علامہ محمد اقبال کے خطوط||Allama Muhammad Iqbal K Maktoob

علامہ محمد اقبال کے خطوط

 علامہ محمد اقبال کے خطوط

نام محمد اقبال اور تخص اقبال تھا۔ 9 ۔ نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام شیخ نور مد تھا۔ اقبال نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مرے کانچ سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور مودودی میر حسن سے فیض حاصل کیا۔ ایف اے کرنے کے بعد لاہور چلے گئے۔ مزید قدیم کے لیے گورنمنٹ کائی میں داخلہ لیا۔ جہاں انھیں پروفیسر نامس آرنلڈ سے فیض یاب ہونے کا بھر پور موقع میسر آیا۔ ہی ادارے سے ایم اے کا امتحان بھی پاس کیا اور مہیں بحیثیت پروفیسر تدریسی فرائن انجام دینے گئے۔

 بعد ازاں اعلی تعلیم کی غرض سے ۱۹۰۵ء میں یورپ چلے گئے ۔ جہاں کیمبرج یونی ورسٹی سے بارایٹ لا اور میونخ یونی ورسٹی ، جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ۱۹۰۸ء میں وطن واپس لونے اور اپنی شاعری کے ذریعے ملک وقوم کی اصلاح اور خدمت میں مصروف ہو گئے ۔ ۱۹۳۰ء میں الہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہ صدارت ارشاد فرمایا ، جس میں مسلمانان ہند کے لیے ایک نئے اور الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۸ء کو وفات پائی اور شاہی مسجد کے پہلو میں دفن ہوئے۔

علامہ اقبال کے خطوط کے مجموعے:

شاد اقبال مرتبہ ڈا کر محی الدین زور

اقبال کے خطوط جناح کے نام مرتبہ حمید اللہ ہاشمی اقبال نامہ حصہ اول و دوم مرتبہ شیخ محمد عطا الله 

اقبال از عطیه بیگم مرتبه بشیر احمد ڈار

انواراقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار

 مکاتیبِ اقبال بنام گرامی مرتبه عبداللہ قریشی 

 خطوطِ اقبال مرتبہ رفیع الدین ہاشمی

مکتوبات اقبال بنام نذیر نیازی

کلیات مکاتیب اقبال مرتبه مظفر حسین برنی

علامہ اقبال کے مکاتیب کی خصوصیات

علامہ اقبال کو ہمیشہ شاعر ملت اور مکر کی حیثیت سے جانا اور پہنچانا گیا مگر ان کے خطوط کی طرف زیادہ نہ دی گئی۔ ان کی تقریظیں ، مقالات ریبانے اور بالخصوص خطوط بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ بقول رشید احمد صدیقی : اقبال صور زب شاعر نہ تھے ، دو شاعر کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے۔ بھی یہی ہے کہ اقبال کی نثری تحریریں ان کے افکار وخیالات کی برجستہ اظہار ہیں"۔

ان کے خطوط اذاتی احوال کے علاوہ بہت سے علمی اور فکری نکات کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔

علامہ اقبال کے مکتوب الیہم کا حلقہ اس قدر وسیع ہے کہ اس میں مہارا جاکشن پر شاہ سے لے کر ان کے ڈائی خادم ملی بخش تک بے شمار معاصر شخصیات در شه داد، دامین سیاسی رہنما اخبار نویس ، علما شعرا اور اہل خانقاد شامل ہیں۔

علامہ اقبال صرف اردو ہی میں خطا نہیں لکھتے تھے۔ ان کے بہت سے خطوط انگریزی میں بھی ہیں اور چند خطوط جرمن، عربی اور فارسی میں بھی ملتے ہیں ۔ وہ خط کا جواب لکھنے میں بڑے مستعد تھے، فورا جواب لکھتے ۔ بیماری اور معذوری کے زمانے میں دوسروں سے لکھواتے تھے۔ البتہ خط لکھنے میں ان کے ہاں کوئی خاص اہتمام یا تمنع نہیں تھا، سیدھے سادے الفاظ میں اپنا مطلب بیان کرتے تھے۔

