مرزا غالب کا تعارف اور شاعری کی خصوصیات

مرزا غالب کا تعارف اور شاعری کی خصوصیات

مرزا غالب کا تعارف اور شاعری کی خصوصیات

غالب اور اقبال اردو کے دو ایسے شاعر ہیں جن کے نام سے بچہ بچہ واقف ہے، دونوں کی شہرت پاکستان اور ہندوستان سے باہر جا چکی ہے۔ دونوں پر اردو اور انگریزی میں کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ دونوں کے کلام کے بہت بڑے حصے کا انگریزی اور بعض دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ۔ ہے۔ دونوں شاعروں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ دونوں عام لوگوں میں بھی مقبول ہیں اور بہت اونچا ذہین اور گہری نظر رکھنے وا لےخاص لوگوں میں بھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔

مرزا غالب کا تعارف

 غالب ۲۷ دسمبر ۱۷۹۷ء کو آگرے (اکبر آباد) میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے ۵ار فروری 1969 کو73 برس کی عمر میں وفات پائی۔ دس گیارہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے ۔ ان سے پہلے اردو کے جو سب سے بڑے شاعر گزرے ہیں وہ میر تقی میر تھے۔ جن کی وفات کے وقت غالب کی عمر ۳ سال کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ میر نے غالب کے بارے میں یہ کہا تھا کہ اگر اس لڑکے کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا گیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بے معنی بکے گا۔ 
 
اس بات میں شبہ کیا جاتا ہے کہ میر نے غالب کے بارے میں یہ بات کہی تھی یا نہیں ۔ لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ میر نے یہ بات کہی تھی تو واقعہ یہ ہے کہ ان کا اندازہ صحیح ثابت ہو کر رہا ۔ غالب کو کوئی کامل استاد تو
نہیں ملا لیکن وہ لاجواب، شاعر بن کر رہے۔ جہاں تک غالب کے مہمل بکنے کا تعلق ہے اس کے تھوڑے بہت آثار انکی ابتدائی شاعری میں ضرور تھے جن کے پیش نظر میر کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں یہ لڑکا صرف مہمل ہو کر نہ رہ جائے۔ 
غالب کو فارسی زبان سے نہایت دلچسپی تھی۔ پندرہ سولہ سال کی عمر تک انہوں نے اس زبان پر بہت اچھی قدرت حاصل کر لی تھی۔ جب انہوں نے شاعری شروع کی تو فارسی کے بعض ایسے شاعروں کو نمونےکے طور پر سامنے رکھا جو خیال و بیان دونوں کے اعتبار سے مشکل مانے جاتے ہیں۔ ان میں بیدل زیادہ نازک خیال اور مشکل شاعر ہیں۔ غالب نے جب ایسے مشکل شاعروں کے رنگ میں شعر کہنے کی کوشش کی ان کی شاعری بھی زبان اور خیال کے اعتبار سے بہت مشکل ہو گئی اور اس میں وہ نزاکت (خیال یا مضمون البراقی ) اور لطافت (بیان کی خوبصورتی) بھی نہ آسکی جو بیدل اور فارسی کے دوسرے شاعروں کے یہاں پائی جاتی ہے۔

فارسی شاعروں کے انداز میں شعر کا نتیجہ یہ نکلا کہ غالب کی شاعری میں زبان کے اعتبار سے فارسیت ، بہت آئی ۔ بعض اوقات تو پورا پورا مصرع یا شعر فارسی کا معلوم ہونے لگا۔ خیال کے اعتبار سے اس میں نیا پن ضرور تھا مگر اس نئے پن میں کوئی مزہ نہ تھا۔ مثلاً ۔ 

