اہم دکنی شعراء، نظامی،خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ،شاہ میراں جی،فیروز


اہم دکنی شعراء، نظامی،خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ،شاہ میراں جی،فیروز

 اہم دکنی شعراء، نظامی،خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ،شاہ میراں جی،فیروز

 نظامی 

اصل نام فخر الدین تھا۔ ان کی معروف مثنوی کدم راؤ پدم راؤ ہے۔ مثنوی نظامی اس وقت لکھی گئی جب شمال کی زبان کو دکنی پہنچے سوا صدی سے زیادہ کا زمانہ بیت چکا تھا ۔۔۔۔ جب مثنوی نظام لکھی گئی تو دکنی زبان اظہار و بیان میں جگر کی منزلوں سے گزر کر اپنی قدرت کا مظاہرہ کرنے گئی تھی ۔ نظامی کی مثنوی کے روپ میں دکنی زبان کا یہ پہلا شاہکار ہے۔

کدم راؤ پدم راؤ اردوئے قدیم کی پہلی دریافت شدہ تصنیف ہے۔ اس تصنیف کا تذکر ہ ۱۹۳۲ء میں ہوا جب نصیر الدین ہاشمی نے پہلی بار اس کا تعارف اردو دنیا سے کرایا۔ در حقیقت یہ انکشاف چونکا دینے والا تھا مگر یہ مثنوی طویل عرصے تک ایک مسئلہ بنی رہی۔ بالآخر اردو کے نامور حقق اور نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی نے اسے مرتب کرنے کی ذمہ داری قبول کی اور محنت شاقہ کے بعد یہ لسانی چیستان حمل ہو کر ۱۹۳۷ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کی طرف سے منظر عام پر آیا۔

آج "مثنوی نظامی دکنی اپنے عہد کی تنبا یادگار کے طور پر اردو دنیا میں موجود ہے۔ یہ یاد گار اس بات کی

شاہد ہے کہ نظامی کے عہد میں اور اس سے پہلے بھی قدیم اردو میں ابتدائی لسانی تجربات ضرور ہوئے ہوں گے ۔ کیونکہ مثنوی نظامی جیسی تصنیف کسی ادبی یا لسانی خلاء سے جنم نہیں لے سکتی ہے۔ اس کے لئے مناسب ماحول سازگار فضا حقیقی محرکات اور ایک ابتدائی روایت ضروری تھی۔

مثنوی کا بنیادی اسلوب منکرتی اور پراکرتی ہے۔ یہی اسلوب اول سے آخر تک مسلسل غالب رہتا ہے۔ نظامی منسکرت کے اسالیب سے بہت مانوس تھا۔ اس کی مثنوی بذات خود اس بات کی شہادت ہے۔ نظامی کے دور میں جوز بان رائج تھی اس میں سنسکرت کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کی آمیزش اور عربی قاری کے ملاپ سے ایک امتزاجی کیفیت پیدا ہورہی تھی ۔ جب کہ نظامی اسلوب یک سانی لغت سے مغلوب ہے۔ مثنوی نظامی کے اسلوب کو اس دور کے رائج الوقت اسلوب سے تعبیر کرنا مشکل ہے۔ یہ اس کے انفرادی شعری ذوق کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ 

نظام کا شعری اسلوب اوضرور ہے مگر اس میں آہنگ کی روانی بھی موجود ہے۔ اس نے جو بر منتخب کی ہے اس میں آوازوں کا روپ بھلا لگتا ہے۔ مثنوی کے وہ مقامات جو قدرے آسانی سے پڑھے جاسکتے ہیں اپنی آوازوں کے زیر و ہم سے متاثر کرنے والے ہیں۔ نظامی استاد شاعر ہے اور وہ ترکیبوں کی شاخت سے ایک ایسا شعری لہن بنانے میں قدرت رکھتا ہے جسے اس کے عہد کے لحن سے تعبیر کر سکتے ہیں اور کسی بھی شاعر کو بڑائی کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ وہ اپنے عہد کا شعری لحن دریافت کرنے اور اسے ایک تخلیقی شکل وصورت میں ڈھالنے پر قادر تھا۔

کدم راؤ پدم راؤ کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خلجی اور تعلق عہد میں شمال کی طرف سے جو نقل لسان ہوئی تھی، اس نے دکن میں جڑ پکڑ لی تھی اور بہمنی دور میں اس پودے پر برگ و بار آ گئے تھے اور مثنوی نظامی نقل لسانی کے ابتدائی ثمرات میں سے ایک ثمر ہے۔ سنسکرت و پراکرتوں کے ساتھ ساتھ اس پر پنجابی اور سرائیکی لغات کا بھی اثر ہے اور عمل پنجاب سے دلی اور دلی سے دکن تک زبان کے لسانی سفر کی کہانی کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کی شہادت قدیم اردو کی اولین تصنیف سے مل جاتی ہے۔

