فکر اقبال کے تخلیقی ادوار||علامہ اقبال کی شاعری کے ادوار

فکر اقبال کے تخلیقی ادوار||علامہ اقبال کی شاعری کے ادوار

 فکر اقبال کے تخلیقی ادوار

1908ء سے 1912ء


انگلستان سے واپس آکر کاروباری مصروفیات اور اپنے نجی مسائل کی پریشانیوں کے باوجود اقبال نے ان قومی مقاصد کی خاطر فکری و عملی پیش رفت جاری رکھی جنہیں وہ اپنا نصب العین قرار دے چکے تھے ۔ اس دور میں نثری مقالات انگریزی میں لکھے گئے اور شعری اظہار وقفے وقفے سے لیکن زیادہ تر اردو میں ہوتا رہا۔ مقالات میں "Islam As a Moral and Political ideal"

ہندوستان ریویو جولائی۔ دسمبر 1909ء میں چھپا۔ 

دسمبر 1910ء میں اقبال نے علی گڑھ کے اسٹر بیچی ہال میں ایک خطبہ بعنوان - The Muslim Community" A Sociological Study دیا اس کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر“ کے عنوان سے کیا تھا۔ اس سلسلے کا تیسر امضمون Political thoughts in Islam ہندوستان ریویو ( 1910ء) میں چھپا۔

اقبال اس زمانے میں (اپریل 1910 ء تا چند ماہ بعد ) بیاض کے طور پر "Stray Reflections" کے عنوان سے اپنے ذہنی تاثرات انگریزی میں رقم کرتے رہے جو ان کے ذہنی ارتقا کے مطالعے کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ علاوہ ازیں وہ خطوط بھی قابل ذکر ہیں جو نجی احساسات کے ضمن میں میں عطیہ کو اور فکری احساسات کے ماتحت اکبرالہ آبادی کو لکھے گئے ۔ شعری تخلیق کے سلسلے میں یورپ سے واپسی سفر کے دوران میں بخیر روم سے گزرتے ہوئے جو تاثرات اقبال کے ذہن میں ابھرے، وہ نظم "صقلیہ (جزیر وسلی ) میں منعکس ہیں۔ احیائے ملی کے لئے مسلمانوں کے تاریخی ورثے اور آثار کو اقبال ایک خاص فکری و جذہ باقی زاویے سے دیکھنے لگے تھے کیونکہ ماضی کی عظیم الشان روایت سے ذہنی وقلبی رابطہ قائم کر کے ہی افراد ملت میں خود اعتمادی کا احساس پیدا ہو سکتا تھا جو مستقبل کی تعمیر کے لئے ان کے نزدیک از بس ضروری تھا۔

1911ء میں طرابلس الغرب (لیبیا) پر اٹلی نے حملہ کیا۔ چند ترک جرنیل (انور ہے، مصطفی کمال وغیرہ) بدقت تمام وہاں پہنچے اور عرب قبائل کو منظم کر کے دفاعی جنگ لڑنے لگے ۔ 1912ء میں بلقانی ریاستوں نے متحدہ محاذ بنا کر یورپی طاقتوں کی ایماء سے عثمانی سلطنت کے قلب پر حملہ کر دیا اور یلغار کر کے اور نہ پر قبضہ کر لیا۔ یہ پے در پے سانحات عالم اسلام کو تڑپا گئے ۔ اقبال نے بھی ملت اسلامیہ کے اس در دو نم کو شدت سے محسوس کیا۔ اس ہیجانی دور میں ان کی اردو شاعری اس درد و غم سے لبریز ہوگئی ۔یہ نظمیں قومی مجالس میں پڑھی گئیں اور اخباروں اور کتا بچوں میں شائع ہوئیں شکوہ اپریل 1911ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھا گیا۔ اگلے سال (1912ء میں ) " جواب شکوہ باغ بیرونی موچی دروازہ کے ایک جلسہ عام میں سنایا گیا ۔

 " عندلیب حجاز کی نذر ( حضور رسالت پناہی میں ) شاہی مسجد لاہور کے ایک جلسے میں پڑھی گئی ۔ گورستان شاہی ، غرہ شوال ، فاطمہ بنت عبداللہ معاصر ادرنہ نوید صبح شمع و شاعر، یہ ہمیں بھی اسی دوران میں لکھیں گئیں۔ آخرالذکر نظم انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں 16 اپریل 1912ء کوسائی گئی۔ یہ نظمیں قومی سوز و درد سے لبریز ہیں۔ فکر انگیز پیغام کے ساتھ ساتھ امید دور جا کی روشنی بھی ان میں موجود ہے۔ ان نعلموں کے ذریعے سے اقبال شاعرمت کی حیثیت سے بر صغیر کے خاص و عام میں مقبول ہو گئے۔  

بیجانی دور کی ان مقبول عام تخلیقات سے قطع نظر اقبال اس زمانے میں تنہائی کے شدید احساس میں جتنا نظر آتے ہیں حقیقت میں اسے ہم فکری کرب کا ایک ایسا عبوری دور کہہ سکتے ہیں جس میں ہجوم افکار اقبال کے قلب و ذہن میں ایک طوفان کی طرح اٹھ رہا تھا لیکن اسے منضبط ومربوط انداز میں اظہار کی صورت نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ 1910ء کی تحریر کردہ "Stray Reflections" میں افکار پریشان کی چند لہریں اپنی جھلک دکھاتی نظر آتی ہیں۔ انہی لہروں میں اقبال کے فلسفہ حیات خودی" کے ابتدائی نقوش بھی ملتے ہیں لیکن خودی کے بجائے " شخصیت" کے عنوان سے۔ اس شخصیت کی جھلک آپ بھی دیکھتے چلئے تا کہ آگے چل کر اقبال کے " تصور خودی کو سمجھنے میں مدد ملے:۔

شخصیت کی بقا کوئی کیفیت نہیں بلکہ ایک طریق عمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ روح بدن کی تفریق نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کئی مذہبی نظام اسی باطل تفریق پر مبنی ہیں ۔ انسان اصلا ایک توانائی ، ایک قوت یا قوتوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے عناصر کی ترتیب میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ ان قوتوں کی ایک مخصوص ترتیب کا نام شخصیت ہے۔ 

شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے۔ لہذا اس کو خیر مطلق قرار دینا چاہیے اور اپنے تمام اعمال کی قدر و قیمت کو اسی معیار پر پر کھنا چاہیے۔ خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار کے اور نا خوب وہ ہے جو شخصیت کو دبائے اور بالآ خراسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو۔ اگر ہم وہ طرز زندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے تو دراصل ہم موت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ موت جس کی ضرب سے ہماری شخصیت کی اندرونی قوتوں کی ترتیب گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ پس شخصیت کی بقا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے حصول کے لئے جدو جہد ضروری ہے۔

فکر اقبال کا تخلیقی دور (اسرار در موز کی منزل 1912-1918ء)

اقبال کی فارسی مثنویاں اسرار خودی اور رموز بے خودی اس دور میں تخلیق ہوئیں ۔ ان دونوں تالیفات میں اقبال نے اپنے بنیادی افکار پیش کیے ہیں۔ اسرار خودی کی تخلیق کا آغاز 1911ء میں ہو چکا تھا۔ بیگم عطیہ کے نام ایک خط میں اقبال نے اس کی شان نزول یہ بتائی ہے۔ قبلہ والد صاحب نے فرمائش کی ہے کہ حضرت بو علی قلندر کی مثنوی کی طرز پر ایک فارسی مثنوی لکھوں ۔ اس راہ کی مشکلات کے باوجود میں نے کام شروع کر دیا ہے 56 یہ امر قابل ذکر ہے حضرت بوعلی قلندر کی مثنوی مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی معنوی کی پیروی میں لکھی گئی تھی اور مولانا روم نے خواجہ فرید الدین عطار کی مثنوی منطق الطیر سے متاثر ہو کر اپنی مثنوی کا آغاز کیا تھا۔ 

اسرار خودی کے تخلیقی محرک کے سلسلے میں اقبال 18 اکتو بر1915ء کو اکبرالہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔ مذ ہب بغیر قوت کے محض ایک فلسفہ ہے ۔ یہ نہایت صحیح مسئلہ ہے اور حقیقت میں مثنوی لکھنے کے لئے یہی خیال محرک ہوا۔ میں گذشتہ دس سال سیاسی پیچ و تاب میں ہوں ۔

تخلیق کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے چند سال تک جاری رہا۔ 1914ء میں اس کا بیشتر حصہ لکھا جا چکا تھا۔ اس سال انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے زیر تالیف مثنوی سے بعض مقامات پڑھ کر سنائے۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط (مورخہ 7 مارچ 1914ء) میں اقبال لکھتے ہیں۔ فارسی مثنوی کے اشعار ساتھ ساتھ ہور ہے ہیں۔ اس مثنوی کو میں اپنی زندگی کا مقصد تصور کرتا ہوں ۔ میں مرجاؤں گا، یہ زندہ رہنے والی چیز ہے 10 مولانا غلام قادر گرامی کے نام ایک خط (مورخہ 13 جولائی 1914ء) میں لکھتے ہیں: گذشتہ سال ایک بھنوی) فاری لکھنی شروع کی تھی، ہنوز ختم نہیں ہوئی۔ اس کے انتقام کی امید بھی نہیں۔ 

خیالات کے اعتبار سے مشرق اور مغربی لٹریچر میں یہی شوی بالکل نئی ہے- 23 نومبر 1914، گوشاد کے نام ایک خط میں مثنوی کے اختتام کی اطلاع دی گئی ہے : ہاں فارسی مثنوی ختم ہو گئی ہے۔ مطمئن ہو جاؤں تو اس کے چھپوانے کی فکر کروں۔ ایسی ہی اطلاع گرامی کو 18 جنوری 1915ء کے خط میں دی گئی ہے 52 اور خواجہ سرا نتظامی کو 6 فروری 1915ء کے خط میں اس مثنوی کے لئے کوئی موزوں ساعنوان تجویز کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

مختلف احباب سے مشورے کے بعد آخر اس مثنوی ک نام اسرار خودی طے پاتا ہے اور یہ معنوی تمبر 1915ء کے دوسرے پلتے میں چھپ کر منظر عام پر آجاتی ہے۔

اسرار خودی کی اشاعت کے بعد مخالف اور موافق بحث کا ایک سلسلہ چل نگار ۔ مخالفانہ بحث مثنوی کے اصل موضوع کی بجائے تمہید کے ان اشعار سے شروع ہوئی جن میں اقبال نے حافظ شیرازی کے مسلک اور افلاطون کے نظریے پر تنقید کرتے ہوئے مجھی تصوف پر اعتراض کیا تھا۔ خواجہ حسن نظامی سمیت صوفیوں کے ایک گروہ نے اسے تصوف پر حملہ تصور کیا۔ اقبال نے خود بھی اس قلمی مباحثے میں حصہ لیا اور خودی کے بارے میں اپنے نقطہ نظر اور تصوف کے مسئلے پر اپنے موقف کی وضاحت کی ۔ وکیل امرتسر میں ان کے یہ مضامین شائع ہوئے " اسرار خودی اور تصوف : (15 جنوری 1916ء ) " سر اسرار خودی" (9 فروری 1916ء) علم ظاہر وظلم باطن " ( 28 جون 1916 ء) " تصوف وجود یہ (13 دسمبر 1916ء ) ان کا ارادہ تصوف کی تاریخ لکھنے کا بھی تھا تا کہ وہ حقیقی اسلامی تصوف اور تصوف وجود یہ ( جس کا ان کے نزدیک اسلام سے قطعا کوئی علاقہ نہیں ) کا فرق واضح کر سکیں لیکن عدیم الفرصتی اور علالت کی وجہ سے وہ اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے ۔

اسرار خودی" کے نزول کے بارے میں اقبال نے اپنی ذہنی کیفیت کا نقشہ شاد کے نام ایک خط ( مورحہ 14 اپریل 1916 ء میں پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مثنوی ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے اور اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اس کا دوسرا حصہ بھی لکھا جائے گا۔ اقبال کو اس امر کا اندازہ تھا کہ اس کی مخالفت بھی ہوئی زوال اور انحطاط کا شکار ہونے والی قوم اپنے تباہ و برباد کرنے والے اسباب کو اپنے حق میں بہتر خیال کرتی ہے مگر من نوائے شاعر فر داشتم اور :

