مکتوب نگاری||مرزا غالب کے خطوط کی خصوصیات

مکتوب نگاری||مرزا غالب کے خطوط کی خصوصیات

  مکتوب نگاری||مرزا غالب کے خطوط کی خصوصیات

ایک دوسرے سے دور رہنے والے اشخاص کے درمیان رابطے کا موثر ذریعہ مکتوب ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں موبائل فون اور انٹرنیٹ نے اس کی افادیت میں کمی ضرور کی ہے لیکن اس کے باوجود مکتوب کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور کی جاتی رہے گی ۔ یہ ایک سستا اور مؤثر ذریعہ ہے۔ مکتوب کو نصف ملاقات کہا گیا ہے۔ ملاقات میں جو گفتگو دو بدو بیٹھ کر ہوتی ہے ، وہی مکتوب میں بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ ہر شخص اپنے دور افتادہ رشتہ داروں اور رفیقوں کو مکتوب لکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔ جو لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے ، وہ اس ضمن میں پڑھے لکھے اشخاص کا سہارا لیتے ہیں ۔

 عام لوگوں کے مکتوب اہمیت کے حامل نہیں ہوتے تا ہم معروف اشخاص کے مکتوب نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ان کے مکاتیب سے ان کی زندگی اور عہد پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ بقول عبد الحق خط دلی خیالات کا روز نامچہ اور اسرار حیات کا مرقع ہے۔"

 یوں مکتوبات سے کسی شخصیت کی سوانح عمری مرتب کی جاسکتی ہے یہ مکاتیب کسی زمانے کی تاریخ کو کماحقہ سمجھنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ جو شخص جتنا بڑا اور اہم ہوتا ہے، اس کے مکاتیب بھی اتنے ہی مفید اور کار آمد ہوتے ہیں، اس لیے دنیا کی ہر قوم اپنے مشاہیر کے مکاتیب کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔

مکاتیب نگاری کی متعدد اقسام ہیں۔ مثلاً نجی ، کاروباری اور سرکاری وغیرہ لیکن یہاں صرف ان مکاتیب کو زیر

بحث لایا جارہا ہے، جو علمی وادبی ہیں اور ایک صنفِ نثر کی صورت میں اردو ادب میں شامل ہیں ۔

علمی وادبی مکاتیب 

 یہ مکاتیب کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کسی مکتوب نگار کے نالے اس کے میلانات و رجحانات ، عادات و اخلاق ، جذبات وخیالات، اس کی پسند و ناپسند ، نفسیاتی کیفیات اور قلبی احساسات کے علاوہ اس کی شخصیت کے بہت سے پوشیدہ گوشوں کو وا کرتے ہیں۔ علمی اعتبار سے کسی شخصیت کے مکاتیب اس کی سواخ نگاری کا بہترین ماخذ ہوتے ہیں۔ مکاتیب آپ بیتی اور روزنامچے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ۔ دنیا کی ہر زبان کے نثری ادب میں جہاں داستان ، ناول، افسانہ ڈراما، سوانح عمری اور تنقید وغیرہ کا سرمایہ ملتا ہے، وہاں مشہور و ممتاز ادیوں اور شاعروں کے مکاتیب کے مجموعے بھی ملتے ہیں ۔ ان مشاہیر نے مکتوب لکھنے میں ایسا کمال کیا ہے کہ اگر وہ کچھ اور نہ بھی لکھتے ، جب بھی وہ صرف اپنے مکاتیب کی وجہ سے زندور و سکتے تھے۔

اردو ادب میں مکتوب نگاری

اسد اللہ خاں غالب سے پہلے جو مشاہیر گزرے ہیں ، ان کے کاتیب ندبی محفوظ کیے گئے اور نہ ہی انھیں شائع کیا گیا۔ البتہ غالب سے لے کر آج تک مشہور و ممتاز شعر او ادبا کے مکاتیب محفوظ کرنے اور شائع کرنے کا کام بڑے خلوص سے انجام دیا جا رہا ہے۔ 

غالب کے ہم عصروں میں سے سرسید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی ، مولوی نذیر احمد اور مولانا محمد

