پاکستان میں اردو ناول نگاری کی روایت
ناول کیا ہے ؟
ناول زبردست آرٹ فارم ہے۔ اس میں اظہار کے جتنے امکانات ہیں ادب کی کسی دوسری صنف میں نہیں۔
ناول جزو میں کل اور کل میں جزو کا منظر نامہ پیش کرنے کا عمل ہے۔ صنف ناول نویسی کو صدیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ناول کا مقصد آج بھی وہی ہے جو ابتداء میں تھا، یعنی کہانی بیان کرنا ۔ ناول چاہے جس تکنیک اور اسلوب میں لکھا جائے اسے کہانی بیان کرنا ہوگی ورنہ عزیز احمد کے بقول ناول ناول نہ ہوگا نفسیات کی کیس ہسٹری یا صحافت بن جائے گا لیکن آج کے عہد میں ناول کا مقصد محض کہانی بیان کرنا نہیں ہے ۔ کہانی کے ساتھ محمد حسن عسکری کے خیال کے مطابق ناول زندگی کی تفتیش اس کی معنویت کی تلاش اور حیات و کائنات کی تعبیر و تفسیر ہے۔ پاکستان میں اردو ناول کی نصف صدی ایک پھیلا ہوا موضوع ہے چند صفحات پر مشتمل دے سکتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد کا ناول
قیام پاکستان کے بعد ہمارے ناول کا عمومی موضوع کسی نہ کسی طرح سے ہمارا ہی معاشرہ رہا ہے۔ ہمارے ہی احوال اور ہمارا ہی ملک کسی نہ کسی طرح سے اس کی تصویروں میں منعکس ہوتے رہے ہیں ۔ قیام پاکستان کے
ابتدائی سالوں میں اردو افسانے میں زیادہ تر فسادات جبکہ ناول میں ہجرت کا تجربہ تخلیق کا روپ دھارتا رہا ہے۔ ظہور پاکستان سے قبل عزیز احمد احسن فاروقی، قرۃ العین حیدر وغیرہ ناول لکھ رہے تھے ظہور پاکستان کے بعد بھی انہوں نے لکھنا جاری رکھا۔ پاکستان قائم ہونے کے بعد قابل توجہ ناول عزیز احمد نے لکھے۔ یہ ناول ہیں ایسی بلندی ایسی پستی "گریز" اور "شبنم" عزیز احمد نے اردو کے باشعور ناول نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ناول نگاری میں نیچر یزم (یعنی ہر بات اور واقعہ حقیقت کے عین مطابق لکھا جائے ) کے قائل ہیں ۔ عزیز احمد نفسیاتی حقیقت نگاری کے حوالے سے اردو ناول میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ وہ اپنے ناولوں میں فرد کے کردار پر جنسی جہات کے اثرات کا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ اگر چہ "شبنم" میں ان کا فن نکھر کر سامنے نہیں سکا لیکن ان کا دوسرا ناول " ایسی بلندی ایسی پستی ان کا شاہکار ناول سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول میں انہوں نے حیدر آبا دود کن کے جاگیر داروں کی زندگی اور وہاں کے دربار کی ریشہ دوانیوں کو بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ہمارے ناول کا ایک اور رجحان ظہور پاکستان کے موقع پر ہونے والے فسادات کا موضوع ہے۔ ایسے ناولوں میں رئیس احمد جعفری کا مجاہد" قیسی رامپوری کا خون" نیم حجازی کا خاک و خون" ایم اسلم کا رقص ابلیس اور قدرت اللہ شہاب کا یا خدا" شامل ہیں ۔
قرة العین حیدر
۱۹۵۰ء کی دہائی سے لے کر اب تک ناولوں کے افق پر ہمارے ہاں جو سب سے بڑی شخصیت طلوع ہوتی ہے وہ قرۃ العین حیدر کی شخصیت ہے ۔ ان تینوں دہائیوں میں بہت ناول برادر است عینی کے تاثر کے تحت اور کئی ناول اس کے فکری رجحان کی تردید یار و عمل کے سلسلے میں لکھے گئے ہیں۔ مینی کا سب سے بڑا کمال مسلسل ہم جہتی وحدت نمو ہے جو ان کی پہلی تحریر سے آج تک کی تحریر میں موجود ہے۔
۱۹۵۹ء میں قرۃ العین حیدر کا ناول "آگ کا دریا" شائع ہوا۔ یہ اردو ادب میں پہلا تجرباتی ناول ہے۔ آگ کا دریا بڑے کینوس کا ناول ہے جو گزشتہ چار ہزار سال کی تہذیبی سیاسی تاریخی اور معاشرتی زندگی کی عہد بہ عہد ابھرنے والی علامات سے گزرتا ہوا عہد جدید تک آتا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ناول کی پیش کش کے لیے جو زمانہ منتخب کیا ہے وہ بہت طویل ہے۔ اس ناول کے اہم کردار گوتم ہری شنکر و کمال ہیں۔ یہ اپنے نام کی تھوڑی تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ہر عہد میں موجود رہتے ہیں اور ناول نگار خاتون ہر عہد کو انہی کے ذریعے ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔
تاریخی ادوار
یوں تو یہ ناول تاریخ کے کئی ادوار پر پھیلا ہوا ہے لیکن اس ناول کا اہم ترین حصہ عصر حاضر سے متعلق ہے اور ہندوستان کی قدیم تہذیب اور تاریخ کا بیان موجودہ عہد کا پس منظر معلوم ہوتا ہے۔ اس ناول میں دراصل ہندوستانی شعور کی تاریخ پیش کی گئی ہے۔ مصنفہ نے ہر دور میں ایسے باشعور صاحب فکر انسان منتخب کئے ہیں جو اپنے زمانے کی سیاسی، فکری اور تہذیبی صورت حال پر غور کرتے ہیں اور عہد کے مسائل کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھتے اور انسانیت کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی
ڈاکٹرمحمد احسن فاروقی تقسیم ہند سے قبل ہی ایک نقاد کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ناول نگار کے روپ میں بھی سامنے آئے۔ ان کا سب سے پہلا ناول "شام اور ھ' ہے جو ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا۔ ناول پر جس قدر عبور احسن فاروقی کو حاصل تھا، برصغیر میں شاید ہی کسی کو حاصل رہا ہو۔ ان کا ایک ناول ول کے آئینے میں ماہنامہ سیپ" کراچی میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ انہوں نے ایک اور ناول رہ و رسم آشنائی میں محبت کے فلسفے کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
احسن فاروقی کا ایک اور کارنامہ ان کا ناول "سنگم ہے۔ اس ناول کو وہ خود بھی بڑی اہمیت دیتے تھے۔ اس ناول میں انہوں نے برصغیر کی تاریخ کو علامتی انداز میں بیان کیا ہے ۔ اسے بھی انہوں نے ڈرامے کی طرح پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ ارسطو کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس ناول کے قصے میں ابتداء ووسط اور خاتمے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ انہوں نے ہر بات کے لئے ایسا عنوان بھی دیا ہے کہ جو اس عہد کی تہذیب کی علامت ہے۔ اس ناول میں مسلم بر صغیر میں مسلم کردار کی علامت ہے۔ اس قسم کے نام ہمیں ڈپٹی نذیر احمد کے کرداروں کی یاد دلاتا ہے جن کے نام ہمیشہ ان کے کردار کی خصوصیات کے لحاظ سے رکھے جاتے ہیں۔ اس ناول کا آخری یعنی پانچواں دور برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی جدو جہد کا زمانہ ہے۔ مسلمانوں کی سیاست کی ابتداء سرسید کی تحریک سے ہوئی اور اس کی انتہا قائد اعظم کی سیاست ہے۔ اس دور میں اس ناول کے کردارا کثرو بیشتر یہ جملہ بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ You do not understand اس باب میں مسلم بیرسٹر بن جاتا ہے بڑی مشکل سے اس کی ایک مختصر ملاقات قائد اعظم سے ہوتی ہے۔ مسلم قائد اعظم سے کہتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان تقسیم نہیں چاہتے ۔ قائد اعظم اسے جواب دیتے ہیں۔
Well Mr. Muslim, you do not undetstand تقسیم کے بعد مسٹر مسلم کو دریا میں ڈال دیتا ہے اور وہ بہتا ہوا پاکستان پہنچ جاتا ہے۔ کسی آدمی کی ہجرت یہ طریقہ بڑا عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان آ کر مسلم کافی تکلیفیں اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے مزدوری تک کرنا پڑتی ہے۔ ایک بیرسٹر کا پیٹ بھرنے کے لیے مزدوری کرنا قطعی طور پر خلاف قیاس معلوم ہوتا ہے۔ سنگم میں ایک مرکزی علامتی کردار" یعنی "مسلم" "آگ کا دریا میں کئی علامتی کردار ہیں (مثلا چمپا کمال، گوتم وغیرہ) تاریخ کو ناول کی شکل میں پیش کرنے کے اعتبار سے سنگم ایک کامیاب ناول ہے۔ آگ کا دریا میں تاریخ کے تسلسل کے ساتھ ساتھ تہذیب کا ارتقاء بھی ہے جبکہ سنگم‘ کا موضوع صرف تاریخ ہے۔
شوکت صدیقی
قرة العین حیدر اور احسن فاروقی کے بعد پاکستان کے ناول نگاروں میں ایک اور اہم نام شوکت صدیقی کا ہے ان کا سب سے مشہور ناول ”خدا کی بستی ہے جسے ۱۹۶۰ء میں آدم جی ادبی انعام بھی ملا ہے۔ یہ پہلا ناول ہے جس میں تقسیم برصغیر کے بعد تشکیل پذیر پاکستانی شہری معاشرے کے باطنی حقائق کر جرات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
