نظیر اکبر آبادی کا تعارف اور کلام کی خصوصیات

نظیر اکبر آبادی کا تعارف اور کلام کی خصوصیات

 نظیر اکبر آبادی کا تعارف اور کلام کی خصوصیات

 
 نظیر اکبر آبادی آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید ولی محمدتا اور نظیر قالی کرتے تھے۔ نظیر کی پیدائش سے پہلے چوں کہ ان کی کی بارہ اولادیں مرچکی تھیں ، اس لیے نظیر اکبر آبادی کے ناک کان چھید کران کی ظاہری وضع لڑکیوں جیسی بنا دی گئی۔
  نظیر نے پُر آشوب دور میں آنکھ کھولی۔ نادر شاہ کے حملے میں دتی جاہ ہو چکی تھی۔ احمد شاہ ابدالی کے طوفانی حملوں نے رہی سہی کسر نکال دی ۔ نظیر کا خاندان دہلی سے ہجرت کر کے آگرہ میں تاج محل کے قریبی محلے تاج سنج میں آباد ہوا۔ انھوں نے بچپن میں زمانے کے رواج کے مطابق، فارسی، عربی اور دینیات کی تعلیم حاصل کی۔ ماں باپ کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد ہونے کی وجہ سے بچپن میلے ٹھیلے دیکھتے گزرا ، تہواروں میں شریک ہوئے؛ کبوتر بازی کی : کنکوے اڑائے کشتی اور تیرا کی کا شوق بھی رہا۔ انھیں سنسکرت اور ہندی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔

نظیر اکبر آبادی ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے دولا کی شعر کہے، جن میں سے صرف مجھے ہزار محفوظ رہ سکتے ہیں۔ انھوں نے مسلم اور ہندو معاشرت اور مذہبی رسوم ورواج کے جو خوب صورت ہر تھے پیش کیے ہیں، وہ اچھی مثال آپ ہیں۔ اردو شعرا میں انھیں یہ منفرد مقام حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے۔ ان کے موضوعات عوامی تھے مثلا قتل کے لٹو، برسات کی بہاریں، آٹے دال کا بھاؤ ، چپاتی اور پیسے کی فلافی وغیرہ ۔ دنیا کی بے ثباتی اور اخلاق و حکمت بھی ان کی شاعری کے اہم موضوعات تھے۔
نظیر اکبر آبادی نے طویل عمر پائی اور ۹۵ برس کی عمر میں ۱۸۳۰ء میں فوت ہوئے۔

 نظیر اکبر آبادی کے کلام کی خصوصیات

 اخلاقی رنگ

نظیر ایک صوفی منش انسان تھے۔ ان کے ہاں اخلاقی رنگ غالب ہے۔ اگر چہ جوانی کے عبد کی شاعری میں رہبری کی مثالیں بھی موجود ہیں، لیکن ان کے کلام میں اخلاقی مضامین کثرت سے موجود ہیں ۔

دنیا کی بے ثباتی

نظیر کی شاعری کا اہم موضوع دنیا کی بے ثباتی ہے۔ عبرت اور موعظت کے مضامین ان کے کلام میں کثرت سے
ملتے ہیں ۔ ان کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو ان کا اس موضوع پر کلام دل پر اثر کرتا ہے۔

 کئی بار ہم نے یہ دیکھا کہ جن کا 
 مشین بدن تھا ، معطر کفن تھا

جو قبرِ کہن ان کی اکھڑی تو دیکھا
 نہ عضوِ بدن تھا ، نہ تارِ کفن تھا

موضوعات کی عوامیت

نظیر عوامی شاعر تھے ۔ انھوں نے قتل کے لڈو، برسات کی بہاریں، خربوزے، آگرے کی تیرا کی اور اس طرح کے بیسیوں عوامی موضوعات پر نظمیں لکھیں۔ ان موضوعات میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی۔

جذبات کی عکاسی 

جذبات کی عکاسی شاعری کا دوسرا نام ہے۔ نظیر نے اپنے کلام میں جن جذبوں کی ترجمانی کی ، وہ ان سے بے پناہ
متاثر ہوئے۔

