ڈراما کیا ہے؟ڈرامے کا پسِ منظر||اردو ڈراما نگاری
ڈرما کیا ہے ؟
آج فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی طرح را ما ادبی تخلیق ہونے کے باوجود، پڑھنے کے بجائے دیکھنے کی چیز ہے۔ گویا یہ ایک ایسی کہانی ہے، جواد کاری کی مدت ناظرین کے لیے ان پر پیش کی جاتی ہے۔ کتاب کی بجائے اسٹیج پر کہانی کی پیش کش ہی اس صنف کو دیگر ادبی اصناف سے مختلف اور منفرد کرتی ہے۔
اس میں پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کا مل ہی مصنف کو واقعات و مکالمات کی تصویر کشی میں مختلف طرز عمل اپنانے پر مجبور کرتا ہے، یعنی ڈرامے کی تکنیک کی بنیاد پڑھنے کی بجائے دیکھنے کی چیز کے طور پر ہوتی ہے۔ لہذا اسیج (یا کیمرے) کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے لکھے گئے ، جو ڈرا سے انٹیج یا پروڈیوس نہیں کیے جاسکتے ، ان کی کامیابی کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں، کیوں کہ ڈراما نگار کو اپنی تخلیق کے اظہار کے لیے اردا کاروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ڈرامے کا کردار اداکاری کے ذریعے اظہار کی راہ پاتا ہے، لہذا اذ راما نگار کوادا کارذہن میں رکھ کر بھی کردار تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ چوں کہ ڈراما ہر سطح کے شخص کے دیکھنے کی چیز ہے، اس لیے اسے بیک وقت اعلیٰ و ادنی دونوں طرح کے اذہان کی تفریح وتشفی کے لیے لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ذراے کی بنیادی خصوصیت اس کی کش مکش یا ٹکراؤ ہے۔
یہ کش مکش اور ٹکراو خارجی سطح پر فردا در معاشرے، فرد اور فطرت، فرد اور ادارے فرد اور اجتماع ، جب کہ داخلی سطح پر غیرت اور قانون، نیکی اور بدی ، فرض اور محبت، دل اور دماغ ، عقیدت او رصداقت و غیرہ کی صورتوں میں دکھایا جاتا ہے۔
چوں کہ ڈراما یونانی لفظ ڈراؤ بمعنی کر کے دکھانا سے ماخوذ ہے، اس لیے یہ وہ کہانی ہے، جسے مختلف کردار اپنی گفتگو اور اداکاری کے ذریعے انین پر پیش کرتے ہیں۔ ڈراما اپنی طوالت میں کئی ایکٹ اور ایک ایکٹ کئی مناظر پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں ایک کہانی کے مختلف حصے پیش کیے جاتے ہیں۔
جب ہندوستان میں ریڈیو کا آغاز ہوا، تو یک بابی ڈرامے کا رواج ہوا۔ یک بابی ڈرامے میں مختلف مناظر اور کہانی کے مختلف حصوں کی پیش کش ایک ہی منظر میں کی جاتی ہے، جس سے ریڈیو پر مختلف ایکٹ اور ان کے مختلف سین کی پیشکش کے مسائل سے جان چھوٹ جاتی ہے ۔
ڈرائے کا پاٹ سارہ بھی ہوتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ ایک ڈراما عمل، آغاز، وسط یا عروج اور اختتام پر بنی ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ ڈرامے میں زمان ومکان کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
ڈرامے کا پس منظر
نیا میں امام صدیوں سے کھا اور کھیلا جارہا ہے۔ حضرت معین کی پیدائش سے کئی سو سال قبل ، یونان میں ڈرامے لکھے اور انہی کیے گئے ۔ یہ ڈرات آج بھی دنیا کے بہترین کلاسیکی ادب میں شمار ہوتے ہیں۔ جب یورپ میں عیسائیت پھیلی ، تو وحشی قبائل میں میسائیت کی تبلیغ کے لیے چرچ کی سیڑھیوں پر اتم الانبیاء کی مختلف اور معروف کہانیاں انیج کی جانے لگیں۔ یہی روایت یورپ میں ڈرانے کی روایت کا تعامل ہیں، جس کے نتیجے میں شیکسپیئر، بریخت مولیر اور اس جیسے عظیم ڈراما نگار پیدا ہوئے ۔
اردو ڈراما نگاری
برصغیر پاک و ہند میں بھی ہندی دیوتا رام اور دیوی بیتا کی کہانی رام لیلا اور دیوتا کرتن اور دیوی رادھا کی کہانی راس کی صورت میں سدیوں سے اسٹیج کی جاتی رہی ہے۔ ان کے علاوہ عظیم ڈراما نگار کالی داس کے ڈرامے شکنتلا کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ مسلم حکمران واجد علی شاہ نے نہ صرف ریس کو نیا پن دیا ، بلکہ ۱۸۴۳ء میں پہلا ڈراما بھی لکھا، جس کا موضوع رادھا اور کرشن کی محبت تھا۔ ۱۸۵۲ء میں امانت لکھنوی نے ڈراما اندر سجا لکھا ، جس میں دیوتا اندر کو مغل بادشاہ کے طرز پر دکھایا گیا۔
اس کے بعد بنگال میں ذرات کی ابتدا ہوئی۔ جب بمبئی اور باقی ہندوستان میں تھیز یکل کمپنیوں نے شہر شہر گھوم پھر کر ڈرامے دکھانے کو رواج دیا، تو کر یا جدید ڈراما نگاری کا آغاز ہوا۔ اس دور میں آرام، رونق ، ظریف ، احسن اور طالب لکھنوی جسے ڈراما نگاروں نے بہت کام کیا۔ ان کے بعد آغا حشر کا دور آتا ہے۔ اس تمام عرصے میں اردوڈراما نگاری: بناوٹی نہ بان. گانوں کی بھر مار ، شاعرانہ بیانات اور یکسانیت سے نکل کر ایک بہتر صورت اختیار کر چکی تھی ۔
اس دور کے تمام ڈراموں پر شکنتا، رام لیلا اور ریس کے علاوہ انگریزی ڈراموں، بھانڈوں، مسخروں اور نقالوں کے فن اور عشقیہ نظموں کے اثرات بہت گہرے تھے ۔ ناصحانہ انداز اور اخلاقی درس مشق و محبت، گانے ، یکسانیت، غیر معیاری ظرافت و مزاح ، شاعرانہ زبان اور مثالی کردار نگاری اس دور کے ڈراموں کی عام خصوصیات تھیں ۔ اردو کے مشہور ڈرامہ نگاروں میں امتیاز علی تاج ، سعادت حسن منٹو، میرزا ادیب، کمال احمد رضوی، امجد اسلام امجد، اشفاق احمد اور اصغر ندیم سید وغیرہ شامل ہیں ۔ ۱۹۳۷ ء تے ریڈیو اور ۱۹۹۴ سے ٹی وی نے ڈراما نگاری کے فن کو ایک نیا موڑ دیا۔
0 Comments