھ ٹیگور سے متاثر تھے، اس لیے ان کی شاعری میں ٹیگور کے اثرات ملتے ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں حیدرآباد دکن جا کر عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ سے وابستہ ہوئے اور تقریبا تیرہ سال تک وہاں ملازمت کی ۔ بعد ازاں متعدد ادبی رسالوں کے مدیر رہے۔ جوش نے فلموں کے لیے گیت بھی لکھے ۔ ۱۹۵۶ء میں پاکستان آگئے اور ترقی اردو بورڈ کراچی سے منسلک ہوئے ۔ عمر کا آخری زمانہ اسلام آباد میں گزارا۔ 


جوش زبان و بیان پر ماہرانہ دسترس رکھتے تھے۔ الفاظ کے در و بست پر انھیں قدرت حاصل تھی ۔ رومانوی شاعری ان کا امتیاز ہے۔ انھیں ” شاعر انقلاب، بھی کہا جاتا ہے۔ اردو کی مقبول ترین صنف سخن غزل سے ان کی دل چسپی نہ تھی، بلکہ ان کا شمار غزل کے مخالفین میں ہوتا ہے۔ وہ نظم کے شاعر تھے۔


ان کا پہلامجموعہ کلام روح ادب ۱۹۲۹ ء میں شائع ہوا۔ دیگر مجموعوں میں شعلہ و شبنم، حرف و حکایت سنبل وسلاسل ،جذبات فطرت، سرود و خروش، شاعر کی راتیں وغیرہ شامل ہیں۔ جوش کی خود نوشت یادوں کی برات ان کے مخصوص اسلوب نثر کا نمونہ ہے۔


(5)جمیل الدین عالی کا مختصر ترین تعارف:


(1926ء۔۔۔۔۔۔۔۔2015ء)


جمیل الدین عالی دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ ریاست لوہارو کے نواب علاء الدین علائی کے پوتے ہیں۔ علائی مرزا غالب کے دوست اور شاگرد تھے ) ۱۹۵۱ء میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے سول سروس میں شامل ہو گئے۔ صدر پاکستان محمد ایوب خان کے افسر بکار خاص بھی رہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کا قیام انھی کی کاوشوں سے عمل میں آیا۔ ۱۹۶۷ء سے روزنامہ جنگ سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔ متعدد ادبی اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔


جمیل الدین عالی کا شمار بسیار نویس ادبیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے سفر نامے، غزلیں ، دو ہے، گیت اور ملی نغمے لکھے۔ ان کے ملی نغے مختلف نصابات کا حصہ رہے ہیں۔


انکی معروف تصانیف میں دوہے ، گیت، جیوے جیوے پاکستان ،دنیا مرے آگے ، تماشا مرے آگے ، صدا کر چلے اور دعا کر چلے شامل ہیں۔۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگوں میں ان کے ملی ترانوں کو خاصی شہرت ملی۔  


(6) دلاور فگار کا مختصر ترین تعارف :


(1929ء۔۔۔۔۔۔۔۔1998ء)


دلاور فگار کا اصل نام دلاور حسین تخلص پہلے شباب تھا پھر فگار اختیار کیا۔ بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بدایوں ہی میں حاصل کی۔ ایم اے اردو کا امتحان آگرہ یونی ورسٹی سے اول بدرجہ اول پاس کیا۔ اسی یونی ورسٹی سے ایم اے معاشیات کا امتحان بھی پاس کیا۔ 


دلاور فگار نے شاعری کا آغاز غزل سے کیا۔ معروف شاعر شکیل بدایونی کے مشورے کے بعد شگفتہ شاعری کی طرف مائل ہو گئے اور اس شعبے میں کمال حاصل کیا۔ بطور مزاحیہ شاعر انھیں بھارت میں بھی شہرت حاصل تھی۔ ۱۹۶۹ء میں ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گئے۔ یہاں بھی واقعاتی مزاحیہ شاعری میں انھیں قبول عام ہوا۔


دلاور فگار کی حس مزاح تیز ہے۔ شعر گوئی کی ہنر مندی اور طنز کا مخصوص انداز ان کی شاعری کی شہرت اور مقبولیت کا بڑا سبب ہے۔