حسین آزاد کے مکاتیب کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں ۔

اردو ادب کے جو مشاہیر صاحب طرز ادیب و شاعر قرار پائے ہیں ، ان کے مکاتیب میں بھی ان کی نثری خوبیاں در آئی ہیں ۔ اس ضمن میں مہدی افادی کے مجموعے بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ کسی ادیب کی نثری خصوصیات اس کے مکاتیب میں بھی تلاش کی جائیں۔ مکاتیب ان خصوصیات کے بغیر بھی اہمیت کے قابل ہوتے ہیں۔ اس کے باوصف بعض مشاہیر ادب اردو کے مکاتیب اپنے موضوعات اور اسالیب ہر دو کے اعتبار سے مستقل تصنیفات کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس ضمن میں نیاز فتح پوری، مولانا ابوالکلام آزاد اور رشید احمد صدیقی کے مکاتیب کے مجموعے مستقل تصانیف کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اسی طرح مشہور شاعر اسرار الحق مجاز کی بہن صفیہ اختر کے مکاتیب کا مجموعہ "زیر لب بھی اہمیت کا حامل ہے۔

آج مکتوب نگاری ادب کی ایک معتبر صنف شمار کی جاتی ہے اور مشاہیر اردو ادب کے مکاتیب کے مجموعے بہت ذوق و شوق سے پڑ ھے جانے لگے ہیں۔ سرسید ، حالی، آزاد ، نذیر احمد، اقبال ، اکبر، امیر مینائی بعبد الماجد دریا بادی ،سید سلیمان ندوی اور پطرس بخاری کے بیشتر کا تیب کتابی صورت میں شائع ہو کر عوامی وادبی حلقوں میں وقار حاصل کر چکے ہیں، جن کے مطالعے سے اس دور کے طہر ر زندگی، تاریخ اور سماجی حالات کے خوب صورت مرقع سامنے آجاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مکاتیب شاعروں، ادیوا ، عالموں یا سیاسی لیڈروں کی آپ بیتیاں ہیں، تو بے جا نہیں ہوگا۔

غالب کی مکتوب نگاری 

خاب سے قبل فارسی کی پیروی میں سادہ انداز کی بجائے پر تکلف مکتوب نگاری کا رواج تھا۔ غالب نے اس رواج کی پیروی کرنے کی بجائے سادہ انداز نگارش کو اہمیت دی ۔ یہ اسلوب بالآخر غالب کی شخصیت کا آئینہ دار بن گیا اور ان کے مکاتیب ، گائے کا روپ دھار گئے۔ ایک مکتوب میں خود فرماتے ہیں کہ میں نے مراسلے کو مکالمہ بنادیا ہے۔ اب ہزار کوس ستے پہ زبان قلم با تیں کیا کرو اور ہجر میں ، سال کے مزے لیا کرو ۔ "

غائب کے طول تین اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اول تو اردو میں بہترین خطوط ہونے کے اعتبار سے،دوسرے سواتی نقطہ نظر سے اور تیسرے یہ کہ ان میں تاریکی مواد بکثرت ملتی ہے۔ علاوہ از ہیں اس اعتبار سے بھی یہ مکاتیب اہم ہیں کہ ان کی سادہ نگاری نے اردو مٹر کی ترقی کا راستہ ہموار کیا ہے۔

اقبال کی مکتوب نگاری 

بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہائی: علامہ اقبال کے خطوط ان کی شاعری سے کم اہم نہیں ۔ خطوط میں فکر اقبال کی ان مکاتیب سے اقبال کے معمولات زندگی ،بل کہ سیرت کا جامع مرقع تیار کیا جاسکتا ہے۔ ان مکاتیب میں اردو مر کے خوب صورت نمونے موجود ہیں۔ ان مکاتیب کا بنیادی وصف ان کا ایجاز و اختصار ہے۔ تعداد کے اعتبار سے علامہ موصوف کے مکاتیب کے مجموعے سب سے زیادہ ہیں۔

 مرزا غالب کے خطوط کی خصوصیات

مرزا غالب ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبہ ہی ہیں ۔ تا ہم ان کی نثر ان کے خطوط تک محدود ہے۔ ان کے خطوط نے اردو نثر کو پرانی ڈگر سے ہٹا کر ایک نئی راہ سے روشناس کرایا۔ واقعہ نگاری، بے تکلفی اور شگفتگی ان کی نثر کی جان ہے۔ ان کی تحریر میں سادگی اور روانی ہے۔

