مولوی عبدالحق کی خطوط نگاری

مولوی عبدالحق کی خطوط نگاری

مولوی عبدالحق کی خطوط نگاری

ڈاکٹر عبدالحق کو بابائے اردو بھی کہا جاتا ہے۔اس لئے نہیں کہ انہوں نے اردو زبان ایجاد کی بلکہ اس لئے کہ جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کی حفاظت اور خدمت کرتا ہے اسی طرح مولوی عبد الحق نے اردو کی حفاظت اور خدمت کی ۔ بیسویں صدی میں اردو پر بڑے بڑے نازک وقت آئے ۔ اسے صرف مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اسے مٹانے کی زبردست کوششیں کی گئیں ۔ ڈاکٹر عبدالحق اردو کے تحفظ کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہے ۔ علمی اعتبار سے بھی انہوں نے اردو کی بڑی اہم خدمات انجام دیں اور کسی طور پر بھی انہوں نے اردو کو ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اور اپنی زندگی کی ساری کمائی اردو کی نذر کردی۔ 
تمام عمرانجین ترقی ہند کے سیکرٹری اور انجمن ترقی اردو پاکستان کے صدر ر ہے۔ انجمن کا کتب خانہ برصغیر کے نہایت قیمتی کتب خانوں میں سے ہے۔ کراچی کا اردو کالج اور اردو سائنس کالج بھی انجمن ترقی اردو ہی کے ادارے ہیں جو اردو کی توسیع و ترقی کے لئے قائم کئے گئے۔
 ڈاکٹر عبدالحق سر سید احمدخان اور مولانا الطاف حسین حالی دونوں ہی کے مداح اور معتقد تھے ۔ دونوں شخصیتوں پر ان کی کتاب پڑھنے کے قابل ہیں جس طرح وہ دونوں قوی لگن کے لوگ تھے اسی طرح ڈاکٹر عبد الحق بھی قومی لگن کے آدمی تھے۔ ان کے بعض خیالات سے اختلافات کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے قومی خلوص سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر عبدالحق نے سید احمد خاں اور حالی سے جو گہرے اثرات قبول کئے ان میں سے ایک اثر یہ تھا کہ جہاں تک ممکن ہو سادہ اردو لکھو۔ عربی اور فارسی کے نامانوس لفظوں سے بچو۔ چنانچہ ان کی تمام تحریروں میں بے انتہائی سادگی پائی جاتی ہے۔ لیکن ان کی سادگی میں وہ دلکشی بھی پائی جاتی ہے جو خو د سید احمد خاں اور حالی کے یہاں موجود نہیں۔ سیداحمد خان کی سادگی میں ایک قسم کا کھردرا پن ہے اور حالی کی سادگی میں بھی مزے کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ 
 
ڈاکٹر عبدالحق کی سادگی میں غضب کی دلکشی ہوتی ہےجس کی بنا پران کی تحریروں کو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ آپ اس آرٹیکل میں ڈاکٹر عبد الحق کے دو خط پڑھیں گئے جو ان کی منفرد سادگی کے آئینہ دار ہیں پڑھتے وقت محسوس ہو گا اتنی سادہ عبارت تو ہر شخص لکھ سکتا ہے لیکن جب آپ لکھنے کی کوشش کریں گے تو پتا چلے گا کہ اتنی سادہ عبارت لکھنا مشکل کام ہے ۔

ڈاکٹر عبدالحق کے خط پاکستان کے مشہور محقق اور مورخ ڈاکٹرعبداللہ چغتائی کے نام ہیں جن کے چھوٹے بھائی عبد الرحمن چغتائی برصغیر کے نہایت نامور مصور گزارے ہیں ۔ اس خط میں کئی شخصیتوں کی طرف اشارے ہیں جو عام قارئین پر واضح نہیں ہوتے ۔ ذاتی خطوط کا ہر کسی کے لئے کا قابل فہم ہونا ضروری نہیں ۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ خط لکھنے والے کی زبان کیسی ہے اور اسلوب کیا ہے۔

ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی کے نام

مقبره اورنگ آباد، در کن 
۲۰ اکتوبر ، ۶۱۹۳۳
میرے مہربان اور کرم فرما تسلیم 

آپ کا خط پہنچا، خوشی ہوئی۔ آپ بخیر و عافیت گھر پہنچ گئے ہیں ۔ لاہور میں حسب معمول آپ نے اپنا دورہ شروع کر دیا ہے ۔ آپ نے اتنے سے خط میں اتنی باتیں لکھ ڈالی ہیں کہ اگر میں ایک ایک کا جواب لکھنے بیٹھوں تو خط کاروان" کا مضمون بن جائے۔