ان کے خطوط کی عبارت بھی مونا بے تکلف ہوتی ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملے لکھتے ہیں ، جو اختصار اور جامعیت کے باعث بہت اہم ہیں ۔ بقول عبادت بریلوی علامہ اقبال اپنے بھی خطوط میں اس بات کا اظہار ضرور کرتے تھے کہ انہیں زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے گہری دل چھی ہے۔ وہ شعر و شاعری اظہار خیال بھی کرتے تھے اور علمی اعتبار سے استفادے کا خیال ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتاتھا۔"

اسلوب نگارش

علامہ اقبال کے انداز نگارش میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے۔ وہ آسمان اور سادہ زبان میں علمی اور فلسفیانہ مسائل پیش کرنے پر قادر تھے۔ ایسے موقع پر اد بیت ان کے انداز نثر میں پیدا نہیں ہوتی، البتہ ان کی تحریر کی سادگی اور روانی اس کو موڑ ضرور بنادیتی ہے۔

شخصیت کی عکاسی 

اقبال کا اسلوب نگارش اپنا ایک مخصوص انفرادیت رکھتا ہے، جوان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ ان کے کردار کی بھی تصویر اور ان کے خیالات و نظریات کا عکاس ہے ان کے ذہنی رجحانات کا پرتو ہے اور ان کی شخصیت ہی کی طرح جان دار اور پختہ ہے اس میں ونی رنگ و آینک نظر آتا ہے، جو ان کے ذہنی اور جذباتی تجربات میں نظر آتا ہے۔ اس کی بنیاد ان کے وہ خیالات ہیں، جو ان کی شخصیت کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں اور جنھوں نے اقبال کو ایک مفکر بھی بنایا ہے اور ایک فنکار بھی۔

 استدلالی انداز

اقبال نے جذباتی انداز کی نشر نہیں لکھی۔ ان کے نزدیک نثر ایک ایسا فن ہے، جس میں صرف جذباتی انداز سے کام نہیں چلتا، اس کو تو عقل و شعور کا دامن پکڑ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے اور یہی بات اس کو اپنے فنی حدود میں رکھتی ہے اور فن کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت اقبال نے اپنے اسلوب میں عقلی اور شعوری کیفیات کو پیش کرنے کی بھر پور اور کامیاب کوشش کی ہے۔ اس طرح اس میں خار کھاؤ پیدا ہو گیا ہے اور ایک سنبھلی ہوئی کیفیت نمایاں ہوئی ہے۔ اقبال کی نثر میں ایک والہانہ انداز کے ساتھ ساتھ استدلالی رکھ رکھاؤ اپنی انفرادیت کو نمایاں کرتا ہے۔

علامہ اقبال کے خطوط 

 حافظ محمد اسلم جیراج پوری کے نام ( متن ) :

لانور

۱۷ مئی ۱۹۱۹

مخدومی السلام علیکم !

آپ کا تبصرہ اسرار خودی پر الناظر میں دیکھا ہے، اس کے لیے میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں ۔

دیدمت مروے در یں قحط الرجال

خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے، ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویت شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا مگر عوام اس بار یک امتیاز کو جان سکے اورنتیجہ یہ ہو کہ اس پر پولیس نے اسے ہوئی ۔ اگر از بری اصول یہ ہو کہ حسن حسن ہے، خواہ اس کے بانی امید ہوں اور مارا تو وہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں۔ بہر حال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے اور ان کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے، جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔ عرفی کے اشارے سے محض اس کے بعض اشعار کی طرف تلمیح مقصود تھی ،مثلا:

گرفتم آنکہ بہشتم دہند بے طاعت

 قبول کر دنِ صدقه نہ شرط انصاف است

لیکن اس مقابلے سے میں خود مطمئن نہ تھا اور یہ ایک مزید جہان اشعار کو حذف کر دینے کی تھی۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے عملہ نہی کا باعث تھا، جیسا کہ مجھے بعض احباب کے خطوط سے اور دیگر تحریروں سے معلوم ہوا، جو دوتا فوقتا شائع ہوتی رہیں۔ کیمبرج کے پروفیسر نکلسن بھی اس خیال میں آپ کے ہم نوا ہیں کہ دیباچہ دوسرے ایڈیشن سے مذف نہ کرنا چاہیے تھا۔