 خواجہ بندہ نواز گیسو دراز  

(م ۱۴۲۲ء ۱۳۹۸ ء) میں دلی میں تیموری حملے کی وجہ سے حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے دکن کی طرف ہجرت کی۔ دکن کی طرف سفر کرتے ہوئے وہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کو رشد و ہدایت کا درس دیتے ہوئے گلبرگہ پہنچے جہاں بہمنی سلطان فیروز شاہ اپنے شاہی لشکر کے ساتھ ان کا استقبال کرنے کے لیے شہر سے باہر موجود تھا۔ اس نے حضرت گیسو دراز اور ان کے خاندان کی بہت قدرو منزلت کی اور وہ انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ گلبرگہ میں قیام پذیر ہوئے۔ 

گلبرگہ ہی میں بائیس برس کے قیام کے بعد ذیقعدہ ۱٫۸۲۵ اکتو بر ۱۴۲ ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ بطور ایک عالی مرتبت صوفی کے حضرت خواجہ گیسو دراز کونہ صرف پہلی دور میں بلکہ دن کی تاریخ کے تمام ادوار میں ایک داستانی (Legendry) حیثیت حاصل رہی ہے۔

حضرت خواجہ گیسو دراز جب دلی سے گلبرگہ پہنچے تو وفاری کے ساتھ ساتھ زبان رہادی بھی بول رہے تھے اور اس بات پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسی زبان وبلوی میں طالبات حق کو درس دیتے تھے چونکہ وہ ایک روایتی شخصیت تھے اس لئے ان کے نام کے ساتھ کئی ایسی کتا ہیں منسوب ہوگئی ہیں جو قدیم اردو میں ہیں ۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اول اول مولوی عبدالحق نے دکنی ادب کی اشاعت شروع کی ۔ مولوی صاحب خود بھی اس دور میں متذبذب تھے کہ جو کتا ہیں گیسو دراز سے منسوب ہیں وہ ان کی ہیں بھی یا نہیں؟ 

علاوہ اس رسالے کے (معراج العاشقین ) میرے پاس آپ کے متعدد اور رسالے ان زبان میں ہیں۔ تلاوت الوجود دور الاسرار شکار نامه تمثیل نامه بیت مسائل وغیرہ ۔ اگرریخ زبان ان کی قدیم ہے لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انہی کی تصنیف ہیں یا ان سے منسوب ہیں ۔ 

اپنے اس بیان کے ایک طویل عرصے کے بعد مولوی عبدالحق نے عمر کے آخری حصے میں ۱۹۶۲ء میں اپنے

ایک مضمون میں معراج العاشقین اور دیگر رسائل کے بارے میں اپنی تحقیق اور تجربہ سے بالآخر جو نتیجہ اخذ کیا وہ گیسو دراز سے منسوب کتابوں کی تردید کرتا ہے۔

اُردو دنیا میں حضرت گیسو دراز کی اصل شہرت کا سبب ان سے منسوب "معراج العاشقین تھی جسے اردو کی پہلی نثری تصنیف ہونے کا شرف حاصل رہا ہے مگر ۱۹۶۸ء میں ڈاکٹر حفیظ قتیل نے یہ انکشاف کیا کہ " معراج العاشقین" گیسودراز کی تصنیف نہیں بلکہ یہ تلاوت الوجود کی تلخیص ہے جس کے مصنف مخدوم شاہ حسینی تھے جن کا زمانہ گیارہویں ہجری کا ہے۔ گیسو دراز اور حسینی کے درمیان کم و بیش تین سو برس کا زمانی فاصلہ حائل ہے اور اس زمانی فاصلے کے اثرات معراج العاشقین' کی زبان پر آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔

ان تمام حقائق کے باوجود گیسو دراز کی افسانوی شخصیت کے باعث جو تصانیف ان سے منسوب کی جاتی ہیں، ان کے پیچھے حقیقت کا ایک اور پہلو بھی موجود ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کسی بزرگ شخصیت سے تصانیف منسوب کئے جانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے دور میں اس نوعیت کا کام ضرور کیا ہوگا اور بیممکن ہے کہ ان میں سے بیشتر کام مرد ر ایام کے ہاتھوں تلف ہو گیا ہو۔ گیسو دراز کا زمانہ تاریخ کے دھندلکوں میں اتر چکا ہے ۔ جب تک قدیم اردو کی تاریخ کے اندھیرے گوشوں کو روشن نہیں کیا جاتا ان کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنا مشکل ہے۔