کل حضرت شیرانی صاحب کا عنایت نامہ بھی پہنچا۔ پچھلے قصے کو ابھی تک بھولے نہیں، مزہ یہ ہے کہ وہ مجھے الزام دیتے ہیں اور میں انہیں۔ خیر اب یہ کہانی بہت پرانی ہو گئی ہے اور اس کے دہرانے میں کوئی لطف نہیں رہا۔ آپ کے چچا ٹامس کوک کا خط اب تک نہیں آیا اور شاید نہ آئے ۔ اس زمانے میں انگریزوں کی عقل ٹھکانے نہیں رہی۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ شیخ صاحب اور آپ قریب قریب ایک ہی وقت لاہور پہنچے غنیمت ہے کہ آپ انہیں یاد ہیں۔ ملاقات ہو تو میرا اسلام ضرور دیجیئے گا۔ میں آج کل نزدیک اورنگ آباد ہوں اور بدرد میرے ساتھ یہاں آیا ہے آپ کی دعا پہنچادی اور وہ آپ کو بہت بہت سلام دیتا ہے۔
مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ پنجاب یونیورسٹی کی جوبلی کمیٹی میں رکن بنائے گئے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ خوشی ہوئی کہ یورپ میں آپ کی عملی تحقیقات کی قدر ہوئی۔ لاہور میں کسی قدردانی کی توقع نہ رکھئے گا۔ پروفیسر محمد شفیع اور پروفیسر ڈاکٹر اقبال دونوں بڑے قابل قدر شخص ہیں اور میرے دل میں ان کی بڑی عزت ہے۔ پروفیسر شفیع کی قدر میرے دل میں اس دن سے اور زیادہ ہوگئی جب بعض اہل لاہور نے ان کی شکایت کی۔ وہ آدمی ہی کیا جس کی کوئی شکایت نہ کرے جس کی سب تعریف کرتے ہیں اس کی طرف سے مجھے بدظنی ہو جاتی ہے۔ ان دونوں حضرات کی خدمت میں (جب کبھی آپ سے ملاقات ہو) میرا سلام ضرور پہنچائیے گا۔
 بڑو دے میں جو اس سال اور ئینٹل کانفرنس کا اجلاس ہوگا اس کے اردو شعبے کا صدر مجھے انتخاب کیا ہے۔ میں صدارت سے بہت گھبرایا ہوں بلکہ نفرت سی ہوگئی ہے۔ میں نے انکاری خط نہیں بھیجا۔ پہنچانہ بھی ہوگا کہ انکا مطبوعہ پیش نامہ کوائف پہنچا جس میں انہوں نے میرا نام چھاپ دیا ہے۔ یہ بڑی مجبوری ہوگئی۔ 
 آپ نے میرے لئے عمر نوح کی دعا کی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ یہ طوفان نوح بھی ہوا تو ایسی عمر سے کیا فائدہ میں ویسا ہی اندھا ہوں۔ شیرانی صاحب کے خط کا جواب کل لکھوں گا۔ آپ ملیں تو میرا سلام شوق ضرور کہہ دیجئے گا۔ امید ہے کہ ان کا شکار کامیاب ہوا ہوگا۔
نیازمند 

عبد الحق

(2)

انجمن ترقی اُردو ۔ اورنگ آباد (دکن)


۲ نومبر ۱۹۳۳ء 
مشقی و عزیزی سلمه 
میں اورنگ آباد کالج ڈے کی تقریب میں یہاں آگیا ہوں ۔ پرسوں واپس چلا جاؤں گا ۔ تم نے ڈاکٹر عبداللطیف کے عزیز عبد القیوم کی نسبت دریافت کیا تھا۔ وہ اسی مہینے کے دوسرے تیسرے ہفتے میں لاہور روانہ ہو جائیں گے۔ مہربانی کر کے ان کے قیام کے لئے کسی مکان کا گورنمنٹ پریس کے قریب انتظام کر دو ۔ کرایہ کسی حال میں بھی پچاس سے زائد نہ ہو۔ وہ اپنے آنے کی اطلاع تم کو بعد میں دیں گے۔ یہاں کالج ڈے کے ضمن میں حالی مرحوم کی صد سالہ سالگرہ منائی گئی۔ مختلف اصحاب نے مضامین پڑھے۔ شیخ عبدالقادر صاحب نے بھی ایک مضمون بھیجا تھا۔ میں نے بھی ایک مضمون پڑھا۔ وہاں کے حالات سے اطلاع دو کہ جائزہ کے متعلق کیا طے ہوا اور کام کس نوبت پر ہے ۔ ڈاکٹر لطیف یہاں آئے ہوئے ہیں اور سلام کہتے ہیں ۔ ناگا میاں بمبئی چلے گئے۔ وہاں ان کو نوکری مل گئی ہے۔ ڈکشنری کے کام میں کھنڈت پڑ گئی ۔ ڈاکٹر عابد حسین سخت بیمار پڑ گئے۔ اب سارا کام مجھ اکیلے دم پر پڑا ہے جس طرح بنے گا کروں گا۔ کیا کیا جائے مجبوری ہے۔
 سب احباب کو سلام ۔
عبد الحق