سیرت کا مفہوم,سیرت کی اہمیت،سیرت نگاری کا آغاز

سیرت کا مفہوم,سیرت کی اہمیت،سیرت نگاری کا آغاز

 سیرت کا مفہوم,سیرت کی اہمیت،سیرت نگاری کا آغاز

سیرت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے کئی معانی ہیں اور یہ لفظ طور طریقے اور چال چلن کے معنوں میں بھی آتا ہے شاید حالات زندگی کے مفہوم میں سیرت کا لفظ انہی معنوں کی وجہ سے عام ہوا ہے لیکن مسلمانوں کے ادب میں سیرت سے مراد عموماً حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حالات زندگی ہی ہیں ۔ حضور کی ذات سے بے پناہ عقیدت کی وجہ سے مسلمانوں نے آپ کی زندگی کے ایک ایک پہلو پر بہت کچھ لکھا ہے ان مختلف پہلوؤں پر لکھی جانے والی کتب کو مندرجہ ذیل قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے :

کتب شمائل 

 وہ کتابیں ہیں جن میں حضور کے اخلاق و عادات ، فضائل اور معمولات زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔ 

 کتب دلائل 

  ان کتب میں حضور کے منجزات اور روحانی کارناموں کی تفصیل دی گئی ہے۔

   کتب مغازی 

   ان کتابوں میں زیادہ تر ان جنگوں کی تفصیل ہے جن میں حضور نے خود شرکت فرمائی۔

سیرت میں شمائل ، دلائل اور مغازی سب کا بیان ہوتا ہے۔ مغازی اور سیرت کہیں کہیں ایک ہی مفہوم میں بھی آئے ہیں ۔

 سیرت کی اہمیت

سیرت پر اس قدر توجہ کیوں دی گئی ؟

مسلمانوں نے سیرت پاک پر جتنی توجہ دی ہے وہ دنیا کے لئے واقعی حیرت انگیز ہے بقول علامہ شبلی :

 اور مسلمانوں نے اپنے رسول کی زبان کا ایک ایک حرف اس کی حرکات و سکنات کی ایک ایک ادا اور اس کے حیلہ وجود کے ایک ایک خط و خال کا عکس لے لیا " ایک دوسری جگہ مولانا شبلی لکھتے ہیں : مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کے حالات و واقعات کا ایک ایک حرف اس استقصاء کے ساتھ محفوظ ر کھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلمبند نہیں ہو سکے اور نہ آئندہ توقع کی جاتی ہے" (استقصا پوری تحقیق کرنا)

 آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور عیسائی پروفیسر مارگولیتھ نے حضور کی سوانح عمری کا آغاز ان لفظوں سے کیا ہے ۔

حضرت محمدؐ کے سیرت نگاہوں کا سلسلہ طویل اور نہ ختم ہونے والا ہے لیکن اس میں جگہ پانا باعث شرف ہے" مندرجہ بالا اقوال سے سیرت النبی کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی اور غیر مسلموں کی دلچسپی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سیرت کا مطالعہ غیر مسلموں کے لئے شاید ایک علمی مشغلہ ہو لیکن یہ مطالعہ مسلمانوں کی تو ایک دینی ضرورت ہے ۔

 قرآن مجید میں حضور کے بارے میں یہ تلقین کی گئی ہے۔ لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنه اے ایمان والو! تمہارے لئے پیغمبر خدا کی ذات گرامی میں ایک اچھا نمونہ موجود ہے، لہذا مسلمانوں کے لئے کے لئے ضروری ٹھہرا کہ وہ اس بات کو دریافت کریں کہ رسول خدا نے وہ کونسا نمونہ پیش کیا ہے جس کو قرآن میں اسوہ حسنہ کہا گیا ہے اور اس بات کو جاننے کے لئے سیرت پاک کا مطالعہ ضروری ہو جاتا ہے۔