  شاہ میراں جی شمس العشاق

تاریخ ادب کے منظر نامہ پر اب ہم جس بزرگ ہستی کو دیکھتے ہیں اس نے قدیم اردو کو گھر بھا کا کا نام دیا تھا۔ گھر بھا کا کہنے والی یہ ہستی شاہ میراں جی نمس العشاق کی ہے جو صوفیا کے حلقوں میں تو مشہور ہیں مگر اردو زبان و ادب کی تاریخ میں آج وہ اسی گھر بھا کا" کی بدولت زندہ ہیں۔ ان کے صوفیانہ ادب کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔

 ان کی عمر چونتیس پینتیس برس کی تھی جب وہ مدینہ منورہ میں مقیم تھے ۔ یہیں روضہ رسول پر حاضری کے دوران ایک باران کو حکم نامہ ملا کہ اب تم ہندوستان کا رخ کرو۔ عرض کیا کہ ہندوستان کی زبانوں سے نا آشنا ہوں ۔ حکم ہوا کہ تم جاؤ زبانیں خود بخود آ جائیں گی۔ 

 تم ہندوستان پہنچ کر شاہ کمال الدین بیابانی کی خدمت میں حاضری وڈ چنانچہ شاہ میراں جی ہندوستان پہنچ کر حضرت بیابان کے حضور حاضر ہوئے اور جلد ہی ہندوی زبان سیکھ گئے۔ پندرہویں صدی کا یہ وہ دور تھا جب دکن میں خواجہ گیسودراز اور دوسرے صوفیا کے مقابر اور خانقاہوں سے ہو حق کی صدا میں حسب معمول بلند ہو رہی تھیں اور قدیم اردو کے روپ میں قلب کو گداز کو دینے والی سماع کی محفلیس عوام و خواص کے دلوں کو گر بارہی تھیں۔ مگر سیاسی طور پر کنی تاریخ کا وہ دور شروع ہو چکا تھا جب ہمنی سلطنت عروج کا دور ختم کر کے زوال کی طرف جارہی تھی۔ اسی زمانے میں شمس العشاق دکن میں پہنچ کر اپنی صوفیانہ سرگرمیوں میں مصروف ہو چکے تھے۔

زبان کے اعتبار سے شمس العشاق عربی فارسی کی لسانی اور تہذیبی روایت کے صوفیا میں سے تھے ۔ جس دوار میں (۱۵۸۰ - ۱۵۵۸ء) وہ ہندوستان کی سرزمین میں پہنچے شمال اور دکن کے مراکز سلطنت میں علما و مشارکی صوفیان ادباء شعراء اور علمی مجالس و شعری محافل کی زبان فارسی تھی۔ ہندوستان میں داخل ہونے والے مسلمان اپنی تباہ کی علمی اور لسانی برتری کا احساس لئے ہوئے آتے تھے اور یہاں رابطہ کی زبان جسے مقامی لوگ ہندی یا ہندوی کہتے تھے غیر علمی و غیر ادبی زبان بھی جتی تھی تعلیم یافتہ طبقوں میں سے اگر کسی طبقے نے اسے کسی قاسمجھا تو وہ صوفیا کا بد تا اور صوفیا خود اس زبان کو معیاری نہ سمجھتے تھے۔ ان کے لیے بھی فارسی کے مقابلے میں یہ اونی یا اس سے بھی کم رتبہ کی زبان تھی مگر وہ ایک سطح پر اس زبان کی افادیت کے ضرور قائل تھے اور دو تھی عوام کے لیے رشد و ہدایت کی سطح۔

دکنی ادب کے اس ابتدائی دور میں زبان کا ایک منصب صوفیانہ تصورات کا اظہار قرار پایا تھا لہذا اس دور کی کاوشوں کو ہم صوفیانہ ادب سے تعبیر کریں گے۔ ان کی اصل قدر و قیمت اور اہمیت لسانی اور تاریخی ہے۔ لسانی طور پر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کسی خاص دور میں زبان اپنی نشو ونما کے کم میں کسی مقام پر کھڑی تھی ۔ اس کا لسانیاتی ڈھانچہ کس نوعیت کا تھا اس دور کی زبان اپنے پچھلے عہد سے کسی حد تک بدل چکی ہے اور تغیر و تبدل کا عمل اسے کس طرح تک لے آیا ہے ۔۔۔۔ اور تاریخی اعتبار سے ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ کسی خاص عہد کا صوفیانہ ادب کس نوعیت کی تعلیمات سے کام لے رہا ہے ان تعلیمات کے محرکات کیا ہیں اور یہ تعلیمات سماج کو کسی خاص سمت میں لے جانا چاہتی ہیں ۔

