Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

زمین کا نہ کسی آسماں کا مسئلہ ہے 

یہ اس کا اور مرے درمیاں کا مسئلہ ہے  


فلک پرست جنہیں لامکاں کا مسئلہ ہے 

میں اک غریب ہوں میرا مکاں کا مسئلہ ہے 


جھکانے جکھنے پہ موقوف ہے تمام حیات 

کہیں تو سر کا کہیں آستاں کا مسئلہ ہے 


تمام عمر یہی سوچتا رہا ہوں میں 

مرا جہاں سے کہ مجھ سے جہاں کا مسئلہ ہے


وہ کامیاب ہیں جن کو ہے فکرِ آئیندہ 

ہمارے ہاں تو فقط رفتگاں کا مسئلہ ہے 


اس اجنبی سے کہو مسئلہ نہ پیدا کرے 

جہاں سے آیا ہے اسکا وہاں کا مسئلہ ہے 


کوئی نہیں جو مرا حال جا کے اس سے کہے 

تعلقات میں اک رازداں کا مسئلہ ہے 


مرا تو آج بھی ہے مسئلہ اسی کے ساتھ

مگر نہ جانے یہ اس کا کہاں کا مسئلہ ہے 


جو مرحلہ کہہیں سچ بولنے کا آیا بھی 

تو کہنے لگتے ہیں یہ تو فلاں کا مسئلہ ہے 


اسی کو مارتے ہیں جس کے ہم نگہباں ہوں 

ہمیں منافقتِ پاسباں کا مسئلہ ہے 


دلیلِ اہلِ سیاست بھی کیا غضب کی ہے 

کہ قتلِ عام بھی امن و اماں کا مسئلہ ہے 


یہ میر و غالب و اقبال و فیض ہی کو نہ تھا 

سخن میں آج بھی زورِ بیاں کا مسئلہ ہے 

                   جاوید احمد

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

سیلِ خواب سے نکل آنکھ کے بھنور سے کھیل 

خود میں ڈوب کر کبھی دل کے بحر و بر سے کھیل


چاک کے گھمائو سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پُر کشش ہے تیرا نقش

آب و گل کے رقص میں تو بھی شور و شر سے کھیل


دیکھ ادھ کھلی کلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور گفتگو نہ کر 

بات دل میں رکھ تمام کھیل سب نظر سے کھیل


وہ نہ چل سکا کبھی ۔۔ تو نہ رک سکی کہیں 

اے ہوائے بے ثمر پا بہ گِل شجر سے کھیل


گھائو تیز ہو کبھی جب کسی کی بات کا 

دل میں بات اتار کر گھائو کے اثر سے کھیل


کھیل کھیل میں یہاں ۔۔۔۔۔۔ ٹوٹتے ہیں روز دل 

دل کے کھیل سے نکل انجم و قمر سے کھیل


سنسنی میں ڈال کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنسناہٹیں 

پہلے اک خبر بنا پھر اُسی خبر سے کھیل


بات اپنے کام کی ہو سکے نہ جب کوئی 

پھر گھما کے بات کر اور اگر مگر سے کھیل


دل مین اک سخن بٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسے گہر بنا 

ڈال اُس کے کان میں پھر اُسی گہر سے کھیل


یہ جنوں کا باب ہے تجھ سے کھل سکے گا کیا 

ہے یہی ترا نصیب ۔۔ دستک اور در سے کھیل


انتہائے شب سے یہ ۔۔ کہہ گئی دئے کی لو 

میرا کھیل ختم ہے اب رخِ سحر سے کھیل

جاوید احمد

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

باہر ہے صحرا اک خاک اڑاتا اندر ہے بارش مسلسل

یہ تو رہی ہے ظاہر سے باطن کی ایک سازش مسلسل 


دہلیز گھر کی حدِ قفس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باہر اجل کا جرس ہے 

