محسن کاکوروی کے حالاتِ زندگی اور خصوصیاتِ شاعری

محسن کاکوروی کے حالاتِ زندگی اور خصوصیاتِ شاعری

محسن کاکوروی کے حالاتِ زندگی اور خصوصیاتِ شاعری

حالات زندگی


نام محمد حسن کا کوروی تھا اور محسن تخلص کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے ۔ وہ ۱۸۲۷ء میں موضع کا کوری ضلع لکھنؤ (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ کاکوری میں پیدا ہونے کی نسبت سے محسن کا کوروی کہلائے ۔ ان کے آبا و اجداد ارض مقدس حجاز کے باشندے تھے ۔ والدہ کا نام مولوی حسن بخش تھا ، جوممتاز عالم دین تھے۔
 محسن کا کوروی کا رجحان طبع شروع ہی سے عبادت و ریاضت کی طرف تھا۔ انھوں نے سات برس سے سولہ برس تک اپنے دادا کے دامن تربیت میں پرورش پائی۔ پھر نظامت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد وکالت کا امتحان پاس کیا اور اکبر آباد (آگرہ) میں وکالت شروع کر دی۔ انھوں نے نو برس کی عمر میں خواب میں سید الانبیاء خیرالمرسلین حضرت محمد کی زیارت کی۔ بعد میں انھوں نے اس خواب کو فارسی میں نظم بھی کیا۔

محسن کا کوروی کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ وہ اپنی والدہ کے خالہ زاد بھائی مولوی ہادی علی اشک سے اصلاح لیتے تھے۔ اپنی شاعری کی ابتدا انھوں نے غزل گوئی سے کی۔ بعد میں غزل گوئی کو ترک کر کے نعت گوئی شروع کی۔ بالآ خر اپنی شاعری کو صرف نعت رسول مقبول کے لیے وقف کر دیا۔ خود فرماتے ہیں: 

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کے لیے
 زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لیے

ازل سے جب ہوئی تقسیم نعمتیں محسن 
کلام نعتیہ رکھا مری زباں کے لیے

محسن کاکوروی کے قصیدے، مسسدسیں اور مثنویاں نعتیہ ادب کے ایسے فن پارے ہیں کہ جن کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ وہ مضمون میں موضوع کے لحاظ سے نیا پن، اسلامی اور تہذیبی تصورات کے امتزاج ، حدیث اور عقائد کی صحت کو مد نظر رکھتے ہیں ۔انھوں نے چندر با عیاں اور غزلیں بھی کہی ہیں محسن کا کوروی ۲۴۔ اپریل ۱۹۰۵ء کو مین پور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور وہیں دفن کیے گئے ۔ وفات کے بعد اُن کے بڑے صاحبزادے مولوی نورالحسن نے ان کی کلیات مناظر پریس لکھنو سے ۱۹۰۸ ء میں شائع کرائی۔

شعری مجموعے کلیات نعت محسن (اس کلیات میں ان کے نعتیہ قصیدے مثنوی چراغِ کعبہ اور چند رباعیاں اور غزلیں بھی شامل ہیں۔

خصوصیاتِ شاعری


محسن کا کوروی کی شاعری میں نعتیہ کلام بکثرت موجود ہے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی صرف یہی نعتیہ کلام ہے۔ اس ضمن میں ان کی نعتیہ مثنویاں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ محسن کا کوروی نے صحابہ کرام کی منقبتیں بھی کہی ہیں۔ تاہم چند غزلیں اور رباعیاں بھی کہی ہیں۔ انھیں تاریخ گوئی کا بھی شوق تھا۔ محسن کا کوروی دبستان لکھنؤ سے نسبت رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے اُن کی نعتیہ شاعری میں دبستان لکھنو کی بیشتر خصوصیات نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری زبان دانی کا عمدہ نمونہ ہے، جس میں عربی و فارسی الفاظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ ہندی الفاظ کا استعمال بھی خوب ہوا ہے۔ 
محسن کاکوروی تشبیہات و استعارات سے بھی خوب کام لیتے ہیں۔ ان کی تشبیہں میں بڑی جچی تلی اور مکمل ہوتی ہیں۔ 
محسن کا کوروی کے کلام میں جہاں ظاہری حسن ہے، وہاں جذبے کی گہرائی اور خلوص بھی پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری بلند پروازی اور رفعت مطالب کے ساتھ دلی خلوص، سچی لگن اور حقیقی تاثیر کی بھی حامل ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں سب سے زیادہ شہرت ان کے مشہور قصیدے مدیح خیرالمرسلین کو نصیب ہوئی۔ یہ قصیدہ انھوں نے ۱۸۴۲ء میں لکھا۔ اس قصیدے کا مطلع ہے:

سمتِ کاشی سے چلا، جانب متھرا بادل
 برق کے کاندھے پہ لاتی ہے ہوا گنگا جل 
 
محسن کا کوروی کی طبیعت نعت گوئی ہی سے لگاؤ رکھتی تھی۔ اس بنا پر انھوں نے نعت گوئی میں جدت پسندی کو کام میں لا کر رنگا رنگ گلوں کا ایک گلستان کھلایا۔ محسن کاکوروی اپنے عہد کے دیگر تمام نعت گو شعرا میں منفرد، نمایاں اور بلند مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ ان کی نعتوں میں سلامت روانی اور بے ساختگی اس نوعیت کی ہے کہ جس سے عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ محسن کاکوروی نے نعتوں میں علمی تلمیحات، قرآنی آیات، رعایات لفظی، صنائع بدائع تشبیہات و استعارات اور معنی آفرینی سے خوب کام لیا ہے۔ وہ ہمیشہ مترنم الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کایہ نعتیہ کلام زبان دانی کا عمدہ نمونہ ہے، جس میں عربی و فارسی الفاظ و تراکیب کے علاوہ ہندی کے مانوس الفاظ بھی بڑی چابکدستی سے استعمال کیے گئے ہیں۔

 خبر اڑتی ہوئی آتی ہے مہابن میں ابھی
  کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل

جانب قبلہ ہوئی ہے یورشِ ابرِ سیاه 
کہیں پھر کعبہ پہ قبضہ نہ کریں لات وہیل

 شاید فکر ہے مکھڑے سے اٹھائے گھونگھٹ
  چشمِ کافر میں لگائے ہوئے کافر کا جل

محسن کا کوروی نعتیہ قصیدوں کی تشبیب میں برصغیر کا مانوس ماحول پیدا کر کے گریز کی طرف آتے ہیں اور اسے اسلامی ماحول میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اس طرح اسلامی ماحول اور فضا مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ محسن کا کوروی نے مثنویاں بھی لکھی ہیں، لیکن اُن کی طبیعت نے انھیں روایتی مشقیہ مثنویوں کی طرف مائل ہونے نہیں دیا۔ 
چناں چہ یہاں بھی نعتیہ رنگ بھر کر مثنوی کے جملہ لوازمات کو اس طرح نبھایا ہے کہ شاید ہی ایسی مثال کہیں اور مل سکے۔ چوں کہ ان مثنویوں کا موضوع اپنی پاکیزگی اور بلندی خیال کی وجہ سے نہایت اعلیٰ ہے، لہذا محسن کا کوروی نے ان کے لیے ایسی ہی پاکیزہ زبان استعمال کی ہے۔ ان کی مثنویوں میں چراغ کعبہ اور صبح تجلی اپنی مثال آپ ہیں۔
 چراغ کعبہ میں نبی کریم کے معراج پر تشریف لے جانے کا واقعہ بیان کیا ہے، جب کہ صبح تحلی، میں نبی کریم کی ولادت کا ذکر کیا ہے۔
 

نعت: (متن)


سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کے لیے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لیے

ترے زمانے کے باعث زمین کی رونق
ملا زمین کو رتبہ ترے زماں کے لیے

ازل میں چن لیے خالق نے رنگ رنگ درود
بجائے لعل و گہر تیرے ارمغاں کے لیے

کمال اپنا دیا تیرے بدر عارض کو
 کلام اپنا اُتارا تری زباں کے لیے

ازل میں جب ہو ئیں تقسیم نعمتیں محسن 
کلام نعتیہ رکھا مری زباں کے لیے

 تشریح


شعر نمبر 1


محسن کا کوروی فرماتے ہیں کہ یہ جو شاعری ایک اعلیٰ درجے پر فائز ہوتی ہے، تو صرف میری زبان کے لیے ہے، تا کہ میں اسے کہ سکوں اور یہ زبان مجھے خالق حقیقی نے اس لیے دی ہے، تا کہ میں اپنے پیارے نبی کریم کی تعریف وٹا میں نعتیں کہ سکوں۔ یہ زبان مجھے کسی اور کام کے لیے نہیں ملی ہے، یہ صرف نعتیہ شاعری کے لیے ملی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتی تو شاعری کو بلند درجہ و مرتبہ بھی حاصل نہ ہوتا ۔