 انھوں نے اس کا ترجمہ انگریزی میں کرایا ہے، شاید انگریزی ایڈیشن کے ساتھ شائع کرے۔ پیرزادہ منظر الدین صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا ۔ تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے اور یہی مفہوم قرون اولی میں اس کا لیا جاتا تھا، تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہاں ! جب تصوف فلسفہ بنے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے، تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔

  میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی ،مگر افسوس کہ مسالا نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا۔ پروفیسر نکلسن اسلامی شاعری اور تصوف کے نام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں، جو عنقریب شائع ہوگی۔ ممکن ہے کہ یہ کتاب ایک حد تک وہی کام کر دے ، جو میں کرنا چاہتا تھا۔ منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین، جس کا ذکر ابن حزم کی فہرست میں ہے، فرانس میں شائع ہو گیا ہے۔ مؤلف نے فریج زبان میں نہایت مفید حواشی اس پر لکھے ہیں، آپ کی نظر سے گزرا ہو؟۔

   حسین کے اصل معتقدات پر اس رسالے سے بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان منصور کی سزا دہی میں بالکل حق بجانب تھے۔ اس کے علاوہ ابن حزم نے کتاب الملل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے ، اس کی اس رسالے سے پوری تائید ہوتی ہے۔ لطف یہ کہ غیر صوفیہ قریباً سب کے سب منصور سے بیزار تھے ۔ معلوم نہیں متاخرین اس کے اس قدر دل دادہ کیوں ہو گئے ۔

    مذہب آفتاب پرستی کے متعلق جو تحقیقات حال میں ہو رہی ہے، اس سے امید ہوتی ہے کہ مجھی تصوف کے پوشیدہ مراسم کی اصلیت بہت جلد دنیا کو معلوم ہو جائے گی۔

مجھے امید ہے کہ اس طویل خط کے لیے آپ مجھے معاف فرما ئیں گے۔ آپ کے تبصرہ سے مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی ۔امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا ۔ والسلام

آپ کا مخلص

 محمد اقبال

علامہ اقبال کا خط غلام السیدین کے نام(متن)

ڈیر سیدین صاحب!اسلام علیکم

وہ بچوں کے لئے استانی کی ضرورت ہے جس پر میں انکی اخلاقی اور دینی تربیت کے لئے اعتبار کر سکوں۔

تہذیب نسواں میں اشتہار دیا تھا، جس کے جواب میں ایک خط علی گڑھ سے پھر آیا ہے۔ مہربانی کر کے اس خاتون کے متعلق حالات معلوم کر کے آگاہ کریں، چوں کہ بچوں کی والدہ کا گزشتہ مئی میں دفعتہ انتقال ہو گیا، اس واسطے گھر کا تمام انتظام بھی استانی صاحبہ کے سپر د ہوگا۔ ان کے فرائض مندرجہ ذیل ہوں گے

بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت اور نگہداشت لڑکا اسال کا ہے اسکول جاتا ہے۔ لڑکی 2 سال کی ہے۔

گھر کا انتظام اور نگہداشت ، اس سے میری مراد یہ ہے کہ سب گھر کا چارج انھیں کو دیا جائے گا اور زنان خانے کے

تمام اخراجات انھیں کے ہاتھ سے ہوں گے۔

مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں :

بیوہ اور بے اولاد ہو۔

عمر میں کسی قدر مسن ہو، تو بہتر ہے۔

کسی شریف گھر کی ہو، جوگردش زمانہ سے اس قسم کا کام کرنے پر مجبور ہوگئی ہو۔ 

دینی اور اخلاقی تعلیم دے سکتی ہو یعنی قرآن اور اردو پڑھا سکتی ہو۔ عربی اور فارسی بھی جانے تو اور بھی بہتر ہے۔

(۵) سینا پرونا وغیرہ بھی جانتی ہو۔

(1) کھانا پکانا جانتی ہو۔ اس سے میری مراد یہ نہیں کہ اس سے باورچی کا کام لیا جائے گا۔ غرض یہ کہ آپ خود باہر تعلیم ہیں اور میرے موجودہ حالات سے بھی باخبر ۔ مندرجہ بالا امور کوملحوظ رکھ کر حالات دریافت کیجیے۔

امید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا اور آپ سے پانی پت میں ملاقات ہوگی۔

محمد اقبال

۸ اکتوبر ۱۹۳۵ء

Post a Comment

0 Comments