مختار مسعود کا تعارف اور اسلوب||آواز دوست کے مضامین
مختار مسعود کا تعارف
آواز دوست کے مصنف مختار مسعود 1926 ء میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ علیم اللہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں معاشیات کے پروفیسر تھے شیخ صاحب کو علامہ اقبال کے خطوط کا ایک اہم مجموعہ "اقبالنامہ " مرتب کرنے کا فخر بھی حاصل ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی بیداری اور ترقی میں علی گڑھ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔مسلم یونیورسٹی اس کے اساتذہ اور طلبا سے تحریک پاکستان کو بڑی تقویت ملی۔ مختار مسعود کی پرورش و پرداخت ملی احساس سے معمور علی گڑھ کے اسی ماحول میں ہوئی انہوں نے تحریک پاکستان کے ہنگامہ خیز دور میں عظیم قائدین کو بہت قریب سے دیکھا اور سنا۔
ان کا تعلق مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ کی اس نسل سے ہے جنہوں نے پاکستان کے تصور کو ایک ٹھوس حقیقت کی شکل دینے میں ایک جان نثار فوج کی طرح قائداعظم کا ساتھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ سرکاری ملازمت میں شامل ہوئے اور حکومت پاکستان کے اعلی ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں مسلمانوں کے ہوش و جذبے سے پاکستان کو وجود میں آتے دیکھا اور پھر ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے پاکستان کو دو لخت ہوتے بھی دیکھا۔ ہماری قومی زندگی کا یہی مد وجزر آواز دوست کا موضوع ہے ۔ آواز دوست در اصل ہماری کامرانیوں کا رزمیہ اور کوتاہیوں کا مرثیہ ہے جسے مختار مسعود جیسے وسیع المطالعہ وسیع النظر، ذہین شخص نے اپنے منفرد اسلوب میں لکھا ہے - آزاد دوست کا پہلا ایڈیشن 1973 میں اس وقت شائع ہوا جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا زخن ابھی تازہ تھا۔ مختار مسعود نے ہمیں ہماری داستان اس انداز سے سنائی کہ لوگوں کو جھٹکار سا محسوس ہوا۔
کتاب کا نام
آواز دوست کا نام مولانا جلال الدین رومی کے اس شعر سے لیا گیا ہے۔
خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آید این آوراز دوست
پرانے زمانے میں خشک کدو پر چمڑے کی کھال منڈھ لیتے تھے۔ اس پر آنت کی تانت لگا کر ساز بنالیتے تھے مولانا روم نے اس شعر میں اسی قسم کے ساز کے بارے میں کہا ہے کہ اس کدو کا گودا تارا اور چمڑا ہر چیز خشک ہے پھر اس میں سے دوست (خدا) کی سریلی آواز کہاں سے آرہی ہے ۔ اس شعر کی رو سے آواز دوست کا مطلب دلکش اور مانوس آواز ہے۔ مختار مسعود کی آواز دوست میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں اس میں اسلوب کی دلکشی بھی ہے اور لہجے کی دردمندی بھی۔
آواز دوست کے مضامین
آواز دوست دو مضامین مینار پاکستان اور قحط الرجال کا مجموعہ ہے پہلا مضمون ۱۹٦٨ میں لکھا گیا اور شام ہمدرد کی کسی نشست میں پڑھا گیا اور نقوش کے ایک شمارے میں شائع ہوا
مینار پاکستان
اس مضمون کا عنوان اگرچہ مینار پاکستان ہے۔ لیکن اس کے حوالے سے مصنف نے تحریک پاکستان کے پیس منظر کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے مینار پاکستان کی تعمیر کے دوران مختار مسعود لاہور کے کمشنر تھے اور انہیں اس مینار کی مجلس تعمیر کے صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ میں شخصوں نے معمول پاکتان کی ولولہ انگیز اور جہاد جس شخص نے پاکستان کے حصول کی ولولہ انگیز جدوجہد میں شرکت کی ہو اور بعد میں اس جدوجہد کا نشان تعمیر کرنے کی ذمہ داری بھی اس کے سپرد ہو جائے تو یہ واقعی ایک بہت بڑا اعزاز بن جاتا ہے ۔
