اردو کے 10 مشہور ادباء کا مختصر تعارف

اردو کے 10 مشہور ادباء کا مختصر تعارف

اردو کے 10 مشہور ادباء کا مختصر تعارف

اردو کے مشہور ادیب:

(1) مولانا الطاف حسین حالی کا مختصر تعارف:

 (1837ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔1914)

مولانا الطاف حسین حالی کا مختصر تعارف


الطاف حسین حالی پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے اجداد غیاث الدین بلبن کے زمانے میں ہندوستان آئے ۔ نو برس کے تھے کہ والد کا نتقال ہو گیا۔ بھائیوں نے پرورش کی۔ تعلیم کی تکمیل دہلی کے عالموں کی صحبت میں ہوئی ۔ غالب اور شیفتہ کی صحبت سے بطور خاص فیض یاب ہوئے۔ سرسید سے بھی تعلق خاطر قائم ہوا۔ شیفتہ اور غالب کے انتقال کے بعد ، لاہور آئے اور یہاں پنجاب بک ڈپو میں ملازمت کر لی۔ یہیں وہ انگریزی ادبیات سے متعارف ہوئے۔ جدید طرز کی نظمیں لکھیں اور اردو شاعری کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ ۱۸۸۷ء میں سرکار حیدر آباد سے سو روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر ہو گیا ، تو ملازمت ترک کر کے باقی عمر تصنیف و تالیف میں بسر کر دی۔

حالی کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری ہے۔ حالی کی غرض، اپنے مضمون کو ادا کرنے اور مطالب کو وضاحت سے پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ ان کی نثری تحریروں میں اعتدال و توازن کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ بے جا اختصار اور بے جا طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے، عبارت کو دلکش ، سادہ اور مدلل بنانے میں ، حالی اپنی مثال آپ ہیں ۔ وہ ہر بات کو سنجیدگی اور عقلیت کے ترازو میں تولتے ہیں اور تخیل اور جذبات سے دور رہتے ہوئے اپنے خیالات اور حقائق کو قاری تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رشید احمد صدیقی نے ، حالی کے نثری اسلوب کو ، اُردونثر کا معیاری اسلوب قرار دیا ہے۔ وہ سوانح نگار، مضمون نگار اور نقاد ہیں۔ سرسید کے قریبی اور با اعتماد ساتھیوں میں تھے ۔ ان کی مشہور کتابوں میں حیاتِ جاوید ، یاد گار غالب ، حیات سعدی، مقدمہ شعر و شاعری اور مد و جزر اسلام شامل ہیں ۔ آخر الذکر کتاب مسدس حالی کے نام سے بے حد مقبول ہوئی ۔ مقدمہ شعر و شاعری ( جو دراصل ان کے دیوان کا طویل دیباچہ ہے) جدید اردو تنقید کا نقطہ آغاز ہے۔

(2) سرسید احمد خان کا مختصر تعارف :

(1817ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1898ء)

سرسید احمد خان کا مختصر تعارف


سرسید کے مورثِ اعلیٰ شاہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے تھے۔ مغلیہ دربار کے بڑے عہدوں پر فائزہ ہے۔ سرسید

نے رواج زمانہ کے مطابق تعلیم پائی۔ سب سے پہلے عدالت میں بطور سرشتہ دار کام کیا، پھر ترقی کر کے منصف ہو گئے ۔ سرکاری ملازمت کے باوجود سرسید مسلمانان ہند کی اصلاح کے لیے برابر کوشاں رہے۔ انھوں نے پہلے ایک انگریزی سکول مراد آباد اور غازی آباد میں ھولا ۔ ۱۸۷۵ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ہندی مسلمانوں کا سب سے اہم تعلیمی

سیاسی اور ادبی مرکز قرار پایا۔ انگریزی سے اردو تراجم کے لیے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ ۱۸۷۰ء میں علمی وادبی رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس رسالے کی پروردہ نسل نے ہماری اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔

 سرسید نے اردو میں مضمون کی صنف کو رواج دیا۔ خود کثرت سے مضامین لکھے اور اپنے رفقا سے قومی، تعلیمی، مذہبی، اخلاقی موضوعات پر مضامین لکھوائے۔ سرسید کا اسلوب نگارش، سادہ ، سہل، بے ساختہ اور تصنع سے پاک ہے۔ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے:

" من جملہ بے شمار احسانات کے جو سرسید نے ہماری قوم پر کیے، ان کا بہت بڑا احسان اُردو زبان پر ہے۔ انھوں نے زبان کو پستی سے نکالا، انداز بیان میں سادگی کے ساتھ وسعت پیدا کی۔ سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا ، جدید علوم کے ترجمے کرائے، بے لاگ تنقید اور روشن خیالی سے اُردو ادب میں انقلاب پیدا کیا ۔"

