پنڈت رتن ناتھ سرشار کا تعارف||فسانہء آزاد کا فنی و فکری جائزہ

پنڈت رتن ناتھ سرشار کا تعارف||فسانہء آزاد کا فنی و فکری جائزہ 

 پنڈت رتن ناتھ سرشار کا تعارف||فسانہء آزاد کا فنی و فکری جائزہ

پنڈت رتن ناتھ سرشار

پنڈت رتن ناتھ ۱۸۴۷ء میں لکھنو کے کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے عربی فارسی کے علاوہ کینگ کالج لکھنو میں انگریزی بھی پڑھی۔ ایک اسکول میں تدریس شروع کی اور مختلف رسائل میں مضامین لکھنے لگے۔ ۱۸۷۸ء میں منشی نول کشور کے اخبار اردو اخبار اردو اخبار کے مدیر مقرر ہوئے ۔ اس میں انھوں نے اپنی مشہور تخلیق "فسانہ آزاد قسط وار لکھی۔ وہاں سے الگ ہونے کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں مترجم مقرر ہو گئے مگر اپنی آزادہ روی و بے باکی کے باعث زیادہ دن وہاں نہ رہ سکے اور حیدر آباد دکن چلے گئے اور دبدبہ آصفی کی ادارت سنبھال لی ۱۹۰۲ء میں آنجہانی ہو گئے۔

فسانہ آزاد اور  پنڈت رتن ناتھ سرشار

سرشار کو لکھنو کے اچھے شعرا میں شمار ہوتے تھے، مگر ان کی اصل شہرت ان کی نثر نگاری ہے۔ انھوں نے اس کثرت سے ناول نگاری کی کہ ادب کو مالا مال کر دیا۔ ان کی تصنیفات میں سیر کہسار، جام سرشار ، پچھڑی ہوئی دلہن ، لو فان بے تمیزی کے علاوہ الف لیلہ کا ترجمہ اور ڈان کو ٹک زوٹ کی کامنی اور خدائی فوجدار کے نام سے اردو میں منتقلی بھی شامل ہے، مگران کا اصل تاریخی کارنامہ افسانہ آزاد ہے، جوقسط وار اخبار میں چھپ کر پہلی دفعہ ۱۸۸ء میں کتابی صورت میں طبع ہوا۔ کئی ہزار صفحات کی کتاب ہونے کے باوجود جس شوق سے یہ کتاب پڑھی گئی ، وہ حیران کن ہے۔ اس کتاب کی دو بنیادی خوبیاں ہیں۔ اول یہ کہ فسانہ آزادار دو میں ناول لکھنے کی اولین کاوش ہے اور دوم یہ کہ: اس میں لکھنو کی نوابیت پسند معاشرت کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے۔

اخبار میں قسط وار کھی کی یہ حریر جب کتابی صورت میں چھپی تو وہ چار ہزار صفحات کا ناول بن چکی تھی ۔ عبدالحلیم شر فسانہ آزاد کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ اس ناول میں جدت یہ ہے کہ اردو کے اور افسانوں کی طرح ایشیائی خیالات سے معرفی ہے۔ فسانہ آزاد انگریزی ناولوں کے ڈھنگ پر لکھا گیا ہے لیکن بعض ناقدین کے نزدیک سرشار اس میں کامیاب نظر نہیں آتے ۔ سرشار نے انسانی زندگی کوجن، دیوار پری پر مقدم جاتا ہے، مگر پھر بھی اس پر مکمل ناول کا اطلاق نہیں ہوتا بل کہ اس پر داستان امیر حمزہ کا سان محسوس ہوتا ہے لیکن پھر بھی فسانہ آزادند پر احمد کے ناولوں سے اگلا قدم محسوس ہوتا ہے۔ سرشار کے ہاں واقعیت کا رنگ نا ہموار ہے اور کہیں کہیں پرانی داستانوں کا رنگ جھلکتا ہے۔ اردو ناول کی تاریخ میں سرشار کا نام بہت اہم ہے۔ سرشار کا فسانہ آزاد داستان اور ناول کے عبوری دور کی پیداوار ہوتے ہوئے ایک ایسی شکل اختیاء ر گیا ہے، سے گریزی میں یا رسک ناول کہاجاتاہے۔ فسانہ آزاد لکھنوی تہذیب کا کمل ترجمان ہے۔ 

