سیرت رسول اکرم ﷺ کی جامعیت|| اطاعتِ رسول قرآن مجید کی رو سے

سیرت رسول اکرم ﷺ کی جامعیت|| اطاعتِ رسول قرآن مجید کی رو سے

  سیرت رسول اکرم ﷺ کی جامعیت|| اطاعتِ رسول قرآن مجید کی رو سے

اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تا کہ لوگ آپ کی اطاعت اور اتباع کریں ، اتباع کا یہ علم کسی وقت ، زمانے ، قوم یا کسی ملک کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو آپ کی اطاعت کا حکم دیا گیا۔ اس طرح کی غیر مشروط اطاعت کے حکم کے ساتھ ضروری تھا کہ آپ کی سیرت ہر اعتبار سے کامل اور جامع ہو اور آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ تاریخی طور پر محفوظ ہو اور آپ کی حیات طیبہ میں ہر طرح کے انسانوں کے لیے عملی نمونے موجود ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ ان تمام تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

 کائنات میں مقدس ترین فریضہ 

 کائنات کا سب سے مقدم فرض اور سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انسانی اخلاق کی اصلاح و تکمیل کی جائے۔ یعنی لوگوں کو اچھے اخلاق کی تعلیم دی جائے اور انہیں عملی طور پر رائج کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس مقصد کے حصول کا طریقہ وعظ ونصیحت ہے۔ اس سے زیادہ متمدن طریقہ یہ ہے کہ فن اخلاق پر کتا میں لکھ کر ان کی تعلیم دی جائے۔ یا پھر لوگوں سے بالجبر محاسن اخلاق کی تعمیل کرائی جائے اور رزائل (برے کاموں )

سے روکا جائے۔

یہی طریقے جو ابتداء سے آج تک دنیا میں جاری رہیں اور آج اس ترقی یافتہ دور میں بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا لیکن سب سے زیادہ صحیح ، سب سے زیادہ کامل اور سب سے زیادہ عملی طریقہ یہ ہے کہ نہ زبان سے کچھ کہا جائے نہ تحریری نقوش پیش کیے جائیں اور نہ جبرو تشدد سے کام لیا جائے بلکہ فضائل اخلاق کا ایسا پیکر مجسم سامنے آ جائے جو خود ہمہ تن آئینہ عمل ہو۔ جس کی ہر جنبش لب ہزاروں تصنیفات کا کام دے اور جس کا ایک ایک اشارہ امر سلطانی بن جائے ۔ دُنیا میں آج اخلاق کا جو سرمایہ ہے وہ سب انہی نفوس قدسیہ کا پرتو ہے۔

دیگر اسباب صرف ایوان تمدن کے نقش و نگار ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم نے حضور ﷺ کے طرز زندگی کو بہترین نمونه عمل قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول اور اس کی طرف سے بخشش کا انحصار رسول کریم ﷺ کے اتباع پر ہے۔ مسلمان جب کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو وہ دراصل اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ زندگی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت یعنی اطاعت و بندگی کرے گا اور پھر اطاعت و بندگی کا وہی طرز اختیار کرے گا جو رسول اللہ ﷺ نے اختیار فرمایا۔

 اتباع کے تقاضے

اب ظاہر ہے کہ اتباع اس چیز کا ہو سکتا ہے جس سے واقفیت بھی ہو اس لیے آپ ﷺ کے طرز زندگی یعنی سیرت طیبہ کا مطالعہ دراصل ایک انسانی ضرورت ہے۔ انسان کی زندگی میں مختلف النوع حالات پیش آتے ہیں۔ مثلاً کبھی وہ تو انگر ہوتا ہے اور کبھی مفلس کبھی فرمانروا اور کبھی اطاعت گزار ۔ کبھی اسے کسی سے دوستی حاصل ہوتی ہے اور کبھی کسی کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی صحت وقوت ہے تو کبھی بیماری کا سامنا، کہیں حکومت و جماعت کا منتظم اور کہیں نادانوں کا معلم ۔ پھر یہ انسان ہی تو ہے جو کبھی فوج کا کمانڈر ہے اور کبھی بیج بن کر داد عدل گستری کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