قحط الرجال
قحط الرجال اواز دوست کا دوسرا مضمون ہے ۔مضمون خاصہ طویل اور کتاب کے تقریبا 200 صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ 72-1971 میں مکمل ہوا ہماری قومی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا تعلق اسی دور سے ہے آزمائش کے ایسے وقت میں اچھے لوگوں کی کمی خاصی طور پر محسوس ہوتی ہے ۔مختیار مسعود نے بعض عظیم ہستیوں کے ذکر سے ایک محفل عبرت پرپا کر کے ہمیں قحطالرجال کا احساس دلایا ہے ۔
مختار مسعود کا اسلوب
تکنیک
مختار مسعود نے آواز درست میں شامل اپنی تحریروں کو مضمون کا نام دیا ہے ۔ اردو میں مضمون کی اصطلاح انشائیے کے لئے بھی استعمال ہوتی رہی ہے اور پھر مقالے اور مضمون میں بھی زیادہ فرق نہیں کیا جاتا ۔ لیکن آواز دوست کے مضامین انشائیے ہیں نہ مقالات کیونکہ وہ ان دونوں میں سے کسی کی شرائط پر پورے نہیں اترتے ۔ ان مضامین میں کہیں کہیں انشائیے کی شگفتگی اور شخصی انداز تو ملتا ہے لیکن یہ انشاینے کی طرح بے مقصد اور غیر منظم نہیں ہیں بلکہ یہ ایک خاص مقصد کے تحت لکھے گئے ہیں۔ ان میں طوالت ضرور ہے لیکن ان میں مقالات کا سنجیدہ، بھاری بھر کم اور تحقیقی اسلوب نہیں ملتا۔ اس لیے آواز دوست کی تحریروں کو مضمون کہنا ہی زیادہ مناسب ہے ۔
انشائیے اور مقالے کی طرح مضمون موضوع کے اعتبار سے اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا اس میں زندگی کے ہر شعبے کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ علم وادب ، مذہب ، سیاست تاریخ تمدن غرض ہر موضوع پر لکھا جاسکتا ہے اور مضمون کے اندر بھی ہر قسم کے خیالات پیش کئے جاسکتے ہیں آواز دوست کا موضوع کو بڑی حد تک ہماری قومی تاریخ کے بعض نازک ادوار ہی ہیں لیکن اس میں اس تاریخ کے علاوہ فن تعبیر،قوموں کا عروج و زوال، مذہب ، اہم شخصیات سبھی کا ذکر ملتا ہے ۔ مختار مسعود نے اپنے مضامین میں ہر اس خیال کے لئے گنجائش نکالی ہے جو ان کے فکر وعمل پر اثر انداز ہوا اور وہ اس خیال کو دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ مصنف نے اپنے مضامین ہیں ایسے نکتے اٹھائے ہیں جو اپنی موجودہ بد حالی کے اسباب پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ مختار مسعود نے آواز دوست کے پہلے مضمون مینار پاکستان کو طویل مختصر اور قحط الرجال کو طویل از مضمون قرار دیا ہے لیکن پڑھنے والے کے نقطہ نظر سے یہ دونوں مضمون طویل ہی ہیں۔ طویل کہانی میں تو قاری کی دلچسپی برقرار رہ سکتی ہے لیکن اس مضمون کی طوالت میں ایسا کرنا آسان نہیں ہے اس قسم کے طویل مضمون مرزا فرحت اللہ بیگ نے بھی لکھتے ہیں لیکن مضامین میں کہانی کہنے کا انداز اور ان کے شگفتہ انداز بیان کی دلچسپی قائم رہتی ہے۔ مختار مسعود کے ہاں بھی طوالت کے باوجود دلچسپی برقرار رہتی ہے اس کے لئے انہوں نے کئی طریقوں سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ مینار پاکستان میں ڈرامائی تیکنیک زیادہ استعمال ہوئی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجلس تعمیر کا اجلاس پہلا منظر ہے اور اس کے اہرام سے ایفل ٹاور تک دنیا کے چھوٹے بڑے معروف و غیر معروف میناروں کے مناظر ہمارے سامنے سے گزرتے ہیں مضمون کے اس حصے میں تو ایک دلچسپ سفرنامے کا لطف بھی ملتا ہے، اس کے بعد تحریک پاکستان کا بیان آتا ہے۔