سرشار نے لکھنے کے مٹتے ہوئے تمدن کی کامیاب عکاسی کی ہے۔ انھیں لکھنو سے عشق تھا۔ وہ ہر طبقے کے افراد اور ان کے انداز و اطوار سے بخوبی واقف تھے لہذا انھوں نے بڑی حقیقت پسندی سے مکمل اور شاندار تصویریں کھینچی ہیں۔

فسانہ آزاد کا جائزہ 

سرشار کا اصل کمال اسکی کردار نگاری ہے۔ اس کے کردار ہر پیشے، ہر طبقے، ہر عمر اور ہر مزاج سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناول کا مشہور و معروف کردار خوجی سرشار کا شاہ کار ہے۔ ان کے ہاں کہانی سے زیادہ کردار نگاری اہم ہے۔ وہ کردار کو زندہ کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں کردار جنس اور مزاج کے مطابق گفتگو کرتا نظر آتا ہے لیکن ان کے مزاج کی بے پروائی و بے چینی کے باعث پیدا ہونے والی محبت پسندی کا اثر ان کی تخلیقات پر بھی پڑا ہے اور بہت سی جگہوں پر عدم توازن اور بے ربطی محسوس ہوتی ہے، مگر چار حصوں میں لکھے گئے اس ناول کی ضخامت میں زبان و بیان کا لطف ہی بنیادی شے ہے۔ افسانہ آزاد میں پلاٹ اور تسلسل کی عدم موجودگی ، کردار نگاری میں کمی کے احساس ، زبان پر بناوٹ اور شاعری کے اثرات، قصے کی بے ترتیب طوالت اور خلاف قیاس واقعات کے ظہور کے باوجود یہ ناول اہم تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ 

سرشار کے اسلو سید نگارش میں سادہ و عام فہم نثر کا استعمال، اس کا مصلحانہ انداز فکر اور طنز و مزاح ، فطری مکالمہ نگاری، جزئیات نگاری و مرقع نگاری جیسے عناصر شامل ہیں۔


 فسانہ آزاد کے کردار

فسانہ آزاد کے کرداروں میں : آزاد، ہمایوں فر خوجی ، پہر آراء اللہ رکھی اور حسن آرا وغیرہ شامل ہیں۔ میاں آزاد ناول کا آوارہ ، ترقی پسند اور خوش بیان ہیرو ہے۔ ہمایوں فرشعبدہ باز عاشق اور بگڑا ہوا نواب ہے۔ خوجی فسانہ آزاد کے مرکزی کردار کی طرح ناول کی دل چمی کی ضمانت ہے ۔ حسن آرا ناول کی حسین ترقی پسند اور پڑھی لکھی ہیروئن ہے۔ سپہر آرا دل کش و دل فریب اور محسن آرا کی چھوٹی بہن ہے۔ اللہ رکھی المعروف ڈریا بیگم عرف جو گن، جو بی بھٹیاری کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، عزم واستقلال اور محبت کی علامت ہے یہ میاں آزاد کی عاشق ہے۔

 یہ طویل ناول کسی خاص کہانی پر مشتمل نہیں ہے، بل کہ سیکڑوں چھوٹے چھوٹے قصوں ، بیانات اور واقعوں پر

مشتمل ہے۔

 فسانہ آزاد ( متن )

سپہر آراچھلتا کر اٹھ کے چل دیں۔ ہمیں تو پری ٹیم کے پلنگ تک پہنچنے پائی تھیں کہ ہائے کی آواز آئی ۔ حسن آرا اور گیتی آراے قریب جا کر دیکھا تو پیر آراب ہوئی ۔ چوٹی ٹیکہ و اطلاع نہ دی ۔ فورا پانی کے چھینٹے ویلے اور چاہے ۔ پہلا کر سمجھانا شروع کیا۔ جب انہی دارت ہوش آیا تو حسن آرا نے ایک اخبار کا مضمون یوں پز در سنایا تا که شنی دل بے قرار ہوا ۔ تی آرا اور حسن آرا اور ایک مغلانی میر ا ر ا کے پاس بیٹھی تھی۔ مضمون مذکور یہ ہے

