ڈاکٹر سید عبداللہ کا تعارف||ادب میں جذبے کا مقام از ڈاکٹر سید عبداللہ

ڈاکٹر سید عبداللہ کا تعارف||ادب میں جذبے کا مقام از ڈاکٹر سید عبداللہ

 ڈاکٹر سید عبداللہ کا تعارف||ادب میں جذبے کا مقام از ڈاکٹر سید عبداللہ

ڈاکٹر سید عبد اللہ ۱۹۰۶ء میں منگلور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی دینی تعلیم گھر میں حاصل کی ۔ انھوں نے ۱۹۲۳ء میں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۲۴ء میں بی اے اور ۱۹۲۵ء میں ایم اے فارسی کا امتحان پاس کر لیا ۔۱۹۳۲ء میں ایم اے عربی کرنے کے دو سال بعد ۱۹۳۳ء میں وہ پنجاب لائبریری میں عربی و فارسی شعبے کے مہتم مقرر ہو گئے ۔ ۱۹۴۰ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو سے منسلک ہو گئے ، جب کہ ۱۹۵۴ تا ۱۹۶۵، پرنسپل اور منینل کالج رہے۔ ان کی تصانیف میں بحث و نظر انتقی میر مقامات اقبال، ولی سے اقبال تک، اشارات تنقید، ادب وفن، اطراف غالب ، وجہی سے عبدالحق تک اور مباحث بہت اہم ہیں۔ زیر نظر مضمون ان کی کتاب "مباحث سے لیا گیا ہے۔ ان کا انتقال ۹ ۔ مارچ ۱۹۸۶ء کو لاہور میں ہوا۔

 ڈاکٹر سید عبداللہ کی نشر کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ ان کی نثر زندگی کی طرح زندہ اور شگفتہ ہے۔ ان کے تحقیقی مقالات میں بھی یہ خوبی بر قرار رہتی ہے۔ ادب و شعر کی دنیا کا شایدہی کوئی ایسا گوشہ ہو کہ جس پر انھوں نے اپنے قلبی خلوص اور دیانت داری سے نہ لکھا ہو۔ نقد میر، اطراف غالب اور مقامات اقبال: ان کی علمی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ مشکل سے مشکل بات کو بھی سیدھے سادے انداز میں بیان کر دینے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی تحریر کا اسلوب نہایت جاندار ہے۔ وہ اس کی مدد سے علمی تھیں کچھ ایسے دل نشیں انداز میں سلجھاتے ہیں کہ قاری کے لیے وہ عام سی باتیں بن جاتی ہیں۔

ادب میں جذبے کا مقام از ڈاکٹر سید عبداللہ

تنقیدی مغالطہ انگیزیوں میں ایک ہے: ادب میں جند بے کا مقام اور چ پوچھیے تو جتنا یہ ایک معاملہ غلط ہوا اور غلہ سمجھ گیا، اتنا کوئی بھی اور مسلہ غلط نہ سمھا گیا ہوگا۔ کالجوں اور یونیوسٹیوں تک میں یہی درس دیا جاتا ہے کہ ادب میں جند بہ ہی سب کچھ ہے۔ پھر جذبے کے رنگا رنگ تنوعات میں سب سے زیادہ توجہ جذبہ محبت کی طرف مبذول ہوتی ہے اور اس جذبہ محبت کے آثار و نتائج میں سب سے اہم چیز وہ غم والم ہے، جو سارے عالم پر چھایا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ان بحثوں نے یہ یقین دلا دیا ہے کہ شاعری میں اگرغم نہیں تو وہ شاعری ہی نہیں ۔