شمار سجہ مرغوب بہت مشکل پسند آیا
تماشا تے بیک کف بردن صد دل پسند آیا

 اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ میرے مشکل پسند محبوب کو تسبیح پڑھنا اس لئے پسند ہے کہ اس کی خواہش کے مطابق ایک ہی وار میں سو سو دل اُڑا لینے کی مشابہت پاؤر جاتی ہے۔ بارہ سال کی عمر سے چوبیس پچیس سال کی عمر تک غالب نے اس انداز کے شعر کہہ کہہ کہ ایک دیوان جمع کر لیا ۔ ان کے زمانے کے لوگ اس طرح کی فارسی بے مزہ شاعری کو پسند کرتے تھے ۔ خصوصا اس لئے بھی کہ غالب کے اشعار یا تو سمجھ میں نہیں آتے تھے یا اسے سمجھ میں آتے تھے۔ اس لئے ان کے زمانے کے بعض آدمیوں نے ان کی شاعری کا مذاق بھی اُڑایا ۔ کسی نے طنزاً کہا۔

کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
 مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

یہاں میرسے مراد میر تقی میر ہیں مرزا سے مراد مرزا رفیع سودا ہیں جو میر کے ہم عصر تھے اور قصیدہ غزل کے بہت بڑے شاعر تھے۔غالب نے مذاق اڑانے والوں کی تو پروا نہیں کی اور ان کے جواب میں یہاں تک کہ دیا کہ ۔ 

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

لیکن جب اُن کے بعض پڑھے لکھے دوستوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ شاعری میں غلط راستے پر جارہے ہیں تو وہ سنبھلے اور انہوں نے چوبیس پچیس سال کی عمر تک جس رنگ کی شاعری کی تھی اس کے بیشتر حصے کو خارج کر دیا صرف نمونے کے طور پر تھوڑی سی غزلیں رکھ لیں۔ اس دوران انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ ۔

طرز بیدل میں ریختہ کہنا 
اسد اللہ خان قیامت ہے

یہاں ریختہ سے مراد اُردو غزل ہے۔ اسد اللہ خاں غالب کا نام تھا۔ پہلے وہ اسد تخلص بھی کرتے تھے یہاں انہوں نے دوسرے مصرع میں اپنے تخلص کی جگہ اپنا پورا نام استعمال کیا ۔ اس میں شک نہیں کہ بارہ سال سے چوبیس سال کی عمر تک غالب شاعری کے میدان میں بھٹکتے رہے لیکن اس گمراہی کے زما نہ میں بھی انہوں نے کئی شعر ایسے کہے جو ان کے نہایت مشہور اور مقبول شعروں میں سے ہیں مثلاً ۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
 ہم نے بزم اسکاں کو ایک نقش پا پایا

عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے

دیر و حرم آئینہ تکرار تمنا
واماندگی شوق ترائے بے پناہیں

تماشائے گلشن ، تمنائے چیدن
بہار آفرینا ! گنہگار ہیں ہم 

غیر سے دیکھئے کیا خوب نباہی اس نے
نہ سہی ہم سے پر اس بت میں وفا ہے تو سہی

 ابر روتا ہے کہ بزم طرب آماده کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
 ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

یہ اشعار اور اس طرح کے اشعار اگرچہ غالب کی شاعری کے ابتدائی دور کی پیداوار ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اشعار میں غالب کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا نظر آتا ہے ۔ دوسرے دور میں انکی زبان بہت صاف ہو چکی ہے ۔ فارسی الفاظ اور فارسی ترکیبوں کی کثرت کے باوجود ان کے اشعار میں فارسیت سے زیادہ اُردو پن چھلکنے لگتا ہے اور خیال میں وہ بندی اور گہرائی دکھائی دینے لگی ہے۔ جس نے غالب کو غالب بنایا ۔ آگے چل کر یعنی تیسرے دور میں غالب کی زبان میں فارسیت اور بھی کم ہو جاتی ہے زبان سہل اور سادہ ہو جاتی ہے۔ خیال کی گہرائی میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اُن کی شاعری اپنی گہرائی کے باوجود پہلے دور کی طرح ناقابل فہم نہیں رہتی اب اُن کی شاعری زبان و بیان کے نئے پن اور خیال و مضمون کے اچھوتے پن کا امتزاج (ملاپ) بن جاتی ہے اوراس میں اچھی اور اعلی شاعری کی بہت سی خوبیاں پیدا ہو چکی ہوتی ہیں۔ 