 القاب و آداب کا خاتمہ

غالب سے پہلے خطوط میں لمبے لمبے القاب لکھے جاتے تھے۔ غالب نے انھیں ترک کر کے سادا، اور مختصر القاب

لکھے۔ غالب مکتوب الیہ کو بھی ، میاں ، بھائی ، بندہ پرور، پیر و مرشد اور برخوردار جیسےالقاب سے پکارتے ہیں اور کبھی القاب کے بغیر خط لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

مراسلے کو مکالمہ بنایا

غالب نے اپنے خطوط میں ایسا طریق اختیار کیا ہے، جیسے: دو اشخاص آپس میں گفتگو کر رہے ہوں ۔ خود لکھتے ہیں کہ: میں نے و وانداز تحریرا ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے ۔ اب ہزار کوس سے بہ زبان قلم باتیں کیا کرو اور ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔ غالب کے اس طرز نے ادب کو دل چسپ اور دل کش بنادیا ہے۔

جزئیات نگاری

غالب ماحول کا تاثر دینے کے لیے خط کے ابتدا یا انتقام پر گرد و پیش کے مناظر کی ایسی جزیات پیش کرتے ہیں کہ

مکتوب الیہ اور قاری کی نگاہوں کے سامنے اس ماحول اور فضا کا دل کش مرقع امبر نے لگتا ہے۔ غالب کے خطوط میں سب سے زیادہ امتیازی چیز شوخی بیان ہے۔ یہ ان کی خداداد صلاحیت ہے۔ ان کی اس شوخی تحریر نے ان کے خطوط کو ناول اور ڈرامے سے زیادہ دل چسپ بنا دیا ہے۔ ان کی اس شوخی اور ظرافت کی وجہ سے الطاف حسین حالی نے انھیں حیوان ظریف کیا ہے۔ غالب تعزیق خطوط میں بھی ظرافت کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیتے تھے۔

 ایجاز و اختصار

غالب کے خطوط میں سادگی ، سلاست اور بے تکلفی کے ساتھ ساتھ ایجاز واختصار کا وصف بھی موجود ہے۔ وہ خطوط میں صرف ضروری امور کو تحریر کرتے ہیں اور فالتو چیزوں کے بیان سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے جملے مختصر اور بیکل ہوتے ہیں ۔ تا ہم شعوری اور غیر شعوری طور پر وہ منکی عبارت بھی لکھ جاتے ہیں ، جس سے تحریر میں حسن پیدا ہو جاتاہے اور قاری لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ 

فلسفیانہ نظریات و خیالات 

خطوط غالب میں جہاں غالب نے اپنے بعض اشعار کی وضاحت کی ہے، وہاں زندگی اور کائنات کے بارے میں اپنے مخصوص نظریات اور خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔ 

 اردو مکتوب نگاری میں غالب کا مقام  

غالب کی شاعرانہ حیثیت سے انکار ممکن نہیں ۔ اس کے علاوہ سادہ سلیس اور شگفتہ نثر نگاری کی ابتدا کا سہرا بھی ان ہی کے سر بندھا ہوا ہے ۔ ان کا نثری سرمایہ یہی خطوط ہیں، جو انھوں نے مختلف اوقات میں اپنے دوستوں اور شاگردوں کو لکھے ۔ یہ غالب ہی تھے ، جنھوں نے مشکل اور پیچیدہ انداز بیان ترک کر کے سادگی ، سلاست، روانی اور شگفتگی کواپنایا۔ گفتگواور بول چال کے انداز بیان سے مراسلے کو مکالمے کا روپ دیا۔ اس انداز بیان سے خطوط میں زندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ کسی جیتے جاگتے ماحول میں بیٹھا یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ خطوط غالب نے اردو نثر کو ایک نئے موڑ سے ہم کنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 خطوط غالب کی وجہ سے غالب کو بجا طور پر جدید اردو نثر کا بانی کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ ان کے بعد کے بیشتر نثر نگاروں نے ان کے طرز نگارش کی پیروی کی اور جدید اردو نٹ کو مزید ترقی سے ہم کنار کیا۔ اس ضمن میں سرسید احمد خان کی کاوشوں کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔ رفتہ رفتہ یہی طرز تحریر عام ہو گیا۔ 

