Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

 Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

گھٹا بڑھا کے ،ذرا سا سجا کے لے جاؤ

مری کہانی بِکے گی ،بنا کے لے جاؤ


میں بےخبر نہ مرُوں علم کچھ توہو میرا

خبر رساں مجھے مُخبر بنا کے لے جاؤ


کروں گا کیامیں، بہر گام تمغہء حیرت؟

تم اپنی حیرتی آنکھیں دکھا کے لے جاؤ


ہمارے حجرے میں رکھے ہیں زندگی کے چلن

تمھیں پسند جو آئے اٹھا کے لے جاؤ


بڑی حسین تمنّائیں سو رہی ہیں یہاں

اُتر کے دل میں جگاؤ،جگا کے لے جاؤ


کسی کے سینے پہ تعویذ ہیں شجاعت کے

کوئی زباں نہیں رکھتا چُرا کے لے جاؤ


سَند وفا کی وہ لکھتا ہے خطِ کُوفی میں

کوئی بھی زخم پرانا دکھا کے لے جاؤ


سُلگتی راکھ ہے گلیوں میں اور اندھیرا ہے

بس ایک تِیلی ہے تاباں جلا کے لے جاؤ


عبد القادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

لہو قصہ سناتا جا رہا ہے

مجھے سب یاد آتا جا رہا ہے


میں خود کو خرچ کرنے پر تلا ہوں

کوئی مجھکو کماتا جا رہا ہے


مرے پیروں میں تھا شورِ سلاسل

جُنُوں پائل بناتا جا رہا ہے


زمانہ روز دیتا ہے نیا غم

تمھارا غم بھلاتا جا رہا ہے


اٹھا کر سر پہ سورج بھاگتا تھا

شجر چھاؤں بناتا جا رہا ہے


اگرچہ میں سراپا خامشی ہوں

وہ مجھ کو گنگناتا جا رہا ہے


خوشی تاباں ڈری سہمی ہوئی ہے

مگر غم مسکراتا جا رہا ہے


عبد القادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

زمزمے بھی اداس کرتے ہیں

چہچہے بھی اداس کرتے ہیں


ہم تبسم گریز لوگوں کو....

