علامہ محمد اقبال کی شاعری کی ایران میں مقبولیت

علامہ محمد اقبال کی شاعری کی ایران میں مقبولیت

  علامہ محمد اقبال کی شاعری کی ایران میں مقبولیت

علامہ اقبال نے وسیع تر قومی مفاد کی خاطر اور اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے فارسی کو ذریعہ اظہار بنایا۔ چنانچہ 1915 ء میں مثنوی اسرار خودی کی اشاعت سے لے کر 1938ء میں اپنے انتقال تک انہوں نے تواتر سے فارسی میں لکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اشتراک زبان کی بنا پر علامہ اقبال بر صغیر کے ساتھ ساتھ ایران میں بھی مقبولیت حاصل کر گئے اور اتنی کہ آج ایران میں بھی پاکستان کی مانند 9 نومبر اور 21 اپر ایل کو یوم اقبال منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر وہاں کے اخبارات اور علمی جرائد علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر با قاعدہ خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ 

علامہ اقبال کی ایران میں مقبولیت کا انداز و اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تہران کے مشہور علمی مرکز حسینیه ارشاد سے وابستہ مسجد کی چھت پر علامہ اقبال کے اشعار لکھے گئے ہیں۔ ایران کے مشہور انتقالی دانشور ( جسے شاہ ایران کے خلاف مزاحمت کے جرم میں شہید کر دیا گیا تھا) ڈاکٹر علی شریعتی نے علامہ اقبال کے حیات بخش پیغام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں " غزالی ثانی" کا خطاب دیا تھا۔

ایران میں اقبال شناسی

ایران میں اقبال شناسی کی روایات خاصی قدیم ہے۔ چنانچہ علامہ کا فاری کلیات شائع کرنے کا اعزاز ایرانیوں ہی کو حاصل ہوا۔ ان کے اردو کلام کو بھی فاری کا جامہ پہنایا جا چکا ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت اور فلسفہ پر متعدد ایرانی اہل قلم نے مفصل کتا میں قلم بند کی ہیں اور مقالات کا تو شمار ہی ممکن نہیں۔

اگر ایران میں اقبال شناسی کی روایات کا اس کے تاریخی تسلسل میں مطالعہ کیا جائے تو اولیت ایک ایرانی استاد سید محمد علی داعی الاسلام کو حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ جامعہ عثمانیہ (دکن) میں شعبہ فارسی کے صدر تھے ۔ انہوں نے امیرانی اہل قلم پر تقریر کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری پر بھی ایک لیکچر دیا جسے بعد میں اقبال و شعر فاری" کے نام سے حیدر آبادو کن سے 1928ء میں طبع کیا گیا۔ چنانچہ 46 صفحات پر مشتمل یہ پمفلٹ ایران میں اقبال شناسی کی بنیاد قرار پاتا ہے۔ 1943ء میں ایران اور ہندوستان کے ادبی اور ثقافتی روابط کے فروغ کے لیے ایک انجمن قائم کی گئی۔ اس انجمن نے 1944ء میں پہلا یوم اقبال منایا۔ اگلے برس سید محمد محیط طباطبائی نے اپنے علمی مجلہ " محید کا اقبال نمبر شائع کیا اور یوں ایران میں اقبال شناسی کی روایات کی بنیاد پائیدار ہوگئی ۔

علامہ اقبال کو ایران میں مقبول بنانے میں اگر چہ کئی شعرا، دانشوروں نقادوں اور اہل قلم کا ہاتھ ہے لیکن اس ضمن میں سیدمحمدمحیط طباطبائی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے علامہ کی شخصیت اور پیغام کے فروغ کے لیے اپنی بہترین ذہنی صلاحتیں وقف کیں۔ یہی نہیں بلکہ علامہ اقبال پر پہلا مبسوط مقالہ بھی انہی کا تحریر کردہ ہے۔ اس کا عنوان ہے ترجمان حقیقت، شاعر فارسی محمد اقبال ۔ یہ مقالہ تہران کے علمی مجلہ " ارمغان " ( بابت مئی 1988ء) میں طبع ہوا تھا۔ گو یا علامہ اقبال کے انتقال کے ایک ماہ بعد یہ مقالہ لکھا گیا۔ یہ مقالہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا اور جلدی اہل دانش کو علامہ کی شاعری کے فکری محاسن کا احساس ہو گیا۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک علامہ اقبال کے ایرانی مدائین کا حلقہ وسعت پذیرای نظر آتا ہے۔