ایک شاعر کی حیثیت سے غالب اتنے مقبول کیوں ہیں ؟ اس سوال کے جواب پر غور کرنے سے اُن کی بہت سی خوبیاں سمجھ میں آسکتی ہیں ۔ کسی شاعر کے بہت مقبول ہونے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ خواص سے لے کر عوام تک بے شمار لوگوں کو اس کے بہت سے شعر یاد ہیں جو زندگی کے مختلف موقعوں پر یاد آتے رہتے ہیں۔ غالب کی مقبولیت اسی قسم کی ہے یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کسی شاعر کے زیادہ سے زیادہ شعر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کیوں یاد آتے ہیں ؟

اس بات کے دو سبب نظر آتے ہیں۔ اول تو یہ کہ کسی شاعر کی شاعری میں انسانی زندگی اور انسانی فطرت کے اتنے پہلو موجود ہوں کہ اس کے شعر زندگی کی مختلف صورت حال میں یاد آتے رہیں ۔ دوسرے یہ کہ شعر اس انداز سے کئے گئے ہوں کہ وہ حافظے پر آسانی سے نقش ہو جائیں ۔ غالب کی شاعری میں یہ دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری زندگی کے تقریباً تمام جھوٹے بڑے پہلوؤں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ غالب کے ایک مشہور نقاد ڈاکٹر بجنوری نے کہا تھا کہ وہ کون سا نغمہ ہے جو اُن کے ساز میں نہیں پایا جاتا ۔ بظاہر یہ بات مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن بڑی حدتک صحیح ہے انسانی زندگی پر اُن کی نظر وسیع بھی تھی اور گہری بھی۔ وہ ان شاعروں میں سے نہیں جو زندگی کےصرف دو ایک پہلوؤں پر زیادہ شعر کہتے ہیں یا ایسی شاعری میں زبان و بیان کی دو ایک خوبیاں میں کمال . پیدا کرتے ہیں۔ 

مشلاً غالب کے ہم عصر شاعر مومن کی شاعری زیادہ ترحسن وعشق کے معاملات تک محدود ہے ان کے دوسرے ہم عصر شاعر ذوق نے شاعری میں محاورات اور ضرب الامثال (کہاوتیں) کے استعمال میں نام پیدا کیا۔ ذوق کے ایک استاد نصیر دہلوی نے نہایت مشکل قافیے اور ردیف میں شعر کہنے میں مہارت دکھائی۔ ذوق کے مشہور شاگرد داغ دہلوی نے زبان ، محاورات اور ضرب الامثال کے استعمال میں کمال ظاہر کرنے کے علاوہ محبوب سے شوخی اور چھیڑ چھاڑ کی شاعری میں امتیاز (ممتاز ہونا ) حاصل کیا ۔ عہد حاضر کے ایک شاعر فانی بدایونی نے موت ،غم اور ناامیدی کی شاعری کو اپنایا ۔

ان شاعروں کے برعکس غالب نے اپنے آپ کو کسی خاص خانے میں بند نہیں کیا ۔ انہوں نے زندگی کے ہر پہلو سے دلچسپی لی اور زندگی کے ہر مزے کو چکھا۔ ان کے یہاں حسن و عشق کی رنگا رنگی بھی ہے ۔ تصوف کے مسائل بھی ہیں ۔ جسمانی لذتوں کی طلب بھی ہے۔ روحانی کیفیتوں کا اظہار بھی ہے۔ خوشی کے ساتھ غم کے تجربے بھی ہیں اور مایوسیوں کے باوجود اُمید کی جھلکیاں بھی۔ مختصر یہ کہ زندگی سے متعلق غالب کے تجربات اور مشاہدات میں بڑا تنوع اور رنگارنگی ہے ۔ وہ زندگی کو جیسا دیکھتے ہیں۔ ایسا ہی پیش نہیں کر دیتے بلکہ اس کے بارے میں کچھ سوچتے بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی طرح وہ بھی مفکر شاعر مانے جاتے ہیں۔ لیکن ایک مفکر کی حیثیت سے غالب اور اقبال کا فرق نہایت واضح ہے۔ اقبال کے یہاں انسانی زندگی کا ایک مشکل فلسفہ ملتا ہے جو زندگی کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ اپنی قوم بلکہ دنیائے انسانیت کے لیے ایک نصب العین پیش کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے انسان کو اعلیٰ اصول و اقدار کی تعلیم دیتا ہے۔ 