قہقہے بھی اداس کرتے ہیں


منزلوں سے بچھڑ کے دیکھ کبھی

راستے بھی اداس کرتے ہیں


قربتوں میں بھی مسئلے ہیں کئی

فاصلے بھی اداس کرتے ہیں


ظلمتوں سے نظر کی بنتی نہیں

قُمقُمے بھی اداس کرتے ہیں


نقشِ پا کی لکیر چھوڑ گئے

قافلے بھی اداس کرتے ہیں


رونقِ شہر بے سکونی ہے

حادثے بھی اداس کرتے ہیں


شاعری میں فقط ردیف نہیں

قافیے بھی اداس کرتے ہیں


خواب حسرت بدوش تھے تاباں

رتجگے بھی اداس کرتے ہیں

عبدالقادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

رات خورشید کی اقلیم اُلٹ جاتی ہے

اور اک لاش ترے غم سے لپٹ جاتی ہے


کوئی نظارہ نہیں رہتا نظر کی زینت 

آنکھ بس ایک ہی منظر پہ سمٹ جاتی ہے


پہلے ہوتی ہے سبک فام پہ رفتہ رفتہ

زندگی گرد ِ مہ و سال میں اٹ جاتی ہے 


یاد جب آتے ہیں بچھڑے ہوئے ہیرے تاباں

میری دنیا کئی دنیاؤں میں بٹ جاتی ہے 


عبد القادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

غم سے جو آشنا نہیں ہوتا

کوئی اتنا بُرا نہیں ہوتا 


راستہ ہمسفر تو ہوتا ہے

راستہ ہم نوا نہیں ہوتا


یہ کہیں سے بھی پھُوٹ سکتی ہے

روشنی کا پتہ نہیں ہوتا 


سیدھے رستے کو ناتمام سمجھ

خط کا کوئی سِرا نہیں ہوتا 


ہات اٹھتے تو ہیں دعا کے لیے

حرف محوِ دعا نہیں ہوتا 


اپنا اپنا مفاد ہوتا ہے

کوئی اچھا برا نہیں ہوتا 


گاؤں بھی سارے خوبصورت ہیں

شہر جیسا مزا نہیں ہوتا 


ایسے دل کو نہ دل کہو تاباں

شور جس میں مچا نہیں ہوتا 


عبد القادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مٹی ہے محوِ خواب فلک جاگتا ہے آج

