فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات|Fort William College ki Adbi Khidmaat

فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات

 فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات

اردو نثر کی ابتدا

اُردو زبان کی پیدائش، فروغ اور تہذیب کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ تصور کیا گیا ہے کہ یہ زبان کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک لالہ خود رو ہے جس نے اپنی غذا عوام سے حاصل کی اور اپنے اثمار بلا امتیاز خواص و عوام میں تقسیم کئے ۔ اردو کا اولین روپ کا روباری زبان کی صورت میں اجراء لیکن ادبی زبان سب سے پہلے شاعری میں نمایاں ہوئی اور اسے ابتدائی فروغ جنوبی ہند میں حاصل ہوا۔ زمانی اعتبار سے شاعری کے مقابلے میں ادبی نشر بہت عرصے کے بعد ظہور میں آئی اور اس کے ارتقاء کا اولین اہم مرکز کلکتہ بنا جود لی سے خاصے فاصلے پر ہندوستان کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔

رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ اردو نثر کی ابتداء فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے ہوئی ۔ سکنہ کی اس رائے سے اختلاف کی گنجائش یوں موجود ہے کہ اُردو نثر کی تاریخ آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتی ہے نثر کے یہ نمونے چھوٹے چھوٹے رسالوں کی صورت میں ہیں، جن میں دکن اور گجرات کے فقراء اور اہل دلی کے اقوال و امثال قلم بند کئے گئے ہیں ۔ حکیم شمس اللہ قادری نے شیخ عین الدین گنج العلم (متوفی ۷۹۵ ھ ) کے رسالے کو اردو کی قدیم ترین کتاب شمال کیا ہے۔ تا ہم اس رسالے کے مخطوطے پر تاحال کسی کی نظر نہیں پڑی۔ البتہ خواجہ گیسودراز ( متوفی ۵۸۳۵) کی تصنیف ”معراج العاشقین“ کی اشاعت سے ان کے زمانے سے پہلے کی اُردو نثر کے وجود کا قیاس کرناممکن ہو گیا ہے۔ 

خواجہ گیسودراز کے نواسے سید محمد عبداللہ حسینی نے سلطان احمد شاہ ثانی کے زمانے میں شیخ عبد القادر جیلانی کے رسالہ نشاط العشق“ کا ترجمہ کیا اور اس کی شرح بھی لکھی۔ شاہ میراں جی شمس العشاق (متوفی ۹۵۲ ھ ) کا قلم نثر اور شعری دونوں میں رواں تھا۔ انہوں نے شرح " مرغوب القلوب لکھی اور ان کے فرزند شاہ برہان الدین جائم ( متوفی ۹۹۰ ھ ) نے جل ترنگ اور گلباس تصنیف کیں۔ ادبی نقطہ نظر اردو کی قدیم کتابوں میں ملا وجہی کی تصنیف "سب رس" کی بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس کتاب سے اردو نٹ کو نہ صرف تخلیقی اظہار کی راہل گئی ۔ بلکہ اب اردو نثر کو فارسی کی سطح لانے کی کوشش بھی شروع ہوگئی۔ ملا وجہی سے پہلے کی بیشتر تصنیفات مذہبی نوعیت کی ہیں۔ اور ان کا مقصد نظریاتی مسائل اور مذہبی اعتقادات کے بیان سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔ ملا وجہی نے ایک خیال قصے کو ادبی دن سے پیش کیا اور رنگا رنگ مواد کی مدد سے اردو زبان کی لسانی خوبیوں کو اجا گر کر دیا۔ چنانچہ وجہی کو اردو نثر کے ان نمائندہ ادب میں شمارکیا گیا ہے جن کا اسلوب نہ صرف موضوع پر چھایا ہوا ہے بلکہ جنہیں عہد آفریں بھی کہا جا سکتا ہے اور جو ایک مخصوص علاقے اور ایک خاص دور کے ممتاز نمائندہ بھی ہیں۔

اردو کی پہلی نثری تصنیف

شمالی ہندوستان میں اردو نٹر کی کتاب "کربل کتھا یا وہ مجلس محمد شاہی عہد میں فضلی نے لکھی۔محمد حسین آزاد نے اسے اردو کی پہلی نثری تصنیف شمار کیا ہے۔ لیکن جدید تحقیق نے دکن کے بہت قدیم مخطوطات کو دریافت کر لیا ہے اور ”معراج العاشقین کی اشاعت سے اردو نثر کے فروغ کی اولیت بھی دکن نے ہی حاصل کر لی ہے۔ فضلی اردو کے بجائے فارسی اسلوب سے زیادہ متاثر تھا۔ اس کے جملے گنجلک اور نثر کا اسلوب منتفی ہے ۔ جملوں کی استخواں بندی میں بھی سلاست اور سادگی نظر نہیں آتی۔ چنانچہ اسے اُردو نثر کا نمائندہ اسلوب قرار دینا ممکن نہیں ۔ میر زار فیع سودا کے دیوان مرثیہ کا دیباچہ اس دور کی نثر کا ایک اور نمونہ پیش کرتا ہے۔

 سودا کی نثر کو دیکھ کر یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اردو کو فارسی کے ہم پایہ بنانے کے لئے اس زمانے میں کتنی کروکاوش کی جا رہی تھی ۔ سودا نے شاعری کے اسلوب کو نثر میں برقرار رکھنے کی کوشش کی اور عبارت کو زور دار بنانے کے لئے قوافی کا استعمال بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو :

اقتباس 

اس مدت میں مشکل گوئی دقیقہ سنجی کا نام رہا ہے اور سدا مرغ معنی عرش آشیاں گرفتار دام رہا ہے۔ باوصف اس کے کہ قول خذ ما صفاورع ما کد پر عمل رہا ہے۔

سودا کے دیانے کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ اس زمانے میں اردو شاعری کی کتابوں کے دیا ہے اور تذکروں کا نثری متن بھی فاری میں لکھا جا تا تھا۔ اگر چہ سودا نے اپنی افتاد طبع کے مطابق یہ دیا چہ اپنے کسی حریف فن کے لئےلکھا ہے ۔ تا ہم اسے اردو کا اولین دیباچہ لکنے کا افتخار حاصل ہے۔ عطا حسین خاں تحسین کی کتاب ” نوطرز مرصع نواب آصف الدولہ کے عہد کی تصنیف ہے لیکن اس کی زبان بھی بیحد معرب اور مغرس ہے ۔ تراکیب اور استعارات کا استعمال فراوانی سے کیا گیا ہے اور اکثر جگہ عبارت ثقیل اور گنجلک ہو جاتی ہے۔ تحسین کی نثر کا ایک مختصر سا اقتباس درج ذیل ہے ۔ اور اس میں تحسین کے اسلوب کی سب خوبیاں موجود ہیں : 

" جس وقت وہ قمر طلعت داخل باغیچہ نمونہ جنت کی ہوئی عطر گلاب رخسارہ زلیخا شب مهتاب کا تقویت بخش دماغ تماشائیوں کا ہو کے زینت آرا بزم کامرانی ہوا۔ یوسف عکس بیاض نگینہ ہائے الماس انجم کا اوپر خاتم مینا رنگ سبزہ زمین خلا آئیں کے زیب افزا دیدہ نورانی کا ہوا۔

دکن میں اُردو نثر کے فروغ میں اولیائے کرام کے مذہبی رسائل نے جو اہم کردارادا کیا تھا۔ شمالی ہندوستان میں یہی خدمت شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر کے تراجم قرآن نے سرانجام دی۔ شاہ رفیع الدین کے ترجمے میں ہر لفظ کا ار ومتبادل اس کے سانے لکھ دیا گیا ہے۔ اس لئے نہ صرف عبارت خلاف محاورہ ہوگئی ہے بلکہ اس کا تسلسل بھی ٹوٹ گیا ہے۔ شاہ عبد القادر نے لفظی ترجمے میں قرآن کے معنی مفہوم کو پیش نظر رکھا۔ چنانچہ اس میں کفایت لفظی کے ساتھ ساتھ ابلاغ معانی میں بھی مدد لی اور یہ ترجمہ نسبتاً زیادہ پسند کیا گیا۔ ان تراجم کا مقصد چونکہ قرآن مجید کے معانی عوام تک پہنچانا تھا اس لئے ان میں سادہ اور سریع الفہم الفاظ استعمال کئے گئے ۔

 تشبیہ استعارہ اور مترادفات کے استعمال کی محدود گنجائش تھی، تاہم شاہ عبد القادر کی تحریر ان کے بغیر بھی ایک تخلیقی شاہ رکھتی ہے اور تحسین اور سودا کے برعکس شاہ صاحب کا اسلوب آسان اور دل نشیں ہے۔ چنانچہ مستقبل میں جب اردو نثر کی تحریک رونما ہوئی تو یہی اسلوب فورٹ ولیم کالج کے مصنفین کا رہنما بنا اور وہ عربی اور فارسی سے الجھنے کے بجائے نسبتاً آسان اردو میں تخلیقات پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

اردو نثر کا مندرجہ بالا ارتقائی پس منظر واضح کرتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام سے پہلے اردو نثر کے فروغ

