اردو ادب کے 11 مشہور ادیبوں کا مختصر ترین تعارف

اردو ادب کے 11 مشہور ادیبوں کا مختصر ترین تعارف

(1) شاہد احمد دہلوی کا مختصر ترین تعارف :


(1906ء۔۔۔۔۔۔۔1976ء)


شاہد احمد کی ولات دہلی میں ہوئی۔ آپ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے چشم و چراغ تھے ۔ ۱۹۲۵ء میں انھوں نے ایف سی کالج لاہور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج میں داخلہ لیا لیکن شدید بیمار ہو گئے چناں چہ طبی تعلیم مزید جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ بعد میں دہلی سے انگریزی ادبیات میں بی اے آنرز کیا۔ ایم اے فارسی کا امتحان بھی پاس کیا۔ 


قیام پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی منتقل ہو گئے اور تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ انھوں نے انگریزی ادب سے تراجم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ ۱۹۶۳ء میں انھیں مجموعی ادبی خدمات کی بنا پر تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔


 شاہد احمد دہلوی زبان و بیان پر کامل عبور رکھتے تھے۔ ان کی زبان آسان اور عام فہم ہے۔ وہ موسیقار بھی تھے لیکن اردوادب ہی ان کی پہچان ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مشورے پر انھوں نے خاکہ نگاری شروع کی ۔ گنجینۂ گوبر اور بزم خوش نفساں ان کے خاکوں کے مجموعے ہیں ۔ ان کے علاوہ ان کی تصانیف میں اجڑا دیار ، دلی کی بپتا اور دھان کے کھیت شامل ہیں۔


(2) ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں کا مختصر ترین تعارف :

(1912ء۔۔۔۔۔۔۔2005ء)


جبل پور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں انجمن اسلامیہ ہائی سکول جبل پور سے نویں جماعت پاس کر کے علی گڑھ چلے گئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی، ایم اے اردو، ایم اے فارسی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۴۷ء میں پی ایچ ڈی (اردو) کیا۔ ناگ پور یونیورسٹی سے ۱۹۵۹ء میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی عملی زندگی کا آغاز کنگ ایڈورڈ کالج امروتی سے بطور لیکچرار کیا۔ پاکستان بننے کے بعد اردو کالج کراچی سے وابستہ ہوئے۔ سندھ یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انھیں ستارہ امتیاز، نقوش ایوارڈ ، اقبال ایوارڈ اور نشان سپاس ملا۔ 


انھوں نے مذہب، پاکستانیات، ادب، تصوف اور اخلاق جیسے موضوعات پر لکھا۔ ان کی تحریر میں زیادہ تر معرب و مفرس ہوتی ہیں۔ عام قارئین کے لیے لکھے گئے مضامین و کتب کی زبان سادہ، سلیس اور عام فہم ہے۔ انھوں نے اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں سو سے زیادہ کتب تصنیف کیں ۔ ان کی کتب میں سید حسن غزنوی ،حیات اور کارنامے ،سراج البیان، اقبال اور قرآن اور تنقید و تحقیق اہم ہیں۔


(3) اشرف صبوحی کا مختصرترین تعارف

(1905ء۔۔۔۔۔۔۔1990ء)


اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف اور قلمی نام اشرف صبوحی تھا۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔ ۱۹۲۲ء میں اینگلو عربک ہائی سکول دہلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ معروف ادیب شاہد احمد دہلوی ان کے ہم جماعت تھے ۔ اشرف صبوحی محکمہ ڈاک و تار میں ملازم رہے۔ بعد میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے۔ ۱۹۶۵ء میں ملازمت سے سبک دوش ہو گئے اور ہمدرد دواخانہ کے شعبہ مطبوعات سے وابستگی اختیار کر لی۔ 


اشرف صبوحی ایک صاحب طرز ادیب تھے ۔ اردو زبان خصوصا دہلی کے مختلف طبقوں کی بول چال اور وہاں کے روز مرہ اور محاورے پر پوری گرفت رکھتے تھے۔ آپ نے بچوں کے لیے کہانیوں کی 12 سے زائد کتابیں بھی لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں۔ 


ان کی تصانیف میں دلی کی چند عجیب ہستیاں ، غبار کارواں ، جھروکے، سلمی اور بن باسی دیوی شامل ہیں۔ اشرف صبوحی نے چند انگریزی کتابوں کا اردوترجمہ بھی کیا۔