ان کے شعری مجموعوں میں حادثے (غزلیات)، ستم ظـــريــفیـــان ،شامت اعمال، آداب عرض ،انگلیاں فگار اپنی، از سر نو ،مطلع عرض ہے ،خدا جھوٹ نہ بلوائے اور فی سبیل اللہ اہم ہیں۔ علاوہ ازیں وہ کراچی کے اخبارات نوائے وقت، جسارت اور مساوات میں منظوم کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ ان کا تمام مزاحیہ کلام کلیات دلاور فگار کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ ۱۹۹۸ء میں کراچی میں انتقال کیا۔


(7)مرزا محمود سرحدی کا مختصر ترین تعارف :


(1913ء۔۔۔۔۔1976ء)


مرزا محمود سرحدی مردان میں پیدا ہوئے ۔ اصل نام عبداللطیف تھا۔ تعلیم کا سلسلہ مردان ہی میں مکمل ہوا۔ عملی زندگی کا آغاز فوج کی ملازمت سے کیا مگر اسے غیر موزوں پا کر ملازمت چھوڑ دی۔ اس کے بعد شعبہ تعلیم سے منسلک ہو گئے اور گورنمنٹ ہائی سکول پشاور میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں علامہ مشرقی ہائی سکول پشاور کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔ زندگی کے بعض مرحلوں پر انھیں کلر کی اور مزدوری بھی کرنی پڑی۔ انھوں نے عمر بھر شادی نہیں کی ۔ آخری عمر میں دمے کا شکار رہے۔ طالب علمی کے زمانے ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔


محمود سرحدی اردو طنز و مزاح میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ۔ ان کے طنز و مزاح پر مقامی ماحول کا بہت اثر ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کی صورت حال کی مضحک تصویر یں نہایت مہارت کے ساتھ نمایاں کرتے ہیں ،جن میں طنز کا عنصر نہایت گہرا ہوتا ہے۔ عوامی اور معاشرتی مسائل پر ان کا قلم خوب رواں ہوتا ہے۔ 


پشاور کے جریدے سنگ میل کے ذریعے سے وہ ادبی حلقوں میں متعارف ہوئے ۔ ان کی زندگی میں ان کا شعری مجموعہ سنگینے شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ اندیشه شهر بعد از مرگ ۱۹۷۰ء میں چھپا۔ کچھ غیر مطبوعہ کلام بھی موجود ہے۔


(8) حسرت موہانی کا مختصر ترین تعارف :


(1875ء۔۔۔۔۔۔1951ء)


حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن اور حسرت تخلص تھا۔ آپ یو پی کے قصبے موہان میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے موہانی کہلائے۔ ایم اے او کالج علی گڑھ سے بی اے کیا۔ کچھ عرصہ ادبی رسالہ اردوئے معلی نکالتے رہے، پھر ان کی باغیانہ تحریروں کی وجہ سے انگریز حکومت نے یہ رسالہ بندکر دیا۔ حسرت موہانی تحریک آزادی کے اہم رہنما تھے اور برطانوی سامراج کی مخالفت کی وجہ سے انھیں طویل عرصے تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اس زمانے میں قید بامشقت انتہائی سخت اور تکلیف دہ ہوتی تھی ۔ روزانہ ایک من گیہوں دستی چیکی پر پیسنا پڑتا تھا۔ 

 

 ۱۹۴۶ء میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی، اور بھارت ہی میں مقیم رہے اور بھارتی پارلیمنٹ میں ہمیشہ کلمہ حق بلند کرتے رہے۔

  حسرت موہانی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ عشق و عاشقی کے جذبات ان کی غزل میں بہت نمایاں میں اور اس کا بنیادی عصر منقول ہے ، اس لیے انھیں رئیس المتغزلین " کا لقب دیا گیا ہے۔ 

  

حسرت، اعلیٰ پائے کے غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ، انتقاد ادبیات میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ زبان وبیان کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ انھوں نے دیوان غالب کی شرح بھی لکھی ہے۔ ان کی تصانیف میں نکات سخن، انتخاب سخن ،مشاہدات زندان ،کلیات حسرت موہانی اور انتخاب اُردوے معلی شامل ہیں۔


(9) جگر مراد آبادی کا مختصر ترین تعارف :


(1890ء۔۔۔۔۔۔۔1960ء)


جگر کا اصل نام علی سکندر اور تخلص جگر تھا۔ بنارس میں پیدا ہوئے لیکن ان کا خاندان بوجوہ بنارس سے ہجرت کر کے مراد آباد میں آبسا تھا، چنانچہ " جگر مراد آبادی" کہلائے اور اسی قلمی نام سے مشہور ہوئے ۔ جگر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ، جس میں فارسی کی چند ابتدائی کتابیں شامل تھیں۔ شاعری کا ذوق ورثے میں پایا تھا۔ جگر کے والد علی نظر، صاحب دیوان شاعر تھے۔ جگر اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے نیک ، درویش منش اور سلیم الطبع تھے ۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بہت ہی نعتیں بھی کہیں ۔ دین کی طرف ان کی توجہ اور رغبت میں اصغر گونڈوی کا بھی دخل تھا۔