شمس العشاق کی شعری تصانیف میں شہادت الحقیقت خوش نامہ" "خوش نخز" اور "مغز مرغوب" شامل ہیں۔ چاروں کتا ہیں تصوف کے وہ مسائل بیان کرتی ہیں کہ جن کا تعلق مسلمان معاصرے سے ہمیشہ رہا ہے صوفیا کی دو تحریک جسے دکن میں حضرت گیسودراز کے دور میں عروج حاصل ہوا تھا، ٹس العشاق کے عہد میں بھی القلوب" میں طریقت حقیقت اسلوب حیات بنی ہوئی تھی۔ دکنی طرز احساس میں صوفیانہ تصورات بنیادی اساس کے طور پر کام کر رہے تھے اور معاشرہ ان تصورات کی دی ہوئی روشنی سے زندگی کے رستوں کو منور کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ شرح مرغوب تجریہ معشوق انا بقا اور سفر کی روحانی داستان ہے تو " خوش نامہ اور

خوش آفر میں روہے کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔ شمس العشاق نے دو ہے کہ صنف کا انتخاب کیوں کیا ؟ آئیے یہ

سوال ان کے عہد سے پوچھتے ہیں۔

 دوبا" اس عہد کی عوامی صنف تھا۔ یہ بھگتوں کا زمانہ تھا۔ پندرہویں صدی میں ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے بھگت اپنی روحانی دانش کو فروغ دینے میں مصروف تھے اور دوہا ان کی مقبول صنف تھا۔ معلوم ہوتا

ہے کہ شمس العشاق نے ان ہی اثرات کے تحت دو ہے کی صنف کو اختیار کیا ہوگا۔ میراں جی شمس العشاق کیلیے دو ہے میں دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دو ہے میں اخلاقیات کے ساتھ ساتھ سوز و گداز کی ایک کیفیت بھی ہوتی ہے اور یہی کیفیت صوفیانہ طرز احساس کی اخلاقیات میں بھی ملتی ہے۔ اس لئے یہ صنف ان کی افتاد طبع کے مطابق تھی چونکہ وہ مدینہ سے ہجرت کر کے آئے تھے اس لئے دو ہے کی مقامی بو باس بھی ان کو بھاتی ہوگی۔ دو ہے کہ صنف نے ان کے فن میں ایک پر سوز آہنگ پیدا کیا ہے۔ خوش نامہ" اور خوش نغز" میں جہاں جہاں اس آہنگ کی نمود ہوتی ہے قاری کے ذہن پر ایک سوز تاثر پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے اس صنف کے ذریعے تصوف کے مسائل و موضوعات کو عام ادمی تک پہنچانے کی کوشش کی ۔ چونکہ شمس العشاق نے دو ہے کی صنف اختیار کی تھی اس لحاظ سے دو ہا خالص ہندی اسلوب کا متقاضی تھا اور اس کی شعری لغت سے تاثر کی کیفیات گہری ہو سکتی تھیں۔ 

اس دور کی صوفیانہ شاعری میں ہندی اور سنسکرتی لغت کا پایا جانا نا مانوس نہیں تھا۔ یہ اس دور کا مانوس اسلوب تھا اور روایت کے عین مطابق تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی صوفیانہ شاعری میں اس قسم کا نسبتا ہلکا پھل کا اسلوب استعمال ہوتا رہا۔ قدیم اردو کے سلسلے میں دکن میں حضرت میراں جی شمس العشاق اور ان کے خاندان کے جانشینوں نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ میراں جی کے بعد شاہ برہان الدین جانم نے رشد و ہدایت کا منصب جاری رکھتے ہوئے ارشاد نامہ اور کلمتہ الحقائق جیسی صوفیانہ کتب تصنیف کیں اور پھر اسی خاندان میں حضرت امین الدین اعلیٰ نے بھی قدیم اردو میں تصنیف وتالیف کا کام تسلسل سے جاری رکھا۔ اس اعتبار سے شمس العشاق کا خاندان قدیم اردو کے صوفیا نہ ادب میں ایک نہایت ممتاز مقام اور مرتبہ کا حامل ہے۔