(4) ڈاکٹر وحید قریشی کا مختصر ترین تعارف :


(1925ء۔۔۔۔۔۔۔۔2009ء)


ڈاکٹر وحید قریشی میانوالی میں پیدا ہوئے۔ اصل نام عبدالوحید تھا۔ والد محمد لطیف قریشی محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا ، اس لیے ڈاکٹر صاحب کی سکول کی تعلیم مختلف شہروں میں ہوئی۔ ۱۹۴۴ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے آنرز اور ۱۹۴۶ء میں اور مینٹل کالج لاہور سے ایم اے فارسی کیا۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ، پی ایچ ڈی فارسی اور ڈی لٹ اُردو کی ڈگریاں بھی حاصل کیں ۔ ۱۹۵۱ء میں انھوں نے اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں تاریخ کے لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اسلامیہ کالج لاہور میں تاریخ اور فارسی اور پنجاب یونیورسٹی اور نینٹل کالج لاہور میں اُردو کے استاد رہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں مختلف مناصب (صدر شعبہ اردو، پرنسپل اور مینٹل کالج لاہور، ڈین کلیہ علوم شرقیہ و اسلامیہ) پر بھی فائز رہے۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۷ء تک مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے صدر نشین رہے۔ مختلف اوقات میں بطور اعزازی معتمد بزم اقبال لاہور، ناظم اقبال اکادمی پاکستان اور مہتم مغربی پاکستان اُردواکیڈمی لاہور خدمات انجام دیں۔ 


ڈاکٹر وحید قریشی اردو اور فارسی زبان وادب کے ایک اہم محقق اور نقاد تھے۔ ان کا زیادہ تر سرمایہ ادب تنقیدی کتب پر مشتمل ہے۔ اگرچہ وہ اردو اور فارسی میں شعر بھی کہتے تھے لیکن ان کی بنیادی حیثیت محقق اور نقاد کی ہے۔ ان کے علمی وادبی کارناموں پر حکومت پاکستان نے انھیں تمغا برائے حسن کارکردگی اور صدارتی اقبال ایوارڈ عطا کیا۔


ان کی تصانیف میں اساسیات اقبال، نذر ،غالب کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ اقبال اور پاکستانی قومیت، مطالعۀ ادبیات فارسی، پاکستان کی نظریاتی بنیادیں، مقالات تحقیق، تنقیدی مطالعے، اردو نثر کے میلانات، مطالعه حالی اور میر حسن اور ان کا زمانہ شامل ہیں۔



(5) سجاد حیدر یلدرم کا مختصرترین تعارف :


(1880ء۔۔۔۔۔۔۔۔1943ء)


سجاد حیدر یلدرم کے جد امجد وسط ایشیا سے ہندوستان آئے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں ان سے جاگیریں چھن گئیں تو وہ ملازمت کی طرف آگئے ۔ یلدرم یوپی کے ایک قصبے نہٹور ضلع بجنور میں پیدا ہوئے ، ان کا بچپن بنارس میں گزرا اور ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ علی گڑھ سے بی اے کیا۔ اس کے ساتھ ہی ذاتی شوق سے ترکی زبان سیکھی اور بغداد کے برطانوی قونصل خانے میں ترجمان کے طور پر کام کرنے لگے۔ کچھ عرصہ قسطنطنیہ میں بھی رہے اور ترکی زبان وادب کا مزید مطالعہ کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رجسٹرار کے طور پر کام کیا۔ پھر جزائر انڈمان میں ریونیو کمشنر رہے۔ ۱۹۴۳ء میں لکھنو میں وفات پائی۔


سجاد حیدر یلدرم باکمال ادیب، مترجم اور شاعر بھی تھے۔ افسانہ نگاری اور ترکی زبان سے اردو میں تراجم ان کی شہرت کی وجہ بنے۔ آپ کے افسانوں کے زیادہ تر خیالات و موضوعات ترکی زبان و ادب سے اخذ کئے گئے ہیں۔ خیالستان ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں رومانیت کا رنگ غالب ہے اور یہ انشائے لطیف کا عمدہ نمونہ ہے۔ ان کی انشا پر درازی میں حس مزاح بھی شامل ہے۔


(6) ہاجرہ مسرور کا مختصر ترین تعارف :