سرسید ایک بڑے مصلح اور معمار قوم ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کے مصنف بھی تھے ۔ انھوں نے چھوٹی بڑی تیس سے زائد کتاہیں لکھیں ۔ تقریریں ، خطوط اور مضامین کے مجموعے ان کے علاوہ ہیں ۔ ان کی اہم تصانیف میں " آثار الصنادید ، رسالہ اسباب بغاوت ہند " تبین الکالام" خطبات احمدیہ " اور تفسیرِ قرآن“ شامل ہیں۔

(3) مولانا محمد حسین آزاد کا مختصر تعارف :

(1830ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1910ء)

مولانا محمد حسین آزاد کا مختصر تعارف


محمد حسین آزاد معروف عالم دین اور صحافی مولوی محمد باقر کے بیٹے تھے ۔ دلی میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۵۷ء کی نا کام جنگ آزادی کے بعد، آزاد کے والد انگریزوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔ گھر بار لٹ گیا۔ تلاشِ معاش میں دلی چھوڑی۔ لکھنو اور حیدر آباد گئے۔ پھر لاہور پہنچ کر محکمہ تعلیم میں پندرہ روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم ہو گئے ۔ حکومت پنجاب نے ان سے متعدد نصابی اور درسی کتابیں لکھوائیں ۔ لاہور میں قائم انجمن پنجاب میں لیکچرار اورسیکرٹری رہے۔ آخری دنوں میں، گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی وفارسی کے فیسر مقرر کیے گئے ۔ ۱۸۸۸ء میں دماغی مرض شروع ہوا، جو مرتے دم تک باقی رہا۔

آزاد اُردو کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ وہ اپنے اسلوب بیان کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ ان کا تمثیلی اسلوب بیان تھیں اپنے عہد کے ادیبوں اور نثر نگاروں میں منفرد بناتا ہے۔ تخیل آفرینی ، پیکر تراشی تجسیم نگاری ، شعریت اور رنگینی، واقعہ نگاری، نفسیاتی حقیقت آرائی اور مبالغہ آرائی ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ان کا انداز بیان، نثر کا ایک ایسا خوب صورت اور دلکش شاہکار ہے، جس نے ان کے بعد آنے والے ادیبوں کی اکثریت کو متاثر کیا ۔ خوب صورت اور دلنشیں نثر کے علاوہ، ان کا ایک بڑا کارنامہ، اُردو میں جدید طرز شاعری ہے، جس کی ابتدا انجمن پنجاب لاہور کے مشاعروں سے ہوئی ، جس کے وہ سیکرٹری تھے ۔

آزاد کی تصانیف میں آب حیات ' دربار اکبری نیرنگ خیال قصص ہند اور سخندان فارس بہت مشہور ہیں۔ اپنے استاد، ابراہیم ذوق کا دیوان بھی آزاد نے مرتب کیا ۔ آزاد نے موضوعاتی نظمیں بھی لکھیں، جو نظم آزاد میں شامل ہیں۔

(4) ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا مختصر تعارف :

(1831ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1912ء)

ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا مختصر تعارف

نذیر احمد ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولوی سعادت علی تھا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کرنے کے بعد دلی آگئے، جہاں مولوی عبدالخالق کے شاگرد ہوئے بعد میں دلی کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد عملی زندگی کا آغاز کیا ضلع گجرات میں ایک سکول میں مدرس کی حیثیت سے کیا۔ تھوڑے دنوں بعد ڈ پٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔1861 میں انڈین پینل کوڈ کے ترجمے کی وجہ سے پہلے تحصیل دار اور بعد میں افسر بندوبست بنے ۔ سرسالار جنگ کے ایما پر انگریزی ملازمت چھوڑ کر حیدر آباد دکن کی ملازمت اختیار کی۔ ایک عرصے تک وہاں خدمت انجام دینے کے بعد ملازمین چھوڑ کر دلی آگئے اور بقیہ زندگی یہیں گزاری۔