سانسیں رکی ہیں رہتی ہے پھر بھی جینے کی خواہش مسلسل


کیا دوستی ہے کیا دشمنی ہے محبوب کیا عشق کیا ہے 

ناموں میں کیا ہے سب کر رہے ہیں اپنی پرستش مسلسل 


کون و مکاں ہو یا خشک و تر ہو کچھ بھی تو دائم نہیں ہے 

اس رہگذر کے ہر شور و شر میں رہتی ہے گردش مسلسل 


کوئی ارادہ یا کوئی جادہ ۔۔۔۔۔ وحشت ہی پیشِ نظر ہے 

ٹھہرا ہوا ہے یہ کارواں اور منزل کی خواہش مسلسل 

                                   جاوید احمد

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

بس اک نقطے سے تھا ان سارے امکانات کا آغاز 

اِسی سے گردشیں نکلیں ۔۔۔۔۔ ہوا دن رات کا آغاز 


بہت بے کیف سی اک بے کرانی کا وہ عالم تھا 

ہلائے خاک نے لب تو ہوا پھر ۔۔۔۔۔ بات کا آغاز 


کسی ترتیب میں آتا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ منتشر عالم 

زمیں کی قید میں مہتاب کے درجات کا آغاز 


کسی آمادگی سے سلسلہ پھر نسل کا نکلا 

کسی حسنِ گماں سے تھا یقینِ ذات کا آغاز 


یہ ہجر و صل کے سب سلسلے قائم ہیں نسبت سے 

نکل آیا کسی انکار سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اثبات کا آغاز 