شعر نمبر ۲


محسن کا کوروی نبی کریم سے مخاطب ہیں کہ یہ زمین، اس کی چہل پہل ، زندگی اور رونقیں اللہ تعالی نے آپ کے زمانے کو لانے کے لیے پیدا کی ہیں، یعنی یہ صرف آپ کے زمانے کی وجہ سے تخلیق کی گئی ہیں ۔ اس وجہ سے زمین کو ایک بلند و الی مقام مل گیا ہے، تا کہ آپ کا عہد اور ور اس پر لایا جاسکے۔ مراد یہ ہے یہ کا ئنات از مین اور اس کی رونقیں صرف حضور کے ظہور کے لیے پیدا کی گئی ہیں، تا کہ آپ آخر الزماں پیغمبر کی حیثیت سے آئیں اور اللہ کی وحدانیت کا پیغام سنائیں ۔ اس حیثیت کی بنا پر زمین کا رتبہ بلند ہوا ہے۔

شعر نمبر ۳


محسن کا کوئی فرماتے ہیں کہ للہ تعال نے اس کا نات کی تخلیق کے آغاز ہی میں آپ کو تحفہ دینے کے لیے نہیں تی لعل و جواہرات کا انتا اس لیے ہی کیا کہ یہ وتی و ویدنے والی چیزیں ہیں اوں نے ضائع ہو جاتا ہے یہی ہو سکتی ہیں اور یہ بھی کہ یہ چیزیں مادہ پرتی کی علامت ہیں۔اللہ تعالی نے آپ کے لیے ایسی چیزیں چنی ہیں، جو بھی دریا تک رہیں گی۔ ان میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ان میں کبھی کی نہیں آئے گی ، بل کہ ان کے ادا کرنے والوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا، جومحبت وعقیدت کے اظہار کی بہترین چیزیں ہیں اورنبی کو تھے میں دینے کے لیے یہی چیز میں زیب دیتی ہیں۔ راتی دنیا تک انسان آپ پر سلام و درود بھجتے رہیں گے۔ شاعر کو یقین ہے کہ اسے بھی اللہ تعالی نے آپ پر شاعری کے ذریعے سلام و درود بھیجنے کے لیے منتخب کیا ہے۔

شعر نمبر ۴


محسن فرماتے ہیں کہ اے نبی ! اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا کمال دکھایا اور آپ کے رخساروں کو چودھویں کے چاند سے بھی زیادہ روشن بنایا ہے۔ ہمیشہ اس روشن چہرے کی تعریف و توصیف ہوتی رہے گی ۔ اس طرح اللہ تعالی نے قرآن پاک آپ کی زبان سے بیان ہونے کے لیے اتارا۔ آپ ہی کی ذات اقدس اس کلام کو بھی تھی اور بنی نوع انسان کو اس کا کلام سمجھ سکتی تھی ، کوئی اور انسان یہ فریضہ سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔

شعر نمبرہ:


نعت کے مقطع میں حسن کا کوروی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس کائنات کے آغاز میں اپنی نعمتیں اپنی مخلوق میں تقسیم کی تھیں۔ اللہ تعالٰی اپنی نعمت کے طور پر میرے لیے نعت گوئی رکھ دی تھی ، تا کہ حضرت محمد کی تعریف و توصیف بیان کر سکوں ۔ میرے لیے اس نعمت عظمی سے بڑی کوئی اور زحمت نہیں ہوسکتی۔ یہی میرا مقدر ہے اور اس سے اچھی تقدیر کیا ہوگی کہ جس میں اتنی بڑی سعادت رکھ دی گئی ہو۔

یہ شاعرانہ خیال نہیں ہے۔اللہ تعالی نے ہر انسان کی تقدیر روز اول ہی سے لکھ دی تھی اور جوس کی تقریر میں لکھ دیا جاتا ہے، ووہر حال میں ہو کر رہتا ہے۔محسن کا کوروی نے نعت کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا، کسی اور بش کی تعریف میں اپنا زبان کو آلودہ نہیں کیا۔

Post a Comment

0 Comments