 بہر کیف صورت حال کوئی بھی ہو۔ قدرتی طور پر انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لیے کیا رویہ اختیار کرے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ بطور نمونہ و عمل ایک انسان کامل کے حالات زندگی سے واقفیت ہونا ہی انسان کی فطری خواہش اور ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ یوں تو لا تعداد عظیم انسانوں کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ مگر ان میں سے ایسا کوئی نہیں جس نے زندگی کے ایک رُخ کی تعمیل کے لیے دوسرے رخ کو نظر انداز نہ کر دیا ہو ۔

لہذا ایسی صورت حال میں یہ ممکن نہیں ہے کہ زندگی کے کسی ایک رخ کے لیے نمونہ ایک شخصیت سے لیا جائے اور دوسرے رخ کے لیے دوسری شخصیت ہے۔ کیونکہ ایسے غیر متوازن پہلوؤں کے مجموعے سے ایک متوازن زندگی کا نقشہ تیار نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے برعکس حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں ہمیں کوئی خلا نہیں ملتا بلکہ ہر رخ مکمل ہے ۔ ہر چیز چمکتے ہوئے سورج کی طرح واضح ہے۔ آپ ﷺ کا شخصی کردار اور آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف ،شرافت ، صبر ، شجاعت ، توکل ، عبادت وغیرہ سب کی کیفیت اور عملی نمونے موجود ہیں۔ اس طرح آپ ﷺ کی گھریلو زندگی میں اچھے شوہر ، مشفق باپ اور مہربان نانا کے نمونے بھی مل سکتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں اچھے ساتھی ، ہمدردسر براہ ، اعلیٰ کمانڈر، بہترین منتظم و مدبر، دشمنوں کے خیر خواہ وغیرہ ۔ غرضیکہ ہر عمل کا نمونہ ۔ بہترین نمونہ آپ ﷺ کی ذات میں ملتا ہے۔ یعنی ایک ہی ذات میں ہر عمل کا نمونہ اور ہر معاملے کی رہنمائی مل جاتی ہے۔

 اتباع رسول ﷺ ۔ قرآن مجید کا حکم

ہم سب کا ایمان ہے کہ قرآن پاک کا ہر حکم واجب اعمل ہے۔ اس مقدس کتاب کا حکم ہے: مَا الكُم الرَّسُولُ فَخُدُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ﴾ و یعنی اے ایل ایمان ! تمہارا رسول ﷺ جو چیز دے اسے خوشی سے لے لو اور جس چیز سے وہ تمہیں رو کے اس سے فورا رک جاؤ ۔“

اس کے ساتھ ہی سورۃ النجم میں اس بات کی تشریح بھی کر دی کہ : وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى کہ نبی ﷺ جو کچھ بھی کہتے ہیں ، اپنی مرضی سے نہیں کہتے ہیں بلکہ صرف وہی کہتے ہیں جو ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔

پھر فرمایا: مَنْ يُطَع الرَّسُول فَقَدْ أَطَاع الله

کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی گویا اللہ تعالی کی اطاعت کی۔ یہاں تک کہ کامل نمونے کی ضمانت دیتے ہوئے فرمایا:

لَقَدْ كَان أَكُمْ فِي رَسُولِ الله اسوةً حَسَنَة له

کہ رسول پاک ﷺ کی مبارک زندگی تمہیں بہترین زندگی کے لیے کافی ہے۔ لہذا خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رسول مقبول ﷺ کے اسوہ حسنہ کو فرض قرار دیا ہے اور ایک کلمہ گو اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک آپ ﷺ کے نقش قدم پر نہ چلے۔