منظر کشی

نظیر نے اپنی شاعری میں مناظر فطرت اور مظاہر فطرت کی خوب منظر کشی کی ۔ وہ موضوع کی مناسبت سے ایسے لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں کہ تصویریں کھینچ جاتی ہے۔ برسات کی بہاریں، ہولی کی بہاریں اور اس طرح کی دوسری نظموں میں مرقع نگاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔

 جزئیات نگاری اور سرا پا نگاری 

.. نظیر کی نظمیں لفظی مصوری کا شاہکار ہیں۔ ان کی قوت مشاہدہ تیز بھی ہے اور گہری بھی ۔ چنانچہ اپنی نظموں میں انھوں نے جزئیات نگاری کی عمدہ تصویریں بنائی ہیں۔ اردو شاعری میں جزئیات نگاری اور سراپا نگاری میں نظیر کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

موسیقیت

نظیر نے ہمیشہ موضوع کی مناسبت سے بحروں کا انتخاب کیا اور الفاظ کے انتخاب پر پوری توجہ دی۔ ان کے کلام میں بالا کی موسیقیت ہے۔ بعض اوقات ہندوؤں کے مذہبی تہواروں کی عکاسی کرتے ہوئے انھوں نے سنسکرت اور ہندی زبان کے الفاظ کثرت سے استعمال کیے، جو عام قاری کی فہم سے بالا تر ہیں، لیکن مٹھاس اور موسیقیت ایسی ہے کہ قاری طویل نظمیں پڑھتا چلا جاتا ہے۔
نظیر کی زیادہ تر نظمیں بیانیہ ہیں اور قوت بیان میں انھوں نے پوری مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ مشکل سے مشکل اور وفیق سے دقیق قافیے باندھنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ان کے کلام میں مذہبی رنگ غالب ہے۔ پر گوئی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

 انجام (متن و تشریحات ) 

 نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا ایک موضوع دنیا کی بے ثباتی ہے۔ نظم انجام میں اسی طرف اشارہ ہے۔ اعظم کی بیت مسدس ترجیع بند ہے، جس میں ایک شعر کو ہر بند کے آخر میں بار بار ہرایا جاتا ہے، تا کہ شاعر اپنے اس تاثر کو گہرا کر سکے، جو وہ قاری کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہے:

بٹ مارا جیل کا آ پہنچا، تک اس کو دیکھ ڈرو بابا
 اب اشک بہاؤ آنکھوں سے اور آہیں سرد بھرو بابا
 دل ہاتھ اٹھا اس جینے سے، بے بس جی مار مرد بابا
  جب باپ کی خاطر روتے تھے، اب اپنی خاطر رو بابا
   تن سوکھا، کبڑی پیٹھ ہوئی ، گھوڑے پر زین دھر و با با
اب موت نقارا باج چکا، چلنے کی فکر کرو بابا

تشریح

نظیر اکبر آبادی انسان کو موت کے آنے کا احساس دلا رہے ہیں۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ اوائل عمر اور جوانی دنیائے رنگ و بو میں کھیلتے گزار دیتا ہے اور جب بڑھاپا آجاتا ہے، توئی کمزور ہو جاتے ہیں اور عیش وعشرت کی قوت باقی نہیں رہتی تو اسے موت یاد آتی ہے اور وہ یار غذا میں مصروف ہو جاتا ہے لیکن بہت سے لوگ بڑھاپے میں بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے اور دنیا کے دھندوں میں کھوئے رہتے ہیں نظیر ایسے ہی لوگوں سے مخاطب ہیں اور انھیں بتارہے ہیں کہ اب موت کا فرشتہ آن پہنچا ہے۔
 خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ اور کچھ خوف کرو۔ آپ کو ئیش میں یاد خدا نہیں رہی اور اب تو خدا کے حضور پیش ہونے کا خیال کرو۔ اب کر کے اس حصے میں آپ کی یہ خواہش ختم ہو جانی چاہیے کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ اب پچھتائیں اور رورو کر خدا تعالی سے معافی مانگیں ہوں اور نفس پرستی سے باز آجا ۔ اس وقت کو یاد کرو جب آپ کے ابا حضور اس دنیا سے رخصت ہوئے، تو تمھیں رنج پہنچا اور تم بچوں کی طرح بلک بلک کر رو ر ہے تھے۔ اب جب کہ آپ کا اپنا وقت قریب ہے، تو آنسو بہاؤ اور گناہوں کی معافی طلب کرو! اپنے انجام کی فکر کرو ۔ اب آپ کا تن سوکھ کر کانٹا ہورہا ہے، آپ کی کمر بڑھاپے میں کمزوری سے دہری ہوگئی ہے۔ 
 یہ زندگی کے سفر کے انتقام کا اشارہ ہے۔ اب عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ موت کا وقت آپہنچا ہے، تو آپ اسے تسلیم کرتے ہوئے چلنے کی تیاری کریں۔ 
 
