اردو کے مشہور معروف شعراء کا مختصر ترین تعارف

اردو کے مشہور معروف شعراء کا مختصر ترین تعارف


(1) خواجہ الطاف حسین حالی کا مختصر تعارف:

(1837ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔1914ء)

خواجہ الطاف حسین حالی، پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق انصاریوں کے ایک معزز خاندان سے تھا، جو غیاث الدین بلبن کے زمانے میں ہرات سے ہندوستان آیا اور پھر یہیں کا ہورہا۔ ان کے والد خواجہ ایزد بخش نے انتہائی عسرت اور تنگ دستی میں زندگی گزاری۔ حالی ابھی نو سال کے تھے کہ اُن کے والد کا انتقال ہوگیا۔ بڑے بھائی اور بہن نے حالی کی پرورش کی سترہ سال کی عمر میں، ان کی رضامندی کے بغیر، ان کی شادی کر دی گئی۔ علم کے شوق میں یہ بیوی کو میکے چھوڑ کر دلی چلے گئے اور وہاں سال ڈیڑھ سال معروف عالم اور واعظ مولوی نوازش علی کے مدرسے میں زیر تعلیم رہے۔ 1856ء میں حصار کلکٹری میں ملازم ئے مگر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے باعث انھیں واپس آنا پڑا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے مصاحب اور اُن کے بچوں کے اتالیق ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے شاعری میں مرزا غالب کی شاگردی اختیار کی ۔ گورنمنٹ بک ڈپو، لاہور اور اینگلو عربک سکول، دلی میں ملازمت کی ۱۹۰۴ء میں انھیں شمس العلماء کا خطاب ملا۔


مولانا حالی کا شمار اردو ادب کے اہم شاعروں ، نثر نگاروں اور تنقید نگاروں میں ہوتا ہے۔ ۱۸۵۷ء سے قبل انھوں نے قدیم اور روایتی طرز کی شاعری کی ،مگر بعد میں حالات کی تبدیلی نے اُن کے خیالات کو یکسر بدل ڈالا۔ انجمن پنجاب کی تحریک، گورنمنٹ بک ڈپو کی ملازم اور سرسید احمد خان سے وابستگی نے ان کے نئے خیالات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔


مولانا حالی کی اخلاقی ، اصلاحی اور ملی شاعری نے اُردو ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ۔ انھیں جدید شاعری ، تنقید نگاری اور سوانح نگاری میں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ مولانا حالی نے نثر اور نظم میں کئی کتابیں یادگار چھوڑیں ۔ اُن کی اہم کتابوں میں دیوانِ حالی ، مسدس حالی ( مد و جزر اسلام) ، " مقدمہ شعر و شاعری ، یادگارِ غالب ، حیاتِ سعدی اور حیاتِ جاوید خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔


(2) امیر مینائی کا مختصر تعارف :

(1828ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1900ء)

منشی امیر مینائی ,نصیر الدین حیدر (شاہ اودھ) کے دورِ حکومت میں لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدِ محترم کا نام مولوی کرم محمد تھا۔امیر مینائی حضرت مخدوم شاہ مینا لکھنوی کی اولاد سے تھے، اسی لیے اپنے نام کے ساتھ مینائی لکھتے تھے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مفتی سعد اللہ رام پوری سے حاصل کی۔ بعد ازاں تعلیم کی تکمیل کے لیے علمائے فرنگی محل کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ منشی مظفرعلی اسیر سے شاعری کی اصلاح لی۔کم عمری ہی میں شاعری میں بلند مقام حاصل کر لیا۔ابھی آپ کی عمر بیس سال تھی کہ نواب واجدعلی خاں نے اپنے دربار میں طلب کیا اور کلام سنا۔ بیالیس سال رام پور کے نواب یوسف علی خاں اور نواب کلب علی خاں کے اُستاد ر ہے۔ آخر زمانے میں نواب مرزاداغ نے انھیں حیدر آباد بلوایا، وہاں جاتے ہی بیمار ہو گئے اور اسی بیماری کے دوران میں انتقال ہوا۔ 


امیر مینائی کا شمار اپنے عہد کے قادر الکلام شاعروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے تمام اصناف میں شاعری کی مگر غزل اور نعت کی طرف زیادہ رجحان رہا۔ آپ کی شاعری، زبان و بیاں کی خوبیوں اور فکر وخیال کی رعنائیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کی نعتوں میں آورد کے مقابلے میں آمد کا رنگ غالب ہے۔ انھوں نے محاورات اور صنائع کو اس عمدگی سے برتا ہے کہ کلام میں کہیں بھی تصنع پیدا نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے الفاظ و تراکیب کا استعال بھی محتاط ہوکر کیا ہے او حتی الامکان سادگی اور روانی کا پہلو پیش نظر رکھاہے ان کی نعتوں میں درد و اثر اور سوز وگداز کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔


ان کی تصانیف میں دو عشقیہ دیوان: "مرآۃ الغیب " ، " صنم خانہ عشق اور ایک نعتیہ دیوان محامد خاتم النبی صلى اله علایم علی امیرالہ علیہ وسلم شامل ہیں۔ انھوں نے شاعروں کا ایک تذکرہ انتخاب یادگار کے نام سے مرتب کیا۔ ان کا نا تمام لغت امیر اللغات بھی ان کا ایک اہم علمی کارنامہ ہے۔


(3) نظیر اکبر آبادی کا مختصر تعارف:

(1735ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔1830ء)

نظیر کا اصل نام ولی محمد ہے۔ آپ دلی میں پیدا ہوئے مگر چونکہ عمر کا زیادہ حصہ اکبرآباد میں گزارا، اس لیے اپنے نام کےساتھ اکبرآبادی لکھتے تھے۔ بارہ بھائیوں میں صرف نظیر زندہ بچے اس ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھے۔ احمدشاہ ابدالی کے حملے کے وقت اپنی ماں اور نانی کوساتھ لے کر آگرہ پہنے اور تاج محل کےقریب مکان میں رہنے لگے ۔نظیر کی ابتدائی تعلیم کے بارے زیادہ معلومات نہیں ملتیں، تاہم وہ عربی ، فارسی ، ہندی اور ہندوستان کی کئی دوسری زبان میں جانتے تھے۔ ان کا مزاج قلندرانہ تھا ۔ مزاج کی وجہ سے وہ درباروں سے دور رہے۔ نواب سعادت علی خان نے انھیں لکھنو بلوایا، وہ نہ گئے۔ اسی طرح بھرت پور کے رئیس کی دعوت بھی ٹھکرا دی ۔ متھرا میں کچھ عرصہ معلم رہے مگر جلد ہی نوکری چھوڑ کر آگرہ آگئے اور سترہ روپے ماہوار پر لالہ بلاس رام کے بچوں کے اتالیق ہو گئے۔ نظیر نے طویل عمر پائی۔ آخری عمر میں فالج کے عارضے میں مبتلا ہوئے اور اسی بیماری کے باعث انتقال کیا۔


نظیر اکبر آبادی نے میر و سودا، ناسخ و آتش اور انشاء جرأت کا زمانہ دیکھا، مگر اپنی آزاد طبیعت کے باعث سب سے الگ رہے۔ اُن کی شاعری عوامی ہے۔ انھوں نے اپنے قرب وجوار کے ماحول ، اپنے عہد کے رسم و رواج اور تہذیب و تمدن کو بڑی عمدگی کے ساتھ اپنی شاعری میں ڈھالا ہے۔ انھوں نے شعر و سخن کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا، جن کا تعلق برادراست عوام الناس، بالخصوص غریب اور مفلس طبقے سے تھا۔ ان کی نظموں میں مناظر فطرت، مذہبی تہوار، سماجی رسوم، میلوں ٹھیلوں، جانوروں حتی کہ پھلوں اور سبزیوں کا جابجا ذکر دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے اردو نظم گوئی کے دامن کو وسیع کیا۔ 


انھوں نے طویل اخلاقی اور اصلاحی نظمیں لکھیں ۔ ان کے علاوہ مناظر فطرت، موسموں اور تہواروں پر ان کی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ نظیمیں ان کے غیر معمولی مشاہدے اور زندگی کے گہرے تجربوں کی عکاس ہیں۔ نظیر کی زبان عام فہم اور سادہ ہے۔ اُن کی شاعری کا ضخیم کلیات اُردو ادب میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔


(4) علامہ محمد اقبال کا مختصر تعارف :

(1877ء.......1938ء)

ہمارے قومی اور ملی شاعر، مفکر اور نظریہ پاکستان کے خالق علامہ محمد اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ اعلی تعلیم کے لیے یورپ گئے اور وہاں سے بارایٹ لا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وطن واپسی پر وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ ۱۹۳۰ء میں خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کا نظریہ پیش کیا۔ ۱۹۳۸ء میں انتقال کیا اور لاہور میں شاہی مسجد کے قریب دفن ہوئے ۔


علام اقبال نے اردو و فارسی دونوں زبانوں میں پر اثر اور پر سوز شاعری کی ۔ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا مگر بعد میں زیادہ تر توجہ نظم نگاری کی جانب مبذول کر دی کیونکہ قوم تک اپنا پیغام پہنچانے کا یہ زیادہ موثر ذریعہ تھا۔ اقبال کا دائرہ فکر مشاہدہ کائنات اور مطالعہ بہت وسیع تھا۔ آپ اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے عاشق تھے اور اس چاہت اور عقیدت کا اظہار جا بجا ان کے کلام میں دکھائی دیتا ہے۔ 


اقبال نے محض روایتی عشق و عاشقی کے موضوعات سے ہٹ کر اپنی شاعری میں زندگی، کائنات، خدا، ابلیس ، عقل وخرد ،تصوف ،قومیت، مرد مومن ، سیاست و مملکت اور خودی و بے خودی کا فلسفہ پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال جیسا عظیم شاعر فلسفی

آج تک پیدا نہ ہو سکا۔


بانگِ درا" : بال جبریل “ اور ”ضرب کلیم ان کی اردو شاعری کی کتابیں ہیں ۔ " ارمغان حجاز میں بھی کچھ اردو نظمیں شامل ہیں جبکہ اس کا غالب حصہ فارسی میں ہے۔ فارسی کے دیگر شعری مجموعوں میں پیام مشرق ، جاوید نامہ ،زبور عجم ،رموز بے خودی اور اسرار خودی شامل ہیں۔


(5) میر تقی میر کا مختصر تعارف :

(1723ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔1810ء)

میر تقی میر نام اور میر تخلص تھا۔ والد کا نام میرعلی متقی تھا۔ آپ آگرے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم سید امان اللہ سے حاصل کی، جو میر کے والد کے مرید اور منہ بولے بھائی تھے ۔ بچپن ہی میں والد اور امان اللہ کی وفات کے بعد میر کو تلاش معاش کے لئےآگرہ چھوڑ کر دلی آنا پڑا۔ یہاں ایک نواب کے ہاں ملازم ہوئے۔ وہ نواب نادر شاہ کے حملے میں مارا گیا تو میر آگرے لوٹ آئے لیکن انھیں دوبارہ دلی جانا پڑا۔ دلّی میں خراب امن و امان کی وجہ سے اُنھوں نے مجبور ہو کر لکھنؤ کا رخ کیا ۔ وہاں نواب آصف الدولہ کے دربار سے وابستہ ہو گئے اور باقی عمر اسی شہر میں بسر کی ۔


 میر کو خدائے سخن کیا گیا ہے۔ انھوں نے مختلف اصناف شعر میں طبع آزمائی کی ہے مگر ان کی پہچان غزل گوئی ہے۔ بلاشبہ غزل کے بادشاہ ہیں۔ خلوص، درد و غم، ترنم اور سادگی کی بدولت اُن کی غزلیں دل پر اثر کرتی ہیں۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہ صرف ان کے ہم عصر شعرا نے کیا ہے بلکہ متاخرین نے بھی انھیں سراہا ہے۔ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے اُن کو سرتاج شعرائے اردو قرار دیا ہے۔ میر کی تصانیف میں ایک خود نوشت ذکر میر، ایک تذکرہ " نکات الشعرا، ایک فارسی اور چھے اُردو دواوین شامل ہیں۔


(6) خواجہ حیدر علی آتش کا مختصر تعارف :

(1764ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔1846ء)

نام حیدرعلی اور تخلص آتش تھا۔ آپ فیض آباد لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ علی بخش تھا جو دلی کے ایک معزز خاندان سےتعلق رکھتے تھے۔ شجاع الدول کے عہد میں ولی چھوڑ کر فیض آباد گئے تھے۔ ابھی آتش صغیر سن تھے کہ والد وفات پاگئے۔ اس لیے ان کی تعلیم وتربیت بہت طریقے سے نہ ہو سکی۔ آتش نے نواب مرزا تقی خان کی ملازمت اختیار کر لی ۔ ان کے ساتھ لکھنو آگئے۔ شاعری میں مصحفی کی شاگردی اختیار کی۔ آپ کے اپنے ہم عصر شاعر امام بخش ناسخ سے کئی ادبی معرکے ہوئے۔ آپ قلندرانہ مزاج کے حامل تھے ، اس لیے کسی دربار سے وابستہ نہیں ہوئے۔


آتش غزل گو شاعر تھے۔ ان کی غزلوں میں تغزل کی بیشتر خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ وہ بھی اپنے زمانے کے دیگر شعرا کی طرح شاعری کو شاعرانہ صناعی مرصع کاری اور الفاظ کی نگینہ کاری کہتے تھے۔ تاہم آتش کے ہاں عامیانہ سوقیانہ پن دکھائی نہیں دیتا جو اس وقت کے لکھنوی شعرا کے کلام میں جابجا نظر آتا ہے۔ آتش کے کلام میں فقر وغنا، تو کل ، تصوف، دنیا کی بے ثباتی قناعت پسندی، درویشانہ رنگ اور اخلاقی مضامین بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں تغزل ، رجائیت ، سادگی و سلاست ،نادر تشبیہات و استعارات، عمدہ صنائع بدائع، رندانہ موضوعات اور آتش بیانی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ آتش کی تصانیف میں ان کا کلیات ہی اہم ہے جس میں ان کا وہ سارا کلام شامل ہے جومختلف اصناف سخن کی صورت میں موجود ہے۔


(7) مرزا اسد اللہ خاں غالب کا مختصر تعارف :

(1797ء۔۔۔۔۔۔۔۔1869ء)

اصل نام اسد اللہ خاں اور تخلص غالب تھا۔ آپ آگرہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مرزا عبداللہ بیگ تھا۔ غالب کی عمر پانچ سال کی تھی کہ ان کے والد ایک لڑائی میں مارے گئے ۔ والدہ کے انتقال کے بعد مرزا کی پرورش ان کے چچا نصر اللہ بیگ کے سپرد ہوئی تھی۔جو انگریزی فوج میں ملازم تھے۔ وہ بھی جلد ہی انتقال کر گئے تو یہ اپنی والدہ کے ساتھ دلی آگئے ۔ بچپن میں انھوں نے شیخ معظم سے تعلیم پائی۔ بعد میں اُنھوں نے عبد الصمد سے فارسی میں مہارت حاصل کی۔ ولی میں تیرہ برس کی عمر میں ان کی شادی نواب الہی بخش معروف کی بیٹی سے ہوئی۔


مرزا غالب کو پنشن ملتی تھی جس کے اضافے کے لیے انھوں نے کلکتے کا سربھی کیا مگراس میں اضافہ نہ ہوا۔ چنانچہ معاشی تنگدستی کی وجہ سے 1850ء میں بادشاہ کی ملازمت اختیار کی ۔ 1857ء میں جنگِ آزادی کی وجہ سے پنشن بھی بند ہوگئی اور شاہی ملازمت بھی جاتی رہی ۔ نواب یوسف علی خاں والی رام پور نے سو روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر کیا جو تاحیات انہیں ملتا رہا۔ عمرکا آخری حصہ بیماریوں میں گزرا۔ انھوں نے ولی میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔


 غالب نے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ اُردو شاعری میں اُن کا مقام بہت بلند ہے، جسے سب نے تسلیم کیا ہے۔ وہ بہت زیادہ وسعت نظر رکھتے تھے ۔ غالب ہر دور کے اہم شاعر ہیں۔ ان کی فنی عظمت کو ہر ایک نے سراہا ہے۔ ان کی ہمہ گیر شخصیت کی طرح ان کی شاعری میں بھی بڑا تنوع اور بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ ان کے ہاں موضوعات کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔ ان کی اردو غزل مضامین کی رنگارنگی، وسعتِ نظر تخیل کی بلندی، پہلوداری، معنی آفرینی، نادر تشیبات واستعارات، نئے نئے الفاظ و تراکیب ،طنز و ظرافت، آفاقیت اور جدت ادا کی بدولت بہت اعلیٰ پائے کی ہے ۔ ان خصوصیات کی بدولت انھیں اردو شاعروں کی صف اولین میں ممتاز جگہ ملی ہے۔

 

 آپ کی اہم تصانیف میں : "دیوان غالب (اُردو) ، دیوان فارسی، گل رعنا " "مہر نیمروز" دستنبو،قاطع برہان،لطائفِ غیبی، قادر نامه ،عودِ ہندی اور اردوئے معلی شامل ہیں۔


(8) بہادر شاہ ظفر کا مختصر تعارف:

(1775ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔1862ء)

بہادر شاہ خاندان مغلیہ کے آخری تاجدار تھے ۔ جب اُنھوں نے بادشاہت سنبھالی، تو اُس وقت مغلیہ اقتدار اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ شاہی خاندان کا فرد ہونے کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے شاعرانہ طبیعت بھی پائی تھی ۔ شاعری میں شاہ نصیر، ذوق اور غالب سے اصلاح لی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اقتدار ان سے چھن گیا۔ ان کے بیٹوں کوقتل کیا گیا اور انھیں انگریزوں نے جلاوطن کر کے رنگون ( موجودہ ینگون) برما میں نظر بند کر دیا جہاں انھوں نے زندگی کے آخری سال انتہائی کسمپرسی میں بسر کیے رنگون ہی میں انتقال کیا اور وہیں دفن ہوئے۔


بہادر شاہ ظفر کے کلیات میں میں ہزار سے زیادہ شعر ہیں۔ انھوں نے تقریبا سبھی اصناف شاعری میں طبع آزمائی کی لیکن اُن کی پہچان ان کی غزل ہے، جس میں سوز وگداز اور غم کے مضامین پڑھنے والوں کو متاثر کرتے ہیں ۔ زبان کی صفائی اور روز مرہ کے استعمال نے اُن کی غزل کو ایک خاص رنگ عطا کیا ہے، جس کی بدولت اُنھیں اُردو کے اچھے غزل گو شاعروں میں

شمار کیا جاتا ہے۔ بہادرشاہ ظفر کا کلیات خاصا ضخیم ہے، جو چار دواوین پر مشتمل ہے۔ کلیات ظفر میں اُردو زبان کے علاوہ پنجابی اور یورپی زبان کے اثرات کے حامل اشعار بھی ملتے ہیں۔