رپورتاژ کی تعریف ||رپورتاژ کیا ہے؟||رپورتاژ کا ارتقا

رپورتاژ کی تعریف ||رپورتاژ کیا ہے؟||رپورتاژ کا ارتقا

 رپورتاژ کی تعریف ||رپورتاژ کیا ہے؟||رپورتاژ کا ارتقا

ادب کی زیادہ تر قسمیں پرانی ہیں جو پرانے زمانے سے چلی آرہی ہیں مثلاً داستان، ڈراما ، ناول، افسانہ مضمون وغیرہ ۔ یہ تمام اصنافِ ادب پرانی تو ضرور ہیں لیکن بالکل ہم عمر نہیں ہیں ۔ ان میں سے بعض زیادہ پرانی ہیں اور بعض کم ۔ ادب کی جو صنفیں پرانی یا زیادہ پرانی ہیں ان کے لکھنے کے طریقے بدلتے رہے اور زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے جائیں گے۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ 

آج کا انسان زندگی کے جس طرح ہر شعبے میں نئی نئی چیزیں ایجاد کر رہا ہے اسی طرح وہ علم وفن اور شعر و ادب میں بھی نئی چیزوں کا اضافہ کر رہا ہے ۔ یہ ایجادات اور اضافے کچھ تو انسانی ضرورت کے نتیجے ہیں اور کچھ انسانی ذہانت کے کرشمے۔ کہیں ضرورت ایجاد کی ماں بنتی ہے اور کہیں ایجاد ضرورت کی۔ بہت سی چیزیں ضرورت کی وجہ سے ایجاد کی جاتی ہیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو وجود میں آجانے کے بعد ضروری معلوم ہونے لگتی ۔ہیں

رپورتاژ کی تعریف

 عہد حاضر کے ادب جن نئی صنفوں کا اضافہ ہوا ہے ان میں سے ایک صنف رپورتاژ ہے۔ یہ لفظ فرانسیسی زبان کے لفظ Reportage سے لیا گیا ہے ۔ جس کا تلفظ رپورتاژ ہے اور جو انگریزی لفظ Report کا ہم معنی ہے۔ کسی واقع کی رپورٹ ایک صحافتی عمل ہے جس سے اخبار نویسیوں کا تعلق ہے ۔ لیکن رپورتاژ صحافت کی نہیں ادب کی صنف ہے اگر کسی واقعہ کی رپورٹ بالکل اخباری انداز میں لکھی جائے تو وہ محض ایک اخباری رپورٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن جب کسی واقعے کو کسی حد تک صحافتی اور کسی حد تک افسانوی انداز میں بیان کیا جاتے تو وہ رپورتاژ بن جاتا ہے۔ اور ادب کے دائرے میں آجاتا ہے ۔ اردو ادب کی مشہور نقاد ممتاز شیریں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہنگاموں کے دوران میں عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ تخلیقی تحریروں کی بجائے صحافت نگاری اور فکشن (ناول، افسانہ) کے درمیان کی چیزیں جیسے رپورتاث وغیرہ رواج پاتی ہیں۔ ممتاز شیریں کے اس جملے سے یہ بات واضح ہے کہ رپورتاژ نہ تو صحافت ہے اور نہ ناول نا افسانہ قسم کی کوئی چیز یں۔ یہ دونوں کے درمیان کی ایک چیز ہے۔ اب یا آرٹ کی تخلیق کے لیے جس قدر ذہنی سکون یا وقت کی ضرورت ہوتی ہے اتنا ذہنی سکون اور وقت بحرانوں میں نہیں ملتا۔ لکھنے لکھانے یعنی شعر وادب کا کام بھی بھاگ دوڑ کے عالم میں سرانجام پاتا ہے۔  

رواروی میں جو چیزیں لکھی جاتی ہیں وہ عموماً صحافتی ہوتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اخباروں میں کام کی باتیں سیدھے سادے انداز میں لکھی ہوتی ہیں۔ انکی نہ کوئی فنی مشکل ہوتی ہے نہ ان میں اسلوب کا کوئی حسن ہوتا ہے۔ صحافتی تحریروں میں ان خوبیوں کی ضرورت بھی نہیں ۔ اگر اخبار کے لیے کوئی واقعہ لکھا جاتے تو اس میں واقعہ کی بنیادی تفصیلات کے سوا اور کچھ نہ ہو گا ۔ اس واقعے کے متعلق جو انسانی جذبات ہیں یا انسانی جذبات کی طرف لکھنے والے کا جو رویہ ہے وہ صحافتی بیان سے ظاہر نہ ہو گا ۔ صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اگر وہ کوئی واقعہ بیان کرے گا تو بالکل خارجی انداز میں بیان کرے گا۔ اس میں داخلیت یعنی جذباتی تاثر یا جذباتی ردعمل سے کام نہ لے گا۔