اب جینے کو تم رخصت دو اور مرنے کو مہمان کرو خیرات کرو، احسان کرو، یا پن کرو یا دان کرو
 یا پوری لڈو بٹواؤ، یا خاصہ حلوا دان کرو
  کچھ لطف نہیں اس جینے کا ، اب مرنے کا سامان کرو تن سوکھا، کبڑی پیٹھ ہوئی ، گھوڑے پر زین دھرو بابا 
  اب موت نقارا باج چکا، چلنے کی فکر کرو بابا

تشریح

انسان جب تک جیتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھا پہنے اور اچھے سے اچھا کھائے ؛ آرام و آسائش سے زندگی بسر کرے۔ یہ سب ذات کی چاہتیں ہیں اور اپنی مہمان داری اور سیوا ہے، نظیر اکبر آبادی بوڑھے انسان سے مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اپنی سیوا خوب کر لی زندگی میں عیش کر لیے۔ اب موت کا نقار انبج چکا ہے، تو اب موت کو مہمان سمجھ اور کچھ اس کی مہمان داری اور استقبال کا سوچ، اس کی خاطر تواضع کی فکر کر مرنے کی فکر مندی کا تقاضا ہے کہ کچھ صدقہ خیرات کرو۔
 صدقہ مشکلوں کو آسان بنا دیتا ہے۔ نظیر ایک ناسخ کے روپ میں بوڑ، سے مخاطب ہیں اور تلقین کر رہے ہیں کہ جو نعمتیں خود اپنے لیے پسند نہیں ، اب انھی کا صدقہ کرو۔ حلوہ پوری بانو ۔ اچھے اچھوں کی پسند کے من بھاتے کھانے تیار کہ اؤ اور غربا میں بانٹ دو۔ اس نیکی کے نفیل تمھاری عاقبت سنورنے کے امکانات ہیں۔ اپنے ہاتھ ت یہ صدقہ خیرات تمھارے لیے عاقبت کا سرمایہ بنے گا اور سفر آخرت میں سود مند ہوگا اب کہ تم بنوانی کی دہلیز پار کر پہلے قومی مضمحل ہو گئے اور کمر دہری قوت کار ختم ہوئی اور موت کا بلاوا آ گیا، تو خواب غفلت سے اٹھو اور چلنے کی فکر کرو۔   

شاعر بعد از موت کی صورت حال کی طرف متوجہ کرتے ہوئے تخریب کر رہے ہیں کہ ابھی ت ہے، کچھ نیک اعمال اب جب کہ تمھارا جسم سوکھ کر کاٹا ہو چکا ہے؟ کمر جھک گئی ہے اور موت کا بلاوا آ چکا ہے، تو سفر آخرت کی تیاری کرو اور تیاری کا بہترین انداز یہی ہے کہ نیک اعمال کر کے سفر آخرت کو آسان بنالو۔ بیوپار تو یاں کا بہت کیا، اب واں کا بھی کچھ سودا لو جو کھیپ ادھر کو چڑھتی ہے، اس کھیپ کو یاں سے لدوالو اس راہ میں جو کچھ کھاتے ہیں، اس کھانے کو بھی منگوا لو سب ساتھی پہنچے منزل پر، اب تم بھی اپنا رستہ لو تن سوکھا، کبڑی پیٹھ ہوئی ، گھوڑے پر زین دھرو بابا . اب موت نقارا باج چکا، چلنے کی فکر کرو بابا۔

Post a Comment

0 Comments