حال میں آپ کے اخبار پدرت بار میں ایک صاحب امیدوار جواب نے اپ کنین والوں میں سے سوال دوم میں استفسار فرمایا ہے کہ جو لوگ بھوت پریت جن بحر کوچ کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر یہ سب باتیں جھوٹ ہو نہیں تو اس کا ذکر قدیم متقلا لوگ اپنی کتابوں میں نہ کرتے اور اب صرف دغا باز لوگ بطور غریب اس کو بھی جانتے ہیں نہ کہ اتنے ان کے لوگ بعد مل کرنے کے اس کو تسلیم کرتے ہیں ۔ تو وہ کیا سچ ہے ہم کاما ( یعنی ان کی بات ختم ہوئی ۔ )

 اگرچہ بہ مطالعہ اخبارات خصوص اودھ اخبار کے اس میں اکثر مضامین گاہ گاہ بھوت پریت اور ان کے حالات میں لکھے جاتے ہیں۔ میرا قصدتھا کہ جو کچھ مجھ کو بذات خاص تجربہ ہوا ہے، اس کو واسطے ملاحظہ ناظرین کی لاکھوں لیکن حضرت امیدوار جواب کی تحریر کو مطالعہ کر کے مجھ کو ضرور ہوا کہ اُن کا جواب دوں۔

واضح ہو کہ اہل ہند تو بھوت پریت، پشان ، دیو، داند و راکش انجھپر اوغیرہ بولتے ہیں اور اہل اسلام، خبیث اور جن اور دیو اور غول اور پری کہتے ہیں۔ بہر حال دونوں صاحب اس میں تفریق بھی کرتے ہیں، یعنی ایک کی تو خلقت بیان کرتے ہیں اور ان کو آتشتی قرار دیتے ہیں، مثلا : دیو، دانو اور غول، راکش اور پری، الجھپرا اور جن اور پشاج وغیرہ کو اور دوسرے اس کو انسان کا ہم زاد بتاتے ہیں، مثلا خبیث اور بھوت اور پریت کو ۔ اب نئی روشنی کے مہذب ان دونوں گروہ اور ان کے وجود کو ایک اور خیالی تصور کرتے ہیں اور اس کی اصلیت سے محض انکار کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص اپنا مائن اور ہاشم دیدہ بیان کرے، اس کو منور کی پختگی خیال کرتے ہیں۔ 

چنانچہ ماتم کا بھی میں اعتقاد تھا کہ جس حالت میں تصور کو اثر مغناطیسی سے بہت کچھ طاقت ہے، جس کا ثبوت محمل مسمریزم ہے تو کیا عجب ہے کہ جب کوئی شخص تصور کر لے کہ فلاں مقام پر ایک مہیب شکل کا بہوت رہتا ہے تو اس موقع پر ایک مرت ا سکی ہی صورت نظر آوے۔ چنانچہ سالہا سال میں اسکی طریقہ اور اعتماد رہا لیکن جب پنظر تعمق اس سے اور کیا جائے تو معاملہ باکس نظر آتا ہے، کیوں کہ اکثر لوگوں کو اس وقت کہ جب ان کو اس کے خیال بھی نہ تھاور کی تمام پر جوت وغیرہ ہونے کا ہم بھی نہ تھا اس وقت ان کو جوت سال گئے ہیں۔ فرش کہ میں اپنا تجر بہ بیان کر تا ہوں۔ اول یہ کہ راتم ایک مرتبہ پیار ہوا۔ حسب رائے طبیب کے مسیل وغیرہ ہوئے ۔ دیوان خانے میں رہا کرتا تھا۔