 نا امید استم زیاران قدیم

طور من سوزد که می آید کلیم

لیکن مخالفت اس مثنوی کے اثرات کو ختم نہیں کر سکے گی۔ اس بحث و تمحیص کے ساتھ ساتھ 1916ء میں مثنوی کے دوسرے حصہ " رموز بیخودی کی تخلیق کا سلسلہ جاری تھا۔ اقبال اپنی ذہنی و جذباتی کیفیات کے سلسلے میں نیاز الدین خاں کے نام ایک خط ( مورخہ 2 مارچ 1917ء) میں لکھتے ہیں:

میں لاہور کے ہجوم میں رہتا ہوں مگر زندگی تنہائی کی بسر کرتا ہوں ۔ مشاغل ضروری سے فارغ ہوا تو قرآن یا عالم تخیل میں قرون اولی کی سیر۔ مگر خیال کیجئے جس زمانے کا تخیل اس قدر حسین و جمیل وروح افزا ہے دوزمانہ خود کیسا ہوگا۔

خوشا وہ عہد کہ یثرب مقام تھا اس کا

خوشا وہ روز کہ دیدار عام تھا اس کا

مثنوی کا دوسرا حصہ جس کا نام " رموز بے خودی' ہوگا۔ انشاء اللہ اس سال کے ختم ہونے سے بیشتر ختم ہو جائے گا ۔ 

1917 ء میں بھی اقبال دوسرے حصے کی تکمیل میں مصروف رہے۔ مختلف اصحاب کے نام خطوط میں اس تخلیقی کاوش کا تذکر و ماتا ہے جو اقبال کی ذہنی سرگذشت اور ان کے افکار کے سلسلے میں اہم ہے۔ نیاز الدین خان کے نام 27 جون 1917ء کو ایک خط میں رقم

طراز ہیں: 

رموز بیخودی کو میں اپنے خیال میں ختم کر چکا تھا مگر پرسوں معلوم ہوا کہ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ ترتیب مضامین کرتے وقت یہ بات ذہن میں آئی کہ ابھی دو تین ضروری مضامین باقی ہیں۔ یعنی قرآن اور بیت الی کا مفہوم و مقصود حیات ملیہ اسلامیہ میں کیا ہے۔ ان مضامین کے لکھ چکنے کے بعد اس حصہ مثنوی کو ختم سمجھنا چاہیے مگر ایسے ایسے مطال ذہن میں آئے ہیں کہ خود مسلمانوں کے لئے موجب حیرت و مسرت ہوں گے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ملت اسلامیہ کا فلسفہ اس صورت میں اس سے۔

 اس سے پہلے کبھی اسلامی جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ نئے سکول کے مسلمانوں کو معلوم ہوگا کہ یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے وہ محض بودے اور ست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف پیجڑا ہے۔ قومیت کے اصول حقہ صرف اسلام نے ہی بتائے ہیں جن کی پچھلی اور پائیداری مر در ایام واعصار سے متاثر نہیں ہو سکتی گرامی کے نام کیم جولائی 1917ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں۔ 

دوسراحصہ قریب الاختتام ہے مگر اب تیسر ا حصہ ذہن میں آرہا ہے اور مضامین دریا کی طرح انڈے آ رہے ہیں اور حیران ہورہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصے کا مضمون ہوگا ۔ " حیات مستقبلہ اسلامیہ میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف و واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا ی خیلی علم مجھ کو عطا کیا ہے ۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مہینوں بلکہ پر ہوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصے کے بعد مندرجہ بالا تیجے پر پہنچا ہوں مگراس کا لکھنا آسان نہیں۔

نیاز الدین خاں کو 4 نومبر 1917ء کے خط میں لکھتے ہیں : دوسرے حصے کے مضامین سے پہلے حصے پر کافی روشنی پڑے گی اور بہت کی تشریحات جو پہلے حصے کے اشعار کی کی رہی ہے اشور بخو د غلط ہو جائے گی ۔ اسلامی نیشنلزم کی حقیقت اس سے واضح ہوگی اور یہ کہنے میں کوئی مبالغہ یا خودستائی نہیں کہ اس رنگ کی کوئی نظم یا ٹر اسلامی لٹریچر میں آج تک نہیں لکھی گئی نومبر 1917ء کے آخر میں رموز بیخودی انتقام کو پنچی ۔ 27 نومبر کو اقبال اس امر کی اطلاع نیز الدین کو دیتے ہیں 27 دسمبر کی یہ اطلاع بھی قابل ذکر ہے " مثنوی کل سنسر کے محکمے سے واپس آگئی ہے ۔ انشاء اللہ آج کا تب کے حوالے کی جائے گی ۔ 

اپریل 1918ء میں رموز بیخودی چھپ کر منظر عام پر آجاتی ہے اور اس کے فورا بعد اسرار خودی کا دوسرا ایڈیشن تیار کیا جاتا ہے اور اس میں حافظ شیرازی کے بارے میں اشعار خارج کر کئے اور حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ" کے عنوان سے نئے اشعار شامل کیے جاتے ہیں۔ اس طرح اسرار در موز کی یہ منزل تحمیل کو پہنچتی ہے۔

 اسرار خودی اور رموز بیخودی اقبال کے بنیادی فلسفہ حیات کی ترجمان ہیں۔ ان کا باقی کلام اس کی توضیح و تفسیر کہا جا سکتا ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان تخلیقات کا شخص پیش کر دیا جائے مختصر اور آسان ترین لفظوں میں خودی کا مطلب ہے خود کو پہچانا اور پہچان کر عمل اور محنت کے ذریعے سے بڑے مقاصد کی تکمیل کرنا۔ فرد اپنی خوری (شخصیت) کی تعمیر کے بعد اپنے آپ کو اجتماعی مقاصد کے لیے وقف کر دیتا ہے اور اپنی خودی کوملت کی اجتماعی خودی میں نم کر دیتا ہے ( اس مرحلے کو اقبال بے خودی قرار دیتے ہیں ) فرد اور جماعت کا یہ رابطہ بالکل فطری اور ایک دوسرے کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس رابطے سے ایسا مثالی معاشرہ جنم لیتا ہے جو سرتا پا احکام الہی کا پابند ہوکر نیابت الہی کا شرف حاصل کرتا ہے۔ اسرار اور رموز کے ان دونوں مرحولوں کے چند مدارج اور لوازم فکر اقبال کے مطابق یہ ہیں۔