 آپ کے ناول اصلاحی انداز کے حامل ہیں کیونکہ ان سے انھوں نے مسلمانوں کی اصلاح کا کام لیا۔ اگرچہ ڈپٹی نذیر احمد کی مقصد پسندی نے ناول کے فن کوکسی حد تک متاثر کیا ہے لیکن یہ مقصدیت ، ان کے اسلوب بیان کی لطافت اور چاشنی کو ختم نہیں کرتی۔ ان کی زبان علمی بھی ہے اور عوامی بھی ۔ معاشرتی لطافتوں کے آئنہ دار محاوروں کے استعمال کا انھیں ملکہ حاصل ہے بالخصوص عورتوں کی مخصوص زبان، محاوروں اور مکالموں کے وہ اُستاد تسلیم کیے گئے ہیں۔ نذیر احمد دہلوی کا شمار اردو کے ارکانِ خمسہ میں ہوتا ہے۔ آپ اُردو کے پہلے ناول نگار ہیں۔ آپ کے ناولوں میں مراة العروس، بنات النعش، التوبة النصوح ,فسانہ مبتلا اور ابن الوقت زیادہ اہم ہیں۔

(5) منشی پریم چند کا مختصر تعارف :

(1880ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1936ء)

منشی پریم چند کا مختصر تعارف


پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ ضلع بنارس کے ایک گاؤں ملہی میں پیدا ہوئے۔ والد منشی عجائب لال ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک سکول میں مدرس ہوگئے۔ ۱۹۰۰ء میں گورنمنٹ مڈل سکول سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ 1919ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ اے کر لیا۔ 1921ء میں ملازمت سےاستعفا دے دیا اور مکمل طور پر علمی و ادبی کاموں میں مشغول ہو گئے ۔ ۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس کی صدارت کی اور اسی سال بنارس میں وفات پائی۔ 

پریم چند نے اپنی تحریروں میں ہندوستان کے دیہات میں بسنے والے مزدوروں اور کسانوں کی زندگی اور ان کے مسائل کامیابی کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اُن کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود بدی کے مقابلے میں غالب رہتی ہے۔ ان کی زبان سادہ ہے۔ انھوں نے مقامی واقعات اور حقائق کو موضوع بنا کر تحریروں میں مقامی رنگ بھی پیدا کیا ہے۔ ان کی تحریروں کی بنیاد معاشرتی مسائل نفسیاتی مطالعہ و مشاہدہ پر ہے۔ ان کے کردار زیادہ تر مالی ہیں، جن میں تنوع پایا جاتا ہے۔ انھوں نے قریباً ہر عمر اور پیشے سے متعلق کردار پیش کیے ہیں۔

پریم چند کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کے مجموعوں میں سوز وطن، پریم پچیسی، پریم چالیسی ،زادِ راہ اور واردات زیادہ اہم ہیں۔ انھوں نے افسانوں کے علاوہ ناول بھی لکھے، جس میں : ” میدانِ عمل ، بازار حسن اور گئودان کو زیادہ شہرت ملی ۔


(6) سید امتیاز علی تاج کا مختصر تعارف :

(1900ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1970ء) 

سید امتیاز علی تاج کا مختصر تعارف


سید امتیاز علی تاج لاہور شہر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد مولوی ممتاز علی کو حکومت کی طرف سے شمس العلما کا خطاب ملا تھا۔ امتیاز علی تاج نے سنٹرل ماڈل سکول لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں منفرد انگریزی ڈراموں کے تراجم کرکے سٹیج پر پیش کیے۔ ۱۹۳۲ء میں مشہور زمانہ ڈراما ' انارکلی لکھا۔ ان کے مزاحیہ سکیچ '' چچا چھکن کے نام سے شائع ہوئے اور بہت مقبول ہوئے ۔ رسالہ تہذیب نسواں اور پھول“ کے مدیر رہے۔ ریڈیو پروگرام پاکستان ہمارا ہے، شروع کیا اور ریڈیو کے لیے درجنوں ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بہت سی فلمی کہانیاں بھی ان کی تحریر کردہ ہیں۔ وہ مجلس ترقی ادب لاہور کے سیکرٹری بھی رہے۔ اپریل ۱۹۷۰ء میں ان کو نا معلوم شخص نے قتل کر دیا۔

 امتیاز علی تاج کے ڈراموں میں تمام لسانی خوبیاں موجود ہیں۔ ان کی تحریر سادہ اور بے تکلف ہے ۔ وہ الفاظ کا استعمال بڑے سلیقے سے کرتے ہیں اور معمولی الفاظ کو بھی اتنی خوش اسلوبی سے استعمال کرتے ہیں کہ وہ قاری کے ذہن پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں۔ اُن کے ڈراموں کی زبان سلیس اور رواں ہے۔ 