لیکن رپورتاژ نام ہے واقعات کے ایسے بیان کا جو نہ بالکل صحافتی اور خارجی ہو اور نہ ناول یا افسانے کی طرح فن کارانہ بیان ہو۔ صحافتی اور خارجی بیان واقعات کو شرور سے آخر تک جذبات کی رنگ آمیزی کے بغیر فطری ترتیب کے ساتھ بیان کر دینے کا نام ہے ۔ فن کارانہ بیان میں اول تو واقعات کو ناول یا افسانے کے سانچے میں لاتے ہیں ۔ پھر ناول یا افسانے میں واقعات کو پیش کرنے کے جو بسیوں طریقے ہیں ان میں سے کسی طریقے یا کسی طریقے سے کام لیتے ہیں۔ مثلاً واقعات کو ڈائری: خطوط کی شکل میں یا کسی ایک کردار کے حالات زندگی کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ واقعات جس ترتیب سے پیش آئیں ناول یا افسانے میں بھی اسی ترتیب سے پیش کئے جائیں۔ ناول یا افسانہ واقعات کے آخری حصہ یا بیچ کے حصہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ناول یا افسانے میں واقعات اتنے ہی بیان کئے جائیں جتنے کہ پیش آئے اور اتنے ہی کرداروں کے ساتھ پیش کئے جاتیں جتنے کردار ان واقعات میں تھے ۔ 

ناول نگار یا افسانہ نگار اپنے ناول یا افسانے میں ڈرامائی (ایسے اثرات جن سے پڑھنے والوں کے اندر حیرت ، الجھن یا تشویش پیدا ہو) تاثرات پیدا کرنے کے لیے واقعات میں کمی بیشی بھی کر سکتا ہے۔ فن کارانہ بیان میں صرف جذبات کی رنگ آمیزی نہیں ہوتی بلکہ تخیل کی رنگ آمیزی بھی ہوتی ہے۔ 

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعات کے فنکارانہ بیان میں صداقت کتنی ہوتی ہے۔ ناول یا افسانے میں جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں ان میں ایک بنیادی صداقت ضرور ہوتی ہے۔ بعنی بیان کیے ہوئے واقعات کا ہر حصہ انسانی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اور وہ کسی نہ کسی کی زندگی میں پیش آتا ہے لیکن وہ سارے واقعات جن مشکل اور ترتیب کے ساتھ ایک ناول یا ایک افسانہ میں دکھائے جاتے ہیں وہ بالکل اسی طرح کسی ایک آدمی کی زندگی میں پیش نہیں آتے ۔ اس صورت حال سے دو نتیجے نکالے جاسکتے ہیں۔

ناول اور افسانے کے واقعات سچے ہوتے ہوئے بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔

ناول اور افسانے کے واقعات جھوٹے ہوتے ہوئے بھی سچے ہوتے ہیں۔ 

رپورتاژ کیا ہے ؟

رپورتاژ بڑی حد تک ناول یا افسانے کی شکل اختیار نہ کرنے کے باوجود واقعات کا فن کارانہ بیان ہوتا ہے اس میں جذبات کی رنگ آمیزی ضرور ہوتی ہے البتہ تخیل کی رنگ آمیزی کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ رپورتاژ میں صداقت کا ہونا نہایت ضروری ہے اور اس صداقت کا ہونا ضروری ہے جو واقعات کے صحافی اور خارجی بیان میں ہوتی ہے ۔ ممتاز شیریں نے لکھا ہے کہ :

رپورتاژ کا وصف ہی یہ ہے کہ اس میں حقیقی گزرے ہوئے واقعات ہوں اور وہ سادگی سے اس طرح بیان کر لے جائیں جیسے کہ وہ گزرے ہوں ۔ تاکہ کسی رپورتاژ کے سچا ہونے میں واقعات کی صحت ہی نہیں صداقت بیان کو بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ بعض باتوں کو مصلحتاً دبانا، بعض کو عمداً دبانا ، کسی بات کو دوسرے ہی رنگ میں پیش کرنا ، غلط تفسیر اور بیان میں کچھ اس طرح کے اشارے کہ غلط اثر پیدا ہو، یہ سچ کی صورت کو اس طرح مسخ کر دیتے ہیں کہ وہ سچ نہیں رہتا