نثار عزیز بٹ
نثار عزیز بٹ کے ناول تین نسلوں کے محسوساتی رویے دکھاتے ہیں ۔ ان تینوں ناولوں میں کہیں نہ کہیں پاکستان ایک موڑ کے طور پر ضرور ابھرتا ہے۔ نگری نگری پھرا مسافر کو ۱۹۶۰ء میں لے چراغے نے گلے) ۱۹۷۳ء میں اور (کاروان وجود ) ۱۹۸۱ء میں طبع ہوئے تینوں ناول ایک ایسا " Trio" بناتے ہیں جس میں تاریخ فلسفہ اور ادب کے سوالات ابھرتے اور کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ ہمارے بعد کے ناولوں کو بھی موضوع بنتا ہے بستی“ اور ”راجہ گدھ“ ایسے ناول بھی اس سلسلے سے مربوط ہیں ۔ ان کا تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا۔ متاز مفتی کا ناول "علی پور کا ایلی دنیا کے ان تخنیم ناولوں (اگر اسے فنی لحاظ سے ناول قرار دیا جاسکے ) میں آئے گا، جن میں کرداروں کی ایک دنیا آباد ہے یہ غالبا اردو کا طویل ترین ناول ہے۔ جمیلہ ہاشمی نے یوں تو کئی ناول لکھے ہیں لیکن ان کے تین ناولوں نے شہرت حاصل کی ان میں سے ایک ناول " علاش بہاراں ہے جسے ۱۹۶۱ء میں آدم جی ادبی انعام مل اس ناول پر عبدالحلیم شر اور پریم چند ے ان کی چھاپ لگی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ اس ناول کے اہم کردار مثالی کردار نظر آتے ہیں ۔ یہ پورا ناول در اصل کنول کماری ٹھا کر کا قصہ ہے اس کردار میں اس قدر صفات جمع کر دی گئی ہیں کہ عام حالات میں اتنی صفات کسی انسان میں جمع ہونا ممکن نہیں ۔ اس کردار کا چلنا پھرنا، سونا جاگنا باتیں کرنا ہر چیز اتنی مثالی ہے کہ کنول کماری ٹھا کر کا کردار حقیقت سے بہت دور ہو گیا ہے ۔ " تلاش بہاراں کے مقابلے میں جمیلہ ہاشمی کا دوسرا ناول " آتش رفتہ فنی اعتبار سے زیادہ بہتر اور کامیاب ہے یہ ناول ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا اس ناول میں سکھوں کی زندگی ان کے رسم ورواج ان کی روایات کو بڑی فنکاری سے پیش کیا گیا ہے۔
خدیجہ مستور کے لکھے ہوئے ناول "آنگن کو ۱۹۶۲ء میں آدم جی انعام ملا۔ یہ وہ ناول ہے جسے عام پڑھنے والوں کی طرف سے بھی قبولیت کی سند ملی اور ناول کے نقادوں نے بھی دل کھول کر اس کی تعریفیں کیں۔ آنگن کی خوبی کہانی کی بنت کردار نگاری اور اختتام ہے بحیثیت مجموعی آنگن اردو کے چند منتخب اور کامیاب ناولوں میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ زمین اس ناول کی توسیع ہے۔
عبداللہ حسین
عبداللہ حسین پاکستان کے ان ناول نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے اداس نسلیں“ لکھ کر ناول کی تاریخ میں اپنا مقام پیدا کیا یہ ناول ۱۹۶۳ء میں شائع ہوا اس ناول کو بھی آدم جی کا ادبی انعام دیا گیا لیکن اس ناول پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی اور اس ناول کو آگ کا دریا" سے مشابہ قرار دیا گیا۔ اس ناول میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس میں بہت سے واقعات بھی شامل کر دیئے گئے ہیں۔ جو پورے طور پر قصے کا جزو نہیں بن پائے۔ پلاٹ اور کردار کے حوالے سے یہ ناول ناقدین کو مطمئن نہ کر سکا۔ ۱۹۹۶ء میں ان کا ناول نادار لوگ چھپا یہ ناول ” اداس نسلیں“ کا تسلسل ہے یہ ناول فطرت نگاری کی تحریک کے زیر اثر لکہ محسوس ہوتا ہے یہ پاکستانی معاشرہ کی نوعیت اور مزاج پر بھر پور تبصرہ ہے۔
الطاف فاطمہ
الطاف فاطمہ کا ناول "دستک نہ دو محض کرداری تضادات کو رو بر ولاتا ہے۔ اس کا دوسرا ناول " چلتا مسافر بھی پاکستان ناولوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔نسیم حجازی اور ایم اسلم نے تاریخ اسلام کے اہم واقعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا لیکن کردار نگاری اور دوسرے فنی تقاضوں کے اعتبار سے ان کے ناول کمزور رہ جاتے ہیں۔ ابن صفی جاسوسی ناولوں سے معروف ہوئے۔ ان کے ناولوں میں ادبیت پورے طور پر موجود ہے اور انہیں بھی ایک وسیع حلقہ قارئین میسر ہے۔
انتظار حسین