 الغرض غالب نے خط نگاری اور ادب کی سرحدوں کو باہم ملایا۔ انھوں نے پر تکلف خط نگاری کے مقابلے میں ہے

تکلف خط نویسی کو اہمیت دی۔ لمبے لبے القاب و آداب چھوڑ کر مختصر القاب استعمال کیے ۔ خط کو کارو باری حیثیت سے نکال کر اسے تہذیبی تکمیل کے اس درجے پر پہنچا دیا کہ خط نویسی بذات خود ایک فن بن گیا اور یوں خطوط کا شمار ادبی شاہکاروں میں ہونے لگا۔ جان غالب اتمھا را خط پہنچا۔ غزل اصلات کے بعد پہنچتی ہے۔

غالب کے خطوط 

میر مہدی کے نام ( متن )

جانِ غالب تمھارا خط پہنچا۔غزل اصلاح کے بعد پہنچتی ہے۔

ہر اک سے پوچھتا ہوں، وہ کہاں ہے

مصرع بدل دینے سے یہ شعر کس رتبے کا ہو گیا۔ اے میر مہدی! تجھے شرم نہیں آتی۔

میاں ! یہ اہل دہلی کی زباں ہے

ارے ! اب اہل دہلی یا ہندو ہیں یا اہل حرفہ ہیں یا خا کی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں ، ان میں سے تو کس کی زبان کی تعریف کرتا ہے۔ لکھنو کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ ریاست تو ہاتی رہی ، باقی ہرفن کے کامل لوگ موجود ہیں ۔ جنس کی نئی : پر 1 ہوا ، اب کہاں؟ و و لطف تو اسی مکان میں تھا۔ اب میر خیراتی کی حویلی میں وہ چھت اور سمت بد کی ہوئی ہے۔ بہر حال می گزارد مصیبت عظیم یہ ہے کہ قاری کا کنواں بند ہو گیا۔ لال زگی کے کنویں یک قسم کھاری ہو گئے ۔ خیر کھاری ہی پانی پیئے، گرم پانی نکلتا ہے۔ پرسوں میں سوار ہو کر کنوؤں کا حال معلوم کرنے گیا تھا۔ مسجد جامع ہوتا ہوا ان گھاٹ درواز سے کو پہلا ۔ مسجد جامع سے راج گھاب دروازے تک بے مبالطہ ایک صحراق ودق ہے۔ اینوں کے ذخیر جو پڑے ہیں، دوا کر جائے جا میں تو ہوگا مکان ہو جائے۔ یاد کر مرزا گو بر کے بانیچے کی اس جانب کوئی بائس نشیب تھا، اب وہ با بیٹے کے تھن کے برابر ہو گیا، یہاں تک کہ راج گھاٹ کا درواز د بند ہو گیا۔ فصیل کے کنگورے کھلے رہتے ہیں، باقی سب سے کیا ۔ کشمیری در دائرے کا حال تم دیکھ گئے ہو، اب آنٹی سٹرک کے وا لے کلکتہ دروازے سے کابلی دروازے تک میدان ہو گیا۔ پنجابی کمر و دھونی داس کا از و راشی نیخ، سعادت خان کا کنڑو، جرنیل بیوی کی حویلی ان میں سےکسی کا پتا نہیں ملا۔ وہ محتہ شہر بھرا ہو گیا تھا آب جو کنویں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہو گیا، تو پھر صحرائے کربار ہو جاے گا ۔ الا اللہ ونی نہ رہی اور دنی والے یہاں کی تر بان کو اچھائے جاتے ہیں ۔ اور حسن اعتقاد ارے بندہ خدا اردو بازار نہ رہا، اردوگان؛ ولی اب خیر نہیں، کمپ چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ نشہ نہ بازار نہ ہی الور کا حال کچھ اور ہے۔ مجھے اور انقلاب سے کیا کام۔ اللہ ہر پورے کا کوئی ورا نہیں آیا مظاہرا ان کے مصاحب نہیں ، وہ مجھ کو ضرور خط لکھتا رہتا۔ میر سرفراز حسین اور میرن صاحب اور نصیر الدین گوری کہنا۔ 