 زندگی میں جو کچھ ہے، اہم ہے اور شاعری مترادف ہے، زندگی کے ایسے کے ہنگر شاعری میں جذبے کی یہ حیثیت مشکوک قتل نہیں، غلط بھی ہے۔ شاعری بے شک جند بے سے ابھرتی ہے، مگر شاعری یا عام ادب صرف جذ بہ ہی نہیں، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ صرف جذبے سے کوئی شخص نہ شاعر بن سکتا ہے، نہ افسانہ نگار، نہ ناول نگار صرف جذبے سے تو وہ کچھ بھی نہیں بن سکتا۔ کوئی شخص شاعر یا ادیب تو تب بنے گا، جب وہ عام انسانوں سے مختلف اور متاز ہوکر اپنے جذبے کی مصوری کر سکے گا، کیوں کہ شاعری کا پہلا کام مصوری ہے اور شاعر کا فن اصولا مصور کا فن ہے۔ محض آہ یا حض فریاد شاعری نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو دنیا میں جتنے انسان ہیں یا ہوں گے ، سب کے سب شاعر قرار دے دیے جاتے ۔ 

 اس طرح یہ بھی غلط ہے کہ شاعری کوئی بلند بنگ" ہے، جس کے ذخیرے سے دوسرے لوگوں کے لیے تغذیہ خون کا سامان بہم پہنچتا ہے۔ پھر یہ خیال بھی کتنا مضحکہ خیز ہے کہ شاعر یا ادیب غنم کھانے کے لیے پیدا ہوا ہے اور وہ زندگی بھر دوسروں کے لیے غم کھانے میں اور خون اگلنے میں مصروف رہتا ہے۔ در حقیقت ادیب کی الم آشامی کا یہ تصور بھی بڑی حد تک عام ادیبوں کی غلط رہنمائی کا باعث ثابت ہوا ہے۔ ہاں ! یہ ہو سکتا ہے کہ اکثر دوسرے انسانوں کی طرح شاعر یا ادیب جب الم سے دوچار ہوتا ہے یا جب اس کی فطرت کے آئینے میں زندگی کے تضاد: چہرہ نما ہوتے ہیں، تو اس میں یہ خاص صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اوروں کے مقابلے میں اپنے اس احساس کی (خواہ المیہ ہو یا جمالیاتی ) زیادہ اچھی طرح مصوری کر سکے یا صیح تر الفاظ میں مؤثر اور کامیاب تر مصوری کر سکے ) ۔  

کسی عام دمی کے مقابلے میں ادیب کو اگر تفوق حاصل ہے، تو اس خاص باب میں ہے کہ وہ مصور ہے اور عام انسان اس جیسے مصور نہیں ہوتے نہ یہ کہ وہ روز خون انگلستا ر ہے (یا خون انھنا اس کے لیے ضروری ہے)، جب کہ عام انسان صرف خون نکلنے والے ہیں، اگلنے والے نہیں۔ اگر ایساہی ہوتا تو میر و غالب اتنی دیر تک زندہ نہ رہتے۔ کوئی شخص اگر شیلے اور کیس کی مثال پیش کرنا چاہے، تو کر سکتا ہے، مگر بے شمر دوسرے رومانیت پرست شاعر اچھی خاصی بھی عمروں کے مالک ہوئے ہیں اگر یہ دلیل یہاں مؤثر معلوم نہیں ہوتی۔

میرا مقصد صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ شاعری میں جذبے کا ( خصوصا جذ بہ غم کا صحیح مقام پہچانے کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں جو غفلت اختیار کی جاتی ہے، شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام طور سے لوگ ادب اور غم و الم کو مترادف سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ مسیح اور مکمل اور روحانی کشادگی اور راحت کا ضامن ہے اور یاس و اندوہ اس کے لیے لازمی شرط نہیں اور پھر یہ بھی تو ہے کہ ادب صرف جذ بہ غم ہی کا نہیں، ہر جذبے کا ترجمان ہے۔ جذبہ اور اک حسن اور جذبہ رفاقت کے علاوہ ادراک جمال کے ہزار ہا تنوعات ادب کی خاص وراثت ہیں اور روح انسانی ان سے لذت آشنا ہوتی رہتی ہے۔ 