غالب کی شاعری نہ تو کوئی نصب العین پیش کرتی ہے نہ اس کے حصول کے لیے خاص اصول و اقدار پر عمل کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔ وہ صرف یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ انسانی زندگی اور انسانی فطرت کیسی ہے اس کی مجبوریاں اور پیچیدگیاں کیا ہیں۔ اس کی کشمکش اور کشاکش کی نوعیت کیا ہے ۔ انسان کن خوش گمانیوں اور خود فریبیوں کے سہارے زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات وہ خدا سے کتنا مایوس ہوتا ہے اور خدا کے بندوں سے کتنا خائف رہتا ہے۔اگر ایک جملے میں غالب اور اقبال کی شاعری کے فرق کو بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید یہ کہنا کافی ہوگا کہ غالب حقائق کے شاعر ہیں اور اقبال اقدار کے۔ غالب کی شاعری زندگی کی بنیادی یا ٹھوس حقیقتوں کی ترجمانی کرتی ہے اور اقبال کی شاعری زندگی کی بنیادی اقدار کی۔

یہاں تک غالب کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس سے غالب کی مقبولیت کے صرف ایک سبب پر روشنی پڑتی ہے۔ یعنی وہ سبب یہ ہے کہ ان کی شاعری میں انسانی زندگی اور انسانی فطرت کے اتنے پہلو موجود ہیں کہ ان کے شعر زندگی کی مختلف صورت حال میں یاد آتے رہتے ہیں۔ 
لیکن شعر کے یاد آنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اتنے خوبصورت الفاظ اور جیتے ہوتے انداز میں کیے گئے ہوں کہ انہیں یاد کرنا اور یاد رکھنا نہایت آسان ہو ۔ غالب کی شاعری میں یہ خوبی بھی پورے طور پر پائی جاتی ہے۔ ان کے نہ صرف شعر بلکہ پوری پوری غزل تک زبان زد عام (زبان پر پڑ جانا ۔ یاد ہو جانا) ہو گئی ہے ۔ اردو میں لوگوں کو جتنے شعر غالب کے یاد ہیں۔ اتنے شاید ہی کسی اور کے یاد ہوں ۔ یاد رہ جائے والے انداز میں شعر کہنا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ اس بات سے کرنا چاہیئے کہ دنیا کے بہت سے شعراء جنہوں نے سینکڑوں ہزاروں شعر کہے ان کا کوئی شعر صرف اس لیے مشہور نہ ہو سکا کہ وہ لوگوں کو آسانی سے یاد نہ رہ سکا۔

 اُردو کے کئی شاعر ایسے ہیں جنہوں نے کہنے کو تو سینکڑوں یا ہزاروں شعر کہہ ڈالے لیکن وہ زندہ صرف ایک مصرع یا ایک شعر کی وجہ سے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے باقی اشعار ناقص یا خراب میں خوبیاں تو ان کے باقی اشعار میں بھی ہیں لیکن ان میں کوئی کسی ایسی ضرور ہے جس کی وجہ سے وہ نہ تو لوگوں کے دلوں میں اتر سکے نہ زبانوں پر چڑھ سکے ۔