میرے ایک دوست آئے اور مجھ کو چھلے ہوئے بادام دے گئے ، جو میں نے کھا گئے۔ اس میں سے دور ایک بستر پر بھی پڑے رہے اور تیمارداروں نے دیکھ کر جب دریافت کیا، تو میں نے بیان کیا کہ فلاں صاحب مجھ کو دے گئے تھے۔ ان سے جو دریافت کیا، تو وہ ملکر ہوئے ۔ دو ایک روز کے بعد والدہ صاحبہ نے مچھلی کے کباب کھلائے ۔ ان سے بھی جب دریافت کیا گیا۔ تو منکر ہوئیں۔ ایک عاقل نے بیان کیا کہ یہ ایک جن کا اثر ہے اور بتایا کہ دو روٹیاں روشنی نصف شب کو فلاں مقام پر ( یہ مقام غیر آبا دمیدان میں تھا) کوئی لے جائے ۔ 

ایک کتا سیاہ رنگ وہاں آئے گا، اس کو کھلادے۔ چنانچہ لیا ہی کیا گیا۔ طرفہ تر یہ کہ سیاہ کیا تینوں روز وہاں ملا اور وہ روٹی کھا گیا۔ تین روز ایسا ہی ہوا لیکن اس کو بھی میں وہی نتیجہ تصورات خیال کرتا ہوں۔ دوم بمقام کی کمپنی مار گھام گرٹ پا نیش ووتی والا پر دادوں ضلع وہرہ دون ( برتقام وہرہ دون سے ہردوار کی سڑک اعظم پر گیارہ میں ہے) ایک چائے کا بالغ ہے اور اس میں کوٹھی بنی ہوئی ہے۔ قریب ایک ہزار آدمی کے آبادی ہے۔ ایک پور میں منیجر وہاں رہتا ہے اور ایک محرر وہاں رہتا ہے۔ مسٹر چارلس پام صاحب ( جرنیل پامر صاحب کے بڑے بیٹے ) ۱۸۲۴ میں بیان فجر ہو کر گئے اور کونسی میں فروکش ہوئے ۔ 

صبح کو اٹھ کر راقم سے دریافت کیا کہ مسٹر کو کون صاحب میجر ، اسی کوٹھی میں مرے ہوے گا نے جواب دیا کہ وہ تو رام پور میں مرے تھے، لیکن اور ایک صاحب یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر ڈولی والے کی بھی ہیں مع اپنی میم اور بچوں کے ایک روز میں مر گئے تھے۔ اس وقت صاحب مذکور نے بیان کیا کہ رات کے وقت ہم کو معلوم ہوا کہ کوئی شخص ہم کو دریائے ہوئے ہے۔

لمپ جل رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک صاحب ہمارے اوپر چڑھا ہوا ہے۔ ہم نے ارادہ کیا کہ ان کو اٹھا کر دے ماریں۔ جب اس ارادے سے ہم اٹھے تو خود ہی گھنٹوں کے بل گر پڑے۔ یہ بیان کر کے صاحب موصوف ڈیرہ میں گئے اور پادری صاحب اور ڈاکٹر صاحب سے بیان کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ وہاں گندھک کی دھونی کردو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، لیکن یہ بھی منجملہ تصوارت کے شمار ہو سکتا ہے۔ سوم : اس کوٹھی میں صاحب ممدوح رات کے وقت چارٹ پر شکار کھیلنے گئے۔ 

چیز اسی کوٹھی کے دروازے پر سو رہا تھا۔ اندر لامپ روشن تھا کہ یکایک ایک صاحب نے آکر چپڑاس کو جگایا اور کہا کہ چائے لاڈ اور کوٹھی کے اندر دروازہ کھول کر چلے گئے۔ چیڑ اس نے جا کر خدمت گار کو جگایا۔ اس نے کہا معمولی چائے کا پیالہ تو میز پر رکھا ہے اور تازی چائے بنا کر نے گیا، تو وہاں کوئی نہ تھا۔ جب صاحب شکار سے آئے اور ان سے ذکر کیا، تو فرمایا کہ وہی صاحب مردو جو شیطان ہو گئے ہیں ، ہوں گے۔ چہارم: صاحب موصوف ایک روز مصر والا گاؤں ( جو اجڑ گیا تھا ) مع ایک چوکیدار کے شکار کے واصلے گئے (یہاں تک کی چاٹ لگا رکھی تھی اور کئی روز سے شکار کو جاتے تھے چوکیدار کو کہہ دیا کہ ایک مکان رہے۔ 

