علامہ محمد اقبال کےخطبہ لاہور سے قیام پاکستان تک

علامہ محمد اقبال کےخطبہ لاہور سے قیام پاکستان تک

 علامہ محمد اقبال کےخطبہ لاہور سے قیام پاکستان تک 

خطبہ لاہور

مارچ 1932 ء میں مسلم کا نفرنس کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ اس کی صدارت کے لیے علامہ اقبال کو منتخب کیا گیا۔ اس کا نفرنس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے جو خطبہ ارشادفرمایا وہ خطبہ الہ آبادی کی پیش رفتہ صورت ہے۔

 اس میں آپ نے فرمایا کہ: حب الوطنی بالکل طبیعی صفت ہے اور انسان کی اخلاقی زندگی میں اس کے لیے پوری جگہ ہے۔ لیکن اصل اہمیت اس کے ایمان ، اس کی تہذیب اور اس کی روایات کو حاصل ہے اور میری نظر میں یہی اقدار اس قابل ہیں کہ انسان ان کے لیے زندہ رہے اور ان ہی کے لیے مرے ، نہ کہ زمین کے اس ٹکڑے کے لیے جس سے اس کی روح کو کچھ عارضی ربط پیدا ہو گیا ہے۔ ہندوستان کی بے شمار جماعتوں کے باہمی اختلاف کے تمام ظاہر و پوشیدہ محلات کی بنا پر میں یقین رکھتا ہوں کہ مر بوط کل کی تشکیل کا امکان ہے جس کی وحدت کو اس کا اندرونی تنوع درہم برہم نہ کر سکے۔

اس کے بعد فرمایا کہ: انفرادی اور اجتماعی زندگی کا یہی راز ہے ۔ ہمارے نصب العین کا تعین ہو چکا ہے۔ ہمیں آئندہ دستور میں اسلام کے لیے ایک ایسی جگہ حاصل کرنی ہے جو آگے چل کر اس ملک میں اس کے مقاصد کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مقصد کی روشنی میں جماعت کی ترقی پذیر صلاحیتوں کو بیدار کیا جائے اور اس کی خوابیدہ قوتوں کو جھنجوڑا جائے ۔ شعلہ حیات مستعار نہیں لیا جاتا ، اسے تو خود اپنی روح کے مندر میں فروزاں کیا جاتا ہے۔

علامہ اقبال کا قائد اعظم سے رابطہ

1936ء میں قائد اعظم محمدعلی جناح نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا آغاز کیا اور پورے ملک کا دورہ کیا مسلمانوں کی علاقائی اور چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دی جس کا خاطر خواہ اثر ہوا اورمسلمانوں کی انجمنیں اور جماعتیں مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہو گئیں ۔ 29 اپریل 1936 ء کوقائد اعظم محمد علی جناح پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کے سلسلے میں لاہور تشریف لائے پنجاب کے سر بر آوردہ رہنماؤں سے تعاون کی استدعا کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اس کے بعد آپ نے علامہ اقبال سے درخواست کی ۔

 انہوں نے بیماری کے باوجود امداد و اعانت کا وعدہ کیا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ اودہ کے تعلقہ داروں یا بمبئی کے کروڑ پتی سیٹھوں کی قسم کے لوگ پنجاب میں تلاش کریں گے تویہ بن میرے پاس نہیں ۔ میں صرف عوام کی مدد کا وعدہ کر سکتا ہوں ۔ یہ بات سن کر قائد اعظم محمد علی جناح کری سے دو انچ اٹھے اور بڑے جوش سے کہنے لگے کہ مجھے صرف عوام کی مدد کی ہی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے قائد اعظم محمدعلی جناح کے ایک سپاہی کی حیثیت سے پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا کام شروع کیا۔ اس میں انہیں اچھی خاصی کامیابی حاصل ہوئی ۔  