حیرت میں ڈوبا وقت بھی، ٹھہرا ہوا ہے آج


روح الامیں کے ساتھ چلی روحِِ کائنات

بزمِ الست میں کوئی جلوہ نما ہے آج


ایسی چمک ستاروں میں پہلے نہ تھی کبھی

چشمِ فلک میں طُور کا سرمہ لگا ہے آج


پلکیں جھپکنا بھول گئیں فرطِ شوق سے

نظارہ خود بھی محوِ نظارہ ہوا ہے آج


بیٹھے ہوئے ہیں خالق و مخلوق روبرو

سوچا بھی کب تھا عقل نے جیسا ہوا ہے آج


خیرالبشر کے دم سے بشر معتبر ہوا

جبریل کی حدود سے آگے گیا ہے آج


الجھی ہوئی ہے خواب وحقیقت کی بحث میں

تاباں خرد کے پاؤں میں کانٹا چُبھا ہے آج

عبدالقادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

سرِ مژگاں ستارہ اُگ رہا ہے

دُکھوں کا استعارہ اُگ رہا ہے


زمین ِ دل ذرا سی نرم رکھیے

کوئی پودا بچارہ اُگ رہا ہے


میں ننھے بازوؤں کو سیِنچتا ہوں

بڑھاپے کا سہارا اُگ رہا ہے 


خدا رکھے تجھے کم سِن بھکاری

سہارا ، بے سہارا اُگ رہا ہے 


سکُوت ِ شب میں آنکھیں مسکرائیں

سمندر میں کنارہ اُگ رہا ہے 


خزاں انگڑائیاں لیتی ہے تاباں

یہ کس کا غم دوبارہ اُگ رہا ہے


عبد القادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

متاعِ شعر و سخن ہم کو طبعزاد ملی

خوشا نصیب کہ ہم کو غموں پہ داد ملی


بھٹک رہے ہیں عناصر وفا کے، دنیا میں

ہم اس کے شہر سے نکلے تو اسکی یاد ملی


تیاگ کر فنِ کوزہ گری روانہ ہوئے

قضا کے موڑ پہ آخر وہ شہرزاد ملی


کھِلے ہوئے ہیں ہزاروں ہی زخم سینے میں

کسی کے لہجے سے اس گلستاں کو کھاد ملی


مسافروں نے بتایا ،کہ پُوچھتے ہو مرا

خوشی ملی بھی تو دل کو تمھارے بعد ملی


گلاب آخری لمحوں کا نام ہے تاباں

کلی ملی بھی کسی کو تو بے مراد ملی


عبد القادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

دشت شہروں سے پریشان نظر آتے ہیں

جس طرف دیکھیے انسان نظر آتے ہیں


سب کے رستے میں گڑی ہے کسی فتوے کی صلیب

چند لمحوں کے مسلمان نظر آتے ہیں


آپ نے مجھ کو بتایا کہ میں کافر ہوں

آپ تو صاحبِ عرفان نظر آتے ہیں


کیا تماشہ ہے کہ بہرے بھی ہیں بے بہرہ بھی

جن کو دیوار کے بھی کان نظر آتے ہیں


صرف اک پتلی گلی نے جنھیں پہچانا تھا

اجکل شہر کی پہچان نظر آتے ہیں


اس کی چاہت بھی ہے شو پیس کی چاہت جیسی

دُور سے ہم اسے گلدان نظر آتے ہیں


 فائدہ کچھ نہیں نفرت کا بھی یوں تو تاباں 

پیار کرنے میں بھی نقصان نظر آتے ہیں


عبدالقادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

کیا جانیے کس چیز کی حاجت میں کھڑے ہیں

یہ لوگ جو صف بستہ عبادت میں کھڑے ہیں


کچھ اپنی تمنا کی تلاوت میں ہیں مصروف

کچھ چہرہء انور کی تلاوت میں کھڑے ہیں 


جنگل سے تو جُز خوف گذرتا نہیں کوئی

صدیوں سے شجر کس کی محبت میں کھڑے ہیں 


جو عکس بنے پھرتے تھے ایثار و وفا کا

اب آئینہ رُو بن کے ندامت میں کھڑے ہیں


زاہد بھی نہیں اُٹھتے زمانے سے ، یہ کہہ کر

بیمار زمانہ ہے عیادت میں کھڑے ہیں


سینوں میں نہیں خوف کسی روزِ جزا کا

سب اپنے عقیدوں کی حفاظت میں کھڑے ہیں


تکلیف سے لڑتی ہوئی ماں بستر ِ زِہ پر

اور مرد، نئے غم کی مہورت میں کھڑے ہیں 


اب مجھ پہ مرا قتل بھی واجب ہوا تاباں

دشمن، دلِ دشمن کی قیادت میں کھڑے ہیں


عبد القادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

غم کدے میں فسُوں اچھالتا ہوں

ابھی بوتل سے جِن نکالتا ہوں


کب تلک موت کا کروں پیچھا ؟

سانس لے لُوں تو حل نکالتا ہوں


"سر قلم کیجیے" کا اٹھتا ہے شور

جیب سے جب قلم نکالتا ہوں


قدر جن کی نہیں مقدر کو

ایسے بیمار پل سنبھالتا ہوں


بیٹیاں مجھ کو آنکھ جیسی ہیں

میں انھیں اشک بن کے پالتا ہوں


لوگ سانپوں کو آستیں میں رکھیں

میں سپیروں کا شوق پالتا ہوں


کل کی کس کو خبر رہیں نہ رہیں

آج کو آج پر ہی ٹالتا ہوں


اور کیا اوڑھتا دسمبر میں

گرم یادوں کو خود پہ ڈالتا ہوں


آئینہ دیکھتے ہیں سب تاباں

حرف کاغذ پہ یوں اجالتا ہوں

عبدالقادر تاباں

Revolutionary Poetry In Urdu By Abdul Qadir Tabaan

گھٹا بڑھا کے ،ذرا سا سجا کے لے جاؤ

مری کہانی بِکے گی ،بنا کے لے جاؤ


میں بےخبر نہ مرُوں علم کچھ توہو میرا

خبر رساں مجھے مُخبر بنا کے لے جاؤ


کروں گا کیامیں، بہر گام تمغہء حیرت؟

تم اپنی حیرتی آنکھیں دکھا کے لے جاؤ


ہمارے حجرے میں رکھے ہیں زندگی کے چلن

تمھیں پسند جو آئے اٹھا کے لے جاؤ


بڑی حسین تمنّائیں سو رہی ہیں یہاں

اُتر کے دل میں جگاؤ،جگا کے لے جاؤ


کسی کے سینے پہ تعویذ ہیں شجاعت کے

کوئی زباں نہیں رکھتا چُرا کے لے جاؤ


سَند وفا کی وہ لکھتا ہے خطِ کُوفی میں

کوئی بھی زخم پرانا دکھا کے لے جاؤ


سُلگتی راکھ ہے گلیوں میں اور اندھیرا ہے

بس ایک تِیلی ہے تاباں جلا کے لے جاؤ

عبد القادر تاباں

Post a Comment

0 Comments