 جگر مشاعروں میں بہت مقبول تھے۔ ان کی آواز بہت اچھی تھی ، وہ شعر خوانی ترنم سے کرتے ، اس لیے مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ ان کے ہاں تغزل کے عناصر نمایاں ہیں۔ ابتدائی دور میں وہ داغ دہلوی سے متاثر تھے لیکن پر غزل گوئی میں اپنا ایک خاص رنگ پیدا کیا تا ہم غزل کی کلاسیکی روایت کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کا کلام

پختہ ہے اور اس میں ایک والہانہ پن اور نغمگی کا احساس ہوتا ہے۔ 


ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن میں آتش گل، داغ جگر اور شعلۂ طور زیادہ مقبول ہوئے۔


(10) فراق گورکھپوری کا مختصر ترین تعارف :


(1896ء۔۔۔۔۔۔۔1982ء)


فراق گورکھ پوری، گورکھ پور کے ایک معزز ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ کائستھ ہندو گھرانوں کے دستور کے مطابق، ابتدائی تعلیم اُردو اور فارسی میں ہوئی۔ بی اے الہ آباد یونیورسٹی سے کیا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے شعر کہنا شروع کر دیے تھے ۔ ۱۹۳۰ء میں انھوں نے بطور پرائیویٹ امیدوارالہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی ادبیات کا امتحان ریکارڈ نمبروں کے ساتھ پاس کیا، جس کے بعد اسی یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد مقرر ہو گئے۔


ابتدا میں افسانہ نگاری بھی کی مگر بنیادی طور پر وہ شاعر تھے۔ انھوں نے اردو غزل کو تازگی اور توانائی عطا کی۔ ناقدین انھیں میر کے رنگ تغزل کا نمایندہ قرار دیتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی کے بقول:


غزل کا آئیندہ جو رنگ و آہنگ ہوگا، اس کی ساخت و پرداخت میں فراق کا بڑا اہم حصہ ہوگا۔“ 


فراق گورکھپوری نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ اپنے تنقیدی مضامین سے بھی شہرت حاصل کی۔


ان کی تصانیف میں شعلۂ ساز، روحِ کائنات، اندازے، حاشیے، شبنمستان اردو کی عشقیہ شاعری اور اردو غزل گوئی شامل ہیں حکومت بھارت اور سویت یونین کی طرف سے انھیں حمد و اعزازات سے نوازا گیا۔


(11) ادا جعفری کا مختصر ترین تعارف :


(1924ء۔۔۔۔۔۔۔2015)


ادا جعفری بدایوں میں پیدا ہوئیں ۔ والد کا نام مولوی بدرالسن تھا۔ ان کا اصل نام عزیز جہاں ہے۔ ادا تخلص اختیار کیا۔ وطن کی نسبت سے ادا بدایونی کہلائیں۔ نور الحسن جعفری سے شادی ہوگئی تو ادا جعفری ہو گئیں۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان پاکستان آ گیا۔ ان میں شعر گوئی کی امنگ اور فطری صلاحیت موجود تھی ۔ نظم نگاری سے شاعری کی ابتدا کی ، پھر غزل کہنے لگیں۔ ابتدائی دور میں اثر لکھنوی سے ، بعد ازاں اختر شیرانی سے اصلاح لی ۔ ادا جعفری کی پہلی غزل رسالہ رومان میں شائع ہوئی۔ ان کی غیر معمولی شعری صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد نے انھیں ” کمال فن ایوارڈ دیا ہے۔ انھیں ادب میں حسن کارکردگی کا صدارتی تمغا بھی مل چکا ہے۔ 


ان کی غزلوں میں تغزل کے عناصر ، لطیف احساسات، ایک بے نام افسردگی اور جدائی کی کسک موجود ہے۔


ان کی خود نوشت جو رہی سو بے خبری رہی ۔ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں شہر درد, میں ساز ڈھونڈتی رہی، غزالاں تم تو واقف ہو اور ساز سخن بہانہ ہے شامل ہیں۔ ان کی شاعری کا کلیات بھی شائع ہو چکا ہے۔