کے امکانات کچھ زیادہ روشن نہیں تھے۔

 دلی اور پھر لکھنو میں شاعری کو زیادہ اہمیت ملی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شاعری فکر و خیال کے تخلیقی اظہار کے لئے زیادہ موزوں تھی اور اس میں قدرت بیان اور ذہنی برتری ثابت کرنے کے لئے زیادہ حربے استعمال ہو سکتے تھے ۔

  شاہان سلطنت شعراء کے سر پرست اور عمائدین حکومت شاعری کے قدر دان تھے۔ شاعری نہ صرف وسیلہ عزت تھی بلکہ یہ شخصی عظمت وفضیلت کا اظہار بھی تھی۔ چنانچہ چست بندش، پھڑکتا ہوا قافیہ گنگناتی ہوئی ردیف سنگلاخ زمین اور مشکل الفاظ میں مضمون آفرینی عظمت فن کا اظہار بن گئی ۔ شاعری کا اعلیٰ نمونہ چونکہ فارسی شاعری تھی، اس لئے فارسی زبان کے اسالیب بیان کی تقلید کو امتیازی شان حاصل ہوگئی ۔ مغلیہ سلطنت کے دور عروج میں فارسی کو دربار اور معاشرے میں جو اہمیت حاصل تھی۔ وہ زوال کے عہد میں بھی قائم رہی اور مقامی زبانیں جو امتزاج کے بعد اردو کا روپ دھار چکی تھیں ۔ فارسی کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ چنانچہ عمائدین حکومت اور شرفانے فارسی زبان کو قبول کیا اور حکومت کا کاروبار مراسلات، کتاب کی تقریظیں اور دیباچے، شعراء کے تذکرے اور سفر نامے سب فارسی زبان میں لکھے گئے ۔

دلی کے گردو نواح میں فارسی زبان کے غلبے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو کونچ اور حقیر لوگوں کی زبان سمجھا جانے لگا اور اس میں طبع آزمائی غیر تہذیبی عمل قرار پا گیا۔ اردو شاعری کو دکن میں اور اردو نر کو کلکتہ میں فروغ حاصل ہوا ہے تو اس کی کئی اہم وجوہ موجود ہیں ۔ اولا یہ علاقے فارسی تسلط سے نسبتاً آزاد تھے۔ ثانیاد کن اور کلکتہ میں عوام اور خواص دونوں کی جذباتی وابستگی فارسی کے ساتھ نسبتا کم تھی۔ ثالثا دکن میں شاہیہ دور حکومت میں اور شمالی ہند میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار میں فارسی کا غلبہ نسبتا کم ہو گیا تھا۔ رابعا انگریزوں نے ہندوستانی معاشرت کے سمجھنے کے لئے اردو اور ہندی کو اہمیت دی لیکن مسلمان حکمرانوں کی سرکاری زبان فارسی کے خلاف واضح رد عمل کا اظہار کیا اور اس کے اثرات کم کرنے کی شعوری کاوش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شمالی ہندوستان میں اردو نثر کے فروغ کے امکانات نمایاں ہونے لگے اور فورٹ ولیم کالج نے انہیں روشن تر کرنے میں اہم کردار سرانجام دیا۔

تحریک فورٹ ولیم کالج

تحریک فورٹ ولیم کالج کے محرکات خالصتا ادبی نہیں بلکہ اس تحریک کے پس پشت کچھ سیاسی اغراض و مقاصد بھی کارفرما نظر آتے ہیں۔ تمدنی اعتبار سے اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہندوستان انتشار اور بدنظمی کا شکار تھا۔ غیر ملکی حملہ آوروں، گردو نواح کی آویزشوں اور اندرونی ہنگاموں کی وجہ سے دلی کی مرکزی حکومت کمزور ہو چکی تھی۔ اس ابتری کا فائدہ غیر ملکی تاجروں نے اٹھایا۔

 چنانچہ بنگال میں انگریز اور مغربی ساحل پر فرانسیسی باشندے منظم سیاسی طاقت بن کر ہندوستان کے اندرونی معاملات پر اثر انداز ہونے لگے۔ سیاسی اعتبار سے پلاسی کی جنگ میں کامیابی سے بنگال میں انگریزوں کے قدم مضبوطی سے جم گئے تھے ۔ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے اس دور میں انگریزوں نے سیاسی تدبر مکر اور فریب سے ۔۔۔۔۔ شاہ عالم ثانی کو کمزور کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی اور بالآ خر ۱۷۶۵ء میں پہلے ہندوستان کی دولت مند صو بے داری بنگال، بہار اور اڑیسہ میں مال گزاری وصول کرنے کا اختیار حاصل کیا اور پھر بنگال پر عہد نامے کی رو سے انگریزوں کی عملداری قائم کرلی۔ 

 اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز ہندوستان میں تاجروں کے روپ میں آئے تھے اور انہوں نے تادم رخصت ہندوستان کو ایک تجارتی منڈی ہی تصور کیا۔ اس کے ساتھ تاجروں جیسا سلوک کیا اور صرف اپنے منافع پر نظر رکھی ۔ تاہم واقعات نے کچھ ایسی کروٹ بدلی کہ یہ تاجر آہستہ آہستہ ہندوستان کی فرماں روائی کا خواب دیکھنے لگے اور ۱۷۷۴ء میں ریگولیٹنگ ایکٹ کے نفاذ ہوا تو بنگال میں انگریزی اقتدار کا پرچم لہرانے لگا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ابتدائی ایام میں تو خاموشی اور سکون کی حکمت عملی اختیار کی اور حکمران طبقے سے بیشتر اپنے تجارتی مفادات کا تحفظ حاصل کیا ۔ لیکن جونہی حالات تبدیل ہوئے تو کمپنی نے بھیڑیے کا روپ اختیار کر لیا اور اقتدار پر قبضہ جمانے میں کوئی تاخیر نہ کی۔ ایم چیلی نے بالواسطہ طور پر ہندوستانی معاشرہ مزاج اور رسوم کو پرکھنے اور ان سے تصادم سے گریز کا جو مشورہ دیا تھا وہ مندرجہ ذیل اقتباس سے واضح ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ مسلسل مداخلت کی عادت چھوڑ دے اور خواہ کتنی ہی مدت کیوں نہ درکار ہو اس وقت کا انتظار کرے جب کہ وہ مناسب طریقے سے دخل دے سکے۔

  رعایا اپنی قدیم رسوم اور روایات کے ساتھ بڑی وابستگی رکھتی ہے اور ہماری تہذیب و تمدن کو قابل کشش اور خوشگوار نہیں پاتی۔ لہذا اس کی طرف آہستہ آہستہ مبر و سہولت کے ساتھ اس کی روائتوں کو نتیجہ خیز بناتے ہوئے چلنے کی ضرورت ہے۔

  “ اس زاویے سے ہندوستان میں انگریزوں نے اعتدال پسند نیک مزاج اور مہربان حاکم کا تصور پیدا کرنے کی کوشش کی اور رعایا کو حکومت انگلشیہ کی رواداری، انصاف اور مساوات عمل کا یقین دلایا۔ ایم چیلی کے الفاظ میں ”ہندوستان کی رعایا نیک خو تھی اور اس معاوضے کی پوری حقدار تھی ۔“ باشندگان ہند کو غیر ملکی آقاؤں کی مسلسل محکومیت میں رہنے کی ذلت کا معاوضہ اس احساس پیہم سے ملنا چاہئے کہ انہیں مسلسل فوائد پہنچ رہے ہیں۔ 

  انگریز حکمرانوں نے اہل ہند کو فوائد کا جو خواب دکھایا تھا۔ اس کی ایک تعبیر ریگولیٹنگ ایکٹ کے ذریعے سامنے آئی اور اس دور میں کئی ایسے انگریز بر سراقتدار آ گئے جنہیں ہندوستان کے حالات و واقعات اور تہذیب و تمدن پر گہری نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس ہوئی ان میں سے وارن ہیسنگز کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ اس نے انگریز مد برایم چیلی کے محولہ بالا نظریات کو زیادہ تدبر سے بروئے کار لانے کی سعی کی اور علم و دانش کا وہ تجر بہ جو اس نے شاعر کو پر سیاستدان لینسڈاؤن صحافی چرچل اور ادیب جانسن نے حاصل کیا تھا، ہندوستان میں عقلمندی سے استعمال کیا۔ چنانچه وارن ہیسٹنگر ہندوستان میں آتے ہی مشرقی علوم افکار اور نظریات کا سر پرست بن گیا۔ سنسکرت اور عربی کی تعلیم کے لئے کالج قائم کئے۔ سرولیم جونز کی معاونت سے رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی بنا ڈالی ۔ فارسی ادب کا مطالعہ کیا اور کئی نظموں کے تراجم کروائے ۔ وارن ہیسٹنگر مسلمانوں کے ان علوم وفنون کا جو ہندوستان میں مروج تھے ایسا گرویدہ ہوا کہ اس نے فارس کی تعلیم کو آکسفورڈ میں انگریزوں کی وسیع تعلیم کا جز وقرار دیا اور ہندوستانی ثقافت کی تفہیم کے لئے ۱۷۸۰ء میں مدرسہ عالیہ کلکتہ کی بنیاد رکھی۔