غالب ۱۸۶۰

 توضیحات

میر مہدی مجروح میر مہدی مجروح، میر حسین نگار کے بیٹے تھے ۔ ۱۸۳۳ء میں پیدا ہوئے۔ غالب کے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے۔ جنگ آزادی کے بنگانے میں دہلی چھوڑ کر پانی پت چلے گئے۔ پھر الور میں ملازم ہو گئے ۔ بدقسمتی نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا ۔ آخری عمر میں نواب حامد علی خان والنی رام پور کی نوازش سے کسی قدر راطمینان کا سانس میسر آیا سان کے دیوان کا عنوان "مظہر معانی ہے۔ مجروح کا انتقال ۱۵۔ مئی ۱۹۰۳ء بروز جمعتہ المبارک کو ہوا۔ میر سرفراز حسین میر مہدی مجروح کے چھوٹے بھائی ۔ جنگ آزادی کے بعد یہ بھی مصائب کا شکار رہے۔ پہلے پانی پیت گئے۔ انھیں کتا ہیں جمع کرنے اور فقہ پڑھنے سے دل چسپی تھی ۔ غالب نے انھیں مجتہد العصر کا خطاب دیا تھا۔ اصل نام میر افضل علی تھا۔ غالب نے انھیں اس لیے "میران " کہنا شروع کیا تھا کہ لکھنو میں مجتد احمر میران صاحب کے بھائی کا عرف میرن " تھا۔ غالب نے جب میر سرفراز حسین کو مجبد ا عصر کیا ، تو میر افضل علی کے لیے زمین مناسب معلوم ہوا۔ ہنگامے کے بعد میرن بھی پانی پت چلے گئے۔ میر ان مغالب کے محبوب شاگرد تھے۔ نصیر الدین: میر مہدی مجرون اور میر سرفراز حسین کے چھوٹے بھائی ۔ یہ ہی اپنے بھائی مہدی مجروح کے ساتھ پانی پت چلے گئے تھے۔ سید ناصر الدین حیدر عرف یوسف م ب کے شاکر دتھے۔ جنگ آزادی کے بعد یہ بھی دہلی چھوڑ کر ریاست اور چلے گئے تھے۔ یوسف مرزا یوسف علی خان پورا نام نواب یوسف علی خاں ناظم ۔ ۔ ۔ مارچ ۱۸۱۳ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ غالب سے فارسی پڑھی۔ ۱۸۴۰ ء تک دبلی میں قیام رہا۔ نواب محمدسعید خاں تخت نشین ہوئے، تو رام پور چلے گئے ۔ نواب سعید کی وفات پر ۱۸۵۵ء میں رام پور کے والی بن گئے۔ اچھے شاعر تھے۔ اشعار کی اصلاح بھی مرزا اسد اللہ خاں غالب سے لیا کرتے تھے۔ ان کا نقص ناظم غالب ہی نے تجویز کیا تھا۔ ۲۔ اپریل ۱۸۶۵ ء میں فوت ہوئے۔ 

میر قربان علی میر قربان علی بیگ نام او تنقص " سالک تھا۔ ۱۸۳۲ء میں حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ مجھے سال کی عمر میں والد کے ساتھ دیلی چلے گئے ۔ ۱۸۳۶ ء میں ریاست اور کے وکیل مقرر ہوئے ۔ غالب میں سے تھے۔

۱۸۸۰ء میں حیدر آباد میں فوت ہوئے۔ اینکر ندر پورے بدرلے کا والد فرانسیسی تھا۔ اس نے ہندوستانی عورت سے شادی کر لی ۔ بدر ہے یا تقلص آزاد تھی ۔ ین کی کبھی ایک بھی نقص کر لیا کرتا تھا جو ائیر یڈ کا تلف تھا۔ تہیں برس کی عمر میں فوت ہوا۔ اس کا دیوان اس کے چھوٹے بھائی ، امس بدر لے نے ۱۸۶۳ء میں آگرہ میں چھپوایا۔



Post a Comment

0 Comments