سرسید احمد خان کی اردو نثر نگاری اور اسلوبِ بیان
سرسید احمد خان ایک مختلف الحیثیات شخص تھے ۔ وہ اردو کے اولین معماروں میں تھے۔ خالص تعلیمی معاملات میں ان کے خاص نظریات نے علی گڑھ کی تعلیمی تحریک کی صورت اختیار کی ۔ علم وعمل کے تقریبا ہر شعبے میں ان کی انقلاب؟ آفرین شخصیت نے مستقل یادگاریں چھوڑیں۔
انہوں نے اردوزبان کو غیر معمولی ترقی دے کر اردو ادب کے نشو و ارتقاء بھی نمایاں حصہ لیا۔ اس سلسلے میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نثر اردو کو اجتماعی مقاصد سے روشناس کیا اور اس کو سہل اوسلیس بنا کر عام اجتماعی زندگی کا ترجمان اور علمی مطالب کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کے زمانے تک نثر میں عموما مضمون و معنی کا ثانوی اور طرز بیان کو اولین اہمیت دی جاتی تھی مگر انہوں نے مضمون کو اولیت دی۔ اسی طرح تکلف اور تصنع جو پرانی نٹر کا امتیاز خاص تھا ترک کر دیا اور نری عبارت آرائی کے خلاف آواز بلند کی۔
ان کی ادبی حیثیت ان کی سیاسی حیثیت کے تابع ہے۔ ان کا اسلوب بیان اردو نثر کی تاریخ میں بلند مقام کا
حامل ہے۔ اس کی ایک بڑی بنیاد یہ بھی ہے کہ وہ دور جدید کے اولین بڑے سیاسی مفکر کا اسلوب ہے۔ اگر چہ خالص ادبی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت کا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ دور حاضر کے بہت بڑے مصنف اور اردو کی نشر جدید کے معمار اول ہیں۔
تعبيين الكلام
ادبی لحاظ سے تبیین الکلام کی یہ خصوصیت نظر آتی ہے کہ اس کے فقرے بہت لمبے ہیں جن میں دلیل کے طویل سلسلے بڑے منظم طریق سے باہم مربوط کر دیئے گئے ہیں۔ حروف ربط اور عطف واتصال کے علاوہ حروف شرط و استدراک کا بڑا استعمال ہے۔ اس تصنیف میں سرسید کا ذہن بڑی فکری تنظیم اور منصوبہ بندی سے چلتا ہے اس میں دماغ کا عمل اور فکری ورزش بہت نمایاں ہیں۔
سرسید کے مضامین تین طرح کے ہیں ۔
اول : خالص مذہبی اور دینی مضامین
دوم : سیاسی مضامین
سوم : اصلاح اخلاق و معاشرت سے متعلق مضامین
یہ یاد ر ہے کہ سید صاحب کے سارے مضامین با قاعدہ Essay کی حد میں داخل نہیں ہو سکتے ۔ مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلا تہذیب الاخلاق کے مندرجہ ذیل مضامین : تعصب، تعلیم و تربیت، کاہلی اخلاق ریا، مخالفت خوشامد بحث و تکرار سولزیشن اپنی مدد آپ سمجھ گزرا ہوا زمانہ امید کی خوشی، رسم و رواج کے نقصانات عورتوں کے حقوق انسان کے خیالات، آزادی رائے تربیت اطفال سراب حیات خود غرضی اور قومی ہمدری آخری پر چہ تہذیب الاخلاق۔
ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔ سرسید کے بعض مضامین میں Eassy کی سی جزویت“ اور ” نا تمامیت“ بھی پائی جاتی ہے۔ ایک اچھا مضمون اصولا کسی مرکزی موڈ کا متقاضی ہوتا ہے جس کے اردگرد خیالات کا تار و پود خود بخود تیار ہوتا جاتا ہے۔ اچھا مضمون کڑی منصوبہ بندی یا پہلے سے مرتب کئے ہوئے خیالات کا محتاج نہیں ہوتا۔ اس کی تہیں خود بخود کھلتی جاتی ہیں۔