خلاصہ کلام

: (1) رپورتاژ ایک نسبتا نئی ادبی صنف ہے ۔ 

(2) رپورتاژ صحافت اور افسانے کے درمیان کی چیزوں میں سے ہے ۔

 (3) رپورتاژ سوچے ہوتے واقعات کا بیان نہیں بلکہ گزرے ہوئے واقعات کا بیان جن کو گزرے ہوئے زیادہ مدت نہ ہوتی ہو ۔ رپورتاژ میں زمانی فاصلہ کم سے کم ہونا چاہیے ۔ 

 (4) رپورتاژ میں واقعات کا بیان نہ بالکل صحافتی اور خارجی انداز میں ہوتا ہے نہ ناول یا افسانے کی طرح بالکل تخیلی اور داخلی انداز میں بلکہ دونوں کے بین بین یعنی رپورتاژ نہ بالکل روکھی پھیکی اخباری رپورٹ ہوتا ہے اور نہ ناول یا افسانے کی طرح ایک فن پارہ ۔ 

 (5) چونکہ رپورتاژ گزرے ہوئے واقعات پر بنی ہوتا ہے اس لیے اس میں واقعات کی صحت رواقعات کا صحیح ہونا ، اور ان واقعات کے بیان میں صداقت (واقعات کو سچائی کے ساتھ بیان کرنا ، ان کے بعض حصوں کو مصلحتا دبا کر یا ابھار کر واقعات کو مسخ نہ کرنا) کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جس رپور تاژ میں واقعات کی صحبت اور بیان کی صداقت نہ ہوا سے اچھا ر پورتاژ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اچھے رپورتاژ کی جو آخری خصوصیت ابھی بیان کی گئی یعنی اس میں واقعات کی صحت اور بیان کی صداقت کا ہونا، یہی وہ کمی ہے جس کی بنا پہ ممتاز شیریں نے اردو کے پہلے رپورتاژ ' پودے" کو اردو کے اچھے رپورتاژوں میں شمار نہیں کیا۔

رپورتاژ کا ارتقا

چونکہ رپورتاژ ادب کی جدید ترین صنفوں میں سے ہے اس لیے ابھی اردو ادب میں اس کا سرمایہ کچھ زیادہ نہیں ۔ اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد (دکن) میں ہندوستان کے ادبوں کی ایک کل ہند کانفرنس ہوتی تھی ۔ اردو کا پہلار پورتاژ پودے جسے اردو کے مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے لکھا تھا اسی کانفرنس کے بارے میں تھا ۔ 

کرشن چندر کے بعد جن اور ادبیوں نے رپورتاژ لکھے ان میں محمود ہاشمی ،شاہد احمد دھلوی، فکر تونسوی تاجور سامری، ابراہیم جلیس اور قرۃ العین حیدر کے نام نمایاں ہیں ۔ محمود ہاشمی کا رپوراژ کشمیر اداس ہے، کشمیر کے ان واقعات کے بارے میں ہے جو 1947 ء میں پیش آئے ۔ شاہد احمد دھلوی کارپورتاژ دلی کی بپتا ، ان فسادات کے بارے میں ہے جو قیام پاکستان کے وقت دلی میں ہوتے فکر تونسوی کار رپورتاژ چھٹا دریا، بھی ان فسادات کے بارے میں ہے جو قیام پاکستان کے وقت پنجاب میں ہوتے جہاں پانچ دریا بہتے رہے ہیں اور جہاں چھٹا دریا انسانوں کے خون سے وجود میں آ گیا تھا۔ تاجور سامری کا رپورتاژ جب بندھن ٹوٹے ، تقسیم ہند کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے جب ایک ملک میں رہنے والے ہند و اور مسلمانوں کے بندھن یعنی باہمی رشتے ٹوٹ گئے اور ہندوستان دو ملکوں میں بٹ گیا۔ ابراہیم جلیس کا رپورتاژ شہر اور دو ملک ایک کہانی بھی تقسیم ہند سے متعلق ہے قرة العین حیدر کا پورتاژ ستمبر کا چاند ادیبوں کی اس عالمی کا نفرنس کے بارے میں ہے جو جاپان میں منعقد ہوتی ۔ ان تمام رپورتاژوں میں کشمیر اداس ہے دلی کی بتپا اور ستمبر کا چاند ادبی نقطہ نظر سے بہت اہم ہوتے ہیں۔ کرشن چندر، فکر تونسوی تاجور سامری اور ابراہیم جلیس کے رپورتاژوں کو ان کی حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور رقت انگیزی نے ناکام کوشش بنا دیا۔



Post a Comment

0 Comments