ڈاکٹر عبادت بریلوی کا تعارف||ادب اور تہذیبی روایات از ڈاکٹر عبادت بریلوی
اردوادب کے معماروں میں ایک بڑا نام ڈاکٹر عبادت بریلوی کا ہے۔ وہ سو سے زائد کتابوں کے مصنف اور مرتب ہیں۔ انھوں نے ۱۹۴۰ء میں بی اے اور دو سال بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ ۱۹۴۷ء میں انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ اردو تقید کا ارتقا ، پی ایچ۔ ڈی کے مقالے کا موضوع تھا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ دہلی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد اور مینل کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے ۔ ۱۹۔ دسمبر ۱۹۹۸ء کو وفات پانی ۔ ان کی تصانیف میں غالب، اردو تنقید تا ارتقا ، جہان میں تنقید اور اصول تنقید ، اردو غزل کا ارتقاء، روایت کی اہمیت اور سفر نامہ یورپ بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ زیر نظر مضمون ان کی کتاب "روایت کی اہمیت سے لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی کا شمار امارے ان محققین اور ناقدین میں ہوتا ہے کہ جن کی علمی وفکری عرق ریزی کے باعث اردوادب عالمی کس پر اپنی سیت اور مقام بنانے میں کامیاب ہوا ۔ عبادت بریلوی کی نظر صیح معنوں میں علمی نثر ہے۔ سنجیدگی اور وقار ان کی تحریر کا بنیادی وصف ہے۔ ان کے تحریری کام کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان کی شخصیت کے تینوں پہلو یعنی بطور منتق، ناقد اور عالم کے گویا کچا ہو گئے ہیں۔ ادبی تنقید کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کا مزاج ترقی پسندانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں تاج کا مطالعہ ادب کے ایک نئے منظر نامے اور زاویے کو سامنے لاتا ہے۔
ادب اور تنہا ہی روایات (متن)
روایت کی اصلیت و حقیقت اور اس کے صحیح مفہوم کو ذہن نشیں کرنے کے لیے اس کا تجزیہ ضروری ہے۔ روایات ہر قیام اور ہر ملک کی زندگی کے ہر شعبے میں وقت کے ساتھ ساتھ صورت پذیر ہوتی رہتی ہیں ۔ انسانی زندگی میں کچھ ایسے طور طریقے دیکھائی قدریں کچھ ایسے تصورات، جن پر سب لوگ بنیادی طور پر متفق ہوں اور افراد جن کو اپنا آورزش یا آئیڈیل مان لیں، وہ روایات کہلاتی ہیں۔ تہنہ ہی اور پھر انھی کے مجموعے کا نام ہے اور یہ سب کسی قوم کے جغرافیائی حالات ، افتاری بانی رحمان اور اس کے پاتے ہوئے مختلف النوع ذہنی و جذباتی اثرات کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ہر قوم کی بڑائی اور برتری اس کی روایات ہی پر منحصر ہوتی ہے، اس کی پہلی ذہنی ، جز باتی اور تہذیبی بلندی کو اس پیمانے سے ناپا جاتا ہے؟ وہ تہذیب اور کلچر کا نچوڑ ہوتی ہیں۔
ادب انسانی زندگی کا ایک شعبہ ہے اورکسی قوم کے تہذیبی سرمائے میں سب سے زیادہ اہمیت اس کے ادب ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ کسی قوم کے عادات و اطوار افکار و خیالات، افتاد طبع اور رجحانات کاعکس اس کے ادب میں جس خوبی کے ساتھ نظر آتا ہے کسی اور چیز میں نہیں مل سکتا ۔