اقبال اسرار خودی میں بتاتے ہیں کہ نظام عالم کا منبع وسر چشمہ خودی ہے۔ تمام مظاہر کائنات میں خودی کی شان جلوہ گر ہے۔ گویا یہ جہان رنگ و بوخدا کی خودی مطلق نے تخلیق کیے ہیں۔ اپنا اظہار خودی کی فطرت ہے اور وہ تخلیق کے لیے بیتاب ہے ۔ وہ اپنے اثبات کے لئے نئے نئے پیکر بناتی رہتی ہے۔ خودی مقاصد کے ہونے اور پیدا کرنے پر موقوف ہے۔ زندگی مدعا اور مقصد سے قائم ہے۔ زندگی کا راز جو میں ہے اور جتجو آرزو کے اندر جم لیتی ہے۔ ہم انہی آرزوؤں کی بدولت زندہ ہیں ۔ آرزوؤں کے پیدا ہونے اور ان کے لئے سرگرم ہونے ہی میں زندگی ہے:

 ماز تخلیق مقاصد زنده ایم

  از شعاع آرزو تا بنده ایم 

اس عمل میں غیر خود سے اس کی آویزش ہوتی ہے۔ لذت پرکار سے خود کو جا ملتی ہے۔ زندگی اور وجود کاتسلسل خودی کے استحکام پر منحصر ہے۔ اس لیے قوت خودی کی لازمی صفت ہے۔ خودی عشق سے متظلم اور سوال کرنے سے ضعیف ہوتی ہے۔ امی خودی کا فلسفہ معلوم قوموں کی اختراع ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے سے غالب قوم کو کمزور کر سکیں ۔ اقبال نے اس لئے افلاطون کے فلسفہ اعیان کو مسلک گوسفندی قرار دیا ہے کیونکہ وہ وجود کو حقیقی ہیں مانتا بلکہ اس کو کس عکس قرار دیتا ہے۔ حافظ بھی اپنے دلکش کلام کے ذریعے سے تلخ حقائق سے گریز اور عزلت نشینی و سکر و مستی کی راہ بتاتا ہے۔

ان مباحث کے بعد اقبال نے تربیت خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں۔ 1- اطاعت 2 عبدالنکس 3 نیابت الہی۔ اقبال کے نزدیک کچی آزادی، اطاعت یعنی پابندی فرائض سے پیدا ہوتی ہے۔ مسلمان کے لئے آئین مصطفے کی اطاعت مدارج ترقی کی طرف پہلا قدم ہے۔ پھر ضبط نفس ہے۔ ضبط سے مراد زندگی کی ترغیبات میں نفس اور خواہش کو قابو میں رکھنا ہے۔ خوف دنیا ، جب دنیا دونوں کی باگ ایمان کے ہاتھ میں ہو اور یہ مرحلہ اسلام کے احکام (توحیدو رسالت پر ایمان کے بعد نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ ) پر عمل سے عمل ہوتا ہے۔ انسان جب اپنی خواہشات نفس کو ایمان کے تابع کر لیتا ہے تو پھر اسے وہ کمال اور طاقت مل سکتی ہے جو اسے حکمرانی کے لائق بنائے ۔ ایسا ہی انسان نائب حق کہلانے کاحق دار ہے۔

 فرد کی خودی کو اپنے خول میں جاگزیں ہونے کے بعد ماحول سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہیں سے نیچر اور باقی افراد جماعت سے ایک خاص قسم کے رابطے کی ابتدا ہوتی ہے۔ فرد کواپنے علاوہ دوسروں کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ اپنے ماحول سے تو افق پیدا کرے۔ وہ ماحول سے پیار بھی کرتا ہے۔ خودی جماعت کے لئے خود کی قربانی پر آمادہ ہو جاتی ہے مگر اس قربانی سے اسے کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ اگر وہ پہلے ایک برگ گل تھی تو اس قربانی کے بعد چمن بن جاتی ہے ۔ 

اقبال نے فرد اور ملت کے باہمی ربط کی جس منطقی انداز میں صراحت کی ہے، اس سے فلسفہ خودی و بے خودی کے درمیان کامل ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ فرد کا وقار اور ذوق اور نمونہ کا رہین منت ہے اور ملت بھی اپنے نظم با ہمی کے لئے افراد کی محتاج ہے۔ فرد کا جماعت میں گم ہو جانا قطرے کا سمندر ہو جاتا ہے لیکن ملت کی یہ شیراز و بندی خود بخود محکم نہیں ہوتی ۔ انسان محفل ہستی میں طرح طرح کے اندیشے لے کر داخل ہوتا ہے اور فرد اور جماعت کا یہ ربط باہمی آسانی سے نہیں ہو جاتا۔ اس ربط کو آسان بنانے کے لئے خدا کسی صاحب دل ( نبی ) کو مبعوث کرتا ہے جس کا دل ان اندیشوں سے پاک ہوتاہے یہ فر خاص الخاص (نبی) پھر افراد میں ربط پیدا کرتاہے اور دلوں کو ان اندیشوں سے پاک کر دیتا ہے جو عام افراد کو منتشر رکھتے ہیں۔۔

اقبال کے نزدیک ملت کے احساس کی تقویت کا انحصا روایت ملت کے تحفظ پر ہے ملی روایات کا سرمایہ تاریخ ہے وہ اقوام پر لت کے قتل اوران کے ان کا خیال کیتی میںاپنی تاریخ کبھی محصور رکھتی ہیں۔ اسے ان کی اجتماعی زندگی میں ربط و نظام پیدا ہوتا ہےاور ماضی کا حال ومستقبل سے پیوند قائم ہوتا ہے۔