عطا فطرت کے خشک و تر نے خال و خد کئے ہم کو 

پھر اشکوں کی چھما چھم سے ہوا ۔۔۔ برسات کا آغاز 

جاوید احمد

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

وہ سادہ ہے .سو مجھے تاک ہونا پڑتا ہے 

کبھی سبک ......کبھی سفاک ہونا پڑتا ہے


پیام خوشبو کا ... یوں ہی کلی سے آتا نہیں 

صبا کے ہاتھوں اسے .. چاک ہونا پڑتا ہے


شجر کے سائے میں .... صیاد ہو مسافر ہو 

کہ پنچھیوں کو تو...... چالاک ہونا پڑتا ہے


سخن کی تال میں بہتی ہے ایک رو جس کو 

کبھی جنوں ....... کبھی ادراک ہونا پڑتا ہے


اسے بتائو کہ یہ راستے .... چلے ہوئے ہیں 

نئی تلاش میں .. ......خاشاک ہونا پڑتا ہے


کسی کی سنتے ہیں کب ...اہلِ دولت و دنیا 

صدا کو جانبِ افلاک ..........ہونا پڑتا ہے


یہ آستانہ ء دویش ہے ...... سنبھل کے ذرا 

منافقت سے یہاں .......... پاک ہونا پڑتا ہے


جو موسم آئے تو اب بھی کبھی کبھی سرِ شام

غزال نکلیں تو............ بیباک ہونا پڑتا ہے

جاوید احمد

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

میں آبجو کے کنارے وہ آبجو میں تھا 

کہ اس نظارے کا نشہ مرے لہو میں تھا 


قریب تر تھا بدن سے بدن مگر پھر بھی 

یہ دل تو آگے سے آگے کی جستجو میں تھا 


گذر رہا تھا طلسماتِ خال و خد سے میں 

اور اک بہائو کہ دریائے رنگ و بو میں تھا 


اک آئنے کی جھلک سے ہوا تھا میں بے خود 

یہ کس کا عکس مرے جام اور سبو میں تھا 


اُتر رہا تھا رگ و پے میں ان لبوں کا رس 

بدن بھی جیسے کسی طشتِ آرزو میں تھا 

جاوید احمد

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

گہر تھا انتظار کا کہ اشک تھا رکا ہوا 

طلسمِ حرفِ مدعا اس آنکھ سے بندھا ہوا


وہ پھول آئنے میں تھا کہ آئنہ تھا پھول میں 

کہ رنگ و عکس کا عجیب سلسلہ بنا ہوا


میں عمر بھر پڑا رہا اسی فسونِ حرف میں 

جو سنگِ راہِ عشق پر کسی کا تھا لکھا ہوا


نقوشِ پا کا سلسلہ بس ایک حد تلک رہا 

پھر ایک خار زار مین وہ راستہ چھپا ہوا


کہیں کہیں تو ایڑیاں رگڑ رہی تھی یہ زمیں 

کہ اس کے اندرون میں ہے کوئی دکھ بھرا ہوا


خرد کا بیج اس لئے نہ برگ و بار لا سکا 

کہ اس زمینِ دل میں آبِ عشق تھا ملا ہوا


ہر ایک دلکشی کا جو بھرم ہے دوریوں سے ہے 

ذرا قریب تر ہوئے تو حسن سب ہوا ہوا


وہ چاند ایسا جلوہ گر رہا کہ رات بزم میں 

جو آنکھ تھی ٹھہر گئی جو لب تھا بے نوا ہوا


یہ دل تو تھا ہزار خواہشوں کا اک صنم کدہ 

نکل گئیں یہ خواہشیں تو پھر یہ لا الہ ہوا

                          جاوید احمد

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

کردار جو بند ہیں لفظوں میں مشکل سے کہانی کھولتے ہیں 

اک عمر جو ان کے ساتھ رہیں تب جا کے معانی کھولتے ہیں


ہر موج یہاں آزادی کی کس خوبی سے زنجیر ہوئی

دریا پر جبر کناروں کا بہتے ہوئے پانی کھولتے ہیں


ہم بے اسباب تو تھے لیکن اک پردہ سفر کا اچھا تھا 

اب منزل ہے یا رسوائی ہم بے سامانی کھولتے ہیں


مت دیکھ انہیں اے خود آرا یہ یہ وحشت وحشت آئینے

زنگار بنا دیتے ہیں اسے جس پر حیرانی کھولتے ہیں


کوئی خواب حسیں کوئی رنگ نیا اس شہر میں کیا لائے گی ہوا 

یہ اپنے محنت کش بچے کب بابِ جوانی کھولتے ہیں


اس شہر کی پکی سڑکوں سے مرے گائوں کے رستے اچھے ہیں 

واں سبزے پر شبنم شیشے اک صبح سہانی کھولتے ہیں

جاوید احمد

Latest Urdu Poetry By Jawad Ahmad 2023

خامشی کو تو میں گفتار نہیں لکھ سکتا

سوگیا جو اُسے بیدار نہیں لکھ سکتا 


چپکے چپکے پسِ دیوار میں رو لیتا ہوں 

غم کو لیکن سرِ دیوار نہیں لکھ سکتا 


روز لکھتا ہو کہ کون آیا گیا دل میں مگر 

اب کوئی نام لگا تار نہیں لکھ سکتا 


وہ جو دریائے محبت کے کنارے ہے کھڑا 

آئے گا موج میں اس بار نہیں لکھ سکتا 


حرفِ پر خار سے کب سہل سخن ہوتا ہے 

راہِ سنگلاخ کو ہموار نہیں لکھ سکتا 


تو نے کب جانے دیا مجھ کو بدن سے آگے 

میں تری روح کے اسرار نہیں لکھ سکتا 


شہر میں لوگ کہاں تہمتیں کچھ زندہ ہیں 

میں انہیں صاحبِ کردار نہیں لکھ سکتا 


یہ جو کچھ حاشیہ بردار ہیں تیرے اطراف

میں انہیں مجمعِ ایثار نہیں لکھ سکتا 


اب اندھیروں کی اجازت سے جو جلتا ہے چراغ

روشنی کا اسے اوتار نہیں لکھ سکتا 


جب نہیں لوگوں میں کچھ طاقت و توفیقِ خرید 

میں اسے رونقِ بازار نہیں لکھ سکتا 


                   جاوید احمد


Post a Comment

0 Comments