جن اہل قلم نے بطور اقبال شناسی خصوصی نام پیدا کیا ہے ان میں سے یہ حضرات زیادہ معروف ہیں، ملک اشعر ابہار، ڈاکٹر غلام حسین یونی مجتبی مینوی ، ڈاکٹر احد علی رجائی ، ڈاکٹر ضیا الدین سجادی، ڈاکٹر عبدالحسین زرین کوب ، ڈاکٹرعلی شریعتی ، ڈاکٹر حسین خطبیعی ، ڈاکٹر جلال معینی ، ڈاکٹر ناظرزاده کرمانی ،ڈاکٹرمحمد تقی مقتدری سید غلام رضا سعیدی، بدیع الزمان فروزانفر اور احمد احمدی میر جندی ۔ یہ محض چند نام نہیں جبکہ ایران میں اقبال شناسی کی روایات میں منفر وزاویوں کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ منظوم صورت میں علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے والے شعرا کا تو بلا شباب شار ممکن نہیں کہ بیشتر ایرانی شعرا نے کسی نہ کسی انداز میں علامہ اقبال کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔

 ایران میں علامہ اقبال پر کیے گئے کام کی فطری قدر و قیمت متعین کرنے میں ڈاکٹر احمد علی رجائی کی اس رائے سے اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی :

" میرے خیال میں اقبال ایک نو دریافت براعظم کی مانند ہیں جس میں کتنی ہی دلاویز اور قابل غور چیزیں ہنوز بحث طلب ہیں ۔ علامہ اقبال کے کلام کا مطالعہ کرتے پر دو امور بطور خاص اجاگر ہوتے ہیں۔ ایک تو ایران اور اہل ایران سے علامہ کی گہری محبت اور دوسرے زبان و اظہار کے بارے میں بجز کا اظہار! زبور نجم میں علامہ اقبال نے ایک غزل میں ایران کی نوجوان نسل سے جس صحت کا اظہار کیا وہ ایک ایک شعر سے عیاں ہے۔ شاید اس لیے یہ اب حوالے کی چیز بن چکی ہے۔ اس معروف غزل کے چند اشعار پیش ہیں:

چون چراغ لاله سوزم در خیابان شما

 ای جوانان عجم ! جان من و جان شما 

 غوطہ ہا زد در ضمیر زندگی اندیشه ام 

 تا بدست آورده ام افکار پنہان شما

  مہرومہ دیدم نگاهم برتراز پروین گذشت

   ریختم طرح حرم در کافرستان شما 

   تا سنانش تیز تر گرده فرو پیچید مش 

   شعله ای آشفته بود اندر بیابان شما

فکر رنگینم کند نذر تہی دستان شرق

پارہ لعلی که دارم از بد خشان شما

 حلقه گردمن زنیند ای پیکران آب و گل

آتشی در سینہ وارم از نیا گان شما


غزل کا ترجمہ پیش ہے

اے عجم (ایران) کے نو جوانو! مجھے اپنی اور تمہاری جان کی قسم میں تمہاری پھلواری میں چراغ لالہ کی طرح جل رہا ہوں۔ میری فکر نے سمیر زندگی میں کئی غوطے لگائے جب کہیں تمہارے انکار پنہاں میرے ہاتھ لگے۔ میں نے مہر و ماہ کو دیکھا، میری نظریں پروین سے بھی آگے گزر گئیں ہیں۔ میں نے (اپنی اس اسلامی فکر کے سبب ) تمہارے کافرستان میں حرم کی بنیاد رکھ دی ہے۔