سرسید کے بعض مضامین میں یہ خوبی پائی جاتی ہے مثلا امید کی خوشی، بحث و تکرار اور گزرا ہوا زمانہ ۔ ان مضامین میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ ان میں معلومات یقینی کی بجائے تخیلات کا غلبہ ہے۔ یوں ت سرسید کے مضامین کی معلوماتی سطح عموما کرخت ہوتی ہے۔ مگر اچھے مضامین میں وہ تصویر میں اور خوش نما نقوش تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مثلا مضمون "سراب حیات" میں صبح ہوتی ہےشام ہوتی ہے" سے ابتداء کی گئی ہے۔ اس کے بعد عدہ مکالمہ آتا ہے۔ ایک خیال سے دوسرا خیال پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ تصویریں بنتی جاتی ہیں نقوش ابھرتے جاتے ہیں۔ پڑھنے والے کا دل مضمون کی تہوں میں الجھتا جاتا ہے اور بات دل میں بیٹھی جاتی ہے اور مجموعی تاثر پر مسرت ہوتا ہے۔۔۔۔ یہ ایک عمدہ مضمون کی بنیادی خوبی ہے اور یہ خوبی سید صاحب کے بعض مضامین میں مل جاتی ہے۔
با ایں ہمہ سید صاحب کے اکثر مضامین میں بعض کمزوریاں ایسی پائی جاتی ہیں جن کے سبب ان کو معیاری مضامین کی صف میں جگہ نہیں دی جا سکتی۔ اول تو ان کے عام مضامین طویل ہوتے ہیں پھر ان میں علمی و اصطلاحی معلومات کی بھر مار اس حد تک ہوتی ہے اور منصوبہ بندی اتنی سخت ہوتی ہے کہ مضمون پر لطف نہیں رہتے۔ علمی مقالات یا علمی بحث کے اعتبار سے ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا مگر مضمون کی سی شکفتگی ان میں نہیں پائی جاتی ۔ اس کے علاوہ سرسید کے مضامین میں بے حد سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ اکثر مضامین میں ان کی حیثیت معلم اخلاق کی ہے ادیب کی نہیں وہ اخلاقی اقدار کو مادی منفعتوں اور مضرتوں کے حوالے سے پیش کرتے ہیں ۔ وہ انسانی ضمیر کے حامہ اخلاقی کو ابھار کر نیک و بد کا امتیاز نہیں سکھاتے اور زندگی کی وہ تصویریں پیش نہیں کرتے جن کو دیکھنے کے بعد وجدان خود ہی فیصلہ کر دے کہ نیکی نیکی ہے اور بدی بدی۔
سرسید کے مضامین کی اس کمزوری کا سبب یہ ہے کہ وہ محض مصلح ہیں انہوں نے اصلاح اخلاق کے لیے ادبی ذرائع پر زیادہ اعتماد نہیں کیا۔ اصولا ادب اور اخلاق میں کوئی تضاد نہیں مگر اخلاق کی کھلی تلقین ایک غیر ادبی طریقہ خطاب ہے۔ انگریزی زبان کے بلند پایہ مضمون نگار پہلے ادیب تھے پھر مصلح مگر سرسید صاحب سب سے پہلے صلح تھے پھر کچھ اور تھے اس کی ذمہ داران کی مقصدیت اور ان کے زمانے کا ماحول تھا۔ سرسید کے مضامین میں جو فلسفہ اخلاق پیش ہوا ہے اس کی غایت عملیت اور مقصدیت ہے ان کےنزد یک جو شے و دنیاوی طور پر مفید نہیں وہ اچھی بھی نہیں۔ تہذیب نفس اور مجلسی شائستگی ان کے ضابطہ اخلاق میں ایک اہم قدر ہے۔ سرسید کے اخلاقی خیالات پر امام غزالی کی تعلیمات کا بھی عکس پڑا ہے مگر وہ امام غزالی کی صرف منطق اور عقلی تطبیق کے مداح معلوم ہوتے ہیں غزالی کی روحانیت سے انہیں کوئی خاص دلچپسی معلوم نہیں ہوتی۔ اس منطق پسندی نے ان کے مضامین کو خشک بنا دیا ہے۔