(1929ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔2012ء)


باجرہ مسرور لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر تہور علی خاں سرکاری ملازم تھے ۔ والد کے تبادلوں کی وجہ سے ان کی تعلیم کئی شہروں میں ہوئی۔ ان کی اچانک وفات کے بعد ہاجرہ کا سلسلہ تعلیم منقطع ہو گیا۔ ہاجرہ مسرور کو گھر میں ادبی ماحول میسر تھا۔ ۱۹۴۷ء میں اپنے خاندان کے ساتھ لکھنو سے ہجرت کر کے لاہور آگئیں ۔ کچھ عرصہ وہ احمد ندیم قاسمی کے ساتھ رسالہ نقوش کی ادارت میں شریک رہیں۔ ان کی شادی معروف صحافی احمد علی (مدیر : ڈان ) سے ہوئی۔ 


خواتین افسانہ نگاروں میں ہاجرہ مسرور نے خاصی شہرت حاصل کی ۔ ان کے زیادہ تر افسانوں کا موضوع خواتین کے مسائل اور چھوٹی بڑی معاشرتی الجھنیں ہیں۔ معروف افسانہ نگار اور تقادممتاز شیریں لکھتی ہیں :

 اتنی زیادہ تعداد میں اچھے افسانے ہاجرہ مسرور کے علاوہ شاید ہی کسی نے لکھے ہیں۔“ ان کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں، مثلا چر کے ، ہائے اللہ، چوری چھپے، اندھیرے اجالے، تیسری منزل وغیرہ ۔ وہ لوگ کے نام سے ان کے ڈراموں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ہاجرہ کے افسانوں کا کلیات سب افسانے میرے 1991ء میں لاہور سے شائع ہوا تھا۔ ہاجرہ مسرور بھر پور ادبی اور سماجی زندگی گزار کر۱۵ نمبر ۲۰۱۲ء کو کراچی میں وفات پاگئیں اور کراچی ہی میں دفن ہوئیں۔



(7) شفیع عقیل کا مختصر ترین تعارف


(1930ء۔۔۔۔۔۔۔2013ء)


شفیع عقیل لاہور کے قریب واقع ایک گاؤں تھینہ میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک معروف صحافی ، ادیب اور شاعر تھے۔ ناسازگار حالات کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ ملازمت کے ساتھ ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحان پاس کیے۔ بیس سال کی عمر میں لاہور سے کراچی چلے گئے اور مجید لاہوری کے رسالے نمک دان سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں اخبار جہاں اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہو گئے ۔


 ان کا اسلوب بیاں سادہ اور نہایت سلیس ہے۔ آپ کے تراجم اس نوعیت کے ہیں کہ ان پر طبع زاد ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ آپ کا بیشتر کام لوک داستانوں پر مشتمل ہے۔ آپ نے لوک کہانیوں کے ترجمے بھی کیے۔ مختلف قسم کی لوک داستانوں کو اُردو میں شامل کر کے اُنھوں نے ایک بہت بڑی ثقافتی اور علمی و ادبی خدمت سر انجام دی ہے۔


ان کی بیشتر تصانیف و تالیفات میں پنجاب کی لوک کہانیاں، پنجابی لوک کہانیاں، چینی لوک کہانیاں، جاپانی لوک داستانیں ، ایرانی لوک داستانیں، پیرس پھر پیرس ہے، مجید لاہوری، ادبی مکالمے اور ہماری منزل غازی یا شہید شامل ہیں۔ ان کی ایک تصنیف پنجاب رنگ پرانھیں رائٹرز گلڈ کی طرف سے انعام بھی ملا۔ آپ کراچی میں مقیم اور بطور صحافی روزنامہ جنگ سے وابستہ تھے۔


(8) مولوی عبدالحق کا مختصر ترین تعارف :


(1870ء۔۔۔۔۔۔۔۔1962ء)


مولوی عبدالحق ضلع میرٹھ یوپی کے ایک گاؤں ہاپوڑ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم فیروز پور میں حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ یہاں وہ پروفیسر آرنلڈ اور مولانا شبلی کے شاگرد اور مولانا ظفر علی خاں کے ہم جماعت رہے ۔ ۱۸۹۴ء میں بی اے کر کے حیدر آباد دکن چلے گئے۔