انتظار حسین کی واردات جو ہجرت کے تجربے سے طلوع ہوئی تھی ان کے ناول چاند گہن اور بہتی کے باطن میں موجود ہے ۔ بستی میں ناول کے عناصر اپنی جگہ سے ہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ایک محدود عرصہ میں پھیلا ہوا یہ ناول Eventless Living کو پلاٹ کی غیر حاضری سے واضح ہوتا ہے اس ناول میں قدروں کی شکست وریکٹ سامنے آتی ہے۔ ناول بستی کو زیادہ روشنی ذاکر او صابرہ کے کرداروں سے ملی ہے جو منظر کے ساتھ پس منظر کو بھی منور کر دیتی ہے بستی کو انتظار حسین کے فن اور اردو ناول کی ایک کڑی شمار کیا گیا ہے ۔ ان کا نیا ناول آگے سمندر ہے“ کے عنوان کے چھپا ہے۔ اس پر مختصر تبصرہ آگے آرہا ہے۔
مشرقی پاکستان کے موضوع پر سلمیٰ اعوان کا ناول ”تنہا اور طارق محمود کا ناول ”اللہ میگھ دے رونگٹے کھڑے کر دینے والی تحریریں ہیں۔ صدیق سالک کے دو ناول پریشر گر“ اور ایمر جنسی میں پاکستانی معاشرے کی زندگی اور اخلاقیات کے زوال کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کا مقصد معاشرتی ریا کاریوں کو بے نقاب کرنا ہے ۔ اس میں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ انیس ناگی نے دیوار کے پیچھے میں جدید انسان کا وجوری رویہ اور زندگی کی بے معنویت آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انور سجانے ”خوشیوں کا باغ اور جنم جنم روپ میں اپنے عہد کی سیاسی صورت حال کو علاماتی انداز میں پیش کیا ہے۔
طارق اسماعیل ساگر کا ناول " کہساروں کی آگ افغان مجاہدین کی جدو جہد کے احوال پر مشتمل ہے۔ یہ ناول فنی لحاظ سے تو انا ناول ہے طارق اسماعیل ساگر کے دوسرے اہم ناولوں میں ” چناروں کے آنسو لہو کا سفر
اور کمانڈو وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام ناولوں کو ہم ایک بچے محبت وطن قلم کار کی تخلیقات قرار دے سکتے ہیں ۔ صحیح معنوں میں یہی مزاحمتی ادب ہے فہیم اعظمی کے ناول جنم کنڈلی" کا موضوع آدمی کی تشنگی اور نا آسودگی ہے۔ یہ ایک غیر مربوط تکنیک میں ایک نیا تجربہ ہے۔ ان کا دوسرا اہم ناول " ڈسٹی نیشن میں ہوں اکرام اللہ کے ناول گرگ شب میں موضوعاتی تجربات کا اہمیت دی گئی ہے۔ حالیہ برسوں میں تارڈ کا ناول 'راکھ چھپا ہے ۔ راکھ آپ بیتی بھی ہے ۔ وطن بیتی بھی ۔ ملک کی نصف صدی کی تاریخ کو ناول کا روپ دے دیا گیا ہے یوں یہ ہماری اپنی کہانی ہے ۔ پاکستان کی کہانی ٹوٹتے بکھرتے خوابوں کی کہانی، شکست وریخت سے دو چار اداروں کی کہانی یہ ناول ہماری پچاس سالہ تاریخ کی دستاویز ہے۔ رحیم گل کا ناول ” جنت کی تلاش ایک غیر معمولی اور شاہکار ناول ہے۔ مظفر اقبال کے دو ناولوں "انخلاع“ اور ”انقطاع" میں پاکستان کی موجودہ سماجی، سیاسی صورتحال کو موضوع بنا گیا ہے۔
گذشته نصف صدی کے دوران میں ان ناولوں کے علاوہ بھی بہت اچھے ناول لکھے گئے ہیں ۔ جن کا تفصیلی تذکر و ممکن نہیں ۔ تا ہم ان ناولوں کے عنوان اور ان کے لکھنے والوں کے نام لکھے جارہے ہیں۔ احمد داؤد کا رہائی" اصغر ندیم سید کا آدھے چاند کی رات" نشاط فاطمہ کا "آنسو جو بہہ نہ سکے اور زمین کے رشتے محمد خالد اختر کا چاکیواڑہ میں وصال مقصود الہی شیخ کا دل ایک بندگلی" صلاح الدین عادل کا مصائب و آفات کو آلام کیا ڈاکٹر فردوس انور قاضی کا خوابوں کی بستی' سید قاسم محمود کا " چلے دن بہار کے سلیم شاہد کا آئندہ " اور مشتاق قریشی کا ناول پاتال" قیام پاکستان سے قبل مطلع ادب پر پوری تابناکی کے ساتھ جلد گانے والے نام ہمارا قیمتی ورثہ بنے ۔ ان افسانہ نگاروں نے شکست خواب اور نا آسودہ توقعات ہجرت اور فسادات سے جنم لینے والے کیفیات کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا۔
قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ تک تو افسانے کا غلاب موضوع یقینا فسادات ہی رہا لیکن کچھ مدت بعد جب انتشار اور افراتفری کا دور ختم ہوا، زندگی کے بدلتے معمولات کے ساتھ ساتھ کچھ نئے موضوعات بھی افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز بنتے گئے ۔ اس زمانے میں ایک نمایاں رجحان ماضی پرستی کا تھا۔ نئی سرزمین پر جب لوگوں کو وہ خواب پورے ہوتے نظر نہ آئے جنہیں دیکھتے ہوئے وہ اس سرزمین پر پہنچے تھے تو ان پر مایوسی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ ان افسانہ نگاروں میں انتظار حسین اور اے حمید کے نام بہت زیادہ نمایاں ہیں۔ پاکستانی افسانے کا پیش منظر مرتب کرنے والے افسانہ نگاروں میں اشفاق احمد شوکت صدیقی ابراہیم جلیس، غلام الثقلین نقوی، محمد احسن فاروقی رحمان مذنب غلام عباس اور شفیق الرحمن وغیرہ شامل رہیں۔
احمد ندیم قاسمی
احمد ندیم قاسمی ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں۔ ان کی نظر بالعموم زندگی کی بنیادی اقدار اور صداقتوں پر رہتی ہے۔ وہ انہی صداقتوں اور لطافتوں کو تخلیقی انداز سے پیش کرتے ہیں ۔ موضوعات کی نگار رنگی بھی ان کے افسانوں کا خاص وصف ہے اور کائنات کی بوقلمونی کو ذات کے حوالے سے دیکھنے دکھانے پر بھی انہیں غیر معمولی قدرت حاصل ہے ۔
سعادت حسن منٹو
منٹوسے پہلے کا فسانہ عقل کا افسانہ ہے۔ منٹو سے تخیل کے افسانے کا آغاز ہوتا ہے ایک معاشرتی حقیقت نگار ہیں۔ ان کے یہاں ہمیں Sharp Ending یا Twist کی تکنیک پہلی مرتبہ ایک قوت کے ساتھ ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے فن کا کمال دو چیزوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے ایک تو خیال مجرد کو حیاتی تجر بہ بنانا دوسرے تضاد یاJuxtapostion کی تکنیک کا صبح اور بھر پور استعمال ۔ اس کی شخصیت میں ایک بڑا مصور اور ایک زبر دست کا ٹونسٹ جمع ہو گئے ہیں ۔
منٹو نے ہمارے افسانے میں ایک ایسے تناظر کی تشکیل کا آغاز کیا جس میں عقل کے ساتھ ساتھ غیر عقلی عناصر بھی موجود تھے اور اس نے زندگی کو اس کی کلیت میں دیکھنے کی سعی کا ایک حصہ تھی اس لئے ہمیں منٹو کے ہاں موضوعات کو جو تنوع نظر آتا ہے وہ کسی اور افسانہ نگار میں نظر نہ آئے۔
ممتاز مفتی
ممتاز مفتی اردو ادب کی تار یخ میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے موضوع، مواد اور تکنیک ہر اعتبار سے اردو افسانے کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ اردو افسانے میں نفسیاتی مسائل خصوصا لاشعور اور تحت الشعور کی کیفیات کو اول اول ممتاز مفتی نے برتا ہے۔ ان کے بیشتر افسانے ایک اعتبار سے علامتی افسانے بھی کہے جا سکتے کہ ان کی ظاہری سطح معنوں سطح سے یکسر مختلف ہے۔
عزیز احمد نے تاریخ اور اساطیر کو افسانوی وقوعہ کے طور پر پیش کرنے کا تجربہ کیا۔ پاکستانی افسانے میں ان کا منفرد Contribution یہ ہے کہ انہوں نے اردو افسانے کو نئے اسالیب اور موضوعات سے متعارف کرایا۔
مرزا ادیب
مرزا ادیب کی افسانہ نگاری خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی جانب سفر کا نام ہے۔ انہوں نے ابتداء میں سجاد حیدر یلدرم خلقی دہلوی اور نیاز فتح پوری کے اسلوب سے متاثر ہو کر افسانے لکھے۔ انتظار حسین افسانہ نگاروں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے ۱۹۴۷ء کے لگ بھگ لکھنا شروع کیا۔ آزادی کے بعد شہرت پائی اور چند برسوں کے اندر افسانہ نگاری کی تاریخ میں ان مٹ نقش بنا لیا۔ عصری میلانات اور حال کے تقاضوں کا جیسا شعور انتظار حسین کو ہے۔ شاید ہی دوسروں کو ہوگا لیکن انتظار حسین ماضی سے میلانات اور حال کے تقاضوں کا جیسا شعور انتظار حسین کا ہے۔ شاید ہی دوسروں کو ہو گا لیکن انتظار حسین ماضی سے
رشتہ جوڑے بغیر اس شعور کا اظہار نہیں کر سکتے اس لئے انکے افسانوں میں ایک طرح کی اساطیری اور داستانوی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
اشفاق احمد
اشفاق احمد کے افسانوں میں صبا کے ہاتھ کی نرمی اور قوس قزح کے ساتوں رنگ موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ افسانے کی فضا کو رومانوی بنانے کے لئے صرف فطرتی مناظر کو پیش کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ وہ خواب ضرور دکھاتے ہیں مگر اس مشاق سے کہ زمین اور اردگرد کے ماحول سے رشتہ برقرار رہتا ہے۔