جب بندوق کی آواز ہو گی ، جلدی رایج کر لیتا۔ دو بجے رات کو کہ چاندنی رات تھی ، صاحب کو معلوم ہوا کہ کوئی شخص سفید کپڑے پہنے ہوئے ہماری طرف آتا ہے ۔ صاحب مجھے کوئی گاڑی بان ہے (جو اسی وقت بانس جھرنے کو گاڑیاں لے جایا کرتے تھے یا کوٹھی پر کوئی واردات ہوئی کہ عمر نے ہماری اطلاع کے واسطے پیڑ ہی کو بھیجا ہے۔ اس عرصے میں دو شخص قریب دس بارہ قدم کے آگیا۔ دیکھا، تو وہ بانس طویل القامت ہے۔ صاحب نے فورا بندوق چھتیائی اور پایہ پر چڑ ھائی۔ فورا نظروں سے پنہاں ہو گیا۔ پنجم - سونگ ندی میں ہونا بنانے کے پتھر تھے ۔ ندی کے کنارے رمضانی چونا ساز نے چونے کا کھلا (یعنی بھٹی ) بنا رکھی تھی ۔ اس کے پندرہ میں آدمی وہاں رہتے تھے ۔ 

اگر شام کے وقت اس کے نوکروں میں سے خصوص کم عمر لڑکے ندی میں پانی بھرنے جاتے ، تو ایک بھوت (جس کی صرف آواز آتی تھی) ان کے ہمراہ دروازے ہی سے ہوتا اور جب تک ندی میں سے پانی بھر کر پھر اندر مکان کے نہ آجائیں، آواز برابر آتی رہتی تھی ۔ ایک روز ایک شخص نے خان نامی وزن کش وہاں موجود تھا۔ رمضانی مذکور نے کہا کہ نتھے خاں ! ان لڑکوں کو لے جا کر ندی سے پانی بھر لاؤ۔ ان کو بختنا دق کرتا ہے۔ ننھے خاں مذکور لڑکوں کو ساتھ لے جا کر پانی بھر لایا۔ بھوت جی حسب عادت ان کے ہمراہ تھا۔ جب واپس آیا، تو نتھے خان مسطور نے آواز دے کہ رمضانی سے کہا کہ اے الا نیو ایک کھٹی (یعنی بیزم سوختہ ) اس کے چلا دوں ۔ اس وقت سے بھوت کی آواز موقوف ہوگئی اور پھر کبھی نہیں آئی۔

اہل ہند اپنی موجودہ حالت کو بہ مقابلہ حالات گذشتہ کے جب دیکھتے ہیں، تو نہایت معتبدل پاتے ہیں ۔ پس بقول آپ ڈوبے، تو جنگ ڈوبا۔ کھتے ہیں کہ کل زمانہ روز بروز بدتر حالت میں ہوتا جاتا ہے، حالاں کہ بہ نظر غور اگر دیکھیں ، تو قضیہ پالکس پائیں ۔ لکیر پر نفقیر ہونے والوں کا تو ذکر نہیں، مگر جانے والے خوب جانتے ہیں کہ زمانہ ترقی پر ہے اور روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے۔ باوجود اس ترقی کے جواکثر مصنفوں کا کلام دلائل عقل پرمنی نہیں ہوتا اور مبالغہ وغیرہ سے خالی نہیں ہوتا ، اس ہو سوائے شاعروں کی تقلید اور عادات کے کیا کہا جائے۔ اکثر خلاف قیاس روایات مثل واقعات تاریخی کے جو بیان کیے جاتے ہیں تو عوام الناس کو اس پر ایسا وثوق ہوتا ہے کہ اس میں عقل کو دخل دینا کفر جانتے ہیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے خیالات کے شیوع سے ہند کا سراسر نقصان ہے۔ ہند اس حالت " ترقی کر سکتا ہے کہ جب اس کو وہم اور ستی اور جہالت اور بھوت پریت کے پھندے سے نکالا جائے۔

 سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ بند میں علم وفضل کا دم بھرتے ہیں، ان میں بھی سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ سمجھنے والے معدودے چند ہیں ۔ یہ کچھ ضروری نہیں کہ قدیم تصنیفات سب شاعرانہ ہوں ۔ ہاں ! اکثر ان میں سے شاعرانہ مذاق سے خاری اور معتبر بھی ہیں مگر ان کے الفاظ اور معانی ومفہوم میں جا بجا ہند کی موجودہ حالت کا ابر ایسا چھا گیا ہے کہ اصل مطلب پر جو کہ میں حرمت اور معقولات سے ملو ہے اور سراسر مفید نوع از کم نظر نہیں رہی ۔  

غرض کہ شاعرانہ حکایات اور مضامین اور استعارات اور تشبیہات کے اعتبار پر اگر بھوت پریت سے مراد وہ جہلا ہیں، جو نوع انسان کو اپنے انواع واقسام کے افعال نا جائز سے اذیت پہنچاتے ہیں، اب ان کے وجود میں کسی کو بحث نہیں ہے۔ چی باتوں کو بہ تار خوردیکھنا اور بعد ازاں راست بے کم و کاست بیان کرنا ، ہند میں ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ یہاں تو ہر ایک منفس کسان سے لے کر رئیسوں اور امیروں تک، شاعرانہ مزاج اور مبالغہ پسند ہے۔ نیچے واقعات ان کو طعام بے نمک معلوم ہوتے ہیں۔ بیان میں جب تک جھوٹ کی پچھ نہیں، محض بے مزہ اور پھیکا ہے۔۔

ہم کو امید ہے کہ مرآۃ الہند کے سائے سے بھی آئندہ بھوت پریت اور بھا گئیں۔ پہر آرا بار بار کہی جاتی تھی اور پاس و نومیدی کے کلے زبان پر لاتی تھی ۔ حسن آرا بجھتی تھی۔ کیتی آرا از راہ مذاق بناتی تھی۔

کیتی آرا : واہ حسن یہی کہتی تھیں کہ بھوت پریت کوئی شے نہیں ہے۔

حسن آرا : کیوں ہنسواتی ہو، اپنے کو بہن ۔

کیتی آرا :  اوروں کو ہنستی ہیں اور خود یہ حال ہے۔

پہر آرا نے آنکھیں بند کر لیں اور کہا باجی ہم کو سونے دو، چھیڑ نہیں ۔

حسن آرا : ( گیتی آرا سے ) باغ میں دو گھڑی چین نہ آیا۔

ہم صغیر! اس باغ کی کیسی ہوا نا ساز ہے

طائر رنگ چمن تک مائل پرواز ہے

 گیتی آرا: کیا جانے کیا سبب ہے کہ ہم اٹھی۔ 

 حسن آرا : اللہ جانے کہیں ڈرگئی ہیں۔ اف فوہ تو بہ تو ہے۔ 

 مغلانی: حضور ا ہا تھ پاؤں کیسے سرد ہیں، جیسے : مثال یخ -

  کیتی آرا: امی جان کو جگا کے اطلاع کر دیں، یا چپکے ہور ہیں۔ 

  حسن آرا  : ہے ہے وہ سن پائیں گی تو پہر آرا کو اور بھی ڈرا دیں گی۔  

 مغلانی مگر بیگم صاحب ان سے کہتا ضرور چاہیے۔ جگا دوں؟

حسن آرا اور گیتی آرا اور مغلانی کی صلاح سے بڑی بیگم کو اطلاع دی گئی کہ پہر آرا باغ میں ڈر گئیں۔

بڑی بیگم: ارے! ہے کیسی خیریت ہے۔

حسن آرا : زبان اماں جان اس وقت آنکھ لگ گئی ہے ا رہی ۔

مغلانی : حضوری کے پاس آئی تمہیں مگر راہ میں ڈر گئیں۔ 

بڑی بیگم: اچھا کیا مصیبت ہے میرا ہی دل جانتا ہے۔

مغلانی : حضور او میں چل کے آپ بھی آرام کریں۔ اتنے میں جہاں آرا کی آنکھ کھل گئی تو چونک کر بولی کیوں کیوں خیر تو ہے امی جان ! کیا باتیں ہورہی ہیں؟