وارن ہیسٹنگز کے زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں حصول اقتدار اور بقا کی جنگ لڑ رہی تھی۔ انیسویں صدی کی ابتداء میں انگریزوں نے ہندوستان کے تمام اعصابی مراکز کی طنا میں اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ٹیپوسلطان کی شہادت نے انگریزوں کے سب سے طاقتور حریف کا خاتمہ کر دیا تھا اور اب بچے کھچے ہندوستان کو پر امن ذرائع سے مطیع بنانے اور توازن و اعتدال کی فضا قائم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے ممکن حصول کے لئے لارڈ ولزلی کی ہندوستان بھیجا گیا اور اس نے سب سڈی ابری سٹم کے نفاذ سے اٹھائے بغیر ہندوستان کا بہت سا علاقہ باجگزار بنالیا۔

فورٹ ولیم کالج کا قیام

فورٹ ولیم کالج کا قیام ولزلی کا ایک ایسا منصوبہ تھا جس نے اعتدال اور توازن کی فضا قائم کرنے میں معاونت کی ۔ اس منصوبے کی تجویز و ترتیب اس کے اپنے ذہن کی اختراع تھی اور اپنی اس ذہنی تخلیق سے ولزلی کو اتنی وابستگی تھی کہ گورنر جنرل کی کونسل نے کالج کے آئین و ضوابط کا مسودہ • جولائی ۱۸۰۰ء کو منظور کیا لیکن ولنر لی نے اس دستاویز کے متن میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ کیا اور اسے سرنگا پٹم کے سقوط کی یادگار بنا دیا۔

 ہز لارڈ شپ ( ولزلی) کے حکم خاص سے اس (دستاویز) پر ہ مئی ۱۸۰۰ء کی تاریخ ڈالی گئی جو میسور کے دارالسلطنت سرنگا پٹم میں برطانوی افواج کی شاندار اور فیصلہ کن فتح کی پہلی سالگرہ تھی ۔“ اس اقتباس سے ثابت ہوتا ہے کہ ولزلی نے فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ساتھ بھی ایک سیاسی واقعے کو وابستہ کر دیا اور اس غیر دیانتدارانہ مقصد کے حصول کے لئے متذکرہ دستاویز پر سابقہ تاریخ ثبت کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔

پلاسی کی لڑائی کے بعد جب بنگال کی دیوانی انگریزوں کے حیطہ اقتدار میں آئی تو ہندوستانی زبان مذہبی عقائد اور معاشرتی حالات کا مطالعہ ناگزیر ہو چکا تھا۔ چنانچہ پانی کے انگریزی ملازموں میں سے کسٹن، ہیڈ لئے فرگون گلکرست فرانس بالفور ہیرس اور ولکس وغیرہ نے لغت اور قواعد زبان وغیرہ کی کتا میں تالیف کیں ۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ابتدائی ایام میں تجارتی امور سر انجام دینے کے لئے بالعموم زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ چنانچہ کمپنی ایسے لوگوں کو بھی ملازمت پر مامور کر دیتی جن کے پاس کوئی تعلیمی سند نہ ہوتی اور جن کی سیرت اور کردار کے بارے میں ڈائرکٹروں کوکوئی علم نہ ہوتا تھا۔ پلاسی کی جنگ کے بعد کمپنی نے سیاسی ذمہ داریاں اور انتظامی نظم و نسق بھی سنبھال لیا تھا۔ 

اس لئے اب ایسے ملازمین کی ضرورت لاحق ہو گئی جو مشاہدے اور تجربے سے مقامی مسائل کو سمجھ سکیں اور حکمت و دانش سے ان کا حل بھی تلاش کر سکیں ۔ چنانچہ ملازموں کی قابلیت اور دیانت کے ساتھ میل جول کی صلاحیت کو بھی پر کھا جانے لگا۔ لارڈ ولزلی ایسٹ انڈیا کمپنی کے صدر دفتر میں ایک اہم عہدے پر فائز رہ چکا تھا۔ اس لئے اسے علم تھا کہ ہندوستانی زبان اور معاشرے کی بنیادی واقفیت کے بغیر ملازمین کو کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 چنانچہ ہندوستان میں آمد کے فورا بعد اس نے کمپنی کے ملازمین کو ہندوستانی زبانیں سکھانے کا منصوبہ مرتب کیا۔ اور اس مقصد کے لئے ولزلی نے گلکرسٹ کی اس تجویز کو قبول کر لیا کہ نو جوان ملازمین اپنے ذرائع سے منشیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے فارسی کی ابتدائی تعلیم گلکرسٹ سے حاصل کریں۔

فورٹ ولیم کالج کا ایک اور مقصد فارسی کی حاکمیت کو کم کرنا اور مسلمانوں کو اپنے ثقافتی محور سے ہٹانا بھی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فارسی مغل بادشاہوں کی درباری زبان تھی ۔ تا ہم اس کے زوال کے آثار اٹھارہویں صدی کے اوائل میں ظاہر ہونا شروع ہو چکے تھے اور مقامی زبانوں کے میل جول سے نہ صرف ایک نئی زبان کا ڈھانچہ کمل ہو چکا تھا بلکہ اس میں اچھا دب بھی تخلیق ہونے لگا تھا اور اب انگریزوں کو فارسی زبان سے خوف کھانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ولزلی نے فارسی اور اردو میں اختلاف کی خلیج حائل کرنے کے بجائے ہندی اردو اور بنگالی کو الگ الگ زبانوں میں ابھارنے اور محدود جغرافیائی خطوں میں پھلنے پھولنے کا موقعہ فراہم کیا اور حصول مقصد کے لئے ہر زبان کے رسم الخط کو آلہ کار بنایا۔ اردو چونکہ فارسی حروف میں دائیں سے بائیں طرف کو لکھی جاتی ہے اس لئے اس زبان پر مسلمانوں کی مہر ثبت کی گئی۔ دوسری طرف ہندی دیوناگری حروف میں بائیں سے دائیں طرف کی لکھی جاتی ہے اس لئے اس زبان پر ہندوؤں کی ملکیت قائم کی گئی اور یوں مذہب کی عمودی اور ذات پات کی افقی تفریق میں زبان کے اختلاف کی تیسری جہت بھی شامل کر دی۔

فورٹ ولیم کالج کے قیام کا ایک اور مقصد تصنیفات کے ذریعے ہندوستانی رعایا کے دلوں پر انگریزی حکومت کی شان و شوکت فیاضی، علم دوستی اور رعایا پروری کا نقش قائم کرنا بھی تھا۔ بظاہر فورٹ ولیم کالج کی مطبوعات کہانی تاریخ ، شاعری اور قانون کی اصناف پر محیط ہیں، تاہم مصنفین نے ان کتابوں میں جو دیباچے اور خود نوشت حالات لکھے ہیں ان میں سرکار انگلشیہ لارڈ ولزلی اور ڈاکٹر گلکرسٹ کی تحسین اور قصیدہ گوئی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چنانچہ ان کتب کے ذریعے ہندوستانی مصنفین نے رعایا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ محکومی کے باوصف ایک مخیر اور منصف حکومت کے زیر سایہ خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے محرکات سیاسی تھے لیکن اس کے ثمرات نے بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر ادب کو بھی متاثر کیا اور اردو نثر کی ایک موثر تحریک کو جنم دے دیا یہی وجہ ہے کہ اردو کا مورخ فورٹ ولیم کالج کو ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے۔

گلکرسٹ

اس میں کوئی شک نہیں کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو کے تخلیقی ادب میں تصنیف و تالیف کا کوئی اہم کارنامہ سرانجام نہیں دیا اور ڈاکٹر گلکرسٹ نے کالج کے طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زیادہ تر کلاسیکی زبانوں کی مشہور اور مقبول کتابوں کو ہی اردو میں منتقل کرنے کی سعی کی۔ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ گلکرسٹ نے اردو نثر کا پہلا ادب پیدا کیا۔

 گلکرسٹ سے پہلے اردو نثر کی باقاعدہ روایت موجود نہیں تھی ۔ بلاشبہ کچھ تراجم بکھری ہوئی صورت میں تو ملتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر میں زبان غربت کا شکار ہے۔ فارسی الفاظ کے غیر فطری استعمال سے نثر کو مرصع بنانے کی کوشش کی گئی اور منفی اور سمع نگاری سے زبان کو بوجھل اور غیر فطری بنا دیا گیا۔ فورٹ ولیم کالج کے مصنفوں نے سادگی اور سلاست کے ایسے نمونے پیش کئے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھے ۔ اہم بات یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج کی کتب میں لفظی ترجمے پر زورنہیں دیا گیا بلکہ مفہوم کا اردو کا جامہ پہنانے کی سعی کی گئی ہے۔ 