سرسید کے مضامین میں تصورات اور معقولات کا غلبہ ہے زندی کی خوش نما اور دلچسپ تصویر یں کم ہیں وہ زندگی کے خیال انگیز اور دلچسپ مناظر کم پیش کرتے ہیں۔ اعمال انسانی اور ان کے مادی فوائد و نقصانات کی فہرستوں یا ان کی معقول تو جہیات پر بہت زور دیتے ہیں۔ وہ ہر چند نیچرل کے دل دادہ ہیں اور استدلال میں اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں مگر نیچر کے وسیع مرغزارون کی سیر نہیں کراتے۔
(ان سب باتوں کے باوجود سرسید اردو کے اولین مضمون نگار ہیں ۔۔۔۔ اولین اس معنی میں کہ انہوں نے سب سے پہلے شعوری طور پر مضمون یا Eassy کی صنف کو اختیار کیا اور براہ راست انگریزی زبان کے مضمون نگاروں سے اثر قبول کیا اور آنے والے مضمون نگاروں کے لئے شاہراہیں متعین کیں ) اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ انہوں نے اپنے پر چہ تہذیب الاخلاق کے ذریعے ہندوستان کے تعلق میں ( خصوصا اردو کی سادہ نثر کی ترویج کے معاملے میں ) تقریباویسی ہی خدمات انجام دیں جیسی انگلستان میں ایڈیسن اور سٹیل نے سپیکٹیٹر اور ٹیلر کے ذریعے انجام دی تھیں ۔ اگر چہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سرسید کی مضمون نگاری مذکورہ بالا اودیوں کی مضمون نگاری سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی۔ سرسید کو انگریزی مضمون نگاروں میں سے اگر کسی سے کچھ مماثلت ہے تو وہ لیکن ہے جو انگریزی زبان میں مضمون نگاری کی صنف کا بانی ہے۔
سرسید کا اسلوب
اردو میں سرسید سے پہلے اسلوب نثر کے کم و بیش 2 بڑے نمونے موجود تھے۔
1-فارسی کے تتبع میں پر تکلف انداز بیان
2-فورٹ ولیم کالج کے اردو مصنفوں کا سادہ اور سلیس طرز ۔
اردو میں پر تکلف انداز بیان دکنی نثر میں ہی مل جاتا ہے۔ لسانی اعتبار سے دکن کی نثر کی کچھ جدا گانہ خصوصیات بھی ہیں۔ ان میں بڑی خصوصیات مقامیت اور لہجہ کی بدویت ہے اس کے باوجود دکنی دور کی بہترین کتاب سب رس (مصنفہ وجہی ) اسلوب بیان کے اعتبار سے فارسی اسالیب کے کامل تتبع کا پتہ دیتی ہے۔ دکنی نثر کے بعد فوٹ ولیم کالج تک جتنی نثری کوششیں ہمارے سامنے ہیں، ان میں عموما فارسی کا پر تکلف انداز ہی غالب نظر آتا ہے تحسین کی نوطرز مرصع جو سب اس کے بعد لکھی جاتی ہے اس قدیم طرز میں ہے اور اسی طرز کا بہترین شاہکار ہیں :
1-مقفی فقرے
2- ضائع بدائع کا استعمال
3-موضوع کا خیال بیان اور شاعرانہ طریق ادا۔
4-خیالی موضوعوں کا غلبہ۔
اس قسم کی انشایا ادبی نثر کے تین بڑے میدان تھے۔
(۱) صفات نویسی
(۲) تقریط نویسی
(۳) مکتوب نویسی
قصہ کہانی بیان کرنے اور تاریخ و سوانح لکھنے کا طریقہ بھی عموماً انشائی" ہوتا تھا۔ ( اس سے ہم دکن کے مذہبی رسالوں کو مشتی قرار دے سکتے ہیں جن میں خاص سادگی پائی جاتی ہے) سب سے پہلے فیورٹ ولیم کالج کے ادیبوں نے اس قدیم انداز کو ترک کیا۔ چنانچہ انہوں نے بے ضرورت تکلفات سے نثر کو آزاد کرتے ہوئے مضمون و مدعا کو طرز بیان کے مقابلے میں مقدم رکھا اور سادہ و سلیس عبارتوں کو رواج دیا۔ ان ادیبوں کا یہ بڑا کارنامہ ہے۔ مگر انہوں نے ذات اور ماحول کی ترجمانی نہیں کی ۔ کیونکہ ان کا ادب اپنے زمانے کی زندگی کے مسائل کا ترجمان نہ تھا۔ انہوں نے نہ شخصی مسائل کا ادب میں جگہ دی اور نہ اپنے زمانے کی پیچیدگیوں اور موضوعوں کو قابل توجہ خیال کیا ۔۔۔۔!