تحریک کو ایک مورخ کی طرح بیان نہیں کیا گیا بلکہ تحریک پاکستان سے تعلق رکھنے والے چند واقعات سے یہ تصویر مکمل کی گئی ہے۔ مینار پاکستان کی تعمیر دنیا کے مختلف میناروں کا حال اور حصول پاکستان کی داستان اس مضمون کے اہم حصے ہیں لیکن مختار مسعود نے ان تینوں حصوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے مربوط کیا ہے۔
آواز دوست کا دوسرا مضمون قحط الرجال چند عظیم شخصیتوں کا تذکرہ ہے۔ اتنی مختلف شخصیتوں پر مشتمل مضمون میں تسلسل پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس پر کئی مضمون تو لکھے جاسکتے ہیں لیکن کسی ایک مضمون میں ان سب کو سمیٹنا آسان نہیں لیکن مختار مسعود نے اپنے آٹو گراف البم کی بدولت ان سب نے ان سب شخصیتوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ انہوں نے باری باری ان تمام شخصیتوں کا ذکر کیا ہے جن کے دستخط ان کے آٹوگراف البم میں موجود ہیں اس طرح یہ البم اس مضمون میں تسلسل کا باعث بنتا ہے۔ مصنف نے آواز دوست کے دونوں مضامین میں فلیش بیک FLASH BACK کی فلمی تکنیک بھی استعمال کی ہے مضمون کے درمیان جہاں کوئی بات یاد آئی وہاں اس کا ذکر چھڑ گیا اور اس کی تکمیل تک مضمون وہاں ٹھہر گیا ۔ فلموں میں بھی کسی کردار کو کوئی گذری ہوئی بات یاد آجاتی ہے تو فلم اس کی یاد کے نقطہ آغاز سے شروع ہوتی ہے ۔
اسلوب بیان
آواز دوست کی مقبولیت میں اس کے موضوع کے علاوہ اس کے دلکش اسلوب کا بھی بڑا ہاتھ ہے اور یہ کتاب انشاپردازی کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے ۔ مختار مسعود نے آواز دوست کے مضامین کو سادہ اسلوب میں نہیں لکھا بلکہ اسے مزین اسلوب کہا جا سکتا ہے۔ اردو میں مزین اسلوب کے سلسلے میں ایک قدیم دبستان اور مرزا رجب علی بیگ اس دبدتان کے سب سے نمائندہ نثر نگار ہیں ۔ قدیم دبستان کے ادیب لفظی بازیگری کے زیادہ ماہر تھے اور وہ لفظوں کے استعمال کے ذریعے جدت یا ندرت پیدا کر لیتے تھے کبھی کبھی تو ایک ہی لفظ پر تمام مضمون کی بنیاد رکھ کر اس لفظ کی رعایت سے دوسرے لفظ لا کر اپنی مہارت کا ثبوت دیتے تھے ۔ اس اسلوب کی نمایاں " ترین خصوصیات یہ تھی کہ اس میں لفظ زیادہ اور مطلب کم ہوتا تھا۔ اس دبستان کے ایک نمائندہ نثر نگار مرزا جب علی بیگ ایک چھوٹی سی بات کو کہ سورج نکلا یوں ادا کرتے ہیں ۔
اُردو میں مہدی افادی ،عبدالرحمن بجنوری رشید احمد صدیقی سے اردو نثر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ مولانا محمد حسین آزاد قدیم وجدید ترین اسلوب کی درمیانی کڑی ہیں نئے دور کے ان لکھنے والوں کا اسلوب بھی مزین ہے لیکن ان کا انداز قدیم دبستان سے بالکل مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نظروں کے ساتھ ساتھ معانی کی اہمیت کے بھی قائل ہیں بلکہ زیادہ قائل ہیں ان کے ہاں معانی کی جدت بھی زیادہ ہے ان کے ہاں حسن عبارت کے ساتھ حسن خیال بھی ملتا ہے مختار مسعود اپنے اسلوب کے لحاظ سے انشا پروازوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان پر رشید احمد صدیقی کے اسلوب کا اثر زیادہ نظر آتا ہے۔
0 Comments