قرآن مجید کی مختلف ادوار میں جمع و تدوین ||عہدِ صدصدیقی||عہدِ عثمانی

قرآن مجید کی مختلف ادوار میں جمع و تدوین ||عہدِ صدصدیقی||عہدِ عثمانی

 قرآن مجید کی مختلف ادوار میں جمع و تدوین 

جمع و تدوین قرآن کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب (قرآن کریم) اپنی موجودہ شکل میں کب اور کیسے تیار ہوئی۔ قرآن حکیم آنحضرت ﷺ پر ایک دم نازل نہیں ہوا بلکہ تھوڑا تھوڑا تقریبا 23 برس تک نازل ہوتا رہا۔ قرآن حکیم کے نزول کی ابتداء آپ کی عمر مبارک کے اکتالیسویں سال کے رمضان المبارک میں ہوئی۔ اور اس کی تکمیل آپ کی عمر کے تریسٹھویں سال کے ذوالحجہ میں ہوئی۔

پہلی وحی الہی

قرآن مجید وحی الہی ہے۔ وحی کا معنی " چھپا کر اور جلدی سے اطلاع دینا ہے اس سے مراد وہ خاص غیبی طریقہ ہے جس سے اللہ تعالی کسی نبی تک اپنا پیغام پہنچاتا ہے وحی کی مختلف سورتیں ہوتی ہیں مثلا :

سچے خواب 

فرشتہ اپنی اصلی یا انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنا پیغام پہنچائے۔

غیب سے آواز آئے اور کوئی بات کرنے والا دکھائی نہ دے۔ 

ایک خاص کیفیت طاری ہو اور اس کے بعد غیب سے کلام سنائی دے۔

 قرآن حکیم ای آخری طریقے پر نازل ہوا۔ نزول وحی سے پہلے نبی اکرم ﷺ ایک گھنٹی کی آواز سنتے ، پھر آپ ﷺ پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی جس میں آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ سرخ ہو جاتا، سانس تیزی سے آنے لگتا اور سخت سردی کے موسم میں بھی پیشانی مبارک پینے سے شرابور ہو جاتی ۔ اس حالت میں آپ کو کلام الہی سنائی دیتا اور وحی کی کیفیت ختم ہونے کے بعد آپ کو اس طرح سنا ہوا پورا کلام یاد ہوتا تھا۔ 

 نزول وحی کے لئے کوئی وقت جاگہ یا مقدار مقرر نہیں تھی ۔ گھر ، دن اور رات میں جب اور جہاں حکم الہی ہوتا فرشتہ آپ کو کام ابھی پہنچا دیتا تھا جو بھی ایک آدھ آیت کبھی پوری سورت اور بھی کئی سورتوں کی کئی آیات ہوتیں۔

 قرآن حکیم کی ترتیب

قرآن حکیم کے نزول کی ترتیب اس کی موجودہ ترتیب سے مختلف تھی ۔ موجودہ ترتیب میں قرآن حکیم الحمد سے شروع ہو کر والناس پر ختم ہوتا ہے جب کہ نزول کی ترتیب میں سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیتیں سب سے پہلے نازل ہوئیں۔ سورۃ البقرہ ، آل عمران، النساء اور المائدہ جو شروع کی سورتیں ہیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ تاہم قرآن حکیم کی ایک سو چودہ سورتوں کی باہمی ترتیب اور سورتوں کی اندرونی ترتیب یعنی آیات کی آپس میں ترتیب تو قیفی ہے۔ توقیفی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت نے اللہ کے حکم سے یہ ترتیب مقرر فرمائی ہے۔ 

ہر نئی وحی کے بعد آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ بتا دیا کرتے تھے کہ ان آیات کو قلال سورت میں فلاں آیت سے پہلے اور فلاں کے بعد لکھا اور پڑھا جائے ۔ ہر سال رمضان المبارک میں آپ ﷺ حضرت جبرائیل کے ساتھ اس وقت تک نازل شدہ قرآن کریم کا زور کیا کرتے تھے ۔ آنحضرت ﷺ کی زندگی کے آخری رمضان میں یہ دور دو دفعہ کیا گیا تھا۔

 قرآن حکیم کی کتابت

آنحضور ﷺ نے شروع سے ہی اس بات کا اہتمام کیا کہ کلام الہی کو خود اپنی عام بات چیت سے (جو عربی میں ہی ہوتی تھی الگ محفوظ اور ممتاز کر دیا جائے۔ آپ خود امی تھے اس لئے نزول وحی کے بعد کسی پڑھے لکھے آدمی سے نازل شدہ کلام لکھوا کر اسے پڑھا کر سن لیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں عرب میں کاغذ کا رواج بہت کم تھا۔ لکھنے کے لئے کھجور کے چوڑے پتے، اونٹ کے شانے کی ہڈی ، ہرن کی جھلی وغیرہ استعمال ہوتی تھی۔ جو چیز بھی وقت پر دستیاب ہو جاتی اس پر نازل شدہ آیات لکھ لی جاتی تھیں ۔ 

