خواجہ معین الدین کا تعارف||خواجہ معین الدین کی ڈراما نگاری

خواجہ معین الدین کا تعارف||خواجہ معین الدین کی ڈراما نگاری

 خواجہ معین الدین کا تعارف||خواجہ معین الدین کی ڈراما نگاری

 خواجہ معین الدین کا تعارف

خواجہ معین الدین ۲۳ مارچ 1924ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ میٹرک میں تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔1946ء میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن سے بی اے کیا۔ ایل ایل بی میں داخلہ لیا مگر تقسیم ملک کے باعث اسے جاری نہ رکھ سکے۔ 

سقوط حیدر آباد پر اپنے ہندو مخالف ریڈیو پروگرام کی وجہ سے پاکستان ہجرت پر مجبور ہوئے۔ کراچی سے ایم اے اردو کر کے تدریس سے وابستہ ہو گئے ۔ 1966 میں خواجہ معین الدین کو صدارتی تمغہ حسن کار کردگی دیا گیا۔ وہ 9 نومبر 1971ء کو فوت ہو گئے۔

انھوں نے اپنا پہلا ڈرامہ سولہ سال کی عمر میں سرکاری دکان" کے نام سے لکھا۔ اس کے بعد ایک ایکٹ سے کئی ڈراموں پر انعامات حاصل کیے۔ ان کا پہلا ڈرامہ پرانے محل حیدر آباد دکن میں اسٹیج ہوا۔ پاکستان ہجرت کے بعد ان کا پہلا ڈرامہ زوال حیدر آباد تھا۔ ان کا کوئی ڈرامہ ریڈیو پرنشر نہیں ہوا، البتہ تعلیم بالغاں" نامی ڈرامہ 1970ء میں پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ ان کا ڈرامائی اسلوب جدید عوامی یعنی People's theater کے مماثل ہے۔

خواجہ معین الدین کی ڈراما نگاری

خواہ معین الدین کے ابتدائی ڈراموں میں ترقی پسند مشاعره، سرکاری زبان ، انجمن سٹہ بازاں، انتخاب، جشن آزادی، پرانے محل اور ننھا نواب شامل ہیں۔ ہجرت کے بعد لکھے گئے ڈراموں میں : زوال حیدر آباد، جو چمکے وہ سونا لال قلعے سے لالوکھیت تک، تعلیم بالغاں، جیل کو کہیں سسرال، مرزا غالب بندر روڈ پر، جلسہ عام ( انتخابی جلسہ )، ساون کا اندھا اور جگی میں جانسن شامل ہیں۔

خواجہ معین الدین کے ڈرامے ہمارے قومی مسائل کے ترجمان ہیں۔ ان میں ہمارے ماحول کی کمزوریوں پر گہرا، مگر شگفتہ طنز ملتا ہے۔ ان کے کردار عام لوگوں کے نمائندے ہیں اور ان کے مکالمے ، ناوٹ، فریب اور خود غرضی پر گہری چوٹ اور تنقید ہیں۔ ان کا پیرایہ اظہار طنزیہ ہے، جس میں مزاح کی شیرینی بھی شامل ہوتی ہے۔ ان کے ہاں اصلاح اور مقصدیت کا عنصر غالب ہے ۔ وہ بھاری اور ثقیل الفاظ سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے طنز و مزاح میں سوچ کا عنصر بہت گہرا ہے اور مکالمے ڈراموں کا اصل حسن ہیں۔

خواجہ صاحب کے ڈراموں میں لوکائی تھیٹر (People's theater) کے انداز کے باعث نہ اسٹیج کے لوازمات ہیں اور نہ ہی فنی حوالے سے روایت پرستی ۔ لہذا ان کے ڈراموں میں نہ پلاٹ ہے، نہ کہانی اور نہ ہی ڈرامائی نقطۂ عروج ۔ وہ اپنے الفاظ اور مکالموں سے تاثر کا بھر پور اظہار کرتے ہیں۔ حقیقت پسندی کے باعث نقالی میں اصلیت کا گمان ہوتا ہے۔ خلوص اور انسان دودتی ان کی تحریر کا خاص وصف ہے ۔ سماجی صورت حال کے باعث انھوں نے عورتوں کے منفرد کردار اپنے ڈراموں میں تخلیق کیے ہیں۔ ۔