گزشتہ سطور سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ میں غم کی برکتوں سے نا آشنا ہوں، ہنگرغم کے بھی تو ہزار ہا رنگ ہیں ۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں، جو یاس اور موت کی سرحد سے جاملتے ہیں۔ میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ محض پاس آفرینی کو ادبی عظمت کا درجہ دے دیا جائے۔ میرے نزدیک پاس کی اس تلقین نے ہمارے کردار اور سیرتوں کو سخت مجروح کیا ہے اور جب تک ادب یہ کام کرتا رہے گا، ہم زندگی کی رعنائی اور حیات کی لذت کبھی حاصل نہ کرسکیں گے۔ 

ادب بعقل کا رہنما بھی ہے اور اس کا دوست بھی، بلکہ کبھی بھی اس کا تابع فرمان بھی ، کیوں کہ اگر عقلی حقائق کو موثر یا دل نشیں بناتا ہو تو میدادب کے بغیر ممکن نہیں ۔ فرض ادب سائنس اور فلسفے کی طرح انسانی فائدے کی چیز ہے۔ ابلا ہر اس کے فوائد ملی معلوم نہیں ہوتے لیکن عملی زندگی میں ادب کی دست گیری سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور جذبات کی تعمیر کرتا ہے اور جذبات کی اس تعمیر و تعلیم کے بغیر انسانی زندگی کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوسکتی مگر اس مہم کو عقل و فکر اور دانش و بصیرت کا دشمن ہو کر انجام دے سکتا ہے ؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ بقول غالب:

ہے ہے خدا کے واسطے وہ اور دشمنی

اے عقل منفعل یہ تجھے کیا خیال ہے

بہر نوع ادب اور فکر کی ہم عنانی پسندیدہ ہی نہیں ، واجب بھی ہے۔ اسی طرح ادب کا مقصد مغموم کرنا نہین ، علموں میں توازن اور معقولیت پیدا کرنا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو خالص حقیقت نگاری کے نام سے زندگی کے حد درجہ تا خوش گوار پہلوؤں کو ابھارتے رہتے ہیں۔ دراصل وہ ایک قبیح غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ زندگی کی استثنائی غیر معمولی (ایب نازل ) حالتوں اور صورتوں کو عام حالت قرار دے کر خطر ناک قسم کی ذہنی و جذباتی کج روی کی پرورش کرتے رہنا ایک مجرمانہ نفل ہے اور افراد معاشرہ میں بے اطمینانی دنا آسودگی اور زندگی سے بے اعتقادی و بدگمانی کا زہر پھیلانا معاشرے سے دشمنی ہے۔ 

اس قسم کا ادب ادب نہیں، بندیان اور جنون ہے تبلیغ اذیت ہے انغم کی تجارت ہے؛ دکھ کا بیوپار ہے، جس کو کوئی متوازن معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا۔ سچا ادب جنون خام اور بے عملی کے راستے پر نہیں چلاتا ، وہ تو شرافت آمیز عقل مندی کا یا یوں کہے کہ مقتل مندانہ شرافتوں کو ابھارتا ہے۔ 

ادب اگر متوازن سیر توں کی تشکیل میں مدد نہیں دیتا، تو وہ اذیت پسندی، برائی اور کج روی کا مبلغ ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب ہمارے بعض نقاد ذرا ذراسی بات سے خفا ہو جاتے تھے اور ادب پاروں کے معمولی سے عملی مقصدی اور اخلاقی رنگ کو بھی برداشت نہیں کرتے تھے اور فن کی دہائی دے کر پڑھنے والوں کو مرعوب کر دیا کرتے تھے مگر یہی نقاد دوسری طرف شرم ناک حد تک بے اخلاقی ، بلکہ بد اخلاقی کو ایب ناریل اور پیچیدہ سیرتوں کے پردے میں اچھالتے تھے اور پھر اس پر ناز کرتے تھے کہ ہم ادب کے بچے خادم اور نا خدا ہیں مگر یہ تضاد دیر تک چلانہیں کیوں کہ ان کا نام ادب ہماری اذیتوں میں اتنا اضافہ کرنے لگ گیا تھا کہ لوگ شیخ اٹھے تھے اور ایک شور سانچ گیا تھا کہ اگر ادب یہی ہے، تو اس کا صحیح نام سو ادب ہوگا ، نہ کہ ادب :