امتیاز علی تاج کرداروں کی تخلیق میں بڑی فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کو نفسیاتی تجزیے کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ محض کٹھ پتلی نہیں ہوتے بلکہ جاندار، زندہ اور متحرک ہوتے ہیں۔ امتیاز علی تاج کے ڈراموں میں پختی، برجستگی اور بے ساختگی ملتی ہے۔ کسی ڈرامے کی کامیابی کا دارومدار اس کے مکالموں پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مکالمہ نگاری کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ ان کے ہاں جذبات نگاری کی ایسی حسین مثالیں ملتی ہیں جو اردو کے ڈرامائی ادب میں بہت کم دستیاب ہیں۔

 ان کا ایک معروف ڈراما آرام وسکون اس کی واضح مثال ہے کہ اُن کے مزاح میں کہیں کوئی تکلف نظر نہیں آتا۔ بس انھوں نے معمول کے واقعات اور کرداروں کے سیدھے سادے مکالموں سے مزاح پیدا کیا ہے۔


(7) میرزا ادیب کا مختصر تعارف :

(1914ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1999ء)

میرزا ادیب کا مختصر تعارف


میرزا ادیب کا اصلی نام دلاورعلی اور قلمی نام میرزا ادیب ہے۔ ۱۹۳۱ء میں اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے میٹرک کرنے کے بعد انھوں نے ۱۹۳۵ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی ۔ اے آنرز کیا۔ میرزا ادیب کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۶ء سے ہوا۔ اس زمانے میں اسلامیہ کالج لاہور میں بہت سی علمی وادبی شخصیتیں موجود تھیں جنھوں نے میرزا کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں معاونت کی۔ میرزا نے ابتدا میں شعر و شاعری کی طرف توجہ دی مگر جلد ہی اسے ترک کر کے افسانہ اور ڈراما نگاری کی طرف آگئے۔ 

انھوں نے ۱۹۳۵ء میں رسالہ ادب لطیف کی ادارت سنبھالی اور طویل عرصے تک اس سے وابستہ رہے۔ پھر ریڈیو پاکستان میں ملازم ہو گئے ۔ میرزا ادیب یک بابی اور ریڈیائی ڈراما نگاری میں اہم مقام رکھتے ہیں تقسیم ہند کے بعد اردوادب میں یک بابی ڈرامے کو جو فروغ ملا، اس میں میرزا ادیب نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ معاشرے کے نبض شناس تھے، اس لیے ان کے ڈراموں کے موضوعات عام اور روز مرہ زندگی سے متعلق ہیں۔ اپنے معاشرے کی انسانی خواہشات اور توقعات کو میرزا ادیب نے خاص اہمیت دی ہے۔

میرزا ادیب نے کردار نگاری کے سلسلے میں بھی گہرے مشاہدے، انمول بصیرت اور فنکارانہ گرفت سے کام لیا ہے۔ انھوں نے زندگی کے عام کرداروں کو ڈرامائی کرداروں کا درجہ دیا ہے۔ ان کے مکالمے نہایت برجستہ مختصر اور بر محل ہوتے ہیں۔ یہی جہ ہے کہ ان کے ڈراموں میں قاری یا ناظر کی دلچسپی شروع سے آخر تک قائم رہتی ہے جو کسی کامیاب ڈراما نگار کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ ان کے ڈراموں کے اہم مجموعوں کے نام یہ ہیں : " آنسو اور ستارے، لہو اور قالین ،ستون ،فصیل شب، خاک نشیں، پس پردہ اور شیشے کی دیوار ۔ ان کے علاوہ صحرانورد کے خطوط ،صحرانورد کے رومان اور مٹی کا دیا( آپ بیتی ) ان کی زندہ رہنے والی کتا بیں ہیں۔


(8) مرزا فرحت اللہ بیگ کا مختصر تعارف :

(1883ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1947ء)

مرزا فرحت اللہ بیگ کا مختصر تعارف


مرزا فرحت اللہ بیگ دلی میں پیدا ہوے اورسینٹ اسٹیفنز کالج دلی سے بی اے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ڈرامے اور کرکٹ کا شوق رہا۔ ۱۹۰۷ میں حیدر آباد دکن چلے گئے اور پہلے تعلیم اور پھر عدالت کے محکموں سے وابستہ رہے۔ وہ ترقی کرتے کرتے ہوم سیکرٹری کے عہدے تک پہنچے، جہاں سے ریٹائر ہوئے اور پنشن حاصل کی ۔ انھوں نے حیدرآباد ہی میں وفات پائی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کا طرز تحریر سادہ اور پر لطف ہے۔ وہ بڑے شگفتہ انداز میں، دلی کی خاص زبان لکھتے ہیں۔ انکے اسلوب میں تصنع اور بناوٹ، نام کونہیں۔ مزاح کی چاشنی ان کی تحریر میں خاص لطف دیتی ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی :

فرحت کے اسلوب کی نمایاں خوبی فقروں کا اختصار ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے فقروں سے رواں دواں عبارت کا جادو جگاتے ہیں۔ فرحت کی تحریروں میں اسلوب کی یکسانیت، مجزے کی حد تک قائم رہتی ہے۔ وہ ایک مضمون کو جس رنگ میں شروع کرتے ہیں ، اسی رنگ میں انجام تک پہنچاتے ہیں۔“


مرزا فرحت اللہ بیگ ابتدا میں مرزا الم نشرح “ کے قلمی نام سے لکھتے رہے ۔ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق اور عظمت اللہ خاں نے ان کی ہمت بڑھائی اور وہ اپنے اصل نام سے لکھنے لگے۔ نذیر احمد کی کہانی ” پھول والوں کی سیر اور دلی کا ایک یادگار مشاعرہ ان کے یادگار مضامین ہیں۔

ان کے مضامین "مضامین فرحت" کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ میری شاعری

ان کے کلام کا انتخاب ہے۔


(9) شفیق الرحمان کا مختصر تعارف :

(1920ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2000ء)

شفیق الرحمان کا مختصر تعارف


اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مزاح نگار شفیق الرحمان ۱۹۲۰ء میں ضلع جالندھر میں" کلانور کے مقام پر پیدا ہوئے۔ انھوں نے ۱۹۴۴ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ اپنی قابلیت اور میڈیکل کے امتحان میں نمایاں پوزیشن کی وجہ سے ایک سال کے اندر ہی انھیں فوج میں انڈین آرمی میڈیکل سروس میں لے لیا گیا۔ پاکستان بن گیا تو وہ پاکستان آرمی کا حصہ بن گئے اور میجر جنرل کے عہدے تک ترقی کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے ۔ ۱۹۸۰ء میں ان کا تقرر اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے ہو گیا، جہاں انھوں نے چھے سال یعنی ۱۹۸۶ء تک علمی وادبی خدمات انجام دیں۔

شفیق الرحمان کے مزاح کا انداز بہت ہلکا پھلکا اور نہایت شائستہ ہے۔ اُن کے ہاں نہ تو الفاظ کی بازی گری سے مزاح پیدا کرنے کی کوشش نظر آتی ہے اور نہ ہی محض مزاح پیدا کرنے کی غرض سے ایک باوقار مقام سے نیچے اترنے کا رجحان ملتا ہے۔ ان کی تحریریں حسِ مزاح رکھنے اور مزاح کے تقاضوں کو سمجھنے والوں میں بہت مقبول ہوئیں۔ ۱۹۴۲ء میں آپ کے افسانوں کا پہلا مجموعہ کرنیں شائع ہوا۔ آپ کے دیگر مجموعوں میں "شکوفے، مد و جزر

حماقتیں مزید حماقتیں اور دجلہ وغیرہ زیادہ مشہور ہوئے۔


(10) کرنل محمد خان کا مختصر تعارف :

(1910ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1999ء)

کرنل محمد خان کا مختصر تعارف


اردو کے ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان چکوال میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں میں حاصل کی ۔ میٹرک کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اسی دوران میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی چنانچہ ۱۹۴۰ء میں بطور سیکنڈ لیفٹینٹ کمیشن حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد دفاع پاکستان میں حصہ لیا۔ ۱۹۶۵ء میں رن کچھ کے محاذ پر نمایاں کارنامے انجام دیے۔ کرنل کے عہدے پر پہنچ کر ملازمت سے سبکدوش ہو گئے اور مستقل طور پر راولپنڈی میں سکونت اختیار کر لی۔

 کرنل محمد خان کا طرز تحریر سادہ اور دلچسپ ہے۔ ان کی تحریروں کا اصل حسن سادگی اور خلوص ہے ۔ وہ بیتے ہوئے واقعات کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ان میں چھپی ہوئی ظرافت دل میں گھر کر جاتی ہے ۔ مزاح کے ساتھ ساتھ وہ انسانی کمزوریوں جھوٹ تصنع اور بناوٹ کے رویوں پر طنز کرتے بھی نظر آتے ہیں ۔انھوں نے کئی موضوعات پر بڑے گراں قدر اور کے حامل مزاحیہ مضامین لکھے۔ ان کے ہاں مزاح نگاری کا ایک سلجھا ہوا انداز نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں سوقیانہ پن کا گمان تک نہیں ہوتا۔ سادگی معنی آفرینی، باوقار طنز ومزاح ان کی تحریروں کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ ان کی تصانیف میں "بجنگ آمد بسلامت روی اور بزم آرائیاں شامل ہیں۔

Post a Comment

0 Comments