انہوں نے بس یہ کیا کہ قدیم موضوعوں کو نئے طرز بیان سے روشناس کر دیا۔ ان کا اہم کام یہ ہے کہ انہوں نے پر تکلف اسالیب فارسی اردو نثر کو آزاد کرتے ہوئے اسلوب میں جدید رجحانات کیلئے راستہ صاف کیا۔ مرزا غالب نے جور سرسید کے معاصر اکبر تھے ۔ ایک قدم اور آگے بڑھایا اور اردو نثر کو خالص شخص تجربات کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے مدعا نویسی پر نہ صرف اصرار کیا بلکہ مدعا نویسی میں ادبی حسن بھی پیدا کیا ۔۔۔۔ ضائع بدائع کے استعمال سے نہیں، مضامین و معافی کی روح اور شخصی جذبات کے بے تکلف اور بچے تموجات و ترشحات سے! غالب کی نثر در حقیقت اپنی جگہ ایک عظیم تجربہ تھا۔ مگریہ بھی کاملاذاتی اور شخصی تجربہ تھا ۔۔۔! ان کی نثر میں جو کشش ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ان کے ذاتی تجربات کی روح بڑی خوشی اسلوبی سے جلوہ گر ہوئی ہے۔ زمانے کے تجربات کا عکس صرف اسی حد تک اس میں ہے جس حد تک وہ اپنے آپ کو زمانے میں سمجھتے تھے۔ یہ سرسید احمد خان کا کارنامہ خاص ہے کہ انہوں نے اردو نٹ کو اپنی زندگی کا ہی نہیں بلکہ اس وسیع معاشرہ کا ترجمان بھی بنایا، جس کے وہ ایک مقتدر فرد تھے ۔ اس لحاظ سے سرسید ہی رہنمائ دور تھے۔
سرسید کا تصور اسلوب
1-تحریر سادہ ہونی چاہے۔
2-لطف مضمون میں ہو نہ کہ ادا میں۔
3-جو اپنے دل میں ہو وہ دوسرے کے دل میں پڑے۔ یعنی وہی مضامین ادا کئے جائیں جن میں سچائی ہو۔
مولانا حالی نے سرسید کی تحریر ان خصوصیات سے طویل بحث کی ہے ان کے نزدیک سید صاحب کی نثر کی اہم بنیادیں تین ہیں۔ سادگی بے تکلفی اور بے ساختگی اور مدعا نویسی انہی اوصاف کے مجموعے کو انہوں نے نیچرل طرز بیان سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی ایسا طرز بیان جو مصنف اور قاری دونوں کی طبیعت کے لئے مانوس ہوا اور اس میں آورد تکلف اور بناوٹ کو دخل نہ ہو۔
سرسید کے اس طرز بیان کے بنیادی محرکات دو ہیں۔ اول ان کا تصور اسلوب جس کے بدلنے میں مرزا غالب کی نثر کے علاوہ فورٹ ولیم کالج کے ادبی نمونوں اور مغربی نظریات نے تھوڑا تھوڑا حصہ لیا دوم ۔ ان کا عظیم الشان مقصد زندگی یا سیاسی اور تعلیمی مشن ان دونوں اثرات کے ماتحت ان کی عام تحریروں میں وہ رنگ پیدا ہوا جسے مجموعی حیثیت سے سرسید کا رنگ کہا جا سکتا ہے۔ ادب کے متعلق سید صاحب کا نظریہ افادی تھا۔ ان کے خیال مین ادب و انشاء کا مقصد محض تفریح یا محض آرائش بیان نہیں۔ اگر ادب صرف تفریح اور آرائش کا نام ہوتا تو وہ شاید ادیب بنا اور کہلانا بھی پسند نہ کرتے۔ یہ بیج ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں انشاء“ کو بڑی اہمیت دی مگر انہوں نے انشاء کو محض انشا کے لئے اہمیت نہیں دی بلکہ معافی اور مطالب کے لئے ۔۔۔۔ ان کے نزدیک مضمون اور دل سے نکلا ہوا مضمون طرز ادا پر مقدم ہے کیونکہ مضمون کے بغیر طرز ادا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور مضمون کی نوعیت اواس کے مقصد کے زیر اثر طرز ادا کا خود بخود فیصلہ ہو جاتا ہے گویا دوسرے الفاظ میں مضمون اپنے ادا کے لئے خود راستہ پیدا کر لیتا ہے۔