گویا ادب اس کی تمام خصوصیات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں کے دامن میں پرورش پائی ہوئی تمام روایات کی جھلک ادب میں دکھائی دیتی ہے اور ان تمام روایات ہی کے سہارے قوم کا ادب بھی اپنی روایات کی تعمیر کرتا ہے۔ یہ روایات کسی ایک مخصوص وقت میں تغیر نہیں ہوتیں، بلکہ زمانے کے ہاتھوں ان کا ضمیر انحصار بتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک مستقل صورت اختیار کرتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ادب میں ان کا مرتبہ وہی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، جو کسی عمارت میں ان ستونوں کا ہوتا ہے، جن کے سہارے اس عمارت کی بنیاد کھڑی ہوتی ہے۔
یہ روایات ادب میں بڑی ہی اہمیت رکھتی ہیں، کیوں کہ ادب کا مزاج، اس کے اصول ، طور طریقے اور مختلف رہ خانات اٹھی کے سہارے بنتے بگڑتے زندور ہے اور آگے جو سنتے ہیں ۔ ہر قوم اور ہر ملک کا اب ایک ناس قسم کی آب و ہوا ایک مخصوص طرح کے سماجی ماحول میں آنکھ کھوتا اور پرورش پاتا ہے، اس لیے جو روایات: ادب میں تعمیر ہوتی ہیں، ان سب کا ان حالات سے ہم آہنگ ہونا یقینی اور ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ادب کی روایات اس قوم کے مزاج ، افتاد طبع اور سائل حالات کے زیراثر پیدا شدہ مختلف رو حانات اسی آخوں میں پرورش پاتی ہیں اس لیے وہ اس کا ایک ایسا حصہ ہوا نہیں کہ جن کو کسی حال میں بھی ایک دوسرے سے بعد انہیں کیا جا سکتا۔ اگر کہ تم ان کو نظر انداز کردے اور اس ادب کو ان سے علیحدہ کر کے دیکھنے کی کوشش کرے، تو وہ اس ادب کی اصل روح کو نہ تو سمجھ سکتا ہے اور نہ اس کے ہاتھوں اس ادب میں کسی طرح کی ترقی ہو سکتی ہے، کیوں کہ ان روایات سے چشم پوشی کرنا صرف اس ادب کے مزاج ہی کو نظر انداز کر دینا نہیں ہے، بلکہ ان اصولوں کو بھی پس پشت ڈال دینا ہے، جو اس کی جان ہوتے ہیں۔
کوئی ادب بغیر مضبوط اور زندہ روایات کے زندہ نہیں رہ سکتا، چناں چہ ہر ادب کی بڑائی کا انسار بڑی حد تگ ، بلکہ پوری طرح انھی روایات کی مضبوطی اور جان دار ہونے پر ہوتا ہے۔ جس ادب میں روایات مضبوط نہیں ہوتیں ، وہ گویا ایک ایسی تصویر ہوتا ہے، جس کا کوئی پس منظر نہ ہو۔
یہ امرمسلم ہے اور بڑے سے بڑے ترقی پسند اور جدت پرست تک کا اس پر متفق ہونا لازمی اور یقینی ہے کہ ہر زمانے کی تہذیب اور تمدن خلا میں آگے نہیں بڑھتے ، بلکہ ان کو اپنے گزشتہ دور کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ہرنئی تہذیب کی بنیاد پرانی تہذیب پرتعمیر ہوتی ہے۔ مٹی سے تقی رسم نیا سے نیانیش مجبور ہے، اس بات کے لیے کہ اپی بنیادگر میلونوں پر استوار کرے۔ چنان پر میکل ہوتا ہے کہ زندگی میں چند بنیادی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو کسی وقت اور کسی سال میں بھی نظر انداز نہیں کیا نیا سکتا۔ اگر ان کا سہارا نہ لیا جائے اور شمع راد نہ بنایا جائے، تو ایک قدم بھی آگے بڑھنا مکن نہیں۔