 چنانچہ مصنفین متبادل الفاظ کے انتخاب میں نہ صرف آزاد تھے بلکہ تخلیقی تسلسل کو برقرار رکھنے اور قصے کو ہندوستانی معاشرت کا نمائندہ بنانے کے لئے انہیں روز مرہ کو لوظ نظر رکھنے کی اجازت بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرا امن کی باغ و بہاڑہ حیدر بخش حیدری کی ” تو تا کہانی نہال چند لاہور کی مذہب عشق" کے تراجم میں زبان لڑکھڑانے کے بجائے رواں دواں نظر آتی ہے۔ فورٹ ولیم کالج کے مصنفین نے اردو کے فارسی زدہ اسلوب کو آزادی کا سانس لینے کا موقعہ عطا کیا اور اس کی داخلی خوبیوں کی انفرادیت اجا گر کر دی۔ چنانچہ فورٹ ولیم کالج کے ادبا نے ایک ایسی تحریک کو فروغ دیا جس نے اردو نٹر کو د بی اظہار کی راہ دکھائی اور اس کے لئے ایک عام فہم اور سادہ اسلوب نگارش رائج کیا۔

تحریک فورٹ ولیم کالج نے بالخصوص عوامی دلچسپی کو فوقیت دی اور قصوں اور کہانیوں کو ادب میں پیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ چنانچہ فارسی اور سنسکرت کے وہ قصے جن کا داستانی عنصر سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا تھا جب اردو میں منتقل ہو گئے تو نہ صرف اس بات میں عوام کی دلچسپی بڑھ گئی بلکہ داستان گوئی کے فن کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ تحریک فورٹ ولیم کالج کے اس کارنامے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ اس نے چہار درویش "توتا کہانی آرائش محفل" داستان امیر حمزہ" "قصہ گل بکاؤلی مادھولال" کام کنڈلا اور شکنتلا وغیرہ کو اردو میں منتقل کیا اور یوں اردو کے داستانی ادب میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔ چنانچہ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں داستان نگاری کا ارتقا فورٹ ولیم کالج کار ہیں احسان ہے۔

فورٹ ولیم کالج کی ادبی جہت کا نمائندہ

فورٹ ولیم کالج کی ادبی جہت کا نمائندہ اور اس تحریک کا اہم ترین کردار ڈاکٹر گلکرسٹ ہے۔ گلکرسٹ کو بنیادی طور پر ادب سے کوئی دینا ہی نہیں تھی وہ ۱۷۸۳ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں اسٹنٹ سرجن کی خدمات سرانجام دینے کے لئے ہندوستان آیا اور اس نے اپنی ذاتی کوشش سے اردو زبان سیکھنا شروع کی ۔ طالب علمی کے دوران میں ہی اس نے اردو زبان کی عواعد اور لغت مرتب کرنے کا عہد کیا وار دن رات کی محبت شاقہ سے ۷ ۱۸۸ء میں انگریزی ہندوستانی لغت کا مسودہ مکمل کر لیا۔ دو سال کے بعد گلکرسٹ کی دوسری کتاب ”ہندوستانی زبان کے قواعد شائع ہوئی اور اس کے بعد ضمیمہ ہندوستانی لسانیات چھپی۔ ان کتابوں کی اشاعت سے گلکرسٹ کو ہندوستانی زبان کے ماہر کی حیثیت حاصل ہوگی۔ چنانچہ جب ولزلی نے انگریز افسروں کو ہندوستانی زبان کی تعلیم دینے کا ارادہ کیا تو گلکرسٹ کی خدمات سے سب سے زیادہ استفادہ کیا گیا۔ 

گلکرسٹ جو ہندوستان میں ایک طبیب کی حیثیت میں وارد ہوا تھا اب اور کھیل سیمیزی (Orientel Seminary) میں زبان کے معلم کے فرائض سرانجام دینے لگا اور جب ۱۸۰۰ء میں فوٹ ولیم کالج اسے ہندوستانی زبان کے پروفیسر کے عہدے پر متعین کیا گیا تو یہاں اسے اپنی صلاحیتوں کو عملی طور پر بروئے کار لانے کا بہتر موقعہ ملا۔ اردو زبان کی تدریس و تعلیم، نصابی کتب کی ترتیب مدرسوں کا انتظام وغیرہ چند ایسے مسائل تھے جن کی طرف گلکرسٹ نے اولین توجہ دی، در حقیقت انہیں مسائل کے موزوں حل نے فورٹ ولیم کالج کو ادب کا اہم مرکز بنا دیا تھا۔ اور اردو نثر کی اولین اہم تحریک اسی کالج سے رونما ہوئی فورٹ ولیم کالج کے انعقاد سے پہلے ہندوستان میں اردو کا کوئی مطبع قائم نہیں ہوا تھا۔ کتابوں کے قلمی نسخے ہی دستیاب تھے اور ان کی تعداد بے حد محدود تھی ۔ گلکرسٹ نے ان مشکلات کو حل کرنے کے لئے ہوشمند اور صاحب اسلوب مصنفین کا تقرر کیا طلبہ کی ضرورت کے مطابق آسان زبان میں تراجم کے لئے کتابیں منتخب کیں۔

 ان کتابوں کی اشاعت کے لئے ہندوستانی مطبع کی تنصیب کی اور پھر کتابوں کی اشاعت کو ایک مسلسل عمل بنا دیا اور اس کی نگرانی ذاتی سطح پر کی۔ گلکرسٹ کی عطا یہ ہے کہ جب کمپنی نے کتابوں کے اشاعتی منصوبے کو روک دینا چاہا تو گلکرسٹ نے چند کا روباری شرائط پر اشاعت کے تمام مصارف خود برداشت کرنے کی پیشکش کی اور دلیل یہ دی کہ : ہندوستانی ادب حقیقتا ابھی طفولیت کے دور سے گزر رہا ہے۔ اگر اس وقت شدید کفایت شعاری اور قاعدے قانون کی پابندی برتی گئی تو وہ کبھی پروان نہ چڑھ سکے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلکرسٹ نے ہندوستانی زبان کی تدریس کے ساتھ ساتھ اس زبان کی  .  ادبی جہت کی نگرانی بھی شروع کر دی تھی اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے نہ صرف غیر معمولی تجھیل سے کام لے رہا تھا بلکہ کمپنی کی انتظامی اور مالی مصلحتوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی گرہ سے اشاعتی اخراجات برداشت کرنے پر بھی آمادہ تھا۔

گلکرسٹ فورٹ ولیم کالج کے ساتھ صرف چار سال تک وابستہ رہا اور پھر واپس لندن چلا گیا۔ تا ہم لندن میں اردو سے اس کی دلچسپی کم نہیں ہوئی۔ اس نے اپنی ذاتی کوششوں سے اردو دانوں کی ایک اچھی جماعت پیدا کی اور اپنی وفات کے بعد کتابوں کی ایک قابل قدر تعداد آنے والی نسلوں کے افادے کے لئے ورثے میں چھوڑی۔ چنانچہ گلکرسٹ جو کمپنی کے ایک گم نام معالج کی حیثیت میں وارد ہندوستان ہوا تھا جب مرا تو اردو کے ساتھ بقائے دوام حاصل کر چکا تھا۔

فورٹ ولیم کالج کے ادباء 

فورٹ ولیم کالج کے ادبا میں سے بیشتر کی اولیں محبت شاعری سے استوار ہوئی تاہم ان میں اول درجے کا شاعر ایک بھی نہیں تھا۔ گلکرسٹ نے ان مصنفین کے داخل سے نثر لکھنے کا جو ہر دریافت کیا اور ان کی صلاحیت کو یوں چم کا یا کہ اب ان سب کی ادبی حیثیت بطور نثر نگار ہی متعین ہوتی ہے اور ان سب نے اردو نثر کی اس اہم تحریک کو متعدد زادیوں سے آگے بڑھانے میں عمدہ کردار سرانجام دیا۔

 یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ فورٹ ولیم کالج میں اردو نثر کی تین روئیں بیک وقت رواں تھیں ۔ ان میں سے ایک رو فارسی اور عربی مزاج کی اور دوسری خالص ہندی مزاج کی تھی ۔ تیسری رو جو زیادہ کامیاب ہوئی وہ ہندی عربی فارسی مقامی زبانوں اور روزمرہ کے امتزاج سے مرتب ہوئی ۔ فورٹ ولیم کالج کی تحریک نے موخر الذکر رو کو متحرک رکھنے کی کوشش کی اداسی کی بدلوت فورٹ ولیم کالج کو تحریک کا درجہ حاصل ہوا۔ اس رو کے نمائندہ ادبا ئیں میر بہادر علی حینی کو زیادہ اہمیت حاصل ہوئی۔ بہادر علی حسینی فورٹ ولیم کا لاج میں میر منشی تھے۔ گلکرسٹ نے ان سے درست و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کا کام بھی لیا۔ حسینی کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ گلکرسٹ نے ان کے کام کی حسین کی اور جب کالج کونسل نے اشاعت کتب کے پروگرام پر اعتراض کیا تو گلکرسٹ نے بہادر علی حسینی پر بھی اعتماد کا اظہار کیا۔ اس یادداشت کے مندرجہ ذیل جملے بالخصوص قابل توجہ ہیں:

تالیف و ترجمہ کے تمام اخراجات میرے ذمہ ہو نگے لیکن حکومت میر بہادر علی حسینی کو اپنے مصارف پر میری ماتحتی میں ہندوستانی کتابوں کے مقابلے اور ان کی تصیح پر بھال رکھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسینی نہ صرف تصنیف اور تدریس کا کام کرتے تھے بلکہ دوسرے مصنفین کے کام کی نگرانی اور ان کی تصحیح بھی کرتے تھے ۔ حسینی کا انفرادی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مثنوی سحر البیان کو نثر بے نظیر میں ڈھالا اور اس نثر کو سحر البیان کے اشعار سے آبدار بنا دیا۔ حسینی نے گلکرسٹ کے رسالہ قواعد زبان“ کو مرتب کیا اور ہتو پر دیش کا ترجمہ اخلاق ہندی“ کے نام سے کیا۔