مغلانی: جی ہاں فصل اتنی ہے۔

جہاں آرا: پھر یہ باتیں کیا ہورہی ہیں آہستہ آہشد

 حسن آرا : پیر آرا ہم گئیں۔ درخت کے پاس ڈر گئیں ذرا۔

جہاں آرا ہے کہاں ہائے ہائے یا میرے اللہ ! حسن آرا: آئے تھے اس لیے کہ دو گھڑی لطف ہوگا۔ یہاں رنج نصیب ہوا۔

بڑی بیگم: نصیب قسمت (آه سرد بھر کر ) کہونا۔

حسن آرا : چلوائی جان، و ہیں چلو

بڑی بیگم صاحب اٹھ کر چہرے کی طرف گئیں ، جہاں آرا بیگم کا نپتی ہوئی ساتھ ساتھ تھیں ۔ بڑی بیگم نے جوان کو تھر تھراتے اور کا پتے دیکھا تو کیا یہ مخالف کے ساتھ سمجھانے لگیں۔

بڑی بیگم : نابینا اسہے کو اور کوئی سہاتا ہے۔

حسن آرا جہاں آر ایہن۔ بائیں بائیں دیکھیے سکھلیے ۔

کیتی آرا اے! آہستہ آہستہ گفتگو کرو بہن۔ آنکھ ابھی ابھی کلی ہے۔ ایسا کہ جاگ پڑیں ۔ اتنے میں پہر آرا نے کروٹ

بڑی بیگہ ہم اپیشانی پر ہاتھ رکھ کر ہر آ "

حسن آرا بہن بوالد ۔ اماں بیان کیا پوچھتی ہیں۔ جہاں آواز میں بھی ہیں یا ڈال۔ بہات پر ۔ ڈار معلوم ہوتا ہے ۔

ہر آوا انسان بیان ! آج جان ہو گئی ۔

 حسن آرا کچھ سال تو بیان کروں یہ ہوا کیا تھا ہوں ۔

پر اور دوست کے پاس جب پہنچی پیس ایک خن آرا کون سا درخت سے سامنے والا؟

میر آرا نہیں موسری کے درخت کے پاس اتو بین معلوم ہوا کہ کسی بھوت یا پر مہتا نے کوئی روشن سے پھینکی اور اس کے بعد

کوئی کالی کالی چیز ڈالی ۔

کسی آنان اے ہے۔ ہم سمجھ گئے ۔ بھلا کوئی سمجھے تو ۔ بڑی بیگم، بچوں کی ہی باتیں کرتی ہو ۔ ( آہستہ سے یہ کھیل نہیں ہے۔

حسن آرا در استان جان ہوا سے شاخیں جھونکے لیتی ہوں گی ۔ جہاں آرا: پھرا انا سے اور ان سے کیا مطلب؟

محسن آراد جنب سی درخت کی شامیں نہیں تو یہ چاندنی اور تار کی وہاں دونوں تھیں۔

جہاں آرا: ہاں کیا کیا۔ بس یہی تھا۔

پیر آرا وا بانی جان اہمار اول قابو میں نہ تھا کیسی چاندنی ۔ حسن آرا بہن تم ایک بات کبھی ہی نہیں ہو۔ ہم اس کو کیا کریں۔

یدی بیگم

خدا محفوظا ر کھے ہر جلاتے

سپهر آیا افولتان جان اس وقت تک اندر والا قابو میں نہیں ہے۔

حسن آرا (مسکرا کر)

فسانہ آزاد کا مرکزی خیال

لکھنو کے مٹتے ہوئے تہذیب وتمدن کی عکاسی اور اس کے مختلف طبقوں کے افراد کے انداز و اطوار کی تصویر کشی ہی اس ناول کا مرکزی خیال ہے جس کے ذریعے وہاں کے اندازِ زندگی ، تصورات، تہمات،رسومات اور روایات وغیرہ دکھائے گئے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments