اصنافِ نظم کا مختصر تعارف اور تفصیل

اصنافِ نظم کا مختصر تعارف اور تفصیل

  اصنافِ نظم کا مختصر تعارف اور تفصیل

 حمد

حمد کے معنی اللہ تعالی کی تعریف کرنا کے ہیں۔ اصطلاحاً حمد ایسی نظم کو کہا جاتا ہے، جس میں اللہ تعالی کی صفات کا ذکر ہو اور اللہ کی کبربائی اور قدرت و عظمت کا اعتراف کیا گیا ہو۔ 

حمد ایک قدیم صنفِ سخن ہے۔ یہ اردو زبان کے ساتھ پروان چڑھی ہے۔ اس کے لیے ہیت، وزن اور بحر متعین نہیں ، اس لیے یہ کئی ہیتوں میں لکھی جاتی رہی ہے۔ محسن کا کوروی ، امیر مینائی ،ظفر علی خان اور ماہر القادری نے حمد ونعت میں نام پیدا کیا ہے۔

 نعت

نعت ایسی صنف سخن ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات شخصی حالات اور اخلاق کا بیان ہوتا ہے! یہ در اصل حب نبی کے اظہار کا ایک انداز ہے۔

اردو میں نعت گوئی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی خودارہ :۔ موضوع کی وسعت کی وجہ سے نعت کے لیے کوئی ہیت مفر نہیں ہے۔ نعت گو کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ حمد اور نعت میں حد فاصل قائم رکھے، تا کہ حمد اور نعت کے مابین معنوی اور فکری حوالے سے انفرادیت رہے۔ برصغیر میں رسما اور تبرکا نعت کہنے کا رواج رہا ہے، ہندو شعرا نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ حالی، محسن کاکوروی ، امیر مینائی مولانا احمد رضا خان بریلوی، ظفر علی خاں ، علامہ اقبال ، احسان دانش، ماہر القادری، عبد العزیز خالد، حفیظ تائب اور نعیم صدیقی نے عمدہ نعتیں لکھی ہیں ۔ گزشتہ چار دہائیوں سے یہ سلسلہ نعت گوئی زیادہ ہوا ہے اور اب کئی رسالے صرف نعت اور فن نعت کے حوالے سے نکل رہے ہیں۔

غزل

غزل اردو زبان کی مقبول ترین صنفِ سخن ہے۔ ابتدا میں غزل صرف حسن وعشق کے بیان تک محدود تھی اور اس کے موضوعات میں درد و غم اور سوز نمایاں رہا۔اب غزل کا موضوعاتی دائرہ وسیع ہو چکا ہے اور ہر موضوع پر غزلیں کہی جاری ہیں۔ درد اور گداز اب بھی اس کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ غزل جمالیاتی احساس کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے۔

غزل کی منفرد خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے اور یوں ہر شعر کا مفہوم پوری غزل ایک ہی بحر میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلع ہم ردیف و ہم قافیہ (یا غیر مردف ہونے کی صورت میں صرف قافیہ) ہوتا ہے اور باقی اشعار کا دوسرا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے ۔یادر ہے کہ ردیف کا ہونا لازم نہیں ، اس لیے ایسی غزل جس میں ردیف نہ ہوں اسے غیر مردف کہا جاتا ہے۔

 غزل کے آخری شعر کو جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔غزل میں اب تعداد اشعار کی کوئی قدر نہیں ہے۔

غزل کا سب سے بڑا موضوع واردات عشق و حسن ہے،اب سیاسی ،تہزیبی، اخلاقی، فلسفیانہ اور دیگر مسائل پر غزلیں لکھی جارہی ہیں۔ غزل کی زبان : سادہ اور سلیس ہوتی ہے اور لہجہ دھیما اور نرم ہوتا ہے اس کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ 

ولی دکنی، میر تقی میر ،میر درد ،محمد رفیع سودا ، انشا، ، آتش، مصحفی ، غالب اور بعد کے ادوار میں : حالی ،اصغر گونڈوی ، حسرت،جگر مراد آبادی،احسان دانش، فراق گورکھپوری، شہزاد احمد، خورشید رضوی ، احمدندیم قاسمی، ادا جعفری ، ناصر کاظمی، جمیل الدین عالی، احمد فراز، امجد اسلام امجد، منیر نیازی، پروین شاکر، افتخار عارف اور ظفر اقبال بڑے شاعر ہیں، جب کہ بیسوں دیگر شاعر بھی غزل گوئی میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ میر، غالب اور اقبال اردو کے بڑے شعراء گنے جاتے ہیں۔

قصیده 

قصیدہ ایسی صنف سخن ہے، جس میں کسی زندہ شخص کی بہادری ، جرات، سخاوت یا دیگر نمایاں اوصاف بیان کیے گئے ہوں۔

قصیدے کا پہلا شعر بھی مطلع کہلاتا ہے۔ غزل کی طرح پہلا شعر کے دونوں اور باقی اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ قصیدے میں شروع سے آخر تک ایک ہی بحر ہوتی ہے۔ اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہے۔ قصیدہ تشبیب ،گریز ،مدح اور دعا وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

 قصیدہ گوئی عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں مرون ہوئی۔ اردو میں نصرتی ، غواصی، سودا، ذوق اور مرزا غالب کے قصیدے زیادہ اہم ہیں۔

مرثیہ

مرثیہ کے لفظی معنی مرنے والے کی تعریف و توصیف کے ہیں۔ اصطلاح میں مرثیہ ایسی نظم کوکہتے ہیں جس میں مرنے والے کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اور نہایت درد و سوز اور حسرت ناک انداز میں اس کے محاسن کا ذکر کیا جاتا ہے۔مرثیے میں تمہید، سراپا، رخصت ،رجز، جنگی واقعات، شہارت، بین اور دعا کے عناصر بیان کیے جاتے ہیں ۔ 

اگرچه مرثیے کے موضوعات میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ قومی اور سیاسی رہنماؤں کے مرثیے بھی لکھے گئے۔ حالی نے غالب اور اقبال نے اپنی والدہ کا مرثیہ لکھا، لیکن مرثیے کی صنف زیادہ تر امام حسین اور ان کے اعزا کے میدان کربلا میں کارناموں کے ذکر کے لیے مخصوص سمجھی جانے لگی ہے۔

 مرثپے میں دیگر اصناف کی بہت سی خوبیاں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں۔ اس میں منزل کی جذبات نگاری قصیدے کی مدح اور مثنوی کی واقعہ نگاری ایک ساتھ پائی جاتی ہیں۔ المیے اور رنج و غم کے بغیر مرثیے کا تصور ممکن نہیں۔ 

 جنوبی ہند میں اردو مرثیے کی ابتدا ہوئی اور فضلی کو اردو کا پہلا مرثیہ نگار شمار کیا گیا۔ شمالی ہند خاص طور پر لکھنو میں اس صنف کو عروج ملا۔ مرزا دبیر اور میر انیس نے اس صنف کو جس کمال تک پہنچایا ، ان کے بعد اس میں اضافہ ممکن نہ ہا۔۔

مثنوی 

مثنوی ایسی مسلسل نظم ہے جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ( یا ہم قافیہ اور ہم ردیف) ہوتے ہیں اور ہر شعر کا قافیہ دوسرے شعر کے قافیے سے الگ ہوتا ہے۔ یہ شروع سے آخر تک ایک ہی بحر میں ہوتی ہے۔ ربط و تسلسل اس کا اہم اصول ہے۔ یہ زیادہ تر طویل قصوں ، داستانوں اور جنگی حالات کو منظوم صورت میں بیان کرنے کے کام آتی ہے۔ 

اردو مثنوی کا آغاز دکن میں ہوا۔ میر تقی میر، حالی محمد حسین آزاد اور کئی دیگر معروف شعرا نے مثنویاں لکھیں لیکن جو مقام میر حسن کی مثنوی سحر البیان اور دیا شکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم " کو نصیب ہوا ، وہ اور کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ بے ساختگی ، ربط اور تسلسل ، رومانی، واقع نگاری، کردار نگاری، جذبات نگاری، منظر کشی ،شگفتگی اور حسن ترتیب مثنوی کی اہم خوبیاں ہیں اور یہ خوبیاں "سحر البیان میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

قطعہ

 قلطعے کے لفظی معانی کڑے کرنا کے ہیں۔ اصطلاح میں قطعہ اس نظم کو کہا جاتا ہے، جس میں ایک شعر کا مفہوم دوسرے شعر سے وابستہ ہو اور اس کے مضمون میں تسلسل ہو۔ بعض لوگ اسے قصید ے کا ٹکڑا سمجھتے ہیں۔

  اس میں مطلع نہیں ہوتا اور یہ کسی بھی بحر میں لکھا جاسکتا ہے۔ قلعہ کم از کم دو اشعار پرمشتمل ہوتا ہے اور زیادہ کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔ اسی طرح قطعے میں موضوع کی بھی کوئی قید نہیں۔ 

  چونکہ قطعه دو اشعار پر مشتمل بھی ہو سکتا ہے، اس لیے اکثر شعرا دو شعروں پر مشتمل قطعات کہتے ہیں۔ طلبہ کو رباعی اور قطعے کا فرق سمجھنے میں الجھن ہوتی ہے، یادر ہے کہ: رباعی اور قطعے میں تین فرق ہیں۔ رہائی کے مخصوص اوزان، مطلع اور تعداد اشعار (دو) لازم ہیں، جب کہ قطعے میں ایسا نہیں ہوتا۔

رباعی

رباعی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معانی چار کے ہیں۔ اصطلاح میں رباعی وہ مختصر نظم ہے، جس کے چار مصرعے ہوتے ہیں، جن میں پہلا ، دوسرا اور چوتھا ہم قافیہ یا ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ اگر چہ رباعی کے لیے موضوع اور مضمون کی کوئی قید نہیں ہے لیکن عام طور پر اس میں صوفیانہ اور اخلاقی مضامین قلم بند کیے جاتے ہیں۔

رباعی کے اوزان اور بحریں مخصوص ہیں ، اس لیے یہ ایک مشکل صنف تصور کی جاتی ہے۔ میر، سودا ، اکبر، حالی ، جوش اور امجد حیدر آبادی اہم رباعی گو ہیں۔

 قطعے اور رباعی میں فرق

قطعے میں دو اشعار سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

رباعی میں دو اشعار سے زیادہ نہیں ہوتے۔ 

قطعے کے لیے کسی مخصوص بر اور وزن کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ 

رباعی کے اوزان اور بحور مقرر ہیں۔

 رباعی میں مطلع ضروری ہے۔

قطعے میں مطلع ضروری نہیں ۔

نظم

دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان بھی دو بڑے حصوں میں منقسم ہے یعنی نظم اور نثر بنیادی طور پر لفظ نظم نثر کے مقابلے میں ہر نوع کے اشعار کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس طرح غزل بھی نظم ہی میں شامل ہے۔ 

اصطلاح میں نظم موزوں کلام کا نام ہے۔نظم موضوع اور ہیت کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

موضوع کے لحاظ سے نظم کو حمد ،نعت ،قصیدہ ،مرثیہ، شہر آشوب، واسوخت، ریختی ،پیروڈی اور گیت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

 ہیئت (فارم) کے لحاظ سے نظم ،غزل، مثنوی، رباعی، قطعہ ، ترکیب بند، ترجیع بنداور مستزاد میں منقسم ہے۔ جدید نظم کی تین صورتیں زیادہ معروف ہیں پابند نظم معری نظم اور آزاد نظم ۔

پابند نظم

نظم کی سب سے زیادہ متداول قسم ہے، جس میں بحر، وزن اور ردیف و قافیہ کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں کسی بھی موضوع کو موضوعِ سخن بنایا جا سکتا ہے۔ قصیدہ مثنوی، مربع ، ترکیب بند، مرثیہ اور قطعہ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔

معری نظم

معری نظم کا رواج پہلے مغربی ادب میں ہوا اور پھر دیگر مغربی اصناف کی طرح اردو میں عام ہوئی۔ اس قسم کی نظم میں قافیے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا البتہ بحر اور وزن کی پابندی کی جاتی ہے۔ اردو میں عبدالعلیم شر اور اسماعیل میرٹھی نے ابتدا کی۔

 معری نظم کو اس عملی رکاوٹ سے رواج ملا، جو قافیے کی پیدا کردہ تھی ۔

 آزاد نظم

معری نظم بے قافیہ تو ہوتی ہے لیکن مصرعے برابر ہوتے ہیں، جب کہ آزاد نظم میں ایک بحر ہوتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔

اردو میں تصدق حسین خالد نے آزاد نظم کی ابتدا کی۔ اس کے بعد ن م راشد ، مصطفی زیدی ،امجد السلام امجد ،خورشید رضوی،نعیم صدیقی اور دیگر بہت سے شعرا نے آزاد نظمیں لکھی ہےاور اب یہ سلسلہ وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔



Post a Comment

0 Comments