غیر مسلموں کے لیے اسوہ حسنہ

 غیر مسلموں کے لیے بھی اسوۂ حسنہ میں بہت سے سبق موجود ہیں۔ مکے کے کفار جو آپ ﷺ کی نبوت کو تسلیم نہ کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ کو جادوگر اور مجنوں کہہ کر پکارتے تھے اس کے باوجود وہی اس بات پر شاہد تھے کہ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ وہ آپ ﷺ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے تھے اور طعن و تشنیع بھی کرتے تھے۔ لیکن پھر بھی آپ ﷺ کو صادق و امین جان کر اپنی امانتیں آپ ﷺ کے پاس رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ جس رات کفار مکہ نے آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اس وقت بھی آپ ٹینا کے پاس امانتیں موجود تھیں اور آپ ا نے مکہ سے ہجرت فرمائی تو اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی اہلیہ کو گھر میں چھوڑ گئے کہ وہ غیر مسلموں کی امانتیں دے کر واپس کر کے مکے سے نکلیں۔ 

 کون سا ظلم ہے جو کفار مکہ نے آپ ﷺ پر روانہیں رکھا ، وہ تیرہ سال تک اس سرا پا حلم کو تنگ کرتے رہے۔ ہجرت کے بعد بھی برسوں تک ہر سال مدینہ پر حملہ کرتے رہے۔ لیکن جس روز آپ نے مکہ فتح کیا تو ان دشمنوں کو صرف یہ کہ کر چھوڑ دیا کہ جاؤ آج کے دن تم سب آزاد ہو ۔ میں نے تمہاری سب خطائیں معاف کر دی ہیں۔ کیا کوئی شخص اتنا عظیم اخلاق پیش کر سکتا ۔ سکتا ہے اور پھر یہی عالی ظرفی ، مروت ، رحمت ، شفقت، دیانت، امانت ، صداقت اور سخاوت آپ ﷺ کی نبوت پر دلالت کرتی ہے۔

جامعیت سیرت

سیاسی و انتظامی نکتہ نظر سے بھی سیرت کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جس ملک میں کبھی حکومت قائم ہی نہ ہوئی تھی وہاں آپ ﷺ نے صرف دس برس کی قلیل مدت میں صحابہ کرام کی تربیت کر کے

دس لاکھ مربع میل کے رقبے پر اسلامی ریاست قائم کر دی اور آپ ﷺ کی وفات کے چند سال بعد ہی ایشیا ، یورپ اور افریقہ کے براعظموں میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ آپ ﷺ کی سیاست کاری کے اصول بڑے لنشین اور مؤثر ہیں، مثلا مکہ معظمہ کی اقتصادی زندگی کا دارو مدار تجارتی قافلوں پر تھا۔ جب مصر شام اور یمن کے راستوں پر بسنے والے قبائل نے اسلام قبول کیا تو اس کا اثر لازمی طور پر قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر پڑا۔ قافلوں کی آمد ورفت رکنے سے مکہ معظمہ کے لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ انہی ایام میں عمامہ کے سردار نے اسلام قبول کر لیا۔ مکے کو اسی جگہ سے غلہ فراہم کیا جاتا تھا۔

صحیح بخاری میں ہے کہ جب یمامہ کا یہ سردار جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا مسلمان ہو کر مکہ معظمہ گیا تو قریش نے تبدیلی مذہب پر طعنے دیئے۔ انہوں نے غصے میں آکر فلہ روک دیا ، لہذا اس بندش سے مکہ معظمہ میں قحط پڑ گیا۔ آخر گھبرا کر قریش نے اس آستانہ کی طرف رجوع کیا جہاں سے کبھی کوئی محروم نہیں لوٹا، حضور اکرم ﷺ کو رحم آیا اور ثمامہ کو کہلا بھیجا کہ بندش اُٹھا لو۔ چنانچہ وہاں سے دوبارہ غلہ مکہ جانے لگا۔ اس عمل سے مکہ معظمہ میں حضور اکرم ﷺ کے طرف داروں کی ایک جماعت پیدا ہو گئی جو یہ کہتے تھے کہ محمد کتنے اچھے ہیں جو مصیبت میں اپنے دشمنوں کی امداد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر وہ بر وقت ہماری مدد نہ کرتے تو ہم بھوکوں مر جاتے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں سیرت طیبہ میں ملتی ہیں جن سے آپ ﷺ نے دشمنوں کے دل میں گھر کر لیا۔ 