میں نے اس شعلے کو جو تمہارے بیابان میں منتشر حالت میں تھا مجتمع کر دیا تا کہ اس کی لو تیز تر ہو جائے۔ میری فکر نمین اس عمل کے ٹکڑے کو جو مجھے تمہارے بدخشاں سے حاصل ہوا ہمشرق کے تہی دستوں کی نذر کر رہی ہے۔ اے آب وگل کے پیکر و امیرے گرد حلقہ باندھ لو، میرے سینے میں تمہارے اسلاف کی آگ روشن میں۔

اس ضمن میں مزید اشعار ملاحظہ ہوں

تنم گلی زخیابان جنت کشمیر

 دل از جریم حجاز و نوا زِشر از است

  ( میرا جسم جنت کشمیر کے چمن کا ایک پھول ہے جب کہ میرا دل حجاز سے وابستہ اور میرے نو ا کا تعلق شیراز سے ہے)  

مرا بنگر که در هندوستان دیگر نمی بینی 

برہمن زاده رمز آشنای روم و تبریز است

 (یعنی مجھے دیکھو کہ ہندوستان میں نہیں مجھ ایسا کوئی دوسرا نظر نہیں آئے گا کہ ہوں تو برہمن زادہ لیکن روم و تبریز کی رمز سے بھی آگاہ ہوں روم و تبریز سے مراد رومی اور ان کے مرشد شمس تبریز کی طرف اشارہ ہے۔)

ٰعجم از نغمه ام آتش بجان است

 صدای من درائے کاروان است 

 حدی را تیز تر خوانم جو عرفی ! 

 که ره خوابیده و محمل گران است

(میرے نغموں نے عجم کی روح میں ایک آگ بھر دی ہے۔ میری صدا کاروان کے لیے جرس ہے ۔ میرے عرفی کی طرح حدی تیز تر گارہا ہوں کیوں کہ مسافر خوابیدہ اور شمل بوجھل ہے )

اس گہری محبت کے نتیجے میں جب علامہ اقبال نے فارسی میں شاعری شروع کی تو ہر زبان دان کی مانند انہیں اہل زبان کے مقابلہ میں احساس کمتری تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میرا " سبک اسلوب" کچھ اور ہے جبکہ جدید فارسی کا آہنگ کچھ اور ہے ۔ " اسرار خودی"

کی تمہید میں انہوں نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کافی عرصے تک صرف زبان و اسلوب کی بنا پر ہی ایرانیوں نے علامہ اقبال کے کلام کی طرف خصوصی توجہ نہ دی۔ وہ توجہ جو ان کا حق بنتی تھی، بعد میں علامہ اقبال کی کتابوں کا نصیب بنی۔ اس ضمن میں ایک بنیادی وجہ تو بر صغیر کے فارسی گو شعرا کے بارے میں خود اہل ایران کا معروف رویہ ہے جس کی طرف وقتا فوقتا ناقدین نے اشارات بھی کیے ہیں یعنی وہ یہاں کے شعرا کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ایران میں مختلف شعری و بستانوں یا اسالیب کے لیے "سبک" کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ چنانچہ شاعری کے تین ادوار یا " سبک یہ ہیں ۔ سبک خراسانی، سبک عراقی اور سبک ہندی۔ برصغیر میں سبک ہندی اس وقت بھی جاری رہا جب کہ ایران میں اس کے خلاف رد عمل شروع ہو چکا تھا جسے " بازگشت ادبی" کہتے ہیں۔ اسی لیے اہل ایران نے یہاں کی فارسی میں فارسی گوئی کو کبھی بھی درخوامتنا نہ جانا۔ علامہ اقبال کو ان دونوں امور کا احساس تھا ، اس لیے انہوں نے خود کو متروک " سبک ہندی کی لسانی روایت سے الگ رکھ کر اپنے لیے ایک نیا شعری اسلوب منتخب کیا۔ اس لیے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ : 

حسن انداز بیان از من مجو

 خوانسار و اصفهان از من مجمو

  (مجھ سے شاعرانہ حسن بیان کی توقع مت رکھو اور نہ خوانسار اور اصفہان کے اسلوب کی )