 حسینی کی ایک اور تصنیف شہاب الدین طالش ابن ولی محمد کی فارسی کتاب تاریخ آسام کا اردو ترجمہ ہے۔ گلکرسٹ نے انہیں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے پر بھی مامور کیا لیکن یہ کام تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ البتہ نقلیات کی دو جلدیں حسینی نے فرصت کے اوقات میں مرتب کی ۔ بہادر علی حسینی کی نشر فورٹ ولیم کالج کے رواں اور بولتے چالے اسلوب کی نمائندہ ہے۔ نثر بے نظیر طلبہ کے نصاب میں شامل تھی۔ اس لئےاس کی زبان سادہ اور کہانی کا بیانیہ اسلوب کی آہستہ خرامی کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ 

 فورٹ ولیم کالج میرا امن کی رسائی بہادر علی حسینی کی وساطت سے ہوئی فورٹ ولیم کالج چونکہ انگر یز ملازمین کو اردوزبان سکھانے کے لئے کھولا گیا تھا اور میرا امن اہل زبان تھے اس لیے یہ قیاس کرنا درست ہے کہ انہیں درس و تدریس کے فرائل بھی سونپے گئے ہوں گے ۔ یہ بات اس حقیقت سے بھی واضح ہے کہ دوسرے ادبا کی بہ نسبت میر امن کی تصنیفات کی تعداد کم ہے۔ یہ قصہ چہار درویش کا ترجمہ ہے۔ میر امن سے پہلے حمد عوض زرین اور عطا حسین خاں تحسین اور میر امن کے بعد رجب علی بیگ سرور نے اس کتاب کا ترجمہ مختلف ناموں سے کیا۔ تا ہم اسلوب کی شادگی سلاست اور شانگلی کی بناپر بقائے دوام صرف "باغ و بہار کولی اور دوسرے تراجم کی تاریخی حیثیت اس لئے برقرار ہے کہ باغ و بہار کے اوصاف اجاگر کرنے کے لئے ان کتابوں کا تذکرہ بھی لازم آتا ہے ۔ باغ و بہار کی نثر سے میرا امن کی شخصیت کا تخلیقی پر تو اور دلی کے تہذیبی نقوش پوری شان سے منعکس ہوتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک خاص دور کی معاشرتی زندگی کو تابندگی و دوام عطا کر دیا۔ میرا من اردو کے واحد قصہ گو ہیں جنہیں بقول سید وقار عظیم اپنی بقائے دوام کے لئے حسن کلام اور شیرینی بیان کے علاوہ کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں۔ اس پر لطف زبان کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:

آگے روم کے ملک میں کوئی شہنشاہ تھا کہ نوشیرواں کی سی عدالت اور حاتم کی سی سخاوت اس کی ذات مین تھی۔ نام اس کا آزاد بخت اور شہر قسطنطنیہ (جس کا استنبول کہتے ہیں ) اس کا پایہ تخت تھا۔ اس کے وقت میں رعیت آباد خزانہ معمور لشکر مرفه غریب غربا آسودہ ایسے چین سے گزران کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک کے گھر دن عید اور رات شب برات تھی اور جتنے چور چکار جیب کترے صبح خیز ے اٹھائی گیرے دغا باز تھے سب کو نیست و نابودکر کے نام ونشان ان کا اپنے ملک بھر میں نہ رکھا تھا۔ ساری رات دروازے گھروں کے بند نہ ہوتے اور دکانیں بازار کی کھلی رہتیں ۔ راہی ، مسافر، جنگل، میدان میں سونا اچھالتے چلے جاتے۔ کوئی نہ پوچھتا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں اور کہاں جاتے ہیں ۔

اس اقتباس سے صاف نظر آتا ہے کہ میرا امن کی سادہ بیان در حقیقت خوش بیان ہے جس کا بیج اس کی تخلیقی فطرت سے پھوٹا ہے۔ تحریک فورٹ ولیم کالج میں میر امن کی عطا یہ ہے کہ اس نے ترجمے کو طبعزاد کا رتبہ دیا اور اردو نثر کو بے تکلف ابلاغ کی راہ دکھا دی۔

حیدر بخش حیدری نے فورٹ ولیم کالج میں سب سے زیادہ کتا بیں مرتب کیں ۔ ان میں سے ”تو تا کہانی کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ حیدری کی یہ کتاب کالج کے نصاب میں شامل تھے اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔ حیدری کی دوسری مشہور کتابوں میں آرائش محفل" "گلزار دانش" "گلدستہ حیدری " تذکر گلشن ہند اور ہفت پیکر وغیرہ شامل ہیں۔ 

حیدری کو بطور افسانہ نگار ڈاکٹر عبادت بریلوی نے دریافت کیا ہے۔ حیدری کی کہانیوں میں مختصر افسانے کے بیشتر اوصاف موجود ہیں اور یہ صرف ایک مرکزی خیال کے گردگھومتی ہیں ۔ حیدری کی یہ کہانیاں مختصر افسانے کی فنی روایت میں بھی بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ حیدر بخش حیدری نے بول چار کی عام زبان سے قدرے ہٹ کر اپنی نثر خود تراشی ہے۔ چنانچہ اس کے اسلوب پر سادہ فارسی کا ہلکا سا پر تو نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے حیدر کی زبان میر امن کی طرح خودرو نہیں بلکہ اس میں علمیت کا عصر بھی نمایاں ہے۔

 فورٹ ولیم کالج کے مصنفین میں سے شیر علی افسوس نے گلستان سعدی کا ترجمہ باغ اردو کے نام سے کیا لیکن ادبی ناموری سبحان رائے کی کتاب "خلاصتہ التواریخ “ کے ترجمہ آرائش محفل" سے حاصل ہوئی ۔ افسوس نے سعدی شیرازی کے اخلاقی زاویے کو اردو نثر میں اس طرح ڈھالا ہے کہ اس کا اجتماعی تجر بہ قاری کومستقیم انداز میں متاثر کرتا ہے۔ آرائش محفل اگر چہ تاریخ کی کتاب ہے لیکن اس میں بھی افسوس نے ادبی شان برقرار رکھی ہے اور یہ اظہار کے کتابی اسلوب کے برعکس روز مرہ کے عام انداز کو خوبصورت سے پیش کرتی ہے۔ شیر علی افسوس نے تاریخ کے بیانیہ رنگ کو کہانی کے انداز میں ڈھالا اور مختصر جملوں کو سحر جمال سے ایک طلسماتی زنجیر میں پرو دیا۔محمد حسین آزاد کی در باراکبری میں یہ اسلوب بلاشبہ خود ساختہ انداز میں سامنے آیا ہے لیکن آرائش محفل" پڑھنے کے بعد یہ گمان گزرتا ہے کہ آزاد کا اسلوب شیر علی افسوس کا ہی فیضان معنوی ہے۔

تحریک فورٹ ولیم کالج میں نثر کی دوسری رو فارسی اور عربی کے زیر اثر پروان چڑھی اور اس کے نمائیند و مرزا علی لطف اور مولوی امانت اللہ تھے۔ مرزا علی لطف نے تذکرہ ”گلزار ابراہیم کا ترجمہ متعدد اضافوں کے ساتھ کیا ہے۔ اس لئے بقول مولوی عبدالحق یہ کتاب ایک الگ تالیف کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ میرزا لطف کے اسلوب پر شاعری کا دبیر سایہ پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ان کی زبان گنجلک اور عبارت معلق ہے ۔ قافیہ پیائی، تشبیہ نگاری اور استعارہ پردازی میں مرزا لطف کا قلم بار ہانٹر کی صراط مستقیم سے بھٹک کر شاعری کی اقلیم میں دخل اندازی کرنا لگتا ہے اور اکثر اوقات جملوں کی ترتیب سے قدامت پسندی کا ثبوت ملتا ہے۔ مثال کے طور پر سودا کے بیان میں یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔ 

سچ تو یہ ہے کہ مری زائے مذکور سر حلقہ سخنوراں اور سرآمد معنی گستران تھے ۔ آشنائے معنی بیگانہ اور مضمون تازہ کے پیدا کرنے میں لگا نہ تھے۔ اقسام نظم سے دویان اس مطلع دیوان سحر بیان کا بھرا ہے اور انواع نظم کو کیا کیا زور وشور کے ساتھ بیان کیا ہے۔