حاکم کی حیثیت سے بھی محسن انسانیت کی سیرت کا مطالعہ کیجئے۔ آپ ﷺ دس لاکھ مربع میل کے علاقہ پر حکمران تھے۔ مال غنیمت کا شمس یعنی پانچواں حصہ آپ ﷺ کا حق تھا۔ جو قرآن مجید نے مقرر کیا تھا لیکن اس مال کو بھی عوام کی بہتری اور ضروریات پر صرف فرماتے تھے۔ جب آپ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو گھر کی مالی حالت یہ تھی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ گھر میں کچھ ہے انہوں نے عرض کی ہاں ایک دینار موجود ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ا سے بھی خیرات کر دو، ایسا نہ ہو کہ کل میں خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہوں تو مجھے کہا جائے کہ

تم اپنے گھر میں مال چھوڑ کر آئے ہو“۔

سرور کائنات سفارش ہرگز نہ مانتے تھے ۔ حضرت اسامہ بن زید نے ایک بار ایک قریشی عورت (جس نے چوری کی تھی ) کی سفارش کرنا چاہی۔ لیکن حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قانون تو سب کے لیے یکساں ہے۔ اگر میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا چوری کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جاتا۔ اس ایک واقعے سے ہی حضور ام کی عظمت کا اندازہ لگانا مشکل ہیں کہ ایک حاکم انے اہل خانہ کبھی عام لوں کی سطح پر رکھ کر پرکھے۔ 

عمرانی نقطہ نظر سے تقسیم دولت اور گردش دولت کا اصول رسول اکرم ﷺ کے ہر مالی حکم میں نظر آتا ہے۔ آنحضرت میا نے دولت کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے کے لیے زکوۃ معشر نٹس، فے ،خراج ، صدقات وغیرہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص کی دولت اس کی وفات کے بعد اس طرح تقسیم کرنے کی وضاحت کی کہ وہ مختلف حصہ داروں میں بٹ جائے اس طرح نہ کوئی بہت امیر رہ سکتا ہے اور نہ کوئی بالکل غریب۔ امیروں کو کہا کہ غریبوں کو صدقات زکوۃ و عشر دیا کریں اور غریبوں سے کہا کہ وہ محض ان کے محتاج ہو کر نہ رہ جائیں ۔ آپ نے فرمایا کہ:

بھیک مانگنے کی نسبت یہ بہتر ہے کہ آدمی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لائے اور انہیں بیچ کر اپنا گزارہ کرے۔

فوجی افسر اور سپہ سالار کی حیثیت سے آپ ﷺ کی سیرت طیبہ جو اہمیت رکھتی ہے وہ کسی تفصیل کی محتاج نہیں کہ آپ نے دشمنوں کے خلاف کسی طرح جنگ لڑی ، کیا کیا فوجی کارنامے سرانجام دیئے؟ عرب کی تاریخ میں پہلی بار خندق کھود کر جنگ لڑنا۔ طائف کے محاصرے میں دبابہ کا استعمال ۔ اہم ناکوں پر فوجی دستے متعین کرتا۔ دشمن کی رسد روک کر اسے کمزور کر دینا وغیرہ عہد رسالت کی جنگوں میں عام مذکور ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جنگ کے موقع پر مجاہدوں کو اس بات کا حکم دیا کہ:

عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، بہاروں اور مذہبی راہنماؤں کو قتل نہ کریں ، جو ہتھیار ڈال دے اس سے درگذر کریں، فصلوں کو تباہ نہ کریں اور جو مقابلہ میں نہ آئے اس سے تعرض نہ کریں