چند سال تک مدرسہ آصفیہ کے صدر مدرس کے فرائض انجام دیے، پھر محکمہ تعلیم میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ اورنگ آباد کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ بعد ازاں جامعہ عثمانیہ میں صدر شعبہ اردو ر ہے ۔ ۱۹۱۲ء میں انجمن ترقی اردو کے سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ ۱۹۳۶ء میں ملازمت سے سبک دوش ہو کر اردو زبان و ادب کو ترقی دینے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے ۔ ۱۹۴۹ء میں پاکستان آگئے ۔ ۱۹۶۱ء تک انجمن ترقی اردو پاکستان کے صدر رہے۔ ان کی خدمات زبان و ادب اردو کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں عطا کیں۔


مولوی عبدالحق ایک بلند پایه حق و نقاد، ماہر لغت نگار اور عمدہ انشا پرداز تھے۔ انھوں نے اردو زبان وادب کی ترقی و ترویج کے لیے پوری عمر جاں فشانی سے کام کیا۔ اردو کو پاکستان کی سرکاری ، دفتری اور ذریعہ تعلیم کی زبان بنانے کے لیے وہ عمر بھر کوشاں رہے۔ وہ اردو یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے تھے مگر ان کی زندگی میں تو یہ ممکن نہ ہوا تاہم کراچی میں اردو کالج ضرور قائم ہو گیا۔ فی الحقیقت وہ اردو کے بہت بڑے محسن ہیں۔ ان کی نا قابل فراموش خدمات کے پیش نظر انھیں بابائے اردو کا لقب ملا۔ 


ان کا ادبی اسلوب صاف، سادہ اور دل کش ہے۔ انھوں نے لغت تیار کیا لیکن اُن کا سب سے خوب صورت کام ان کے خاکے ہیں، جن میں ایسی خوبیاں ہیں کہ ہر پڑھنے والا متاثر ہوتا ہے۔


ان کی تصانیف میں مرحوم دلی کالج، سرسید احمد خان حالات و افکار ، اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام، افکار حالی ، خُطبات عبدالحق اور چند ہم عصر شامل ہیں۔


(9) قدرت اللہ شہاب کا مختصر ترین تعارف :


(1917ء۔۔۔۔۔۔۔۔1986ء)


قدرت اللہ شہاب گلگت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جموں میں پائی۔ ۱۹۳۹ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ ۱۹۴۱ء میں آئی سی ایس کے مقابلے میں کامیاب ہوکر انڈین سول سروس میں شامل ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دو برس حکومت آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل رہے، اس کے بعد وزارت اطلاعات و نشریات حکومت پاکستان میں ڈپٹی سیکرٹری اور پھر جھنگ میں ڈپٹی کمشنر ر ہے ۔ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۲ء تک گورنر جنرل غلام محمد ، صدر سکندر مرزا اور صدر ایوب خاں کے سیکرٹری رہے۔ تین برس تک ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ ۱۹۶۶ء میں واپس آکر مرکزی سیکرٹری تعلیم مقرر ہوئے ۔ ۱۹۸۶ء میں وفات پائی اور اسلام آباد میں دفن ہوئے۔ 


وہ زبان و بیان پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا اسلوب سادہ ہے، بایں ہمہ ان کی تحریروں میں بڑی جاذبیت اور دل کشی ہے۔ 

قدرت اللہ شہاب نے لکھنے کا آغاز معروف شاعر اختر شیرانی کے رسالے رومان سے کیا تھا۔ ۳۱ / جنوری ۱۹۵۹ء کو رائٹرز گلڈ معرض وجود میں آیا تو وہ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ ان کی تصانیف میں یا خدا (۱۹۴۸ء) ، نفسانی (۱۹۵۰ء) ، ماں جی ) (۱۹۶۸ء) اور شہاب نامه (۱۹۸۶ء) شامل ہیں۔ شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت ہے، جو ان کی تمام تصانیف سے بڑھ کر مقبول ہوئی۔ گذشتہ پچیس برس میں اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔


(10) حکیم محمد سعید کا مختصر ترین تعارف :

(1920ء۔۔۔۔۔۔۔۔1998ء)