 تعلیم بالغاں ایک تعارف 

 تعلیم بالغاں خواجہ معین الدین کے دو مشہور ترین ڈراموں میں سے ایک ہے، کیوں کہ اس ڈرامے کو پچھلے ۳۰-۳۵ سالوں میں سات آٹھ ہارٹی وی پر دکھایا جا چکا ہے۔ اس کی سہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عین ممکن ہے ناظرین خواجہ معین الدین کو نہ جانتے ہوں لیکن وہ تعلیم بالغاں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ 

 ایک بڑے قومی مسئلے پرتحریر کیا گیا۔ یہ ڈرامہ 1954ء میں سامنے آیا۔ خواجہ معین الدین کے بقول : "تعلیم بالغاں میں نے نہیں لکھا ، کالج کے بچوں نے مجھ سے لکھوایا ہے۔ میں ہر شخص کو انکار کر سکتا ہوں کسی بچے کا دل نہیں توڑ سکتا۔ اردو کالج کے بچے ایک روز میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ چند روز کے بعد ہمارے ہاں کوئی تقریب ہے، ہم اس میں ڈرامہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہمیں ایک ڈرامہ لکھ دیں، جس میں لمبی چوڑی اسٹیج ، پردوں اور بہت سے کردراوں کی ضرورت نہ پڑے۔ 

 کسی بھی ڈرامہ نگار سے ایسا تقاضا کیجیے، وہ نہیں مانے گا، میں بھی مسکرایا، انھیں سمجھایا کہ ان ضروری لوازمات کے بغیر ڈراما کیسے چل سکتا ہے؟ مگر بچوں نے کوئی بات نہ سنی۔ ان کا اصرار تھا کہ ہمارے پاس وقت ہے، نہ پیسے اور نہ زیادہ آدمی ۔ میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ طالب علمی کے زمانے میں ہم اکثر سکول ماسٹروں اور انسپکٹروں کا روپ اختیار کر کے اپنے تعلیمی نظام پر چوٹیں کیا کرتے تھے، میں نے اس خیال کو وسعت دے کر بچوں کے لیے تعلیم بالغاں" کے نام سے ڈراما لکھ دیا، جسے دو روز بعد اردو کالج کراچی کے طلبہ نے کالج کی اسٹیج پرکھیلا اور اول انعام حاصل کیا۔" اس کے بعد یہ اس قدر مقبول ہوا کہ کراچی کے تھیو سوفیکل ہال میں اڑھائی تین سو بار، جب کہ ۱۹۷۰ء میں پی ٹی وی اور ۱۹۹۷ء میں این ٹی ایم سے کئی بار پیش کیا گیا۔ 

 اس کھیل کا مرکزی خیال قائد اعظم کے سنہرے اصول: اتحاد تنظیم اور یقین محکم پرمبنی ہے۔ اس ڈرامے میں ایک مفلس اور بوڑھے معلم کے ذریعے پاکستان کے تعلیمی علمی ، سائنسی اور سماجی مسائل و تصورات کی ترجمانی کی گئی ہے۔

تعلیم بالغان کے کردار

اس ڈرامے کے کردار مندرجہ ذیل ہیں۔

محبت علی(صدر مدرس)

قصاب(مانیٹر ) 

شمشیر (حجام )

دودھ والا چراغ شاہ

پان والا۔۔۔۔چاند خان(دھوبی)

ملا باری اور ملا کی بیوی(پس پردہ آواز)

محبت علی حکومت کے تعلیم بالغاں نامی منصوبے کے تحت بڑی عمر کے چند لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ مولوی صاحب کی اپنی تعلیم بھی واجی ہی ہے، جب کہ ان کے طالب علم ہو کہ قصاب حجام تانگے والا دودھ والا اور دھوبی وغیرہ ہیں عام لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ڈراما تعلیم بالغاں' کا مرکزی خیال

ڈراما تعلیم بالغاں' کا مرکزی خیال وہ تین اصول ہیں، جو پاکستان کے عظیم رہنما قائد اعظم محمدعلی جناح نے اپنائے اور انھیں تحریک پاکستان کے ڈسپلن کی روح بنا کر قیام پاکستان کے خواب کوشرمندہ تعبیر کیا۔ یہ تین اصول : اتحاد واتفاق ،نظم و ضبط اور یقین و اعتماد ہیں۔

Post a Comment

0 Comments