رسول مقبول ﷺ کی سیرت ملاحظہ ہو کہ ایسے موقعوں پر بھی جب فتح کے نشے میں سرشار فو جیں اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے سپاہیوں کو ہمدردی کا سبق دیا۔ آپ ﷺ کی تمام جنگیں انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے نہیں بلکہ درندہ صفت انسانوں کو انسان کامل بنانے اور پھر دُنیا میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیے لڑی گئیں۔

گھر کے نگران یعنی شوہر کے لیے بھی آپ ﷺ کی سیرت میں درس عظیم ہے کہ کس طرح گھر میں عدل و انصاف اور مساوات کا دامن تھامے رہے۔ عورتوں کو سب سے پہلے حضور اکرم ﷺ نے صحیح مقام دلایا۔ بعثت سے قبل عورت کی حالت جانوروں کی سی تھی۔ جانوروں کی طرح کھلی منڈی میں اس کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی اور شوہر کے مرنے کے بعد بطور ورثہ تقسیم ہوتی ۔ حضور ﷺ نے عورت کو ایسا اونچا مقام دیا کہ جنت ماں کے قدموں تلے رکھی ، یہی وجہ ہے کہ جس شخص کے ماں باپ بوڑھے ہوں اگر وہ حج بیت اللہ کی بجائے گھر میں رہ کر ان کی خدمت کرے تو حج سے زیادہ ثواب ملے گا۔ حضور اکرم ﷺ نے دریافت کرنے پر بتایا کہ ماں باپ کی نافرمانی سب سے بڑا گناہ ہے اور ایک موقع پر فرمایا کہ:

"جو شخص اپنے بزرگوں کی عزت نہ کرے اور اپنے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔

آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ کے ان تمام پہلووں کے بارے میں آپ اگلے یونٹوں میں پڑھیں گے۔ الغرض یہی وہ خصوصیات ہیں جو سیرت طیبہ کے مطالعہ کی دعوت دیتی ہیں ، حضور اکرم ﷺ کو جو دین عطا ہوا تھا ، اور جس پر آپ ﷺ نے عمل کر کے دکھایا ، اس میں توازن و اعتدال کے ساتھ تمام فطری تقاضوں کی تعمیل کا انتظام ہے اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ انسان کی فطرت نہیں بدلتی اور انسانیت کے تقاضے بھی نہیں بدلتے اس لیے یہ دین دائی ہے اور اس کا عملی خاکہ یعنی حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ دائی نمونہ عمل ہے۔ جس طرح آج سے چودہ سو پچیس سال پہلے سیرت طیبہ کے ذریعے سے مضطرب اور غیر متوازن انسانی معاشرے کو امن وسکون کی نعمت عطا ہوئی تھی ، اسی طرح آج بھی آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا اتباع دکھی انسانیت کے لیے امن و عافیت کا موجب ثابت ہو سکتا ہے۔

 اطاعت رسول ﷺ واجب ہے 

 رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ چونکہ قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے اس لیے قرآن حکیم اور سیرت طیبہ کا ساتھ ساتھ مطالعہ ضروری ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے ۔ ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت۔

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن حکیم اور رسول اللہ ﷺ کے اقوال و اعمال کے مطابق زندگی گزارتے رہیں گے وہ زندگی کی سیدھی اور کامیاب راہ پر ہوں گے۔

اس ضمن میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اگر چہ اہل ایمان کے لیے حضور اکرم ﷺ کی زندگی کو اسوہ حسنہ قرار دینے میں یہ بات آپ سے آپ شامل ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آپ کی اتباع اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے یعنی حضور اکرم ﷺ کی زندگی ایک مثالی زندگی ہونے کی وجہ سے محض قابل تقلید ہی نہیں ہے بلکہ واجب التقلید بھی ہے اور اہل ایمان کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ کو محض ایک عظیم الشان شخصیت اور انسانیت کے لیے بہترین نمونہ تسلیم کر لیں بلکہ ان کے لیے اس بات کا ماننا اور اس پر عمل پیرا ہونا بھی اشد ضروری ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی اتباع و اطاعت ہی دراصل اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔

Post a Comment

0 Comments