اس کے بعد آپ ﷺ اس تحریر کو مسلمانوں میں پھیلاتے اور وہ اس سے نقل کر کے اپنے پاس رکھتے اس طرح ابتدائی دور میں ہی مکہ کے مسلمان گھروں میں قرآن کریم کے لکھے ہوئے حصے موجود تھے۔ وحی کو لکھوانے کا کام ہمیشہ کسی مسلمان سے لیا جاتا ۔ اور آپ اس کا اتنا اہتمام فرماتے تھے کہ ہجرت مدینہ کے خطرناک سفر میں بھی آپ ﷺ نے لکھنے کا سامان اور کا تب ساتھ رکھا کہ شائد راستے ہی میں کوئی وحی نازل ہو جائے۔ 

مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ نے یہ انتظام بھی فرمایا کہ قرآن مجید کا ہر نیا نازل شدہ حصہ لکھوانے کے بعد مسجد نبوی میں ایک صندوق میں رکھ دیا جاتا تھا اور تمام مسلمان اس سے اپنے لئے نقلیں تیار کرتے رہتے تھے اس طرح آنحضرت ﷺ کے وصال (سن 11 ہجری) تک قرآن پاک کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جو تحریری صورت میں متعدد مسلمان گھروں میں موجود نہ ہو، البتہ یہ مسلسل اور یکجا مرتب کتاب کی شکل میں نہ تھا بلکہ بکھرے ہوئے اور اق کی مانند تھا۔

حفظِ قرآن

کسی کتاب کی حفاظت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے اہتمام سے لکھوایا جائے اور دوسرا یہ کہ اسے زبانی یاد کیا جائے۔ تمام آسمانی کتابوں میں سے صرف قرآن حکیم ہی ایسی کتاب ہے جسے حفظ کیا گیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ عہد نبوی میں عربی زبان کے حرفوں پر نکلے اور حرکات (زیر، زیر، پیش وغیرہ) ڈالنے کا رواج نہیں قا اس لئے شروع ہی سے ہی حضرت اے شور میں کردم معنی اللہ حتم و قرآن سیکم کی درست قرارت سکھاتے اور آپ ان سے براہ راست مجھے ہوئے صحابہ کرام آگے داروں کو ای تلفظ کے ساتھ قرآن کریم پڑ جاتے تھے جس طرح انہوں نے حضور ﷺ سے سیکھا ہوتا تھا ۔

حضور وانے شروع ہی سے قرآن کے حفظ کرانے کا اہتمام فرمایا۔ قرآن کا کچھ حصہ ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے کی کرنا ضروری ہے تا کہ دو نماز میں قراءت کر سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ قرآن کریم کی حفاظت بیک وقت دو طریقوں سے ہوں یعنی کتابت اور حفظ چونہ قر آن توڑا تھوڑا نازل ہوتا تھا اس لئے اسے حفظ کرنا آسمان تھا۔ نیز اس معاشرہ میں با عزت مقام دینے سرکاری عہدوں پر تقر ، امامت قضاء اور گورزی وغیرہ کے لئے بھی قاریوں کوترتیب دی جاتی تھی ان سب باتوں کا نتیجہ ہیں کہ حضور بیتا کی زندگی میں کئی افراد عمل قرآن کریم حفظ کر چکے تھے۔ ان میں بعض ہر رات میں مکمل قرآن ختم کرتے تھے ان لودر سے پڑتے ہوئے شوق کی بناء پر حضور کو پانچ یا تین رات سے کم میں قرآن ختم کرنے سے منع فرمانا پڑا۔ 

قرآن حکیم کی سورتوں اور آنتوں کا نزول چونکہ ترتیب وار اور موجودہ ترتیب کے مطابق مسلسل نہیں ہوا بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ ایک سورت ابھی مکمل نہ ہونے پاتی تھی کہ درمیان میں دوسری سورت نازل ہونا شروع ہو جاتی تھی۔ ولی کا سلسلہ آنحضرت کی آخری تحریک جاری رہا اس لئے قرآن تقسیم کو آپ کی بتائی ہوئی ترتیب تلاوت کے مطابق مسلسل لکھنا ممکن نہیں تھالیتہ حافظے کی مدد سے یہ ترتیب مونا رکھی جاسکتی تھی اور مسلمانوں نے ملحوظ رکھی۔

آنحضرت کی وفات کے وقت پورے کا پورا قرآن لکھا ہوا موجودتھا اور بےشمار لوگوں کو زبانی یا تھا۔ البتہ کن ہوا مسل ایک کتاب کی شکل میں نہیں تھا بلکہ مختلف چیزوں پر متفرق اجزاء لکھے ہوئے تھے۔ اس کی مثال ایسی تھی جیسے ایک مکمل کتاب معلوم کے نمبر کالے بلکہ مختلف اوراق پر بھی ہوئی بے ترتیب تو ہو مگر پوری کی پوری اور مکمل موجود ہو۔ اس کے ساتھ ہی جگر کی وجہ سے آنتوں اور سورتوں کی اند کا ایک مکمل اتکام ہو چکا تھا کہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ فلاں سورت کی اتنی آیتیں ہیں اور پہلوان صورت کی آیت ہے۔ ترتیب کے جا افلموں کے سینوں میں محفوظ تھیں۔