عجب آن نیست کہ اعجاز مسیحا داری 

عجب آن است کہ بیمار تو بیمار تر است

حقیقتیہ ہے کہ اس قسم کی ادبی سرگرمی نے انسان اور انسانیت کو بڑاری دکھ پہنچایا۔ سکھ پہنچانے کی توفیق اس کو میسر نہیں آئی۔ ان رجحانات کے زیادہ لہو نے ہدایت پرستوں کی فلموں ، ترقی پسندوں کے افسانوں اور ناولوں اور مجہولیت پسند ڈراما نگاروں کے تشیچوں میں ملتے ہیں۔ اردو غزل اپنے ایمائی اختصار کے سبب اگر چہ اس سنا روٹی کے بہت سے رجحانات سے محفوظ رہی، مگر غزل میں بھی میر کے تتبع کی ناکام کوششوں اور مردم بیزاری اور کلمیت کے میلانات کے ملاوہ پیاس اور غم و اندوہ کے روح فرسا مضا مین در آئے۔

 ان ناولوں اور کہانیوں میں جس معاشرے کی تصویر یں ملتی ہیں ، اس قسم کے معاشرے کا وجود اس ملک میں معدوم وموہوم ہے۔ ان نگارشات پر بیگانگی اور اجنبیت کا ماحول محیط ہے بھیتوں کی بجائے نفرتوں کی تحریک نمایاں ہے اثبت کی بجائے منفی اقدار کی پرستش ہے، غور و فکر اور ریا نعت و محنت کی عام طور سے کمی ہے۔

آپ کہیں گے اردو ادب کی یہ بھیا تک تصویر ؟ مگر آپ متوحش نہ ہوں ۔ میرا یہ تمام جائزہ فائق ادب کے نقطہ نظر سے ہے، اس سے اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی بے قدری ہرگز مقصود نہیں ۔ مقصود صرف یہ ہے کہ ادب کی سطح بلند تر ہو اور جو ادب پیدا ہو ، و وایسا ہو جو انسانی راحت اور قومی تعمیر کا معاون ثابت ہو ، جو روح کو تازگی اور قلب کو کشادگی سے آشنا کرے۔ مجھے اس کی الم خیز بی اور اذیت نوازی پر بھی اعتراض نہیں مگر تادوار کے بے مقصد زنم اور زخموں کی بے ضرورت نمائش کسی طرح مفید مطلب نہیں ۔

میری رائے میں ادب کے متعلق تنقیدی نقطہ نظر کی تبدیلی کی سخت ضرورت ہے۔ ادب کا اپنے ملک اور اس کی روایات سے گہرا رابطہ ہونا چاہیے۔ ادبی مطالعے کے لیے تربیت ذوق اور تعلیم ادب کے لیے مناسب مقام کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اچھی پبلک اچھے ادب کی محرک بن سکتی ہے اور پھر اچھے ادیب اپنی قوم کو اچھا بنانے میں بھی نمایاں حصہ لے سکتے ہیں ،مگر یہ سب کچھ بھی ہوگا کہ پہلے اردو میں نقد ونظر کی ایسی روایات پیدا ہوں، جو تازہ ہونے کے باوجود اپنی پرانی روایتوں سے وابستہ ہوں اور ان کے سامنے دیا ایک ہی مقصد ہو۔ انسان کی مدد انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی انسان کے دکھوں میں اضافہ کرنا، اس کا مقصد نہ ہو۔ اس کا مقصد انسان کو یقین اور اطمینان کے راستوں پر چلانا ہو محض دکھوں کی تجارت اور غموں اور برائیوں کا کاروبار کسی اعلیٰ ادب کے لیے وجہ افتخار نہیں بن سکتا ۔