غالب نے محاوارت اور ضرب الامثال کے استعمال میں بھی اپنا کمال دکھایا لیکن زیادہ نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ شاعری کو زندہ رکھنے والی خوبیاں اور ہوتی ہیں ۔ وہ اس راز سے واقف تھے کہ اچھا اور اعلیٰ شعر نہ صرف اچھے مضمون سے بنتا ہے اور نہ صرف اچھی زبان یا اندازہ بیان سے بلکہ اس میں دونوں خوبیاں برابر برابر ہونی چاہیں یعنی مضمون بھی جاندار ہونا چاہیے اور طرز بیان بھی شاندار ۔ شاندار سے مراد یہ نہیں کہ الفاظ بھاری بھر کم ہوں یا ترکیبیں حسین و رنگین یا اس میں محاورے اور کہاوتیں جڑی ہوئی ہیں ۔ شاندار طرز بیاں سے مراد صرف یہ ہے کہ شعر میں بات اس طرح کہی جائے کہ پڑھنے والا یہ محسوس کرے کہ یہ بات اس سے بہتر انداز میں کہی نہیں جا سکتی تھی۔ غالب اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ شعر اس طرح کہاجاتے کہ کہاوت کی طرح کام آئے۔

 شعر کے بنیادی اجزاء دو ہی ہیں۔ خیال اور بیان یا الفاظ اور معنی یا موضوع اور طرز اظہار شاعری سےمتعلق باقی تمام باتیں اپنی دو حصوں کی تفصیلات ہیں۔ غالب شاعری کے ان دونوں بنیادی پہلوؤں کے بارے میں نہایت واضح خیالات رکھتے تھے۔ اپنے ایک شاگرد کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا کہ بھائی شاعری معنی آفرینی ہے قافیہ پیمائی نہیں۔ غالب کا یہ جملہ شاعری سے متعلق بہت سی کتابوں پر بھاری ہے۔ اس ایک جملے میں غالب نے شاعری کے بارے میں ایک نہایت اہم بات کہ دی ہے اور شاعری کے سلسلے میں ایک ماہ نما اصول بیان کر دیا ہے۔ شاعری قافیہ سے قافیہ لانے کا نام نہیں ، ہم آوازہ لفظوں سے کھیلنے کا نام نہیں بلکہ بات سے بات نکالنے اور انسانی واقعات تجربات میں معنی پیدا کرنے یا جو معنی ان کے اندر ہوتے ہیں انکو سمجھنے اور بیان کرنےکا نام شاعری ہے۔ 
 
جہاں تک شاعری کی زبان اور بیان کا تعلق ہے اس معاملے میں غالب نے کسی خاص نظریے کا اظہار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات جو ان کی شاعری سے نہایت واضح ہے وہ یہ ہے کہ شاعر کو چاہئے کہ وہ دوسرے شاعروں سے مختلف زبان اور بیان اختیار کرے۔ یعنی زبان وبیان میں جدت پیدا کرے زبان اور بیان پر شاعر کی شخصیت کی چھاپ ہونی چاہیئے۔ شعر پڑھتے ہی محسوس ہونے لگے کہ یہ زبان یا یہ انداز بیان تو فلاں کا ہو سکتا ہے اور فلاں کے سوا کسی اور کا ممکن نہیں۔

 زبان کے معاملے میں غالب کی امتیازی خصوصیت جو انہیں دوسروں سے الگ کرتی ہے۔ فارسی الفاظ و تراکیب کی طرف ان کی طبیعت کا جھکاؤ ہے شروع میں وہ اتنی فارسی استعمال کرتے تھے کہ اگر مصرح یا شعر کے ایک آدھ اُردو لفظ کو ہٹا دیا جائے تو پورا مصرع یا شعر فارسی کا ہو جائے۔ بعد میں ان کے یہاں اعتدال آتا گیا۔ لفظوں کے انتخاب اور ترکیبوں کے بنانے میں وہ اس کا خیال بھی رکھنے لگے کہ الفاظ و تراکیب خوش آہنگ ہوں یعنی ان میں ترنم اور موسیقی ہو اور ان کی مدد سے بڑے سے بڑا خیال یا مضمون کم سے کم لفظوں میں ادا ہو جائے