تو در اصل روایتی شاعرانہ کسر نفسی سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے کسانی موقف کی وضاحت کرتے ہیں اور وہ موقف یہ ہے۔

طرز گفتار دری شیرین تر است

 علامہ اقبال ایران کے کلاسیکی شعرا اور بالخصوص رومی سے بے حد متاثر تھے ۔ چنانچہ انہوں نے ان کے اشعار کے تضمین اور بعض تراکیب کے استعمال سے ان کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا اور ایسے اشعار میں بھی کھل کر ان کی توصیف کی


مطرب غزلے بیتے از مر شد روم آور

 تا غوطہ زند جانم در آتش تبریزی

 بہ ملک جم ندہم مصرع نظیری را

  " کسے کہ کشته نشداز قبیله مانیست" 

  عطا کن شور رومی سوز خسرو

عطا کن صدق و اخلاص سنائی 

 گہے شعر عراقی را بخوانم 

گہے جامی زند آتش بجانم 


ترجمہ : اے مطرب مرشد روم (مولا ناروی ) کی کوئی غزل یا شعر سنا تا کہ میری روح آتش تبریزی ( شمس تبریز) میں غوطہ زن ہو۔ میں نظیری کے اس مصرع کو جمشید کی سلطنت کے عوض بھی دینے کو تیار نہیں ہوں کہ : جو کوئی مارا نہیں گیاوہ ہمارے ( یعنی عشاق کے ) باوفا قبیلے سے نہیں ہے۔

مجھے رومی کا سایجان و اضطراب، خسرو کا سا سوز اور سنائی کا ساصدق و اخلاص عطا فرما۔ کبھی میں عراقی کے اشعار پڑھتا ہوں تو کبھی جامی کی شاعری میری روح کو تڑپاتی ہے ) علامہ اقبال کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے جبلی طور پر ہی ۔ محسوس کر لیا تھا کہ معاصر ایرانی شعرا کے لہجے کی صرف نقل اتار کر وہ اپنے لیے کوئی انفرادی مقام پیدا کرنے میں ناکام رہیں گے ۔ لہذا انہوں نے فارسی کے کلاسیکی شعرا اور بالخصوص رومی کے شعری آہنگ کو اپنایا لیکن اس میں بھی چہ بہ سازی نہ کی بلکہ اپنے اسانی شعور اور شعریت سے جنم لینے والی آگہی کو راہنما بنا کر صرف اپنے انداز میں شاعری کی ۔ اس میں اگر چہ جدید فارسی کا آہنگ شامل نہ تھا لیکن اقبال نے اپنے لہجے کی شیرینی اور حلاوت سے فارسی کے تخلیقی امکانات میں بے حد اضافہ کر دیا۔ 

ابتدا میں تو اہل زبان کو یہ انداز بمن قدرے نامانوس لگا اور اسی لیے شروع شروع میں ایرانی دانشوروں نے اقبال کی شعری عظمت کے اعتراف میں کافی زیادہ ہچکچاہٹ کا ثبوت دیا لیکن ایک مرتبہ ووشن اقبال سے مانوس ہو گئے تو پھر اسکے ایسے شیدائی ہوئے اور اس کی انفرادیت سے ایسے محور ہوئے کہ اقبال کو اپنے کسی "سبک" کے تحت لانے کے برعکس انہوں نے اقبال کے اسلوب کی یکتا شیرینی اور منفرد لے کے لیے ” سبک اقبال کی اصطلاح وضع کر ڈالی ۔ چنانچہ ڈاکٹر حسین نعیمی نے " روی عصر مصنف ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید عرفانی کے مقدمہ میں لکھا: اگر خواسته باشم سبک اشعار علامه حد اقبال لاهوری را در چند کلمات خلاصه کنم میگویم این شاعر سیکے مخصوص بخود داشت که شاید مناسب باشد آنرا بنام سبک اقبال میخوانم اگر میں علامہ محمد اقبال کے طرز شاعری کو چند الفاظ میں بیان کرنا چاہتا ہوں تو یہ کہوں گا کہ اس شاعر کا اپنا خاص انداز تھا ہے مناسب الفاظ میں طر ز ا قبال“ کا نام دیتا ہوں اقبال کے ایک اور ناقد داد شیرازی نے بھی اسی خیال کا اظہار کرتے ہوئے ایران میں مطبوعہ " کلمات اقبال کے مقدمہ میں لکھا ہے:

اقبال سبک و مکتب جدیدی دو شعر فاری تاسیس کرده که تقابا ید سبک اور اسبک اقبال نامید وقرن او بیمار را باید بنام ای استریا ساخت اقبال نے قاری شاعری میں ایک نئے طرز و دبستان کی بنیاد ڈالی جسے صحیح معنوں میں دبستان اقبال کا نام دیا جان اور موجودا ادبی صدی کو اس کے نام نامی سے موسوم کرنا چاہیے )

اقبال کے ایک اور مداح ڈاکٹر احمد علی رجائی نے بحیثیت مجموعی علامہ کی زبان اور اسلوب کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ اس قابل ہیں کہ انہیں یہاں پیش کیا جائے۔ وہ اپنے ایک مقالہ اقبال کا ایک شعر میں رقم طراز ہیں: اقبال کے فارسی کلام میں الفاظ تراکیب اور سبک کے اعتبارت کوئی مشکل اور ابہام نظر نہیں آتا ۔ میں یہ بات بلا خوف تردید کیوں گا کہ اقبال کا ایک کمال ان کی سادہ کوئی بھی ہے اور بڑی دل آدیزی کے ساتھ وہ فلسفے کے دقیق مسائل بیان کر جاتے ہیں ۔ سادگی کا ایک اثر یہ ہے کہ بسا اوقات قاری ان کے نکات پر غور کے بغیر گزر جاتا ہے۔ 

اقبال کی یہ سادگی ان کے مرشد معنوی مولانا جلال الدین رومی اور ایک حد تک خواجہ شیرازی کے سبک سے مشابہ ہے۔ رومی اور لسان الغیب حافظ نے قرآن مجید کی آیات اور احدیث نبوی کے اسناد سے تصوف و عرفان کے بلند پایہ مسائل بیان فرمائے اور اقبال نے ان موضوعات کے علاوہ فلسفیانہ اور سیاسی انکار کو بھی اس سادگی سے منظوم کر ڈالا ۔ وہ شاعری کی قوت سے ناقہ بے مہار کو قطار کی طرف کھینچ رہے تھے۔ ان کی باتیں ایسی تھیں جنہیں پر ملا نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس لیے ہم نفسان خام کو سرگرم عمل رکھنے اور دھیرے دھیرے انہیں اپنے مقاصد سے آگاہ کرنے کی خاطر انہوں نے کنائے کی زبان اختیار کی ہے کہ :

سوز و گداز حالتی است ، باده زمن طلب کُنی 

پیش تو گربیان کنم ، مستی این مقام را

 نغمہ کجا و من کجا ؟ ساز سخن بہانہ ایست

  سومی قطاری کشم ناقہ بی زمام را

   وقت برہنه گفتن است من به کنایه گفته ام

    خود تو بگو کجا برم ، ہم نفسان خام را؟     

ترجمہ : عشق کے سوز و گداز کی کیفیت ایسی ہے کہ اگر میں اس کی تفصیل تیرے سامنے بیان کروں تو تُو بھی مجھ سے شراب طلب کرنے لگے گا۔

بھلا کہاں شاعری اور کہاں میں : شاعری تو بس ایک بہانہ ہے ۔ میں اس کے ذریعے سے بے مہار اونٹی کو قطار کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ وضاحت سے بات کہہ دی جائے لیکن میں نے اشارے اور کنائے میں بات کی ہے۔ خدا یا تُو ہی بتا کہ میں اپنے نا ناپختہ ساتھیوں کو کہاں لے جاؤں؟



Post a Comment

0 Comments