خواجہ الطاف حیسن حالی کا تعارف اور شاعری کی خصوصیات

خواجہ الطاف حیسن حالی کا تعارف اور شاعری کی خصوصیات

 خواجہ الطاف حیسن حالی کا تعارف اور شاعری کی خصوصیات

حالی کا تعارف

حالی نظم نگار بھی تھے اور غزل گو بھی نظم میں حالی کا سب سے مشہور کارنامہ مدو جزو اسلام یعنی مسدس حالی ہے۔ اسی طویل نظم میں حالی کی وہ مشہور نعت بھی ہے جو اس مصرع سے شروع ہوتی ہے " وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا اس مسدس کے علاوہ حالی کی وہ نظمیں بھی اہمیت رکھتی ہیں جو مثنویاں کہلاتی ہیں اور جن سے اُردو میں جدید شاعری کی بنیاد پڑی۔

حالی کی چھوٹی بڑی نظمیں اپنے قومی اور اخلاقی موضوعات کی وجہ سے ملک و قوم میں اس حد تک مقبول ہوئیں کہ بہت سے لوگ یہ بھول گئے کہ حالی نظمیں لکھنے سے پہلے غزل کے شاعر تھے بلکہ غزل کے اتنے اچھے شاعر تھے کہ اگر انہوں نے بعد میں نظمیں نہ لکھی ہوتیں تب بھی اُردو شاعری کی تاریخ میں اُن کا نام زندہ رہتا اور شاعری سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت رکھنے والے ان کے اشعار کو نہ بھولتے ۔

شاگردی 

شاعری میں حالی غالب کے شاگرد تھے اور غالب نے شروع ہی میں ان کے کلام کو دیکھ کر کہا تھاکہ حالی اگر تم شعرنہ کہو گے تو اپنے اوپر ظلم کرو گے۔ غالب کی اس رائے سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں غزل کہنے والے حالی غزل کے کتنے اچھے شاعر تھے۔ غرض کہ جس طرح حالی نظم نگار کی حیثیت سے اُردو شاعری کی تاریخ میں بڑے اونچے مقام کے مالک ہیں اس طرح غزل گو کی حیثیت سے بھی

ان کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ حالی شاعری میں شاگرد تو غالب کے تھے لیکن وہ غالب کے ایک دوست اور شاگرد مصطفے خاں شیفتہ سے بھی بہت متاثر ہوئے۔

حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہوں

 شاگرد مرزا ہوں مقلد میر کا

غالب اور شیفتہ نے حالی کی شاعری کو متاثر کیا تھا۔ لیکن سید احمد خان نے ان کی پوری زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ سر سید انیسویں صدی کے آخری پچاس سال میں ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے بڑے سیاسی، اخلاقی ، تعلیمی اور مذہبی رہنما تھے ۔ 1875 میں ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد وہ مسلمانوں کو زوال کے بڑے اثراب سے نکالنےمیں لگے ہوئے تھے ۔ 

جب حالی کو ان سے ملنے کا موقع ملا تو وہ سرسید احمد خان کی قومی در مندی اور خلوص سے بے حد متاثر ہوئے ۔ سرسید ہی کی فرمائش پر انہوں نے مسدس حالی لکھی۔ اس سے پہلے وہ لاہور میں قیام کے دوران اپنی اخلاقی اور اصلاحی نظموں کے ذریعے اُردو شاعری میں تبدیلی لانے کے لئے محمد حسین آزاد کا ساتھ دے چکے تھے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد اُن کے اندر یہ احساس کام کرنے لگا تھا کہ اب غزل میں عشق و محبت کے مضامین بیان کرنے کی بجائے ہندوستانی مسلمانوں کو پستی سے نکالنے اور ترقی کے راستے پر لگانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے ۔ سرسید احمد خان سے ملنے کے بعد ان کا یہ احساس اور بھی قوی ہو گیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حالی نہ صرف اخلاقی اور اصلاحی رنگ کی نظمیں اور رباعیاں کہتے رہے بلکہ انہوں نے اپنی غزلوں میں سبھی اخلاقی اور اصلاحی رنگ اختیار کر لیا۔ اسی وجہ سے ان کی غزلوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، قدیم رنگ کی غزلیں اور جدید بر نگ کی غزلیں ۔ ان کے ہاں جدید رنگ کی غزلوں میں اخلاقی اور اصلاحی اندازہ اس حد تک موجود ہے کہ بسا اوقات ان کی شاعری خشک اور بے کیف محسوس ہونے لگتی ہے۔ حالی کو اس بات کا خود بھی احساس تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی جدید شاعری کو ابالی ہوئی کھچڑی سے تشبیہ دی ہے جو بڑی حد تک بے مزہ ہوتی ہے۔

یہاں غزل کے قدیم رنگ یا قدیم رنگ کی غزل کو سمجھنے کے لیے اتنا جاننا کافی ہوگا کہ پرانی غزل کا بنیادی موضوع محبت یا عشق ہے۔ خدا سے انسان کی محبت یا انسان سے انسان کی محبت غزل میں سب سے زیادہ شعر حسن وعشق کےبارے میں کہے گئے ہیں۔ خدا اور انسانی محبوب دونوں کو حسن مان کر ان سے عشق کا اظہار کیا گیا ہے اور عشق کی ہزاروں کیفیتیں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً محبوب کے ناز و انداز اسکی توجہ اور اس کا تغافل ، اس کی مہربانی اور نا مہربانی ، کرم اور ستم ، وفا اور بدنامی ، خوشی اور غم شاد کامی اور محرومی وغیرہ وغیرہ اس طرح کے مضامین بیان کرنے کے لئے گل و بلبل شمع و پروانہ ، لیلی مجنوں ، شیریں فرہاد ، جیسی علامتوں اور کرداروں سے بھی مدد لی جاتی ہے ۔ 

شاعری کی خصوصیات

حسن و عشق کے علاوہ غزل میں انسانی زندگی اور انسانی فطرت کے بے شمار پہلو بھی بیان کئے جاتے رہے ہیں۔ حالی کی قدیم غزلوں سے وہ غزلیں مراد ہیں جن کا مرکزی موضوع حسن و عشق اور اس سے متعلق موضوعات ہیں ۔ ان غزلوں میں حسن و عشق کے علاوہ انسانی فطرت اور انسانی زندگی کے بارے میں بھی خیالات اور مشاہدات ملتے ہیں ۔ حالی کی قدیم غزلوں کی ایک پہچان یہ ہے کہ ان کے موضوعات اور مضامین کچھ بھی ہوں ان کے بیان کا اندازہ شاعرانہ ہے جبکہ ان کی جدید غزلوں میں باتیں بھی ناصحانہ ہیں اور بیان بھی ناصحانہ ۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھتے کہ حالی کی قدیم غزلوں میں ان کے خیالات عاشقانہ اور انداز بیان شاعرانہ جبکہ ان کی جدید غزلوں میں ان کے خیالات ناصحانہ ہیں اور انداز بیان بھی ناصحانہ حالی اپنی جدید غزلوں میں ہر جگہ اپنی قوم کے افراد کو ان کے فرائض کا احساس دلاتے نظر آتے ہیں اور ان کے بات

کہنے کے انداز میں شاعرانہ حسن کی بجائے ناصحانہ انداز پایا جاتا ہے ۔ شاعرانہ حسن اور ناصحانہ اندازہ کی ایک ایک مثال دیکھتے چلئے ایک جگہ حالی کہنا یہ چاہتا ہے کہ جو شخص کسی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے اسے راستے کی دل آویز یوں پر نظر نہیں رکھنی چاہیئے ورنہ وہ راستے ہی میں رہ جائے گا۔ منزل تک نہ پہنچ پائے گا اس بات کو وہ شاعرانہ انداز میں ہوں کہتے ہیں۔

دل کش ہر ایک قطعہ صحرا ہے راہ میں

 ملتے ہیں جا کے دیکھئے کب کارواں سے ہم

دوسری جگہ حالی اپنی قوم کے لوگوں بالخصوص نوجوان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کسی کے خاندان میں کوئی نقص نہ ڈھونڈو کیونکہ اس سے زیادہ گھٹیا پن اور کوئی نہیں۔ اس نصیحت کو وہ بالکل ناصحانہ یا معلمانہ انداز میں یوں بیان کرتے ہیں۔ 

نکالو نہ رخنے نسب میں کسی کے

نہیں اس سے کوئی رذالت زیادہ

حالی کی غزلوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کی غزلوں کی بعض بنیادی خصوصیات کو سمجھ لینا ضروری ہے ۔ حالی بڑے سنجیدہ اور نرم مزاج کے آدمی تھے۔ ان کے مزاج کی سنجیدگی اور نرمی ان کی غزلوں میں نمایاں ہے جو آدمی سنجیدہ ہوتا ۔ وہ بہت بے تکلف اور بے جھجک نہیں ہو سکتا۔ وہ اگر اپنے راز داری سے اپنے راز بھی بیان کرے گا تو اس سے بھی کچھ نہ کچھ چھپالے گا۔ حالی کے مزاج کا یہ پہلو ان کے اس شعر میں اچھی طرح ظاہر ہوا ہے ۔

 آگے بڑھے نہ قصہ عشق بتاں سے ہم

سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم

 حالی کے مزاج میں جو دھیما پن ہے اس نے ان کے لہجے میں نرمی کی شکل اختیار کی ہے۔ ان کے یہاں نفرت ، فقہ برہمی اور بیزاری کے جذبات نہیں ملتے ۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ انہیں غصہ نہیں آتا یا انہیں ناپسندیدہ شخصیتوں اور باتوں سے سابقہ نہیں پڑتا۔ اُردو شاعری میں شیخ اور وعظ کے کردار ریا کاری اور منافقت کی علامت کے طور پر استعمال ہوتے چلے آئے ہیں۔ شیخ اور وعظ کا ظاہر کچھ اور ہوتا ہے باطن کچھ اور وہ دوسروں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہیں۔خود زیادہ نیک نہیں ہوتے۔ لیکن دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو نیک ہی نہیں بلکہ بے عیب بھی سمجھتے ہیں۔ حالی شیخوں اور واعظوں کی ان ساری کمزوریوں سے واقف ہیں وہ ان کی کمزوریوں پر طنز کرتے ہیں ۔ مگر ان کی طنز میں ہے رحمی اور دل آزاری کی بجائے ہلکی شوخی اور مہذب ظرافت پائی جاتی ہے ۔ مثلاً 

واعظو! آتش دوزخ سے جہاں کو تم نے

یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت


دیکھئے شیخ ! مصورسے کھینچے یا نہ کھنچے

صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت

شوخی اور ظرافت کے ساتھ ساتھ حالی کے یہاں طعن وطنر کے پہلو بھی ہیں۔ وہ اپنے آپ پرطنز کرنے سے نہیں چوکتے لیکن بسا اوقات وہ اپنے پردے میں دوسروں پر طنز کر جاتے ہیں۔ حالی کا یہ طریقہ بھی ان کے مزاج کے تمام اچھے پہلووں (مثلا سنجیدگی ، نرمی، انکساری، شرافت، شائستگی کا نتیجہ ہے۔ حالی جیسے انسان سے براہ راست اور بے لاگ طنز کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ دوسروں پر چوٹ کہ جاتے ہیں ۔

 حالی کی شاعری کی ایک اہم خوبی ان کی واقفیت پسندی ہے ۔ ان کی شاعری واقعات و واردات کی شاعری ہے ۔وہ ہمیشہ حقائق اور حالات پر نظر رکھتے ہیں۔ شاعری میں صرف تخیل اور تصور کی باتیں بھی ہوتی ہیں ۔ اور بعض اوقات بڑی خوبصورت باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن حالی صرف تخیل اور تصور کی دنیا میں رہنے والے شاعر نہیں۔ وہ خیالی دنیا کی باتیں نہیں کرتے۔ خیال کے گل بوٹے نہیں بناتے ۔ وہ تو وہی باتیں کہتے ہیں جو دنیا میں ہوتی ہیں اور زندگی میں پیش آتی ہیں۔ چونکہ واقفیت سے ان کی شاعری کا رشتہ بہت گہرا ہے ۔ اس لئے ان کی شاعری میں مبالغہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ پھر چونکہ وہ سچائی کو سادگی کے ساتھ پیش کرنے کے قائل ہیں اس لئے ان کی شاعری میں فارسی الفاظ یا فارسی عربی تراکیب کی بہتات نہیں ملتی۔ اس معاملے میں وہ اپنے استاد غالب سے مختلف ہیں۔ غالب کے زمانے کے ایک شاعر مومن دہلوی تھے جو اپنے خیال کو بہت گھما پھرا کہ بیان کرتے تھے۔ حالی کے یہاں مومن جیسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ان کے یہاں خیال میں سچائی، زبان میں سادگی اور انداز بیان میں سیدھا پن ہے۔ 

 یہاں تک حالی اور ان کی منزل کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے 

خلاصہ کلام

 1- حالی نظم نگار بھی تھے اور غزل گو ہیں ۔ اُردو شاعری کی تاریخ میں حالی دونوں حیثیتوں سے اہم ہیں ۔ 

 2 - حالی شاعری میں شاگرد غالب کے تھے۔ ساتھ ہی وہ غالب کے دوست اور شاگرد شیفتہ سے بھی متاثر تھے ۔ لیکن ان کی ادبی اور ذہنی زندگی پر سب سے بڑا اثر سرسید کا تھا جن کی فرمائش یہ انہوں نے "مسدس حالی " لکھتی۔

3-مسدس لکھنے سے پہلے انہوں نے ۱۸۷۴ء میں لاہور کے دوران قیام میں مولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ جدید شاعری کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد اردو شاعری کو پرانی روش سے ہٹا کر نئے راستے پر ڈالنا تھا۔ 

4-اُردو شاعری کو نئے راستے پر ڈالنے سے ان کی مراد اُردو میں مقصدی اور قومی شاعری کی بنیاد ڈالنا تھی تاکہ مسلمانوں کو جو ۱۸۵۷ء میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد بالکل زوال پذیر ہو چکے تھے۔ زوال کے اثرات سے آزاد کیا جاسکے ۔

5-آزاد اور حالی نے انیسویں صدی کے آخر میں جس جدید شاعری کی بنیاد ڈالی اس میں غزل کی بجائے نظم کو اور عشقیہ شاعری کی بجائے اخلاقی شاعری کو اہمیت دی گئی۔ نتیجتا غزل میں بھی عشقیہ شعر کی بجائے اخلاقی شعر کہےجانے لگے۔

6-جدید شاعری کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے حالی نے بہت سی قومی اور اخلاقی نظمیں لکھیں اور غزل بھی ناصحانہ انداز میں کہنے لگے ۔

7- حالی نے غزل میں جو جدید رنگ اختیار کیا وہ قومی نقطہ نظر سے جس قدر بھی مفید ثابت ہوا ہو لیکن اس رنگ کی وجہ سے ان کی شاعری خشک اور بے کیف ہو کر رہ گئی۔ 

8-حالی کی شاعری کی ایک اہم خوبی ان کی واقعیت پسندی بھی ہے۔ ان کی شاعری د واردات کی شاعری ہے نہ کہ تخیلات اور تصورات کی وہ خیالی دنیا کی باتیں نہیں کرتے۔ 

9-حالی کی بہترین شاعری ان کی قدیم رنگ کی غزلوں میں ہے۔ ان غزلوں میں ان کے مزاج کی سنجیدگی ، نرمی اور دھما پن نمایاں ہیں۔

10-حالی کے خیال میں سچائی ، زبان میں سادگی اور بیان میں سیدھا پن ہے ۔ مزاج کی سنجیدگی کے باوجود حالی کے یہاں طنز و مزاح کے شعر بھی ملتے ہیں۔ لیکن ان کے طنز و مزاح میں دل آزاری کا پہلو نہیں ہوتا ۔ وہ دوسروں پر چوٹ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ پر چوٹ کرتے ہیں اور اپنے آپ پر چوٹ کرنے کے پردے میں دوسروں پر چوٹ کر جاتے ہیں ۔

Post a Comment

0 Comments