دنیا کی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کر ڈالئے، زندگی کے ہر شعبے کی تاریخ پر نظر اپنے ماضی سے مددنہ لی ہو ان بنیادی باتوں سے استفادہ نہ کیا ہو ، جن کی حیثیت ابدی ہوا ان خیالات موقع راد نہ بنایا ہو، جن کا مرتبہ زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہوں ان قدروں کو نمونہ نہ بنایا ہو، جو اسلاف سے ان تک پہنچی ہوں ۔ ماضی کا رنگ چاہے۔ دوہ کتناہی ہلکا ہو، حال اور مستقبل میں ضرور ملے گا زندگی چاہے کتنی ہی تیز رفتاری سے آگے بڑھے لیکن اس سے اپنا دامن نہیں بچا سکتی۔
خیر تو مطلب یہ ہے کہ سماجی زندگی اور تہذیب وتمدن ماضی سے استفادہ کرنے کے لیے مجبور ہیں لیکن اس سے نیر مراد نہیں ہے کہ ماضی کی ہر بات اس کو پسند ہوتی ہے اور وہ اس کو اپنی آورش یا آئیڈیل سمجھ لیتی ہے، ایسا نہیں ہے۔ ماضی کی وہ باتیں : وہ خیالات ؛ وہ اصول ؛ وہ قدریں، جو امر ہوتے ہیں، جواہل ہوتے ہیں اور جن کو زمانہ کبھی قضا کی نیند نہیں سلا سکتا، اپنائی جاتی ہیں۔ اسلاف بنی نسلوں کے لیے اس قسم کے خیالات، اصول اور قدریں ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ ذہانت اور طبائی ان کا سہارا لے کر زندگی میں نت نئے گل کھلاتی ہے اور اس طرح زندگی اور اس کے تہذیب و تمدن کے قافلے کا ترقی و ارتقا کی شاہراہوں پر آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
ادب کا بھی یہی حال ہے، کیوں کہ وہ بھی یہ ہر حال انسانی زندگی اور تہذیب و تمدن سے متعلق ہے۔ اس کی پرورش کسی قوم کی مخصوص تہذیب و تمدن کے زیر سایہ ہوتی ہے۔ اس کے تمام رجحانات ہر زمانے کے مخصوص تاجی حالات کے سانچوں میں ڈھلتے ہیں۔ چناں چہ ہر زمانے میں تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی روایات تعمیر ہوتی ہیں اور ان کی تاریخ کا ایک سلسلہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ادب کی ان روایات میں مذہب وتمدن اور سماجی حالات کی بنیادی خصوصیات کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، کیوں کہ جیسا کہ کہا جا چکا ہے، ان کا خیر انھی سے اٹھتا ہے یہی ان کا میلا تیار کر کے ان و مستقل شکل دیتے ہیں اور انھی کے سہارے ہمیشہ ہمیشہ ان کی زندگی قائم و باقی رہتی ہے ان کا، جود اپنی جگہ پرائل ہوتا ہے۔
روایات کی تشکیل اور نشو نما اگر چہ ایک مخصوص تمدن : ایک مخصوص سماجی ماحول اور مخصوص طرح کے حالات کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ لیکن صورت پذیر ہو جانے کے بعد تہذیب و تمدن، سماجی ماحول اور حالات کی تبدیلیوں کا انحصار بھی کسی حد نیک ان روایات پر ہوتا ہے اور اب کی نشونما اور ترقی میں تویہ جوکام وہ کرتی ہیں اس کی اہمیت تو اپنی جگہ پرمسلم ہے۔ ادب بدلتے ہوئے حالات کی رفتار کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ارتقا اور ترقی کے راستے پر گامزن رہتا ہے ۔ روایات اس کو بیچ راستہ دکھاتی ہیں ۔ اس کے ایک ایک قدم اور اس کی ایک ایک جنبش پر ان کی نظر رہتی ہے۔ اگر وہ ذرابھی بہکتا ہے تو اسکو سنبھال لیتی ہیں؛ شعور پیدا کرنا ، روایات کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ اگر وہ ذرا بھی بھٹکتا ہے، تو اس کو فورا گم راہ ہونے سے روک لیتی ہیں، گویا ادب کو بے راہ روی سے بچانا اور اس میں احتیاط کا شعور پیدا کرنا،روایات کا سب سے بڑا مقصد ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ادب اور ان میں روایات پرستی کا اس حد تک پہنچ جانا ضروری اور محسن ہے کہ نئے تجربات کا کسی کو خیال ہی نہ پیدا ہو اور اس کے ارتقا کی راہیں مسدود ہو جائیں ۔ ایسا مناسب نہیں ہے۔ تجربہ ادب کی جان ہے، ادب کی تاریخ ہے، لیکن ایسے تجربات کی تاریخ، جو روایات سے منہ موڑ کر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھاتا ہو، بلکہ ان کے سائے میں آگے بڑھنا، جس کے نزدیک از بس ضروری ہو، جو ان کے ساتھ شیر و شکر ہو جانے کو اپنی اصلی اور حقیقی زندگی سمجھتا ہو۔
مرکزی خیال
اس سبق میں مصنف نے تہذیبی روایات اور ادب کے باہمی تعلق پر بحث کی ہے۔ روایات اور قدریں اگر چہ سماج میں آنے والی سیاسی ، سماجی ، معاشی اور ثقافتی تبدیلیوں کے باعث بدلتی رہتی ہیں لیکن کچھ قدریں اور روایات ایسی ہوتی ہیں کہ جن پر سماج کا اعتقاد بہت پختہ ہوتا ہے، وہ ان قدروں کی حفاظت کرتا ہے ، ان پر خود عمل کرتا ہے اور آنے والی نسلوں کو اس کی خوبیاں منتقل کر دیتا ہے۔ یہ اقتدار در اصل کسی سماج کا آئیڈیل ہوتی ہیں۔ ادب ان روایات کا امین ہوتا ہے ایسا ادب جو تہذیبی اقدار کو اپنے اند ر سمو لیتا ہے قومی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
خلاصه
اس مضمون میں مصنف نے اعلیٰ تہذیبی روایات کو انسنی تمدن کا لازمہ قرار دیا ہے کہ ایسی روایات اور اقدارنا صرف کسی قوم کا سرمایہ ہوتی ہیں، بلکہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں ۔ ادب زندگی ہی کا ایک شعبہ ہے، اس لیے وہ انسانی زندگی کی زندہ تہذیبی روایات سے منہ نہیں موڑ پاتا اور ان اقدار و روایات کو ایک قومی امانت سمجھتے ہوئے آئندہ نسلوں کو منتقل کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنی مخصوص اقدار و روایات سے کٹ کر تا دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاشرے کو اپنی روحانی ، ہماری ، سیاسی ، شیافتی اور مذہبی و اخلاقی روایات اور اقدار بہت عزیز ہوتی ہیں ۔
جو ادب اپنی روایات اور قدروں کو موضوع نہیں بناتا ، وہ گو یا خلا میں معلق رہتا ہے؛ اس کی کوئی شناخت بھی نہیں رہتی ۔ ہمارے بزرگوں نے جن قدروں کا تحفظ اپنی زندگیوں میں کیا ، ان کی حفاظت کا فریضہ ادب سرانجام دیتا ہے۔ تہذیب و تمدن ماضی سے استفادہ کرنے پر مجبور ہے کیوں کہ حال سے مستقبل کی طرف بڑھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ماضی کی زندہ روایات کے تسلسل سے شعور حاصل کیا جائے ۔ کوئی بھی تہد ہیں یا تمدنی تجربہ انسانی زندگی کو ماضی سے علیحد ہ کر کے نہیں کیا جا سکتا۔
ماضی کی روایات اور قدریں جہاں کسی معاشرے کے رہنے سہنے والے افراد کی رہنمائی کرتی ہیں، وہاں اعلیٰ ادب کی تمیر وترقی اور ارتقا میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں۔ معاشرے کے افراد صراط مستقیم سے ہٹیں یا ادب۔۔۔
یہ قدریں ان کی ایک ایک جنبش پر نظر رکھتی ہیں اور گمراہ نہیں ہونے دیتیں ۔ ادب میں احتیاط کا شعور پیدا کر نا روایات کا اولین مقصد ہوتا ہے۔
0 Comments