شوکت صدیقی کے افسانوں میں خارجی ماحول کی عکاسی اور موجودہ دور کے سماجی اقتصادی مسائل کی تصویرکشی ملتی ہے۔
ابراہیم جلیس
ابراہیم جلیس اردو کے ان چند منتخب افسانہ نگاروں میں سے ہیں جن کی تحریریں خاص اور عام دونوں طبقوں میں یکساں مقبول ہیں۔ انہوں نے زرد چہرے چالیس کروڑ بھکاری اور تکونا دیں جیسے مجموعوں میں زندگی کے تضادات کو غیر جذباتی انداز میں افسانے کا موضوع بنایا ہے۔
شفق کے سائے ،بندگلی ،نغمہ اور آگ میں شامل افسانوں کا موضوع اخلاقی اقدار کی پاسداری ہے ۔ غلام الثقلین نقوی کے یہ مجموعے محبت اور انس کے جذبات کو فروغ دینے کی قابل قدر کاوش ہیں۔ پاکستانی افسانوں ادب میں غلام عباس کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے کسی کی تقلید یا پیروی سے گریز کرتے ہوئے اپنی دنیا آپ تخلیق کی ہے ۔ وہ ادب میں مقصدیت کے قائل رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے صحافتی پروپیگنڈے اور تخلیقی ادب میں ہمیشہ امتیاز برتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں زبان و بیان یا فکر و خیال کی وہ سطحیت کسی دور میں بھی پیدا نہیں ہونے پائی جو تخلیق کو اپنے منصب سے نیچے لے آتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ تعداد اور مقدار میں ان کے افسانے کم ہونے کے باوجود معیار اور مقبولیت میں بہت اونچے مقام پر فائز ہیں۔
رحمان مذہب کے افسانوں کے تین مجموعوں امتل جان" "بالا خانہ اور رام پیاری" کا موضوع وہ عورت ہے جو طوائف بنائی گئی۔ لیکن انہوں نے اس موضوع کے ساتھ وہ سفا کا نہ سلوک نہیں کیا جو ہمارے اکثر افسانہ نگار کرتے ہیں۔ رحمان مذنب نے خوشبودار عورتوں کے افسانے لکھے اور انہیں افسانے کی جزئیات میں اس طرح شامل کیا کہ اس سے بقول انو رسد ید طوائفیت کی بدلتی ہوئی صورتوں کی تاریخ لکھی جاسکتی ہے۔
شفیق الرحمان
شفیق الرحمان کو ایک مزاح نگار کی حیثیت سے بہت شہرت حاصل ہوئی حالانکہ اگر ہم فنی لحاظ سے دیکھیں تو ان کی وہ تمام تحریریں جن میں مزاح کی چاشنی موجود ہے دراصل زبر دست افسانے ہیں۔ محمد حسن عسکری ایک مجتہد نقاد تھے۔ تاہم انہوں نے پاکستانی افسانے کو نئے تجربات سے روشناس کرایا۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے جزیرے" اور "قیامت ہمرکاب آئے نہ آئے میں شعور کی رو اور کرداروں کی تحلیل نفسی کا رویہ نمایاں ہے۔ منیر احمد شیخ نے اگر چہ بہت کم افسانے لکھے ہیں لیکن معیار کے اعتبار سے یہ افسانے اتنے گرانقدر ہیں کہ وہ اگر کچھ اور نہ بھی لکھتے تو بھی افسانہ نگاری کا جائزہ لیتے وقت کوئی سخت سے سخت نقاد بھی ان کے کام کو نظر انداز نہ کر سکتا۔ سیدانور کے افسانوں میں انسانی فطرت اپنی حقیقت کو " جیسی ہے اور جہاں ہے“ کے انداز میں بے نقاب کرتی ہے۔
مسعود مفتی نے سماجی حقیقوں کو ایک باریک بین فنکار کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ ان کے افسانوں’رگ سنگ" محدب شیشہ" اور "لمحے میں بیشتر ایسے کردار ابھرے جو اخلاقی ضابطوں کے باغی اور شیطانی
جذبوں کے غلام ہیں ۔ سید قاسم محمود ایک معروف ادیب اور محقق ہیں۔ چیونٹی کا قاتل ”دیوار پتھر کی“ اور ” قاسم کی مہندی" ایسے شاہکار اور یادگار افسانے ہیں جنہیں نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنا قطعا ممکن نہیں محمد خالد اختر ایک منفر د طنز نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے تو مقام حاصل کر رہی چکے ہیں لیکن ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کے فن کا وپری طرح سے اعتراف نہیں کیا گیا۔ کھویا ہوا افق ان کے مضامین اور افسانوں کا مجموعہ ہے اس میں انہوں نے افسانوی انداز میں زندگی کے ان پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے جن پر عموما ہماری نگاہ نہیں پڑتی۔