فیروز

بہمنی دور میں اردو ادب کی تاریخ کا سفر کرتے ہوئے ہم صوفیانہ ادب کے پہلو بہ پہلو خالص ادب کے نمونے بھی دیکھتے ہیں۔ اس تاریخی سفر میں اب ہم ایک ایسے شاعر کا تذکرہ کرتے ہیں جو بہمنی سلطنت کے زوال اور قطب شاہی سلطنت کے عروج کے دور میں کھڑا نظر آتا ہے۔ گولکنڈہ کے شعراء اسے استاد شاعر سمجھتے ہیں اور اس کی روایت پر چلنا نخر خیال کرتے ہیں۔ یہ فیروز بیدری تھا اس کے حالات بھی دیگر دکنی شعراء کی طرح تاریکی میں ہیں۔ اس کی تصنیف "پرت نامہ سے کچھ باتوں کا پتہ چلتا ہے اس نے اپنا نام "قطب الدین" بتایا ہے۔

تجھے ناؤں ہے قطب دین قادری

 تخلص سو فیروز ہے بیدری 

 فیروز کا روحانی سلسلہ مخدوم جی شیخ محمد ملتانی سے ملتا ہے۔ فیروز اس دور کی روایت کے مطابق صوفی مشرب انسان تھا۔ مخدوم جی شیخ محمدابراہیم کا مرید تھا۔ ان کا انتقال ۱۵۶۴ء ۹۷۳ھ میں ہوا تھا اور پرت نامہ" میں وہ زندہ نظر آتے ہیں الہذا یہ تصنیف اس سے قبل کی ہوتی چاہیے۔ "پرت نامہ" اپنے عہد کی ایک اہم لسانی دستاویز ہے۔ اس تصنیف کے اندر جھانک کر دیکھیں تو ہمنی دور کی ادبی و لسانی روایت کا بدلتا ہوا منظر ہمارے سامنے نظر آنے لگتا ہے۔ اس نظم کی اساعت کے بعد سے بہمنی دور کی نظم کو زیادہ بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ نظم اپنے لسانی وجود میں دکن کے لسانی مستقبل کا پیش خیمہ کہی جاسکتی ہے اور بالخصوص و بستان گولکنڈہ کی لسانی روایات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

فیروز کے دور تک بہمنی زمانہ میں زبان اپنے ڈھانچے کو بدلتے ہوئے جو روایت چھوڑ آئی تھی " پرت نامہ" کا لسانی پیکر اس بات کی شہادت ہے۔ فیروز کے ہاں لسانی بے بسی کا احساس نہیں ہے بلکہ مفاہیم و مطالب کو بیان کرنے میں اسے قدرت حاصل ہے۔ "پرت نامہ" پر سنسکرت کا غلبہ مسلط نہیں ہے۔ فارسی کی شعری لغت بھی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ فیروز کے اسالیب میں مقامی روایت کے ساتھ ساتھ فارسی شعری لغت بھی برابر اثر انداز ہو کر اس کے لب ولہجہ کو رواں بنانے میں کوشاں ملتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے ہاں نظامی جیسا سنسکرتی غلبہ نہیں ہے۔

 البتہ اس کے اسلوب میں مقامی اثرات کے اعتدال سے ایک ایسا لسانی رچاؤ پیدا ہو گیا کہ جو اسے ایک فطری بہاؤ کی سمت لیے جاتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے کہ جس نے فیروز کو ایک امتیازی مقام عطا کیا تھا۔ مثلا یہ اشعار دیکھیے :

پیا! جیو تھے توں ہمن پاس ہے

تو ہم جیو کے پھول کی پیاس ہے

 وہی پھول جس پھول کی باس توں

  وہی جیو جس جیو کے پاس توں

ایک لمبی مدت تک فیروز کے ادبی آثار میں سے صرف "پرت نامہ ہی دریافت ہوا تھا اور اس کے شعری مرتبہ کی پہچان بھی اسی نظم سے وابستہ ہو کر رہ گئی تھی مگر گزشتہ کچھ عرصے میں اس کی چند غزلیں بھی دریافت ہوئی ہیں اور اب فیروز بہمنی عہد کی غزل کی پہچان بھی بن گیا ہے۔ اگر چہ اس کا کلام مقدار میں بہت کم ہے مگر اس کلام سے بھی ہم اس کی شعری عظمت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس کی غزل میں ایسے محاسن موجود ہیں جو اسے دکنی غزل کے روایت ساز شعراء میں مقام دیتے ہیں ۔

Post a Comment

0 Comments