سرسید کے بے ساختہ پن میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو مذاق سلیم کے لیے خوشگوار نہیں مثلا ترکیبوں کا بھدا پین الفاظ کا عوامی لہجہ فقروں کی کمزور شیرازہ بدنی، فقرے کے اندر ناگوار لفظوں کی ناہموار خشت بندی حروف رطب و عاطفہ کی بے آہنگ، تکرار انگریزی الفاظ کا بے ضرورت اور بے محل استعمال یہ سب باتیں ادبی پرداخت کی طرف سے ان کی بے اعتنائی کا نتیجہ ہے۔ ان کی تحریروں میں بے ساختہ پن یقینا ہے مگر اس سے ان کی تحریر کا ادبی سن کم ہو گیا ہے زیادہ نہیں ہوا۔
سرسید کی تحریریں موثر ہونے کے باوجود بعض اوقات بے لطف ہو جاتی ہیں اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے ۔ یعنی "دل سے بات نکلتی ہے دل پر اثر کرتی ہے مگر اس کے باوجود لطف کم ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی عبارتوں میں لطافت اور نفاست کا عصر بہت کم ہے۔ اس سبب یہ ہے کہ سرسید کا ذہن لطافت کی بجائے عظمت اور جسامت کا دل دادہ تھا۔ انہیں قومی ہیکل اور جسم اشیاء سے رغبت تھی۔ اس کا اظہار ان کے تمام اعمال اور کارناموں سے ہوتا ہے اس کی وجہ سے انہوں نے زندگی میں عظیم الشان مقاصد کو مدنظر رکھا۔ شاہان قدیم کے عظیم الشان آثار کی سرگزشت اور اکبر کی عظیم الشان تاریخ ملک داری ( یعنی آئین اکبری کی تصحیح و اشاعت) سے لے کر مدرسہ العلوم مسلمانان ہند کے قیام تک ان کی زندگی کے سب منصوبے عظیم و جسیم اور پر ہیبت ہی تو ہیں ۔
ان کا ادب حسین ہو یا نہ ہو مگر ان کے ادب کی جسمانی عظمت کا اور جسامت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا ذہن معمولی تراش خراش اور جزئیاتی آراستگی پر ادب پارے کے جسم اور طول و عرض کو تر جیح دیتا تھا۔ ان کے فقروں کی لمبائی اور پیراگرافوں کی رعب انگیز عظمت صاف صاف ان کے ذہن کی جسامت پسندی کا اظہار کرتی ہے۔ ان کے نزدیک سادگی اور تکلف دونوں اضافی باتیں ہیں۔ ان کا مقصود اصلی (غیر شعوری طور پر ) ادب پارے کی جسامت ۔۔۔ یعنی اس کا طول و عرض ہے۔ آثار الصنادید (اشاعت اول) سادہ نہ ہونے کے باوجود جسیم اور تفسیر القرآن میں اگر چہ سادگی مدنظر ہے مگر منصوبہ کے لحاظ سے جسم ہی ہے۔ با ایں ہمہ سرسید کی تحریریں اثر آفرینی کے ذرائع و وسائل سے خالی نہیں۔ ضائع بدائع سے انہیں منہ موہ چڑ تھی مگر قدرتی صنعت کاری کے آثار ان کے بیان میں موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے تشبیہ استعارہ تمثیل سے خاص کام لیا ہے اور طنز و ظرافت اور مکالمہ کے انداز ان کی تحریروں میں جا بجا پائے جاتے ہیں۔