باہر کفن سے پاؤں" عرش صدیقی کا معروف افسانوی مجموعہ ہے ۔ ان افسانوں میں انسانی نفسیات کا تجز یہ فنی خوبیوں کے ساتھ موجود ہے۔انتظار حسین کے بعد محمد منشایاد رشید امجد احمد ہمیش انور سجاد احمد داؤد مرزا حامد بیگ اور مظہر الاسلام وغیرہ نے ما قابل کے ادوار کے افسانے سے انحراف کرتے ہوئے ایسا افسانہ تخلیق کیا جوئی فنی صورت گری کا نقیب بن گیا۔ ان افسانہ نگاروں نے افسانے کے بعض روایتی عناصر کو ترک کرتے ہوئے بعض نئے عناصر کو افسانے میں شامل کرنے پر اصرار کیا۔
۱۹۶۰ء کی دہائی کے بعد پاکستانی افسانے میں صرف ہیئت اور اسلوب کے لحاظ سے ہی نہیں موضوع کے لحاظ سے بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ہمارے علامتی اور تجریدی افسانہ نگاروں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان میں ایک افسانہ نگار یعنی احمد ہمیش خصوصی توجہ کا حقدار ہے۔ احمد ہمیش کے افسانوں کی تہ داری اسلوب کی ندرت استعاراتی اور اشاراتی معنویت بیت و تکنیک قاری کے فکر و احساس کو غذا فراہم کرتی ہے۔ ان کے شاہکار افسانے کھی“ سے لے کر کہانی مجھے لکھتی ہے" تک ان کا فنی رفعتوں کا سفر مسلسل ہے ۔ رشید امجد نے افسانے کے متعدد ابعاد کو وسیع پیمانے پر پاکستانی افسانے میں روشناس کرایا۔ احمد داؤد نے بلاشبہ اردو افسانے میں ایک نیا لحن تخلیق کیا ہے ان کا افسانہ گمشدہ مسافروں کی گاڑی“ انتہائی معیاری افسانہ ہے۔ مظہر الاسلام نے افسانے کو ایک نئی پہچان دی ہے۔ وہ ایک انوکھی Treatment کے افسانہ نگار ہیں۔ ان کا شمار یقینا علامتی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
جن افسانہ نگاروں کا تذکرہ گزشتہ سطور میں کیا گیا ہے ان کے علاوہ یہ افسانہ نگار بھی خصوصی مطالعے اور تجزیے کا موضوع بنتے ہیں ان کے افسانوں کا مطالعہ قاری کے سامنے فن کی ایک نئی کائنات لاتا ہے ان افسانہ
نگاروں میں ہم آغا سہیل احمد جاوید حیدر قریشی، اسد محمد کان، قیوم راہی، قیصر بابر غلام علی چوہدری اصغر ندیم سید محمود احمد قاضی سراج منیر حامد سروش مرزا اظہر ملک گلزار جاوید شعیب خالق حمید کا شمیری وزیریلی با بو نیم ستر ھی نویدا نجم ابدال بیلا یوسف چوہدری جمیل احمد عدیل، نصرت علی، جاوید اختر عبدالوحید اجمل اعجاز غازی صلاح الدین شاہد کامرانی ' صلاح الدین اکبر سعید انجم علی نوازشاہ علی اختر ، عاصم اختر، عاصم بٹ غافر شہزاد رانا غلام شبیر، شعیب خالق اور نوید احمد نوید وغیرہ کو شامل کر سکتے ہیں۔
آج اردو افسانے کا سفر ہر سمت میں جاری ہے اور مرد افسانہ نگاروں کے ہمراہ خواتین افسانہ نگار بھی صنف افسانہ کے دامن کو وسعت دیتی نظر آ ہی ہیں پاکستان میں اردو افسانہ کی نصف صدی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جن خواتین نے اپنی گراں قدر تخلیقات سے اس صنف کی ترویج و ترقی میں حصہ لیا وہ یہ ہیں۔
ابتدائی افسانہ نگاروں میں حجاب اسماعیل (حجاب امتیاز علی ) کا نام آتا ہے حجاب کے افسانوں میں عموما بیتی یادیں اور بھولے بسرے واقعات کہانی کی بنیاد بنتے ہیں۔ حجاب کی کہانیوں کے پلاٹ معاشرے کے بالائی طبقات سے متعلق ہیں انہی کی امنگیں اور خواب ہمیشہ حجاب کے پیش نظر رہے۔
ممتاز شیریں اردو ادب کی مایہ ناز خواتین میں سے ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا اور دونوں زبانوں میں بہت عمدگی سے لکھتی تھیں۔ تنقید اور تخلیق دونوں میدانوں میں انہوں نے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ افسانہ نگار مدیر مترجم اور نقاد ہر حیثیت میں ان کی ادبی تحریروں نے اردو کے باشعور قاری کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے کہ انہوں نے بہت کم مدت میں اردو ادب کو وہ کچھ دیا جو بعض بڑے ادیب عمر بھر بھی نہ دے سکے۔ ممتاز شیریں کے افسانے وسعت مطالعہ تخلیقی صلاحیت اور فطانت کے مظہر ہیں۔ اپنی نگریا" اور "میگھ مہار" ان کے افسانوں مجموعوں کے نام ہیں۔ نفسیات اور عمرانیات کی طالبہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کرداروں کی نفسیاتی الجھنیں اور معاشرے سے متصادم صورت حال کو بہت سلیقے سے بھاتی ہیں ۔ انسانی نفسیات کی پیچیدگی متوسط مسلمان گھرانوں کی تہذیب و معاشرت بیانیہ انداز میں پیش کرتی ہیں تاہم ان کے افسانے میگھا ملہار" اور "کفارہ میں علامتی انداز موجود ہے۔