حضور کی زندگی میں آپ کا اسوہ ، صحابہ کے سامنے تھا اور صحابہ اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے رہے۔ صحابہ کو حضور کے حالات سے اتنی دلچسپی تھی کہ ایک صحابی دوسرے سے ملتے تو ان سے آنحضرت کے حالات دریافت کرتے دوسرے صحابی اس کے جواب میں کسی تازہ وحی یا آنحضرت کے کسی تازہ فرمان کا ذکر کرتے اور اس طرح یہ باتیں تمام صحابہ تک پہنچ جاتیں ۔ آپ کی وفات کے بعد یہی روایات سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں اورمسلمانوں کو نور ہدایت فراہم کرتی رہیں یہاں تک کہ دوسری صدی ہجری میں ان روایات سے سیرت پاک کا سرمایہ تیار ہوا اور وہ روایات جن میں رسول خدا کے غزوات کا ذکر تھا فن مغازی کا موضوع قرار پائیں چونکہ رسول مقبول کی زندگی میں ان غزوات کو تاریخی لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے اس لئے بعض اوقات مغازی سے سیرت بھی مراد لی جاتی ہے۔ سیرت ابن ہشام پہلی کتاب ہے جسے مغازی کی بجائے سیرت کہا گیا۔ عمربن عبد العزیز کے زمانے میں جامع دمشق میں مغازی کا با قاعدہ درس دیا جاتا تھا۔

 رسول اکرم کی سیرت لکھتے وقت ہرقسم کی روایات کو قبول نہیں کیا گیا کہ ان کی جانچ پرکھ کے اصول وضع کئے گئے۔ راویوں کے حالات جمع کئے گئے اور غیر محتاط راویوں کی روایات کو درست تسلیم نہیں کیا گیا ۔ علامہ شبلی نعمانی کے قول کے مطابق اس سے زیادہ کیا عجیب بات ہو سکتی ہے کہ آنحضرت کے افعال و اعمال کی تحقیق کی غرض سے آپ کے زار شخصوں کے نام اور حالات قلمبند کئے گئے۔ کیا دنیا ہی کسی شخص کے رفقا میں سے اتنے لوگوں کے نام اور حالات پر بنی اسما الرجال جیسے عظیم علم کی بنیاد پڑی۔

سیرت نگاری کا آغاز

پہلی صدی ہجری تک یہ روایات سینہ بہ سینہ نقل ہوتی رہیں اور مدینہ منورہ ہی حدیث نبوی اور روایات اسلامی کا سب سے پہلا اور بڑا مرکز تھا جب اموی خلیفہ عمربن عبد العزیز مستند خلافت پر بیٹھے تو آپ نے دیکھا کہ جن صحابہ کرام کے سینوں میں رسول خدا کے ارشادات اور دیگر تاریخی روایات کا ذخیرہ محفوظ تھا وہ یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہورہے ہیں ان کے ساتھ ہی روایات کا ذخیرہ بھی ہاتھ سے جا رہا ہے تو انہوں نے اسلامی روایات کی جمع و تدوین کا حکم دیا اور روایات سیرت کی جمع و کتابت بھی ہی دور میں شروع ہوئی ۔

 سیرت کی عربی کتب

عربی زبان میں سیرت کے موضوع پر بے شمارکتابیں لکھی گئیں ابتدائی دور کے مندرجہ ذیل سیرت نگار قابل ذکر ہیں بعد کے آنے والوں نے ان کی کتب سے بہت استفادہ کیا ہے۔


1-امام زہری متوفی ۱۲۳ ہجری انہوں نے سیرت و مغازی پر بہت سی کتابیں لکھیں ۔ یہ کتابیں تواب موجود نہیں البتہ ان کے حوالے سیرت کی دوسری کتابوں میں ملتے ہیں ۔ 

2 - موسی بن عقبہ متوفی 141 ہجری ان کی کتاب مغازی اپنی صحیح روایات کی بنا پر مشہور ہے۔ 

3-محمدبن اسحق متوفی 150 ہجری کی لکھی ہوئی سیرت شاید اپنے موضوع پر پہلی جامع کتاب 

4- ابن ہشام متوفی ۲۱۳ یا ۲۱۸ ہجری نے محمد بن اسحق کی سیرت کی تلخیص کی اور اس میں ترمیم و اضا فہ کر کے ۔ بہتر بنایا۔ اس کتاب کا جرمنی، انگریزی اور اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

5-نا محمد بن سعد متوفی ۲۳۰ ہجری کی کتاب الطبقات الکبر میں صحابہ کرام اور تابعین کے حالات لکھے ہیں لیکن اس کتاب کا ابتدائی حصہ سیرت سے تعلق رکھتا ہے۔