 اقبال نے تمدن اسلامی کی تشکیل میں تو حید اور رسالت کو اساسی حیثیت دی ہے اور انہی دو ارکان پر ساری بحث کی بنیاد رکھی ہے عقیدو تو حید ر کھنے والی ملت اس وقت تک ملت نہیں بن سکتی جب تک اس کے افراد کے خیالات اور مقاصد میں وحدت پیدا نہیں ہو جاتی ۔ توحید کے معنی یہ بھی ہیں ۔ کہ غیر اللہ کا خوف دل سے نکال دیا جائے ۔ جو افراد یا اقوام غیر اللہ سے خائف ہوتی ہیں ان کے دل پر خوف حزن اور یاس جیسے امراض خبیثہ غالب آجاتے ہیں اور وہ اپنی خودی کھو بیٹھتی ہیں۔ سورۃ اخلاص میں هو الله احد اور الله الصمد کے یہی معنی ہیں ۔ اس کے ساتھ کسی اور کو ہمسرا در شریک بنانایا سمجھا بھی ملت کے احساس خودی کو نقصان پہنچاتا ہے۔

منصب رسالت و نبوت انسانی اجتماع میں ربط پیدا کرنے کے لئے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلے کے خاتم ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ اسلام میں آنے والے جملہ ادوار کے لئے ہدایات موجود ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تمام بنی نوع آدم کی اخوت ، مساوات اور آزادی ہے۔ اسلام رنگ ونسل کی تمیز اٹھا دیتا ہے اور ایک ایسی ملت کی تعمیر کرتا ہے جس کے قلب و ذہن اور فکر و جذبے میں کامل یک رنگی و یک جہتی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ملت اسلامیہ کی بنا کسی جغرافیائی خطے ( ولن یا علاقے) پر نہیں۔ اس کی بنیاد عقیدہ توحید ورسالت پر ہے اس کا آئین قرآن ہے، مرکز بیت الحرام اور نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل ۔ ان وجوہ سے اسلام مکان اور زماں دونوں کے لحاظ سے بے نیایت ہے یعنی کسی ایک زمانے تک محدود نہیں بلکہ ہمیشہ رہے گا اور کسی ایک قوم اور ملک سے وابستہ نہیں بلکہ مشرق و مغرب، اسود و احمر سب اس میں شامل ہیں۔

 قرآن ازلی و ابدی ضرورتوں کے لئے کافی ہے اور ہر زمانے کے حالات میں قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اجتہاد ضروری ہے مگر اجتہاد ہر کہ ومہ کا کام نہیں ۔ اجتہاد کرنے والا اتباع سیرت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کامل اور دین کے نفقہ میں اکمل ہوتا چاہیے۔ اگر یہ نہیں تو اجتہاد ملت کے انتشار کا باعث ہو گا اقبال فرماتے ہیں کہ زمانہ انحطاط میں تقلید اجتہاد سے بہتر ہے۔ لیکن اصولی طور پر فرد فرد ہے اور ملت افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ اس لئے ملت کے لئے لازم ہے کہ افراد کی فردیت کا احترام کرے اور اس کی انفرادی تحمیل کے راستے میں روڑے نہ لگائے۔ ایک اچھا فرد خود بخود ملت کے نظام کا ایک صحت مند جزو ہوتا ہے۔ اس لئے جہاں فرد لمت کے لئے اپنی فردیت کی کچھ قربانی کرتا ہے، وہاں ملت کو بھی فرد کی بنیادی آزادیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس طرح فردا پنی خودی کو بے خودی میں بدل سکتا ہے اور یہی بے خودی ملت کی خودی کی بنیاد بنتی ہے۔

 فکر اقبال کا تخلیقی دور (1918 - 1924 ء)

نومبر 1918ء میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی جرمنی اور اس کے حلیف ( آسٹریلیا تر کی ) شکست سے دوچار ہوئے۔ عثمانی سلطنت کی شکست وریخت کے ساتھ خلافت کا نشان خطرے میں پڑ گیا۔ برصغیر میں رولٹ ایکٹ کے نفاذ کے خلاف اور خلافت کی حمایت میں

تحریک شروع ہوئی۔ اس ہیجان انگیز دور میں اقبل اسرارو رموز کی تخلیق کے بعد گوئٹے کے دیوان شرقی و غربی کے جواب میں پیام مشرق لکھنے میں مصروف رہے۔

پیام مشرق فارسی کلام کے علاوہ اس دور میں دو طویل نظمیں " خضر راہ " اور " " " طلوع اسلام' اردو میں تخلیق ہوئیں جو عصری حالات اور اقبال کے شعری افکار کے لحاظ سے بہت اہم ہیں ۔ " خضر راہ 16 اپریل 1922ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پیش کی گئی ۔ اس میں جنگ عظیم اول کے بعد پیدا ہونے والے احوال و مسائل کا خضر کی زبانی حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا گیا ہے۔ طلوع اسلام 31 مارچ 1923ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی ۔ اگست 1922ء میں ترکوں نے مصطفے کمال پاشا کی قیادت میں یونانیوں کو شکست فاش دے کر سمرنا اور استنبول پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ نظم ترکوں کی اس فتح سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔

پیام مشرق" اپریل 1923 ء میں شائع ہوئی ۔ اگلے سال 1924ء میں" پیام مشرق کا دوسرا ایڈیشن اضافوں کے ساتھ مارچ میں اور اردو کلام کا پہلا مجموعہ " بانگ درا' تمبر میں شائع ہوئے۔ پیام مشرق اقبال کی فارسی میں تیسری مطبوعہ کتاب ہے جو بہت نازک عالمی حالات میں لکھی گئی دیباچے میں اقبال لکھتے ہیں : اقوام عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا صحیح انداز ہ ہم محض اس لئے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں۔ ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو تقریبا ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطری زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لئے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے"۔ 