الطاف واطمہ ایک بڑی ناول نگار اور افسانہ نگار خاتون ہیں ۔ ان کا اسلوب تحریر نسائیت سے بھر پور ہے۔ زبان با محاورہ ہے۔ بیانیہ انداز میں کہیں کہیں داستانوں رنگ بھی موجود ہے ۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں مڈل کلاس طبقے کی گھریلو زندگی کے گونا گوں مسائل پیش کئے ہیں۔
بلاشبہ با نو آبا کے افسانے مشاہدے اور تجربے کی بھٹی میں تپ کر کنندن بن کے نکلے ہیں۔ ان کے افسانے عورت کو حقائق سے فرار یا بغاوت کی طرف راغب نہیں کرتے، بلکہ وہ عورت کو اس کا مقام اور مرتبہ یاد دلانا چاہتی ہیں ۔ وہ مقام ومرتبہ جس کا تعین Male-Dominated معاشرہ کبھی نہیں کر سکا۔
خدیجہ مستور پاکستانی افسانے کا بہت ممتاز نام ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے تلخ حقائق فنکارانہ مہارت کے ساتھ سمٹ آئے ہیں۔ وہ کردار انگاری میں کمال کے درجے کو پہنچی ہوئی ہیں ۔ ہمارے ارد گرد پھیلی زندگی اس کے مسائل اس کے افسانوں کے موضوعات ہیں۔ ۱۹۴۵ ء کی جنگ کے بارے میں خدیجہ کا افسانہ ”ٹھنڈا میٹھا
پانی خاصے کی چیز ہے۔
رضیہ فصیح احمد کے زیادہ تر افسانوں کا موضوع نچلا متوسط طبقہ ہے۔ یہ طبقہ جو نہ غریب ہے اور نہ امیروں تک رسائی رکھتا ہے یہ سفید پوش طبقہ بہت تلخ زندگی گزار رہا ہے۔
جمیلہ ہاشمی ایک افسانہ نگار ایک ناول نگار ہیں مگر ان کے اندر ایک شاعرہ کی روح موجود ہے۔ ان کا اسلوب نگارش رومانوی ہے جس کی وجہ سے ان کی کہانیوں میں تخیل، حقیقت پر غالب دکھائی دیتا ہے۔ وہ چیزوں کو ایک مخصوص فاصلے سے دیکھتی ہیں، جس کی وجہ سے اسکے نقش ونگار میں دھندلاہٹ اور مدھم پن پیدا ہو جاتا ہے۔ جذباتی مسائل کی عکاسی کی ہے ۔ جمیلہ ہاشمی اپنے خلیقی سفر کے آغاز میں قراۃ العین حیدر سے بے حد متاثر تھیں لیکن بعد ازاں وہ ان کے اثر سے آزاد ہو گئیں۔ جمیلہ ہاشمی کے افسانوں کردار بے باک بھی ہیں اور نڈر بھی ۔ شدت پسندی ان کا خاص وصف ہے۔
نشاط فاطمہ کے افسانے عورت کے مزاج کی ہمہ جہتی کو موضوع بناتے ہیں انہوں نے اپنے افسانوں میں نسائی کرداروں کی بہت کامیابی سے مرقع کشی کی ہے۔
ہاجرہ مسرور کے افسانے گھریلو زندگی کے مسائل کو پیش کرتے ہیں۔ ان کی زبان صاف شائستہ انداز بیان سادہ اور موثر ہے۔ وہ روزمرہ کے محاورے بہت خوبصورتی سے اپنی نگارشات میں شامل کرتی جاتی ہیں۔
فرخندہ لودھی کے افسانوں میں زبان و مکاں کا شعور مکمل طور پر رچا بسا نظر آتا ہے۔ زندگی کے تضادات سے جنم لینے والی صورت حال ان کے افسانوں کا خاص موضوع ہے۔ پاریتی‘ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے حوالے سے بہت عمدہ افسانہ ہے۔
نثار عزیز بٹ کی تحریروں میں فکروفن کی گہرائی و گیرائی وسعت و تنوع اور جذبوں کا رچاؤ موجود ہے۔ خالدہ حسین کا شمار ۶ء کی دہائی کے بعد نمودار ہونے والے افسانہ نگاروں کی نسل میں ہوتا ہے اس عرصے میں افسانہ جدید رجحانات سے روشناس ہوا اور ایک نیا افسانوی اسلوب تراشا گیا۔
عذرا اصغر کا شمار روایتی کہانی کاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے سیدھے سادے براہ راست قابل فہم اور بیان یہ اسلوب میں بہت اچھے افسانے تخلیق کئے ہیں۔ معاشرے کے سفید پوش طبقے کے مسائل، رشتوں کا بنا اور ٹوٹنا عورت کی مظلومیت اور فرد کی روح کے زخم ان کے افسانوں کے تارو پود بنتے ہیں۔ پتھر کی نسل اور جھوٹی کہانیاں کی تخلیق کا رسیدہ حنا کے ہر افسانے میں عرفان و آگہی کے چراغ جلتےدکھائی دیتے ہیں ۔ خالدہ شمع کے افسانے Generation Gap سے جنم لینے والے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ وہ خوابوں اور حقیقوں کی افسانہ نگار ہیں۔
0 Comments