6- بلاذری متونی ۲۷۹ ہجری کی کتاب الاشارت عربوں کی ایک جامع تاریخ ہے جس میں بنو ہاشم کے ذکر میں سیرت کا بیان بھی ملتا ہے۔ 

7-محمد بن جریر طبری متوفی ۳۱۰ ہجری کی مشہور کتاب تاریخ طبری کا ایک حصہ بھی سیرت سے متعلق ہے۔

 یورپ میں سیرت نگاری

دوسری صدی ہجری سے سیرت نگاری کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔ بہت سے یورپی اہل قلم نے بھی اپنے مخصوص نقطہ نظر سے حضور اکرم کے سوانح حیات لکھتے ہیں ۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں اس موضوع پر یورپ کی مختلف زبانوں میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں ۔ یورپ میں سیرت نویسی کی ابتدا در اصل سیاسی مخالفت یا مذہبی مناظرے سے ہوئی اس کے بعد تحقیق وجستجو کے نام نے آپ کی سوانح عمریاں لکھی گئیں لیکن سیاسی اور دینی تعصب ان میں بھی موجود ہے مسلمان علماء نے جدید دور میں سیرت پر جو کتابیں لکھیں ان میں یورپی مصنفین کے اعتراضات کے جواب بھی دیئے گئے ۔ اسی سلسلہ میں مصری عالم محمدحسین ہیکل پاشا اور برصغیر میں سید احمدخان اور علامہ شبلی کے نام قابل ذکر ہیں۔

 اردو میں کتب سیرت

اردو زبان میں بھی سیرت کے موضوع پر ایک دقیع سرمایہ موجود ہے۔ اس موضوع پر لکھے گئے رسائل وكتب کی تعداد تقریباً ایک ہزار تک جا پہنچتی ہے ۔ ان میں مندرجہ ذیل کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔

 خطبات احمدیہ

 یہ سرسید احمد خان کی تصنیف ہے جو انہوں نے ولیم میور کی لائف آت محمد جیسی مخالفانہ کتاب کے جواب میں لکھی ۔ اس کے لئے انہوں نے انگلستان کا سفر بھی کیا اور جس جذبے سے سرسید احمد خان نے یہ کتاب لکھی اس کا اندازہ ان کے ایک خط کی ان سطروں سے لگایا جا سکتا ہے   

ان دنوں ذرا قدرے دل کو شورش ہے ۔ ولیم میور صاحب کی کتاب کو دیکھ رہا ہوں اس نے دل کو جلا دیا اور اس کی نا انصافیاں دیکھ کر دل کباب ہو گیا .... اس کے جواب میں ) کتاب لکھ دی جائے اگر تمام روپیہ خرچ ہو جائے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے۔ خطبات احمدیہ کو اردو میں سیرت کی پہلی باقاعدہ کتاب کہا جاسکتا ہے۔ 1870 میں شائع ہوئی

رحمت اللعالمین

قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی یہ کتاب 1912 میں شایع ہوئی اس کا شمار اردو میں سیرت کی جامع اور مفصل کتابوں میں ہوتا ہے۔ 

سیرت النبی 

علامہ شبلی نمانی اور ان کے شاگرد سید سلمان ندوی کی یہ تصنیف ایک عظیم کارنامہ ہے اردو تو کیا دنیا کی کسی زبان میں سیرت رسول پر اتنی محققانہ اور جامع کتاب اب تک نہیں لکھی گئی۔


اردو میں سیرت کی چند کتب یہ ہیں۔


 سيرة الرسول ۔۔۔۔۔۔۔از مولانا اسلم جیراجپوری

النبی الخاتم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از مولانا مناظر احسن گیلانی

اسوۃ الرسول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از مولانا سید اولاد حیدر بلگرام

رحمت ِ علم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از سید سلیمان ندوی

پیغمبر صحرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از خالد لطیف گایا

انسان کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از خالد علوی

 سيرة المصطفى۔۔۔۔۔۔از مولانا محمد ادریس کاندھلوی

اصح انسیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از حکیم عبد الرؤف دانا پوری

محسن انسانیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔از نعیم صدیقی

حیات سرور کائنات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از ملا واحدی

 پیغمبر انسانیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از مولانا محمد جعفر شاه پهلواروی

 حدیث دفاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از میجر جنرل اکبر خان

سیرت النبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از علامہ شبلی نعمانی

Post a Comment

0 Comments