 پیام مشرق کے چار حصے ہیں امیر امان اللہ خاں وائی افغانستان کے نام پیش کش " لالہ طور " کے عنوان سے پہلے حصے میں 163 رباعیات ہیں جن میں اقبال کے بنیادی افکار جذبہ عشق عظمت انسانی ، اخوت اسلامی شامل ہیں ۔ دوسراحصہ "افکار" کے عنوان سے اکاون چھوٹی بڑی نظموں پر مشتمل ہے۔ بعض نظموں میں بیت کے نئے تجربے کیے گئے ہیں ( فصل بہار، سرد انجم، کرمک شب تاب ، حدی نغمه ، ساربان مجاز شبنم تسخیر فطرت جوره ما این خدا ، دانسان ، ساقی نامه، کشمیر، خور شاعر بنفہ محمد اس حصے میں شامل ہیں۔

 آخرالذکر دو نظمیں گوئٹے کی نظموں کا آزاد ترجمہ ہیں ۔ تیسرے حصے میں " مئے باقی" کے عنوان سے غزلیات ہیں جو زیادہ تر رومی و حافظ کی زمین میں ہیں ۔ ان غزلوں میں رمزیت و ایمانیت کی کلاسیکی روایت کو بڑی خوبی سے برتا گیا ہے لیکن موضوعات میں بولی وسعت اور تنوع ہے۔ نے فلسفینہ انکار سے لے کر ملت کے سوز و در داور زوال امت کے اسباب پر جذبات و احساسات پیش کیے گئے ہیں۔ عثمانی سلطنت کے زوال کے ایسے پر کرب فلم کی کیفیت ملی ہے لیکن یاس و نومیدی کی کی بجائے رجائیت کا رنگ غالب ہے چوتھے حصے میں نقشِ فرنگ کے عنوان سے جو نظمیں شامل ہیں ان کا موضوع مغربی افکار سیاست اور اس سے وابستہ شخصیات ہیں ۔

شروع میں پیام کے عنوان سے ایک طویل ترکیب بند ہے جو گوئٹے کے جواب میں ہے اور اس میں مغرب سے خطاب ہے۔  

اس میں بڑی خود اعتمادی اور بے باکی سے مغرب کے نظام نظر عمل اور تمدن و سیاست کا تجزیہ کیا گیا ہے نقش فرنگ کا ایک موضوع سرمائے اور محنت کی آویزش ہے جس نے انقلاب روس (اکتوبر 1917ء) کے بعد مغرب کے نظام تمدن میں ایک نئی جہت اختیار کر لی تھی۔ بانگ درا، اردو مجموعہ کلام کے تین حصے ہیں ۔ پہلا حصہ 1905 ء تک کے منتخب کلام پر مشتمل ہے ۔ دوسرے حصے میں قیام یورپ (1905 - 1918ء) کے زمانے کا کلام ہے اور تیسرے حصے میں یورپ سے واپسی ( ستمبر 1908ء) کے بعد 1924 ء تک کا کلام شامل ہے ۔ یہ ترتیب اقبال کے پہنی ارتقا کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ ہر حصے میں پہلے نظمیں دی گئی ہیں اور بعد میں غزلیات ہیں۔بانگ درا کے آخر میں کچھ ظریفانہ کلام ہے جو اقبال نے اکبر الہ آبادی کے ظریفانہ اسلوب سے متاثر ہو کر چند برس پہلے کہا تھا۔

 اس زمانے میں بعض مقامی اشتراکیوں نے اقبال پر اشتراکیت کی تہمت لگائی ۔ اقبال نے ترجمان حقیقت کی حیثیت سے عالمی تمدنی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے پیام مشرق کی چند نظموں اور خضر کی زبانی سرمایہ ومحنت کی آویزش اور روس کے اشتراکی انقلاب کے حوالے سے مغربی نظام سیاست کے انجام پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا جسے غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی ۔ اقبال نے اس مکرو پرو پیگنڈے کافی الفور مسکت جواب دے کر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کر دی ۔ چونکہ یہ مسلہ ایک اہم عصری سیاسی ، معاشی نظام کے بارے میں اسلام دنیا کے موقف کا ہے، اس لئے اقبال کا قطعی بیان ہر قسم کے ابہام کو دور کرنے کے لئے کافی ہے۔ اقبال کے بیان کا متن یہ ہے۔

میں نے ابھی ایک دوست سے سنا ہے کہ کسی صاحب نے آپ کے اخبار میں یا کسی اور اخبار میں ( میں نے اخبار ابھی تک نہیں دیکھا ) میری طرف بولشو یک خیالات منسوب کیے ہیں ۔ چونکہ بولشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے، اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔ میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر منی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے۔ لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے جیسا کہ بولشویک تجویز کرتے ہیں ۔ 

قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لئے قانون میراث ، حرمت رہا اور زکوۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو محفوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے ۔ روی بولشوزم یورپ کی نا عاقبت اندیش اور خود فرض سرمایہ داروں کے خلاف ایک زبر دست رد عمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے مغرب کی سرمایہ داری اور روی بولشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارہ ذکر کیا ہے۔ شریعت حقہ اسلامیہ کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کر سکے اور اس مدعا کے حصول کے لئے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے ۔ اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم ہمارے لئے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی ۔ 

مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیاور نہان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی تحت ہے میرا عقیدہ ہے، فاصبحتم بنعمته اخوانا ، ( آل عمران، ترجمہ: اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ) میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ کسی قوم کے افراد صیح معنوں میں ایک دوسرے کے کے اخوان نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات گنہ رکھتے ہوں اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کا مقصور سرمایہ داری کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنا ہے۔

 یورپ اس کے س نکتے کو نظر انداز کر کے آج آلام و مصائب کا شکار ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام تو میں اپنے اپنے ممالک میں ایسے قوانین وضع کریں جن کا مقصود سرمائے کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ خود روی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے ۔ موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیا ہی محمود کیوں نہ ہو ۔ ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔

 فکر اقبال کا تخلیقی دور (1924 - 1930ء)