سرسید کے بیان کی اس خصوصیت سے جسے بے رنگی کہا جاسکتا ہے وہ ہمہ رنگی بھی پیدا ہوتی ہے جس کے سبب پر بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ, فن تعمیر, سیرت، فلسفہ, مذہب, قانون,سیاسیات،تعلیم،اخلاقیات،مسائل ملکی،وعظ تزکر اور تقابل مذاہب پر قلم اٹھایا۔ان سب مضامین میں ان کا رہوار قلم یکساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔یہ انکی قدرت بیان کا کرشمہ ہے۔
سرسید کے مقالات کی زبان عام نہم ضرور ہے۔ ان کا انداز و بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے۔ مگر سنجیدگی اور نے شگفتگی پیدا نہیں ہونے دی۔
البتہ ایسے مقالات جن میں ترغیبی عصر کی کمی ہے یا جہاں جوش انگیزی مقصود نہیں، ان میں انہوں نے مضمون نویسی کا اچھا معیار قائم کیا ہے۔ مثلا مضمون تعصب، تحمیل، گزرا ہوا زمانہ وغیرہ میں یا رسم رواج کی پابندی کے نقصانات یا تہذیب یا سویلزیشن میں ۔۔۔ بحث و تکرار میں ۔۔۔ مگر جہاں جوش و خروش کی کیفیت ہے وہاں ان کے مضامین (خصوصا لمبے ہو جائیں تو ) توازن کھو بیٹھتے ہیں اور ان کے عام مضمون تو اعلیٰ اور بہترین مضامین کی صف میں نہیں رکھے جاسکتے۔ البتہ علمی مقالات کی حیثیت سے بعض اوقات وہ لائق تحسین ہو جاتے ہیں۔
(سرسید کے خطوط میں بھی ان کی عام نثر کی اکثر خصوصیات موجود ہیں ۔ مگر خطوں میں عبارتوں کی تنظیم اور بھی ڈھیلی ہے اور قواعد سے بے اعتنائی بھی کچھ زیادہ کھکتی ہے البتہ منطقیت اور استدلالیت کی گرفت قدرے کمزور ہے) کیونکہ خطوں کی فضا میں منطق کا ستھ کبھی کبھی چھوڑ دیتے ہیں اور بے تکلف ہو کر دلیل کی بجائے محبت کی اپیل سے کام نکالتے ہیں اس کے سبب خطوں کی فضا میں گو گرفتگی کا احساس کم ہو گیا ہے ۔ سرسید کی تحریروں میں ظرافت ای ہد تک ہے جس حد تک ان کی سنجید گی متانت اور مقصد کو گوارا ہے۔ ان کی طنزیات میں خفا اور کنا ہ کم ہے۔ کہیں کہیں تضحیک کھلی ہو جاتی ہے۔
سرسید نے نثری اسلوب کے ارتقاء میں کیا خاص حصہ لیا ؟ ۔۔۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ انہوں نے انشا کی پرانی رسموں کو توڑ کر نثر کو تمام علمی اور ادبی مضامین کیلئے ذریعہ اظہار بنادیا۔ طرز ادا کے مقالے میں مدعانویسی اور مطلب نگاری کو تحریر کا مقصد اصلی ٹھہرایا۔ انہوں نے تحریر کی جذباتی بنیادوں کی اہمیت جتلائی ۔۔۔ اور یہ ثابت کیا کہ تحریر میں اثر باہر سے نہیں آتا بلکہ اس کا سر چشمہ لکھنے والے کے قلب میں ہے۔
0 Comments