مولوی امانت اللہ شید عربی کے عالم تھے اور فورٹ ولیم کالج میں کام کرنے سے پہلے فقہ اسلام کی ایک کتاب عربی زبان میں لکھ چکے تھے۔ کالج کے زمانے میں انہوں نے اس کتاب کا ترجمہ ہدایت الاسلام“ کے عنوان سے کیا ۔ ان کے مشہور کاموں میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ مولوی امانت اللہ شیدا پر مشرقی علوم کا شدید غلبہ تھا۔ چنانچہ اخلاق جلالی کے ترجمے کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ آسان لکھنا بھی چاہتے تو فارسی اور عربی کے مشکل الفاظ ان کا راستہ روک لیتے تھے اور ان الفاظ کو استعمال کئے بغیر آگے نکلنے کی راہ نہ پاتے چنانچہ ان کی نثر تعقید کا شکار ہے اور اس میں گنجلک الفاظ کی گرہیں پڑی ہوئی ہیں۔ ایک مختصر اقتباس ملاحظہ ہو۔

’درست ہے کہ اس زمانہ واضح برہان میں حضرت خاق صاحب زبان کی عطوفت ورحمت کی برکت سے تھوڑی مدت کے بیچ ہر طرح کی جمعیت و خاطر جمعی اہل بلاد اور کا فہ عبادکو پہنچی اور ملکوں کا میدان جو ظالموں کا ظلم سے پا کمال ہلاکت ہو گیا تھا آبادی پر آیا ۔ یہ نشانی نزول رحمت اور علامت حصول برکت کی ہے۔ 

مرزا علی لطف اور مولی امانت اللہ کی زبان ان مقاصد کی نگہبانی نہیں کرتی جن کی تعمیل طلبہ کے لئے جو کتا ہیں لکھوائی گئیں ان میں مشکل زبان کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن جن کتابوں کی حیثیت تاریخی یا مذہبی تھی ان میں زبان کی سادگی کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور ان کتابوں میں عدم ابلاغ کی مشکل قدم قدم پر آڑے آتی ہے اور قاری تفہیم کی الجھنوں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

فورٹ ولیم کالج میں فارسی اور عربی کی کتابوں کے علاوہ سنسکرت اور ہندی کی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کا کام بھی پہلو بہ پہلو ہو رہا تھا اور اس مقصد کے لئے ان زبانوں کے ادبا بھی کالج میں ملازم رکھے گئے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندی اور سنسکرت کی بعض مشہور کتابوں کے ترجمے پر مسلمان مصنفین کاظم علی جوان اور مظہر علی ولا وغیرہ کو مامور کیا گیا۔ یہ مصنفین چونکہ سنسکرت سے واقف نہیں تھے اس لئے للولال جی ان کی مدد کرتے کہانی پڑھ کر سناتے اور مسلمان مصنف اسے اُردو میں ڈھال لیتا ۔

 چنانچہ اس عمل سے اردو میں ایک نیا اسلوب بیان پیدا ہوا جس میں ہندی او برسن کے اثرات نمایاں اور فارسی کا اثر بالکل محدود تھا۔ اس اسلوب کا اولین نمائندہ کاظم علی جوان ہے اور اس نے کالی داس کی کتاب شکنتلا کا ترجمہ کیا۔ جوان نے کہانی کی فضا اور اس کے مزاج کی مناسبت سے جو زبان استعمال کیا ہے اس سے ترجمے میں اراضی لطافت جادو جگانے لگی ہے۔ اس اسلوب کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔

جب کام دیو نے راجہ کو بے کل کیا ، کل کی باتوں سے اس کی حالت اور ہونے لگی، شکنتلا شرمائی۔ تب اس نے اسے بھینچ کر ایسا گلے لگایا گویا وہ ایک جان اور ایک ہی قالب تھے ۔ حجاب کا پردہ درمیان سے اٹھا اور کام دل حاصل ہوا۔۔۔۔

اس نے گلے میں ہاتھ ڈالا اس نے جھڑک کر چھڑا دیا۔ وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور درختوں کی گہری گہری چھاؤں جہاں یہ چکور سا اس چاند سے مکھڑے پر والہ تھا اور وہ کوئل کی کوک رہی تھی ۔ خوشیاں با ہم ہو رہی تھی ۔ دلی کیے رہنے والے خوش فکر شاعری اور منفر د نثر نگار تھے اس لئے ان کے جادو نگار قلم نے برج اور اردو کے امتزاج سے تخلیقی نثر کا ایک نیا اسلوب وضع کیا۔ اور دل موہ لینے والی کیفیت پیدا کی ۔

 ڈاکٹر عبادت بریلوی نے لکھا ہے کہ : اس کا اسلوب اور انداز بیان صاف اور سلیس لیکن شگفتہ اور شاداب ہے اور اسی اسلوب اور انداز بیان نے مجموعی طور پر اس کو اردو نثر کی ایک اہم کتاب بنا دیا ہے۔ اسالیب نثر کے مندرجہ بالا تین زادیوں میں سے مرزا علی لطف اور مولوی امانت اللہ عمودی جہت کے نمائندے ہیں ۔ اس اسلوب میں علمیت کی شان دکھانے کے مواقع نسبتا زیادہ تھے۔ 

 چنانچہ انیسویں صدی میں جب مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور لکھنو کی تہذیب زوال آمادگی کا شکار ہوگئی تو علمیت بھی بے جانمودونمائش کی مظہر بن گئی اور متذکرہ اسلوب کو اہمیت حاصل ہو گئی ۔ فورٹ ولیم کالج کے باہر یہی اسلوب عظمت کا نشان تھا۔ چنانچہ بیشتر مصنفین نے اس مشکل اسلوب کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسی میں تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا۔ اس قسم کے مصنفین میں سید اعظم علی اکبر آبادی، مصنف ”فسانه سرور افزا" رجب علی بیگ سرور ”فسانہ عجائب اور محمد بخش مہجور مصنف گلشن نونہار کے نام اہم ہیں ۔ 

 حقیقت یہ ہے کہ ان مصنفین کے اسلوب میں زندہ رہنے کی قوت نہیں تھی ۔ چنانچہ یہ اسلوب فروغ شرع کے بعد جلد ہی ماند پڑ گیا۔ فورٹ ولیم کالج کی تحریک جس نثر کو فروغ دینے کی داعی تھی۔ اس کا اصلی پر تو میر امن حیدری، افسوس دلا اور جو ان کی نثر میں سامنے آیا۔ اس نثر میں قاری کو گرفت میں لینے اور اس پر ابلاغ کے تمام دروازے کشادہ کرنے کی اہلیت چونکہ زیادہ تھی اس لئے اسے زندہ نثر کا عوان دیا گیا اور اس نے آئندہ زمانے میں مختلف اسالیب بیان کو جنم دیا۔ فورٹ ولیم کالج تحریک کے زمانے میں انشاء کی نثر اگر چہ اس تحریک کے اثرات کا بدیہی نتیجہ نہیں تاہم رانی کتیکی کی کہانی میں اس مزاج کی جھلکیاں ضرور موجود ہیں اور نشر کور دزمرہ کی گفتگو بنانے کا جوا انداز میر امن نے اختیار کیا تھا اس کی نسبتا سکبھی ہوئی تہذیبی صورت مراز اغالب کی نثر میں نمایاں ہوئی ۔ 

 چنانچہ یہ کہنا درست نہیں کہ فورٹ ولیم کالج صرف ایک جزیرہ تھا جس کے چاروں جانب پھیلے ہوئے سمندر کا طوفان اپنے کناروں میں ہی مائل بہ طغیان ہو کر خاموش ہو جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ادب کی تحریک کسی گھن گرج کے ساتھ منظر عام پر نہیں آتی۔ بلکہ یہ سطح پر تلائم پیدا کئے بغیر آہستہ روی سے اپنے اثرات ذہن و قلوب پر مرتسم کرتی رہتی ہے۔ فیورٹ ولیم کالج کے دور میں اردو پریس قائم ہو چکا تھا۔ اخبارات، رسائل اور کتب کی اشاعت شروع ہو چکی تھی ۔ ذرائع آمدورفت نسبتاً آسان ہو چکے تھے اور مطبوعہ چیزوں کی آمد ورفت پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔ اس لئے ادبی تحریکوں کا دائرہ عمل بھی وسیع ہو گیا۔ چنانچہ یہ قیاس کرنا مناسب ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے کتابوں نے بیرونی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہوگا۔

فورٹ ولیم تحریک کا تجربہ اردو نثر کے ارتقاء کا پہلا قدم تھا اور جدیدیت کے اس رجحان کے خلاف قدامت پسند ادبا نے رد عمل کا اظہار بھی کیا۔ اس کا ایک ثبوت فسانہ عجائب کے دیباچے میں ملتا ہے جس میں رجب علی بیگ سرور نے واضح طور پر میر امن دہلوی اور باغ و بہار پر چوٹیں کی ہیں۔

 سرور لکھتے ہیں: اگر چہ اس پیچ میر ز کو یہ یارا نہیں کہ دعوئی اُردو زبان پر لائے یا اس فسانہ کو بنظر نثاری کسی کو سنائے ۔ اگر شاہجہان آباد که مسکن اہل زبان کبھی بیت السطنت ہندوستان تھا، وہاں چندے بود و باش کرتا ، فصیحوں کو تلاش کرتا فصاحت کا دم بھرتا جیسا میرا من صاحب نے چار درویش کے قصے میں بکھیڑا کیا ہے کہ ہم لوگوں کے دین وحصہ میں یہ زبان آئی ہے۔ دلی کے روڑے ہیں کہ محاروں کے ہاتھ پاؤں توڑے ہیں، پتھر پڑیں ایسی کمجھ پر کہ یہی خیال انسان کا خام ہوتا ہے ۔ مفت میں نیک بد نام ہوتا ہے۔ بشر کہ دعویٰ کب سزاوار ہے۔ کاملوں کو بیہودہ گوئی سے انکار بلکہ زنگ دعار ہے۔ مشک آنست کہ خود بوید نہ کر عطار بگوید ۔