نامور طبیب، ادیب اور سماجی وسیاسی شخصیت حکیم محمدسعید دہلی میں حکیم عبدالمجید کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے پانچ برس کی عمر میں ناظرہ قرآن پاک پڑھ لیا۔ سات برس کی عمر میں والدہ کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کی اور نو برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ بچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا۔ عربی ، فارسی اور انگریزی سیکھی۔ ۱۹۳۹ء میں طبیہ کالج دہلی سے طب کی تعلیم مکمل کی۔ عملی زندگی کا آغاز ہمدرد دواخانے میں اپنے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید کے ساتھ شمولیت سے کیا۔ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ ء تک دونوں بھائیوں نے ہمدرد کو ایشیا کا سب سے بڑا دوا ساز ادارہ بنا دیا۔ حکیم محمد سعید ۹۔ جنوری ۱۹۴۸ء کو ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔


پاکستان میں وہ ہمدرد لیبارٹریز ( وقف ) کے بانی اور منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان طبی ایسوسی ایشن اور پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۹۳ ء-۱۹۹۴ء میں وہ صدر پاکستان کے طبی مشیر اور گورنر سندھ کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ حکیم محمد سعید 7 اکتوبر ۱۹۹۸ء کو کراچی میں شہید کر دیے گئے۔ احمد ندیم قاسمی نے لکھا کہ یہ صرف ایک شخص کا نہیں ، ایک طرح سے پاکستان کی شناخت کا قتل ہے۔


 حکیم محمد سعید کی تحریروں میں خاصا تنوع ہے۔ دینی ، اخلاقی طبی اور صحت عامہ سے متعلق انھوں نے بہ کثرت مضامین لکھے۔ بچوں اور نوجوانوں کے لیے بھی ان کی بڑی دل چسپ تحریریں ملتی ہیں۔ انھیں دنیا کے مختلف ممالک میں بار بار جانے اور گھومنے پھرنے کا موقع ملا، چناں چہ اپنی سیاحت کا حال انھوں نے مختلف سفر ناموں میں قلم بند کیا۔


ان کی چند تصانیف یہ ہیں: اخلاقیات نبوی ، قرآن روشنی ہے ،ذیابیطس نامہ، سائنس اور معاشرہ، قلب اور صحت، تعلیم و صحت، ارضِ قرآن حکیم ،یورپ نامہ ،کوریا کہانی، سفر دمشق، ايک مسافر چار ملک ،جاپان کہانی، داستان امریکه، داستان حج، داستان لندن، درون روس، سعید سیاح اردن میں ، سعید سیاح تہران میں اور سعید سیاح ترکی میں۔


(11) رشید احمد صدیقی کا مختصر ترین تعارف:


(1896ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔1977ء)


رشید احمد صدیقی اتر پردیش کے قصبے مریا ہو ضلع بلیا میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جون پور چلے گئے ، جہاں انھوں نے ۱۹۱۴ء میں انٹرنس پاس کیا۔ گھر یلو حالات سازگار نہ تھے ، اس لیے انٹر اور بی اے کی تیاری کے ساتھ ساتھ کئی ملازمتیں بھی کرنی پڑیں ۔ ۱۹۲۱ء میں علی گڑھ سے ایم اے ( اردو ) امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرار ہو گئے ۔ ۱۹۵۸ء میں یہیں سے بطور صدر شعبہ اُردو سبک دوش ہوئے۔ بقیہ عمر علی گڑھ ہی میں گزری اور یہیں پیوند خاک ہوئے۔


 رشید احمد صدیقی ایک صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ بنیادی طور پر وہ طنز و مزاح نگار تھے ۔ سنجیدہ مزاح اور طنز و ظرافت میں وہ ایک منظرد مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے نہایت خوب صورت شخصی مرقعے بھی لکھے ہیں۔ ان کی غیر افسانوی اور تنقیدی نثر کے مرکزی موضوعات میں علی گڑھ ، اردو غزل تحر یک سرسید اور بعض تہذیبی موضوعات شامل ہیں۔ ان کے خطوں کے تقریبا ایک درجن مجموعے چھپ چکے ہیں، جو ان کی انشا پردازی کے عمدہ نمونے ہیں۔


رشید احمد صدیقی کی تصانیف میں طنزیات و مضحکات، مضامین رشید ،آشفته بیانی میری، گنج های گراں مایه ،هم نفسان رفته، جدید غزل، غالب کی شخصیت اور شاعری ، اقبال کی شخصیت اور شاعری اور خندان شامل ہیں ۔