مرکزی خیال

مصنف کے خیال میں سی اور مکمل ادب، روحانی کشادگی اور راحت کا ضامن ہوتا ہے۔ محض فموں ہی و شاعری سمجھتا درست نہیں ہے۔ ایسے شعرا معاشرے کی خدمت نہیں کر رہے، بلکہ لوگوں کو اذیت پسند بنا رہے ہیں۔ اعلیٰ ادب غم کے ساتھ ساتھ دیگر جذبات کو بھی اہمیت دیتا ہے، تا کہ توازن برقرار ر ہے۔

 خلاصہ

انسانی زندگی میں دکھ اور غم آتے جاتے رہتے ہیں، اگر زندگی کو گہرائی سے دیکھنے کی کوشش کی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ خوشیوں کے مقابلے میں غم واندوہ انسان کا زیادہ مقدر بنتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ خوشیاں کم ہونے کی وجہ سے انسانی زندگی میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ دکھ اور سکھ دونوں مل کر انسانی زندگی کی تکمیل کرتے ہیں ۔ اردو ادب ، خصوصاً: شاعری کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ہماری پوری شعری روایت غم والم کے بیان سے بھری پڑی ہے۔ گویا زمانے میں اگر غم نہ ہوتے تو شاید شاعری بھی نہ ہو پاتی۔ شاعر، ادیب، افسانہ نگار یا ناول لکھنے والا زندگی کی مصوری کرتا ہے لیکن زندگی کے صرف ایک رنگ یعنی تم ہی کو موضوع بناتا ہے اور دیگر انسانی جذبات ( کہ جن کے باعث انسان کو روحانی مسرت اور سکون بھی حاصل ہوتا ہے ) کی ترجمانی سے گریز کرتا ہے۔ حسن ، رفاقت اور جمال کا جذ بہ اور اس کا اور اک بھی اتناہی اہم ہے، جتنا جذ بہ غم ۔

سیدعبداللہ کے خیال میں حزن و یاس کو ادب کی عظمت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دیکھ غم اور نا امیدی کی ادبی و شعری لہر نے ہمارے کردار اور سیرتوں کو بہت مجروح کیا ہے۔ جب تک ادب ممش رنج والم کا ترجمان رہے گا ، ہم زندگی کی خوب صورتی اور اس کے لطف و سرور سے محروم رہیں گے۔

ادب میں عقل اور فکر کی کارفرمائی بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، کیوں کہ اس کے باعث ادب میں توازن اور معقولیت پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح حقیقت نگاری اچھی بات ہے لیکن ادب میں محض ناخوشگوار صورت حالات کو پیش کر دیتا بھی مناسب نہیں ہے۔ ایسے ادب کا مطالعہ معاشرے میں بے اطمینانی ، نا آسودگی ، بے اعتمادی اور بدگمانی کا زہر بھر دیتا ہے۔ مصنف کے بقول ایسا ادب ادب نہیں ہے، بلکہ جنون اور ہذیان ہے، جو حض دکھ اور اذیت کی تبلیغ کرتا ہے۔ 

سچا ادب: جنونِ خام اور بے عقلی کے راستے پر نہیں چلاتا ، بلکہ شرافت آمیز عقل مندی کا ترجمان ہوتا ہے۔ افسوس ترقی پسند افسانہ نگاروں ، ناول نگاروں اور ڈرامہ نگاروں نے بھی صرف غموں کی تجارت کو ادب سمجھا ۔ ہمیں چاہیے کہ ادب سے متعلق ہم اپنے تنقیدی نقطہ نظر میں تبدیلی لائیں اور ایسی ادبی روایات کو فروغ دیں کہ جن کا مقصد انسان کی خدمت ہو ۔ غموں کی تجارت اعلیٰ ادب کے لیے وجہ افتخار نہیں ۔

Post a Comment

0 Comments