چنانچہ اس رد عمل سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ فورٹ ولیم کالج کی تحریک کی نثر کے اثرات کالج تک محدود نہیں تھے بلکہ یہ دور دور تک پھیل رہے تھے۔ اس کے خلاف منفی رد عمل بھی ہوا اور اسے مثبت طور پر قبول کرنے کا رجحان بھی پیدا ہوا۔

گزشتہ حصے میں یہ بات کی جاچکی ہے کہ فورٹ ولیم کالج کا قیام سیاسی مقاصد کے حصول کا واحد وسیلہ بھی تھا۔ اس کالج کے خلاف انگلستان میں جو رد عمل پیدا ہوا اس میں بھی سیاست کا عمل دخل زیادہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ مجلس منتخبہ کا خیال تھا کہ فورٹ ولیم کالج دیوانی ملازمت کی واقعیت کو بڑھانے کی بہ نسبت قرض کو زیادہ بڑھاتا ہے اور ولیم ہنٹنگ اور چارلس مٹکاف نے کالج کی کارکردگی پر جو رائے پیش کی اس میں ہر ملازم پر خرچ آنے والی رقوم کو بالخصوص نشانہ تنقید بنایا گیا اور ان کا موازنہ ہیل بری کالج کے اخراجات سے بھی کیا گیا جو انگلستان میں متذکر ہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ہی قائم کیا گیا تھا۔ دوسری طرف کورٹ آف ڈائریکٹرز کا خیال تھا کہ فورٹ ولیم کالج کے

مقاصد پوری طرح حاصل نہیں ہور ہے اور پڑھنے والوں کی بہ نسبت پڑھانیوالوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے ۔ طلبہ تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے اور کالج کابل طلبہ کی آرام گاہ بن گیا ہے۔ اس کا نتیجہ ولزلی اور کورٹ آف ڈائر یکٹرز کے تصادم کی صورت میں سامنے آیا۔ ولزلی کایہ انتباہ کہ " کالج کو قائم رہنا ہوگا ور نہ سلطنت ختم ہو جائے گا ۔ بے حد معنی خیز ہے اور اس کی وجہ سے کالج کو تاحکم ثانی جاری رہنے کی اجازت تو مل گئی لیکن یہ منفی تاثر زائل ہونے کے بجائے ہمیشہ پرورش پاتا رہا اور آخر ۱۸۵۴ء میں اسے ایک مد فضول سمجھ کر بند کر دیا گیا۔ 

فورٹ ولیم کالج کے خاتمے کی مندرجہ بالا وجودہ ایسی ہیں جنہیں بالائی سطح پر ظاہر کیا گیا۔ کالج کا قیام اردونشر کے ارتقا کی ایک اہم کڑی ہے لیکن اس کا خاتمہ ادب کا حادثہ ہر گز نہیں ۔ وجہ یہ کہ کالج بند کر دینے کا فیصلہ ہنگامی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ اس کے پس پشت انگریز قوم کی طویل منصوبہ بندی مخصوص قومی اغراض سیاسی مقاصد اور مذہبی تعصبات کا عمل دخل نظر آتا ہے۔

 ہندوستانی زبان کے مطالعے کی تحریک گلکرسٹ نے شروع کی تھی۔ وہ جب کمپنی کی ملازمت پر ہندوستان آیا تو اس نے بھانپ لیا کہ بہتر خدمات سرانجام دینے کے لئے اس ملک کی زبان پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے پھر جب اندرون ہند وہ مختلف مقامات پر متعین ہوا تو اسے معلوم ہو گیا کہ اردو ہی ایک ایسی زبان ہے جسے پورے ملک میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اب اس کی توجہ اس طرح منعطف ہوئی کہ اس زبان میں ایسی نثر پیدا ہو جو ہندوستان میں عام سرکاری زبان کا کام دے سکے۔ 

 گلکرسٹ کا یہ تجزیہ اس کی ذاتی سوچ کا نتیجہ تھا اور اس نے اسے عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن انگریز قوم جس زاویہ نظر سے سوچ رہی تھی، یہ گلکرسٹ کے انداز فکر سے مختلف تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے انداز فکر کو بدلنے کے لئے ملک میں مغربی افکار اور انگریزی زبان کی ترویج ضروری کبھی اور اس کی واضح صورت میکالے کی اس یادداشت کے ذریعے سامنے آئی جو اس نے نظام تعلیم میں انقلاب تغیر پیدا کرنے کے لئے مرتب کی تھی۔ انگریزی اقتدار کو مضبوط اور ہندوستان کو حکوم بنانے میں اس دستاویز نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے اس کا اقتباس درج کرنا ضروری ہے۔

  ہم پر ۱۸۲۱ء کے قانون پارلیمنٹ کی پابندی عائد نہیں ہوتی ۔ ہم کسی صریح معنوی عہد و پیمان کے پابند نہیں ہیں ۔ ہم اپنی رقم کو جس طرح چاہیں استعمال کرنے میں آزاد ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ اسے ایسی تعلیم میں استعمال کریں جو بہترین صورت میں قابل حصول ہو ۔ انگریزی کی واقفیت سنسکرت اور عربی کی بہ نسبت زیادہ بہتر ہے۔ عربی اور سنسکرت قانون زبان کی حیثیت سے نہ مذہبی زبان کی حیثیت سے ہماری تائید کا کوئی خاص استحقاق رکھتی ہیں۔ اس ملک کے باشندوں کو کامل طور پر انگریزی کے حقیقی عالم بناناممکن ہے اور ہمیں اس مقصد کی جانب اپنی مساعی کا رخ پھیر دینا چاہئے"

اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انگریزوں کو ہندوستانی زبانوں کے برعکس انگریزی زبان وادب کے فروغ سے زیادہ دلچسپی تھی اور وہ اردو زبان کی تدریس کے صرف اسی حد تک حامی تھے جہاں تک ان کے تجارتی مقاصد کی مطلب برآری ہوتی تھی چنانچہ جب یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ فورٹ ولیم کالج کے متوسلین کی مالی اعانت منقطع ہو جانے سے ان لوگوں کے لئے اقتصادی مسائل پیدا ہو جائیں گے تو میکاے نے ان کا فیاضی سے پیش آنے کا یقین دلایا لیکن علوم مشرقی کے خلاف اس کے دل میں جو کینہ پرورش پا رہا تھا اس کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباس سے عیاں ہے :

میں ان تمام افراد کے ساتھ بھی فیاضانہ سلوک کروں گا جنہیں کسی ملی امداد کی تو قع ہوئی ہے لیکن میں اس

قبیح طریقے کی بیخ کنی کروں گا جسے اب تک ہم نے جاری رکھا ہے میں فورا عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت بند کر دوں گا۔ میں مدرسہ اور سنسکرت کالج کو برخاست کر دوں گا ۔ بنارس برہمنی علوم کا بڑا مرکز ہے اور دہلی عربی علوم کا۔اگر ہم بنارس کے سنسکرت کالج اور دہلی کےمحمڈن کالج کو برقرار رکھیں تو ہمارا یہ عمل مشرقی زبانوں کی بقا کے لئے کافی بلکہ کافی سے بھی زیادہ ہو گا ۔۔۔۔ اس طرح جو ر تم ہمارے زیر تصرف ہو گی اس سے ہم ۔۔۔۔۔ فورٹ ولیم کالج اور آگرہ کے احاطوں کے بڑے بڑے شہروں میں اپنے مدارس قائم کرنے کے قابل ہو سکیں گے جن میں انگریزی کامل طور پر بخوبی سکھائی جاسکے۔

میکالے کے اول الذکر اقتباس سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہی مذہبی زاویے سے مشرقی زبانیں ان کی سر پرستی کا استحقاق نہیں رکھتی تھی۔ چنانچہ موخر الذکر اقتباس میں میکالے نے محمد ن کا لج اور ہندو کالج کو نہ ہی علوم کے اداروں کی حیثیت میں ہی نشانہ تنقید بنایا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ انگریزوں نے بالواسطہ طور پر عیسائی کے تبلیغی مقاصد کو بھی فوقیت دی اور حصول مقصد کیلئے مشرقی مذاہب کے علوم اور ان کی رابطہ زبانوں کومنانے کی سی کی۔ 