 غالب کے شاگرد مولانا حالی جنہوں نے غالب پر سب سے پہلی کتاب یار گارِغالب لکھی ۔ حالی نے غالب کی شاعری کے بارے میں جو اہم باتیں کہی ہیں ان میں سے ایک بات جس کا تعلق غالب کے طرز بیان سے ہے یہ ہے کہ غالب کے اکثر اشعار کا بیان ایسا پہلو دار واقع ہواہے کہ پہلی نظر میں اس کے کچھ اور معنی نکلتے ہیں مگر غور کرنے کے بعد اس میں ایک دوسرے معنی نہایت لطیف پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً غالب کا ایک شعر ہے 
 
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
 دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

پہلی نظر میں اس شعر کے جو معنی ذہن میں آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ جس دشت (جنگل) میں ہم ہیں وہ اس قدر ویران ہے کہ اس کو دیکھ کے گھر یاد آتا ہے یعنی خوف معلوم ہوتا ہے۔ مگر غور کرنے کے بعد اس شعر کے ایک دوسرے معنی یہ نکلتے ہیں کہ ہم تو اپنے گھر ہی کو سمجھتے تھے کہ ایسی ویرانی کہیں نہ ہو گی۔ مگر دشت بھی اس قدر ویران ہے کہ اس کو دیکھ کر گھر کی ویرانی یاد آتی ہے۔اسی طرح غالب کا ایک اور شعر ہے.

کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز 

مولانا حالی کے الفاظ میں اس کے ظاہری معنی تو یہ ہیں کہ اگر اس سے (محبوب) جان عزیز رکھوں گا۔ یعنی اگر اسے اپنی جان نہ دوں ) تو وہ ایمان لے لے گا اس لیے جان کو عزیز نہیں رکھتا اور دوسرے لطیف معنی یہ ہیں کہ اس بت (محبوب ) پر جان قربان کرنا تو عین ایمان ہے ۔ پھر اس سے جان کیو نکہ عزیز رکھی جا سکتی ہے ۔

یادگار غالب" میں مولانا حالی نے غالب کی شخصیت کے بارے میں بھی ایک نہایت اہم بات کہی ہے۔ عام طور پر انسان کو حیوان ناطق یعنی بولنے والا حیوان کہا جاتا ہے۔ مولانا حالی نے غالب کو حیوان ظریف قرار دیا ہے۔غالب واقعی حیوان ظریف تھے ۔ ان کے یہاں بات بات میں ظرافت ملتی ہے ۔ ان کی شاعری ، ان کی نثر، ان کے خطوط ان تمام چیزوں میں ان کی ظرافت رچیزوں کو دیکھنے کا مزاحیہ انداز ) بھری پڑی ہے۔ غالب کے لطیفے مشہور ہیں۔ ان کی طبیعت میں جو خوشی اور شگفتگی تھی اس نے ان کی شاعری میں ظرافت اور طنز کی شکل اختیار کی ہے۔ ان کی ظرافت (مزاح ) ہمیں قہقہہ لگانے پر نہیں مسکرانے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان کی طرز بھی پڑھنے والوں کے ذہن میں خیال کی لہریں پیدا کرتی ہے

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے سیکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا 

یہ شعر غالب کی ظرافت کی اچھی مثال ہے۔ کہتے ہیں کہ کراماً کاتبین (وہ دو فرشتے جو انسان کے دائیں اور باتیں شانے پر ہوتے ہیں اور انسان کے اچھے بڑے اعمال سکھتے رہتے ہیں،) ہم انسانوں کے بارے میں جو کچھ لکھ دیتے ہیں ان کی بنیاد پر حشر میں ہمیں سزا دی جاتی ہے (یا دی جائے گی ۔ سوال یہ ہے کہ جب کراما کابین ہمارے اعمال لکھ رہے تھے تو کیا گواہ کے طور پر ہمارا کوئی آدمی موجود تھا ۔ اس سوال کو سن کر بے اختیار آدمی مسکرانے لگتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ اگرچہ یہ بات مذاقاً کہی جا رہی ہے ۔ مگر کچھ ایسی غلط بھی نہیں ۔ غالب کے طنز کی ایک مثال دیکھئے