اقبال نے 1922ء میں ایک مضمون "The idea of Ijtehad in the law of Islam" لکھا جو حبیبیہ ہال لاہور میں ایک جلسے میں پڑھا گیا ۔ اس مضمون پر بعض حلقوں کی طرف سے سخت نکتہ چینی ہوئی ۔ اقبال نے مضمون کی اشاعت روک 79 لی اور اس مسئلے پر مزید غورو فکر کرنا اور علماء سے مشور ولینا شروع کیا۔ یہاں سے اقبال کی اس ذہنی سوچ کا آغاز ہوا جو چند سال بعد خطبات کی صورت میں سامنے آئی۔ 2 ستمبر 1925ء کے ایک محط میں اقبال اسلامی فقہ کی تشکیل نو اور قرآنی نقطہ نگاہ سے جدید مسائل زندگی پر تنقید کی ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے کہتے ہیں:

میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے " جو رس پروڈنس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ہدایت کو ثابت کرے گا۔ وہی اسلام کا مجد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب بڑا خادم بھی وہی شخص ہو گا ۔ قریباً تمام ممالک میں اس وقت مسلمان یا تو اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں یا قوانین اسلامیہ پر غور و فکر کر رہے ہیں (سوائے ایران و افغانستان کے نگران ممالک میں بھی امروز و فردا یہ سوال پیدا ہونے والا ہے) مگر افسوس ہے کہ زمانہ حال کے اسلامی فقہایا تو زمانے کے میلان طبیعت سے بالکل بے خبر ہیں یا قدامت پرستی میں مبتلا ہیں۔ ایران میں مجتہدین شیعہ کی تنگ نظری اور قدامت پرستی نے بہاء اللہ کو پیدا کیا جو سرے سے احکام قرآنی کا ہی مگر ہے ۔ ہندوستان میں عام منفی اس بات کے قائل ہیں کہ اجتہاد کے تمام دروازے بند ہیں ۔ میں نے ایک بہت بڑے عالم کو یہ کہتے سنا کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا نظیر ممکن ہے۔ غرض کہ یہ وقت عملی کام کا ہے کیونکہ میری رائے ناقص میں مذہب اسلام اس وقت گو یا زمانے کی کسوٹی پر کسا جارہا ہے اور شاید تاریخ اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔

ان احساسات کے ماتحت اقبال مسائل تمدن پر اسلامی نقطہ نگاہ سے غور و فکر کرتے رہے اور 1928ء میں تین خطبات لکھے گئے جو جنوری 1929ء میں مدارس میں دیئے گئے ۔ تین مزید خطبات 1929ء میں تیار ہوئے اور نومبر 1929 ء میں علی گڑھ میں دیئے گئے ۔ 1930ء میں یہ چھ انگریزی خطبات کتابی صورت میں شائع ہوئے ۔ ان خطبات کے مخاطب بقول اقبال زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے ۔

اقبال کی اس دور کی شعری تخلیق زبور جم " ہے جو 1927ء میں شائع ہوئی۔ یہ ایک لحاظ سے اہل مشرق کے لئے سوز و ساز اور لذت غم کی کیفیات سے بھر پور پیام حیات ہے۔ اپنی اس فاری تخلیق کا ذکر اقبال نے اپنے ایک اردو شعر میں یوں کیا ہے:

اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم 

فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں

 زبور عجم " کا تعارف اقبال ہی کے لفظ ا ہے : " اس کے چار حصے میں پہلے حصے میں انسان کا راز و نیاز خدا کے ساتھ۔ دوسرے حصے میں آدم کے آدم کے خیالات آدم کے متعلق طرز دونوں کی غزلیات کے موافق یعنی الگ الگ غزل نما ٹکڑے ہیں۔ تیسرے حصے میں مثنوی گلشن راز ( محمود شبستری) کے سوالوں کے جواب میں ہے ۔ اس کا نام میں نے مثنوی گلشن راز جدید تجویز کیا ہے۔ چوتھے حصے میں ایک مثنوی ہے جس کا نام میں نے بندگی نامہ تجویز کیا ہے۔ مثنوی کا مضمون یہ ہے کہ غلامی کا اثر فنون لطیفہ مثلا موسیقی و مصوری وغیرہ پر کیا ہوتا ہے۔ 

 اس زمانے میں بر صغیر کے سیاسی مسئلے کے حل کے لئے کوششیں ہو رہی تھیں۔ سائمن کمیشن کی سفارشات کے بعد لندن میں گول میز کانفرنسوں کا سلسلہ نومبر 1930 ء سے شروع ہو رہا تھا ۔ اقبال اس اہم سیاسی منظر میں دلچسپی لیتے ہیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد میں 29 دسمبر 1930ء کو اپنے صدارتی خطبے میں مسائل مصری کے حوالے سے قوم و وطن کے جدید تصورات کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے برصغیر میں اسلامی مملکت کے قیام کا تخیل پیش کرتے ہیں: 

میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے ، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے ، خواہ اس کے باہر مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی ۔

 فکر اقبال کا تخلیقی دور ( 1930 - 1934 ء ) 

زبور عجم کی اشاعت کے بعد جاوید نامہ کی تخلیق کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ مدارس سے واپسی کے بعد ایک خط میں سلطان ٹیپو شہید کے حوالے سے محمد جمیل بنگلوری کو لکھتے ہیں: سلطان شہید پر میری نظم اس کتاب کا حصہ ہوگی جسے میں اپنی زندگی کا ماحول بنانا چاہتا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں اس کے لیے آپ کو کافی انتظار کر تارڑے گا۔ میں نے اس کا ایک حصہ کچھ عرصہ ہو مرتب کیا تھا لیکن پھر ضروری مشاغل کی بنا پر اس کو نامکمل چھوڑ دینا پڑا ۔

1931ء میں جاوید نامہ مکمل ہوئی اور کتابت و طباعت کے بعد فروری 1932 ء میں شائع ہو گئی۔ دوسری گول میز کا نفرنس کے موقع پر 4 نومبر 1931ء کو انڈر یا سوسائٹی کے ایک جلسے میں اقبال نے زیر تلی ”جاوید نامہ کا تعارت یوں کرایا:

 یہ حقیقت میں ایشا کی ڈیوائن کا میڈی ہے جیسے دانتے کی تصنیف یورپ کی ڈیوائن کا میڈی ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف ستاروں کی سیر کرتا ہے اور اس میں مختلف مشاہیر کی روحوں سے باتیں ہوتی ہیں ۔ پھر جنت میں جاتا ہے اور آخر میں خدا کے سامنے پہنچتا ہے۔ اس تصنیف میں دور حاضر کے تمام جماعتی ، اقتصادی ، مذہبی ، اخلاقی اور سیاسی مسائل زیر بحث آگئے ہیں۔ اس میں صرف دو شخصیتیں یورپ کی ہیں۔ اول گجر ، دوم منطشے ، باقی تمام شخصیتیں ایشیا کی ہیں دانتے نے اپنا رفیق سفر یا خضر طریق اور جل کو بنایاتھا۔ میرے رفیق سفر یا خضر طریق " مولانا روم ہیں ۔ 

 دوسری گول میز کانفرنس کے اختتام پر اقبال روم اور قاہرہ کی سیاحت کرتے ہوئے موتمر عالم اسلامی کے اجلاس ( بیت المقدس) میں شریک ہوئے ۔ فلسطین میں قیام کے دوران میں ان کے شعری وجدان نے ذوق و شوق ( اردو نظم ) تخلیق کی۔ تیسری گول میز کا نفرنس کے بعد فرانس اور اسپین کی سیاحت کی۔ اس سیاحت کے دوران میں چند اردو نظمیں تخلیق ہوئیں، جن میں شہرہ آفاق نظم " مسجد قرطبہ بھی شامل ہے۔ مسجد قرطبہ کی زیارت سے اقبال بے حد متاثر ہوئے تھے ۔ 

اکتوبر 1933 ء میں اقبال نے افغانستان کی سیاحت کے دوران میں اردو نظم افکار پریشاں حکیم سنائی کے مزار پر تخلیق کی ۔ واپسی کے بعد فارسی مثنوی ” مسافر تخلیق ہوئی جو 1934 ء میں شائع ہوئی ۔ " بال جبریل ( اردو مجموعہ ( 1934ء میں مرتب ہو کر جنوری 1935ء میں شائع ہوا۔

فکر اقبال کا تخلیقی دور (1935 - 1938ء)

مسلسل علالت کے باوجود حیات اقبال کے ان آخری ایام میں حضرت علامہ کا ذہنی وفکری ارتقا اور تخلیق شعر کا عمل جاری رہا۔ تیسری گول میز کانفرنس کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی نے انہیں رو ڈس لیکچرز کے لیے دعوت دی تھی جسے انہوں نے قبول کر لیا تھا اور خطبات کا موضوع زماں ومکاں فلسفہ اسلام کی تاریخ میں قرار پایا تھا۔ کچھ عرصہ ان لیکچرز کے لئے مطالعہ اور علماء سے تبادلہ خیال ہوتا رہا لیکن گلے کے بیٹھ جانے اور اہلیہ کے انتقال کے بعد یہ منصوبہ ادھورا چھوڑنا پڑا ۔ مطالعہ کتب بھی محدود ہو گیا ۔ " میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں ۔ اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی -

 تصنیف و تالیف کے لئے 1935 ء کا سال بھی اہم تھا ۔ قادیانی مسئلے پر پنڈت نہرو کے مضامین کے جواب میں طویل انگریزی مضامین لکھے گئے جو اس مسئلے پر قول فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ نثری مضامین کے علاوہ شعری تخلیقات بھی وجود میں آئیں ۔ ضرب کلیم، یعنی اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف (اردو مجموعہ جس کا نام پہلے صور اسرافیل سوچا گیا تھا ) اگست 1936ء میں شائع ہوا۔ اسی سال فارسی مثنوی پس چہ باید کروائے اقوام شرق تخلیق ہوئی اور نومبر 1936 ء میں " مع مسافر " شائع ہوئی۔

 یہ مثنویاں مختصر ہیں لیکن اقبال کے آخری عمر کے پختہ افکار اور گہری بصیرت کے لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ دینی وقرآنی حقائق کے اظہار اور مستقبل کے لئے علی جہت کو متعین کرنے کے سلسلے میں مثنوی پس چہ باید کرد اقبال کے پیام حیات کا نچوڑ ہے 1936ء ہی میں طویل اردو نظم " ابلیس کی مجلس شوری تخلیق ہوئی (مشمولہ ارمغان حجاز ) اس نظم میں بھی عصری حالت میں بین الاقوامی سیاسیات کا حکیمانہ جائزہ لیتے ہوئے اقبال نے بالواسطہ ملت اسلامیہ کو درس خود آگاہی دیا ہے۔ 

1937 اقبال کی تخلیقی زندگی کا آخری بھر پور سال تھا۔ وہ دائم المریض تھے صحت کے اعتبار سے انہیں آرام کی از بس ضرورت تھی۔ معالجوں نے لکھنے پڑھنے سے منع کر دیا تھا۔ لیکن قومی مستقبل کی فکر نے اقبال کو از حد مضطرب کر رکھا تھا۔ زندگی کا پیا نہ لبریز ہوتا نظر آرہا تھا۔ سفر آخرت سے پہلے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے ان کا دل تڑپ رہا تھا۔ معاملات ، جذبات اور افکار تربیتی بنیادوں پر ملے ہو رہے تھے ۔ تخلیقی فکر بھی جامعہ عمل پہن رہی تھی اور دیار حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے " ارمغان تجاز" ( آخری فارسی و اردو مجموعے ) کی تیاری ہو رہی تھی۔

قومی مستقبل کی تعمیر کے لئے گردو پیش کی سیاست سے لے کر عالم اسلام کی آزادی و اتحاد کے مسائل پر اقبال کا ذہن بڑی تیزی سے کام کر رہا تھا۔ بقول سید نذیر نیازی حضرت علامہ ایک زندہ انسان تھے ان کا فکری ارتقا تا دم مرگ جاری رہا۔ 

1937 - 1936 ء کے دوران میں اقبال نے قائد اعظم کے نام بہت سے خطوط لکھے تھے ۔ ایسے تیر و خطوط 1943ء میں تاکہ اعظم کے مقدمے کے ساتھ شائع ہوئے ۔ اقبال اور پاکستان کے عنوان والے یونٹ میں آپ ان کی کیفیت پڑھیں گے۔

Post a Comment

0 Comments