علامہ اقبال وقتا فوقا قائد اعظم کو حالات و واقعات کی اطلاع دیتے رہے اور پنجاب میں مسلم لیگ کی سرگرمیوں سے بھی مطلع کرتے رہے ۔ قانون ہند 1935 ء کے ماتحت 37-1936 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی لیکن کانگریس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس سے کانگریس کو اپنی قوت کا احساس ہوا۔ اس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے ملک میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں لانے کے لیے مسلم رابطہ عوام تحریک شروع کی اور ساتھ ہی بڑے جوش و خروش سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی مسئلہ ہے۔ ممکن تھا کہ مسلمان اس سے متاثر ہوتے ہوئے کانگریس کے فریب میں آجاتے اس پر علامہ اقبال نے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ آپ اعلان کردیں کہ: 

سیاسی مطمع نظر کی حیثیت سے مسلمانان ہند ملک میں جدا گانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔

مسلمان کانگریس کے قریب میں نہیں آئے اور اس کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں ۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے اپنے باہمی انتشار کو ختم کر کے اپنے آپ کو مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد و منظم کیا میمنی انتخاب سے ثابت ہو گیا کہ مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کی نگران ہے بلکہ ان کے جد گا نہ قومی تشخص کی بھی علمبر دار ہے۔ 

علامہ اقبال خطوط کے ذریعے سے قائد اعظم محمد علی جناح سے رابطہ قائم رکھے ہوئے تھے ۔ انہیں ملک کے سیاسی مسائل کے بارے میں اپنی رائے سے مطلع کرتے رہتے تھے ۔ علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں سیاسی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی غربت و افلاس کے علاج کے لیے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی جدا گانہ ریاست ہو اور اس میں نظام شریعت کا نفاذ ہو ۔ اس سے مسلمانوں کی سیاسی اور اقتصادی زندگی درست ہو سکے گی۔ آپ نے 28 مئی 1937ء کو قائد اعظم کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ:

اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کےبغیر اس ملک میں ناممکن ہے ۔ سالہال سے یہی میرا عقیدہورہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی عزت اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہو سکتا ہے۔ 

مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یازیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے ، جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو ۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبے کا وقت نہیں آ پہنچا؟ 

قائد اعظم محمد علی جناح کے نام علامہ اقبال کا 21 جون 1937ء کوتحریر کردہ خط اپنے مباحث کے اعتبار سے بڑا اہم اور منفرد ہے۔ اس خط میں اس زمانے کے برصغیر کے سیاسی حالات اور مسائل کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات کی پوری جھلک موجود ہے ۔

آپ نے تحریر فرمایا کہ: میں جانتا ہوں کہ آپ بہت مصروف آدمی ہیں مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آپ بار خاطر نہ خیال کریں گے ۔ اس وقت جو طوفان شمالی مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی کی حالت میں ہیں۔ اگر فوج اور پولیس نہ ہو تو یہ (خانہ جنگی ) دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جائے ۔

 گذشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے۔۔۔۔۔ میں نے تمام صورت حال کا اچھی طرح سے جائزہ لیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اور نہ اقتصادی بلکہ خالص سیاسی ہیں ۔۔۔۔۔ نیا دستور ہندوؤں کی خوشنودی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوؤں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو کا ملا ہندوؤں پر انحصار کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔

میرے ذہن میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ یہ دستور ہندوستانی مسلمانوں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ اقتصادی مسئلے کا بھی حل نہیں جو مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ جانگاہ بن چکا ہے ۔۔۔۔۔ ان حالات کے پیش نظر یہی حل ہےکہ ہندوستان میں قیام امن کے لیے ملک کی از سرنو تقسیم کی جائے جس کی بنیاد نسلی، مذہبی اور لسانی اشتراک پر ہو ۔۔۔۔ پنجاب کے کچھ مسلمان شمالی مغربی ہندوستان میں مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔

مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی اور نہ ان میں اتنا نظم و ضبط ہے اور شاید ایسی کانفرنس کے انعقاد کا بھی موزوں وقت بھی نہیں ۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبے میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ کر دینا چاہیے جو شمالی مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔ میرے خیال میں تو نئے دستور میں ہندوستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے۔ مسلم صوبوں کے جدا گانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ، صرف واحد راستہ ہے جس سے ہندوستان میں امن وامان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبے وقتسلط سے بچایا جاسکے گا۔ کیوں نہ شمالی " 

مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحد و اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری حاصل ہو "۔

 مسلم اسٹوڈنٹس فیڈ ریش کا قیام

ان ہی دنوں ( ستمبر 1937 ء ) پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔ علامہ اقبال نے طلبہ کی رہنمائی کی اور انہیں تحریک پاکستان کے ایک نازک دور کے لیے تیار کیا۔ فیڈ ریشن نے پنجاب میں مسلم لیگ کو عوام میں مقبول بنانے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ مسلم عوام میں مطالبہ پاکستان کی وضاحت اور اس کے لیے مسلم عوام کو تیار کرنے کے لیے طلبہ نے گاؤں گاؤں اور شہر شہر دورے کیے اور قیام پاکستان کی جدو جہد میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ یہ سب علامہ اقبال کا ہی فیضان تھا ۔

قیام پاکستان

علامہ اقبال کے قائد اعظم کے نام خطوط اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ علامہ اقبال آہستہ آہستہ قائد اعظم محمدعلی جناح کو اپنی خواہش۔ مطالبہ پاکستان کی طرف لائے جسے قائد اعظم نے خود تسلیم کیا کہ ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر میں ہندوستان کے دستوری مسائل کے مطالعے اور تجزیے کے بعد انہیں نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصے بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحد اخو اہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیامسلم لیگ کی 23 مارچ 1940ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور میں ہوا تھا جو عام طور پر قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہے ۔ 

قرارداد پاکستان کی منظوری کے اگلے دن قائد اعظم محمدعلی جناح نے اپنے سیکرٹری سید مطلوب الحسن سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ " آج اقبال ہم میں موجود نہیں ہیں ۔ اگر دو زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسے کیا جس کی وہ ہم سےخواہش کرتے تھے ۔

قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد مسلمانوں کا نصب العین یہ قرار پایا کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحد و اور جداگانہ مملکت قائم کی جائے۔ چنانچہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں بر صغیر کے مسلمانوں نے اپنے ملی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے

بھر پور جد و جہد کا آغاز کیا۔ راستے میں کئی رکاوٹیں آئیں اور کئی مقامات پر ہندو اور انگریز دونوں سے مقابلہ ہو اگر مسلمانوں کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی ۔ 

بالآخر 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں نے اپنے لیے جداگانہ مملکت پاکستان حاصل کر لی۔ قیام پاکستان علامہ اقبال کا سیاسی کارنامہ ہے۔ پاکستان کی اساس اس نظریے پر تھی کہ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان ایک الگ اور جدا قوم ہیں ۔ علامہ اقبال نے اس نظریے کی بالصراحت وضاحت کی اور اس کی اشاعت دتر و پیج میں بڑی تگ ودو کی۔ مسلمانوں کو ایک زندہ قوم کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے اسرار رموز بتائے ۔ جب مسلمانوں میں سیاسی بیداری عام ہوئی اور آزادی کے لیے ان میں تڑپ پیدا ہوئی تو بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ اور جداگانہ مملکت کا تصور پیش کیا ۔ اس کے حصول کے لیے قیادت کی نشاندہی کی اور پھر اس مملکت کے حصول کی جدو جہد کے لیے نو جوانوں اور طلباء کی صورت میں کارکن مہیا کیے جنہوں نے مسلم عوام میں پاکستان کے تصور اور مطالبہ کو عام کیا کہ:

" پاکستان کا مطلب کیا ؟ لااله الاالله



Post a Comment

0 Comments