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب 
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

اس طنز کو پڑھ کہ انسانی زندگی کی بے بسی اور بچارگی کے بارے میں خیالات کی لہریں پیدا ہونے لگتی ہیں۔

خلاصہ کلام :

یہاں تک غالب کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ 
(1) اقبال کی طرح غالب کی شاعرانہ شہرت بھی پاکستان اور ہندوستان سے باہر جا چکی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کی اہمیت اور مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
(2) میر نے غالب کے بارے میں کہا تھا کہ اگر اس لڑکے کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا گیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا۔ غالب کسی کامل استاد کےبغیر لاجواب شاعر بن کر رہے ۔

(3) - اپنی ابتدائی شاعری میں غالب نے فارسی کے ایسے شاعروں کی تقلید کی جو خیال اور بیان دونوں کے اعتبار سے بہت مشکل مانے جاتے ہیں۔ چنانچہ غالب کی شاعری بھی مشکل ہو گئی اور بعض لوگ ان کی شاعری کا مذاق اُڑانے لگے ۔ 
(4) - غالب نے اپنے بعض پڑھے لکھے دوستوں کے سمجھانے پر شاعری کا وہ رنگ ترک کر دیا جو انہوں نے
تقریباً بارہ سال کی عمر سے تو بیس پچیس سال کی عمر کے درمیان اختیار کیا اور اس زمانے کے بیشتر کام کو دیوان غالب" میں شامل نہیں کیا ۔
(5 )لیکن اس زمانے کی کچھ غزلیں نمونے کے طور پر رکھ لیں جو نہ صرف زبان کے اعتبار سے حد درجہ فارسی آمیز بونے کی بنا پر مشکل ہیں بلکہ ہے مزہ بھی۔ (6)غالب نے جو بیس پچیس سال کی عمرتک کا جو کلام رد کر دیا اس میں بھی کچھ ایسے اشعار موجود ہیں جو غالب کو زندہ رکھنے کے لیے کافی تھے۔ اس طرح کے اشعار بہت سے شاعروں کو زندگی بھر نصیب نہیں ہوتے۔ (7)- وقت کے ساتھ ساتھ غالب کی زبان میں فارسیت کم ہوتی گئی اور ان کے خیالات میں زیادہ سے زیادہ گہرائی آتی گئی۔

(8 )- غالب کی مقبولیت کے دو خاص سبب ہیں۔

(1) اول تو یہ کہ ان کی شاعری میں انسانی زندگی اور انسانی فطرت کے اتنے پہلو موجود ہیں کہ ان کے شعر زندگی کی مختلف صورتحال میں یاد آتے رہتے
 (2) دوسرے یہ کہ غالب نے ایسے الفاظ اور ایسے چھبتے ہوتے انداز میں شعر کہتے ہیں کہ وہ آسانی سے یاد رہ جاتے اور مختلف موقعوں پر کام آتے ہیں ۔

(9 )- غالب کی شاعری تہہ دار بھی ہے اور پہلو دار بھی ۔ خیال کے اعتبار سے تہہ دار راینی خیال کے اعتبار سے گہرے اور بیان کے اعتبار سے پہلو راہ (ایک سے زیادہ مفہوم کی حامل )
(10)غالب کی شاعری کا ایک اہم پہلو انکی طنز اور ظرافت بھی ہے جو انکی شوخی اور شگفتہ طبعیت کا عکس ہے ۔انکی طنز اور ظرافت دونوں میں خیال پائی جاتی ہے۔