سیرام پور کمشنری ادارہ ان مقاصد کے حصول میں پیش پیش تھا۔ عیسائی پادریوں کی تبلیغ میں زبردست حتر کیا جارجیت تھی اور انہیں سرکاری سر پرستی بھی حاصل تھی ۔ اہم بات یہ ہے کہ میرام پور کے عیسائی مبلغ مسٹر ویم کیری (William Cary) فورٹ ولیم کالج کے اساتذہ میں بھی شامل تھے ۔ جی اینڈرسن لکھتا ہے کہ عیسائی مبلغوں نے ملک کو انگریزی زبان اور مغربی علوم سے روشناس کرا دیا تھا۔ انہیں میں ایک نو جوان مبلغ ڈاکٹر لیکن ٹڈ روف (Alexander Duff) بھی تھا۔ جس کا نظریہ تھا کہ مناسب تربیت کے ذریعے انسانی دماغ کی مختلف قوتوں اور بلیتوں کو بیدار کرنے ترقی اور تقویت دینے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے اور اس غرض کے لئے انگریزی زبان کو موثر ترین آلے کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ نیز اس تربیت پر جو اس طرح دی جائے کچے مذہب کا گہرا رنگ چڑھایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ہر جماعت کے وقت کا کچھ حصہ انجیل کی با قاعدہ تعلیم کے لئے وقف کیا جائے۔

انہیں یقین تھا کہ ان کے نظریے پر عمل درامد سے ہندوستان کے نوجوان بہت جلد عیسائیت کی آغوش میں آ جائیں گے۔ چنانچہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ ہرام پور کے مشنری ادارے نے نہ صرف تبلیغی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی بلکہ انگریزی کے فروغ کے لئے بھی راہ ہموار کی۔

مندرجہ بالا مذہبی اور لسانی تعصب کے علاوہ فورٹ ولیم کالج کے خاتمے کی ایک اور وجہ یھی کہ کمپنی کے ملازمین نے واحد معیار لیاقت مشرقی علوم کی تحصیل کو بنا لیا تھا۔ اس حقیقت کا ثبوت سی ای تر یولیان کی کتاب باشندگان ہند کی تعلیم سے ملتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ : لارڈ ولزلی کے کالج واقع فورٹ ولیم کے اثر سے جو کمپنی کے محرروں کی تعلیم کے لئے قائم ہوا تھا سول سران کے ارکان کے نزدیک واحد معیار لیاقت مشرقی علوم کا جانا قرار پا گیا ہے۔

" اور اس سے یہ خیال پیدا ہونالازمی تھا کہ کمپنی کے مفاد کی قیمت پر معاشرتی علوم کو فروغ حاصل ہورہا ہے اور تو جوان انگریزوں نے ان علوم میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ انگریز حکمرانوں کے لئے اس سے زیادہ خطرے کی اور کوئی بات نہیں تھی کہ ان کے ملازمین مشرقی علوم کا تاثر قبول کرنا شروع کر دیں۔ چنانچہ اس کا بدیہی نتیجہ فورٹ ولیم کالج کی مخالفت تھا اور اس کے لئے متعصب انگریز سیاستدانوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ چنانچہ انگلستان میں بیل بری کا قیام عمل میں آیا اور یہ فورٹ ولیم کالج کے رد عمل کا ہی نتیجہ تھا۔

۱۹۰۵ء میں ولزلی کی لندن واپسی اور اس سے ایک سال قبل فورٹ ولیم کالج سے گلکرسٹ کی سبکدوشی کے بعد اگر چہ کالج جاری رہا لیکن اس کی تحریک نسبتا ماند پڑ گئی۔ گلکرسٹ کے بعد کپتان ٹامس رولک، جوزف ٹیلڈ اور ڈاکٹر دیم ہنٹر وغیرہ فورٹ ولیم کالج کے ہندوستانی شعبے کے ساتھ متعلق رہے لیکن کمپنی کے ڈائر یکٹروں کے معاندانہ رویے کی بناء پر اشاعت کتب کی رفتار کمزور پڑ گئی اور یہ تحریک حرکت و عمل کا ایک دور مکمل کرنے اور ادب پر مستقل اثرات ثبت کرنے کے بعد ختم ہوگئی۔ ۔

تحریک فورٹ ولیم کالج کا شمار اردو ادب کی متحرک جاندار اور توانا تحریکوں میں ہوتا ہے۔ اس تحریک نے اردو ادب کے جمود کو توڑنے اور اس میں طغیان تخلیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لسانی اعتبار سے اس نے اردو کی انفرادی حیثیت متعین کی اور اسے شکل کوئی اور ادق نگاری سے نجات دلا دی۔ صنفی اعتبار سے فورٹ ولیم کالج تحریک نثر کی تحریک تھی اور اس صنف اظہار میں اس کے زیر اثر بیک وقت تین اسالیب بیان میں کتا بیں تالیف کروائی گئیں۔ ان میں فاری آلو د اسلوب اب متروک ہو چکا ہے اور باقی دو کے امتزاج سے سلیس نثر نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔ 

اس تحریک کی ایک اور خصوصی عطا یہ ہے کہ اس نے اردو کے داستانی ادب کو فروغ دیا اور اردو صرف ونحو قواعد و ضوابط اور ات کی مستند کتا بیں فراہم کیں۔ فورٹ ولیم تحریک کے اشاعتی منصوبے میں موضوعات کا بھی تنوع موجود ہے۔ چنانچہ شاعری تاریخ مذہبیات اور اخلاقیات اور قصہ کہانی کے موضوعات پر قابل قدر تعداد میں کتا بیں شائع کی گئیں۔ فورٹ ولیم کالج کے دور میں اردو ٹائپ کے فروغ اور چھاپے خانے کے نصب ہو جانے سے اشاعت کتب کی رفتار تیز تر ہوگئی ۔ چنانچہ لکھا ہوا لفظ جو پہلے قلمی مخطوطوں کی صورت میں چندلوگوں تک ہی رسائی پا تا تھا۔ 

طباعت کے بعد ہزاروں لوگوں کے لئے نور بصیرت بن گیا۔ فورٹ ولیم تحریک مادی افادی اور مقصدی تھی ۔ اس لئے اس کے پس پشت عمل تقلیب کا سیاسی زاد یہ نسبتا زیادہ کارفرما نظر آتا ہے۔ اس تحریک نے صنف نثر کو بہت زیادہ متاثر کیا اور نئے اسالیب بیان کے فروغ میں نمایاں خدمات سرانجام دیں ۔ فکری سطرح پر اس تحریک کی عطا اگر چہ بالواسطہ ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ چنانچہ نثر کے فروغ نے منطقی استدلال کی طرف پہلا قدم بڑھایا۔

 فورٹ ولیم کالج کی نثر نے نہ صرف عام زندگی کے ارتقاء کی رفتار تیز تر کردی، بلکہ جب روز مرہ کی زبان ادب کی سطح پر پہنچ گئی تو اس نے مستقبل کو بھی متاثر کیا۔ انیسویں صدی میں برصغیر کی سیاسی بیداری اور صحافت کا فروغ فورٹ ولیم کالج کی نثر کا ہی نتیجہ نظر آتا ہے اور اس نے اس صدی کے نصف آخر میں انگریز دشمنی اور ہندو مسلم تصادم کو ابھارنے میں بھی معاونت کی ۔ فورٹ ولیم کالج کی نثر کی سادگی نے بو جھیل زبان کے علاوہ تہذیب کی دیگر بو جھل اقدار سے رہائی یا کر آ زادی خیال کر بھار اور ار ونٹر کوارتقائی راہ پر ڈال دیا۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ ایک مخصوص سیاسی پس منظر کے باوجود اس تحریک نے مستقبل کے اردو ادب کو بیش بہا فائدہ پہنچایا۔

فورٹ ولیم کالج تحریک کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس نے مقامی باشندوں میں لسانی اختلافات کو جوادی اور ہندی اردواور بنگالی کو باہم متصادم ہونے کا موقعہ دیا۔ اس عہد میں عربی اور سنسکرت کا لجوں کا الگ الگ قیام بھی لسانی انتشار میں مزید اضافے کا باعث بن گیا۔ چنانچہ جب ۱۸۲۸ء میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تو بنارس میں اس کا شدید ردعمل ہوا اور اردو کو نیست و نابود کر کے دیوناگری رسم الخط میں ہندی کو فروغ دینے کے منصوبے بنائے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں مستعمل زبانوں کے تصادم سے انگریزی زبان کی بالادستی قائم ہونا شروع ہوگئی اور مشرق کی تین کلاسیکی زبانیں یعنی عربی فارسی اور سنسکرت آہستہ آہستہ مند اقتدار سے محروم ہو گئیں۔

 فورٹ ولیم کالج تحریک نے ہندوستان کے تہذیبی عمل میں بالواسطہ طور پر حصہ لیا۔ تا ہم اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس تحریک نے ہندوستان کی تہذیب کو دریافت کرنے اور انگریزوں کو اس تہذیب کے بنیادی مزاج تک رسائی حاصل کرنے میں مدوری ۔ 

 اس لحاظ سے اس تحریک میں کلاسیکیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے اور رومانی ایک خاصی کمزور ہے۔ بلاشبہ فورٹ ولیم کالج کا قیام سیاسی مقاصد کے لئے عمل میں لایا گیا تھا لیکن جب یہ کالج ایک تحریک کی صورت میں اختیار کر گیا تو اس کے بیشتر ثمرات اردو ادب نے سمیٹے ۔ اس تحریک کا سیاسی زاویہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن ادبی پہلو آج بھی بحث و نظر کا زندہ موضوع ہے اور مستقبل کے ادب کو تا بانی عطا کر رہا ہے۔




Post a Comment

0 Comments