قرآن حکیم کی تدوین ۔ عہد صدیقی میں

حضرت ان کے وصال کے بعد کے ایک بہت سے لئے اٹھ کھڑے ہوئے جن میں ایک نبوت کے جھو نے دخول الاوقات کا ترکی تھا۔ بہوت کا ہوا ہوں کرنے والوں میں ایک مخلص مسلکہ ایک بڑے قبیلے کا فرد تھا۔ اس کے ساتھ لڑائی میں بہتے ہے۔ مسلمان شہید اولے جن میں فاس قدر خالہ کی تھی۔ اگر چہ ان لوگوں کی تعداد اب بھی بہت زیادہ تھی جن کو مکمل قرآن حکیمورا تھا لیکن ایک تو اس لئے کہ اور ان کے وصال کے بعد کسی بھی آیت کے نزول کا امکان نہیں تھا اور دوسرے اس لئے کہ کبھی ہنگامی حالت میں ضرورت پڑ جائے ۔ 

ان دو باتوں کی وجہ سے حضرت ابو بکر کے زمانے میں نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق حافظوں کی ایک کمیٹی نے پورے قرآن کا ایک مجموعہ لکھ دیا۔ اس کمیٹی کے سیکر ٹری حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے، جو خود حافظ قرآن تھے اور دوسری باتوں کے علاوہ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ آنحضرت ﷺ اور جبرائین کے ساتھ آخری دور قرآن میں شامل رہے تھے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم سے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے پاس وہ تمام چیزیں جمع کرادی گئیں جن پر حضور ﷺ نے اپنے خاص اہتمام سے آیات اور مور میں لکھوائی تھیں ۔ اس کے بعد منادی کرا کے وہ تمام تحریریں بھی اکٹھی کرلی گئیں جو مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے لئے لکھ کر محفوظ رکھی ہوئی تھیں ۔ 

حضرت زید رضی اللہ عنہ کا طریق کار یہ تھا کہ وہ ایک آیت کو لکھنے سے پہلے اس تحریری مجموعے میں دیکھتے ، پھر آیت کی ترتیب کے لئے حفاظ کی یادداشت سے اس کا مقابلہ کرتے اور پھر اسے لکھتے ۔ صرف حفظ یا صرف تحریر کے اعتماد پر جمع نہیں کرتےتھے بلکہ دونوں کی تصدیق ضروری تھی۔

 اس طرح کمال احتیاط ، مقابلے اور تصحیح کے بعد قرآن حکیم ایک کتاب کی شکل میں یکجا کیا گیا جو عبارت، الفاظ و ترتیب ہر لحاط سے وہی قرآن تھا جو حضور ﷺ پر نازل ہوا اور بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یاد تھا۔ قرآن حکیم کا نسخہ جسے مصحف کہتے ہیں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔ ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا اور ان کی شہادت کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آگیا جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حضور ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا نسخہ موجود تھا اس لئے انہوں نے اس کی ضرورت نہیں کبھی ۔ ان کے علاوہ دوسرے صحابہ پر گرام رضی اللہ عنہم کے پاس بھی اپنے اپنے نسخے موجود تھے ۔ 

 جمع قرآن ۔ عہد عثمانی میں

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب کہ بکثرت غیر عرب مسلمان ہو چکے تھے اور انہیں قرآن کی تلاوت میں وقت پیش آتی اور غلطیاں کرتے ، ان غلطیوں کی وجہ سے آپس میں اختلافات پیدا ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو حضرت عثمان رنبی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ مکے مشورہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ والے نسخے کی کئی تقلیں تیار کرا ئمیں اور مزید احتیاط کے لئے ان میں سے ہر نسخہ پورے کا پورا مسجد نبوی میں حفاظ کرام کے سامنے پڑھوایا تا کہ کوئی غلطی نہ رہے اور پھر مختلف صوبوں کے صدر مقام پر ایک ایک نسخہ بھیجا۔ 

اس وقت تک مصاحف میں حرکات ( بر، زیر، پیش نہیں تھیں اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے ہر نسخے کے ساتھ ایک مستند اور مشہور حافظ و قاری بھی بھیجا جو اس شہر کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک قرآن پڑھانے پر مامور کیا گیا۔ آج دنیا میں قرآن حکیم کے جتنے نسخے ہیں دو سب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ان نسخوں کے مطابق ہیں اس طرح قرآن حکیم دنیا بھر میں آج تک اس طریقے سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے جس طرح وہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں لکھا اور پڑھا جاتا تھا۔

Post a Comment

0 Comments