علامہ محمد اقبال کا سفرِ یورپ ||علامہ اقبال کی شاعری کا دوسرا دور

علامہ محمد اقبال کا سفرِ یورپ ||علامہ اقبال کی شاعری کا دوسرا دور

علامہ محمد اقبال کا سفرِ یورپ 

علامہ اقبال کی شاعری کا دوسرا دور

یہ تعلیمی سفر اقبال کے فکری ارتقا میں بہت نتیجہ خیز ثابت ہوا ۔ سفر سے پہلے ان کا قومی موقف وطنی قومیت کے محدود تصور سے ہم آہنگ تھا جس کا اظہار 1904 ء میں ہمارا دیس میں اس عنوان سے ہو چکا تھا: 

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا

 سفر سے واپسی کے بعد اقبال کا قومی موقف مسلم قومیت کے وسیع تر تصور سے ہم عناں ہو جاتا ہے اور پھر ان کے ملی ترانے کا عنوان یہ ہو جاتا ہے:

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا 

علاقائیت سے بین العلاقائیت تک اور رنگ ونسل کے جغرافیائی امتیاز سے اسلامی دعوت اور مساوات کے عالمگیر تصور تک اقبال کا یہ ذہنی سفر اسلام کے قومی فکر و عمل کی تاریخ کا ایک اہم مسئلہ ہے جسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حج میں ایک عالمی منشور کے طور پر ملت اسلامیہ کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ اقبال کے اس ذہنی سفر کی وضاحت کے لئے ان کے زمانہ قیام یورپ کے بعض مشاہدات و تجربات کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ 

اس سفر کی تمہید ہی ذہنی انقلاب کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ اتفاق سے اقبال کے لاہور سے لندن تک اپنے سفر کی روداد خطوط کی صورت میں مدیر وطن کے نام لکھ بھیجی تھی ۔ 16 ایک خط دوران سفر 12 ستمبر کو عدن سے ڈاک کے سپرد کیا گیا۔ دوسرا کیمبرج پہنچ کر 20 نومبر کو ارسال کیا گیا۔ ان خطوط میں سفری مناظر کی تصاویر بھی ہیں اور اقبال کے ذہنی تاثرات اور جنہ باقی رد عمل کا عکس بھی۔

 یکم ستمبر کو لاہور سے روانہ ہو کر 2 ستمبر کو اقبال دہلی پہنچتے ہیں اور وہاں کے احباب کی معیت میں اسلامی شان و شوکت کے قبرستان کی زیارت کے لئے بھی جاتے ہیں اور وہاں سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوتے ہیں جو صفحہ دل سے کبھی نہ مئے گا۔ 4 ستمبر کو بھی پہنچتے ہیں تو وہاں ہوٹل میں قیام کے دوران دو ترک نو جوانوں سے اتفاقی ملاقات جو چند روز و رفاقت تک محدود رہتی ہے، ان کے دل میں عظیم جذبہ اخوت کے تار چھیڑ دیتی ہے۔ سمندری سفر کے نظاروں کے بعد عدن کے قریب پہنچ کر ساحل عرب کا تصور نہیں ذوق وشوق کی اس وادی بہار آفریں میں پہنچادیتا ہے جس کا تیل زندگی بھر ان کے لئے غذائے روحانی بنا رہا۔ دیار حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا قرب اقبال میں ایک عجیب والہا نہ کیفیت پیدا کر دیتا ہے اور وہ یہاں نثر کو شاعری سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں ۔

"اے عرب کی مقدس سرزمین ! کاش میں تیرے صحراؤں میں لٹ جاؤس اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہو اور پاؤں کے بلوں کی پرواہ نہ کرتا ہو اس پاک سرزمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی ۔

سویز پہنچ کر اقبال مصری دوکانداروں میں گھل مل کر باتیں کرنے لگتے ہیں تو چند کلوں کے لئے وہ لوگ بھی تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر جا پہنچتے ہیں۔ تعلیم یافتہ مصری نوجوانوں کا ایک گروہ سیر کرتا ہوا جہاز پر آتا ہے تو اقبال کو ان کے چیرے اس قدر مانوس معلوم ہوتے ہیں کہ جیسے علی گڑھ کے طلبہ کا کوئی وفد ہو ۔ پھر وہ احساس اخوت کے ماتحت ان کے پاس بھی پہنچ جاتے ہیں اور دیر تک ان سے عربی میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔ نہر سویز میں ان کے جہاز کے پاس ایک مصری جنگی جہاز گزرتا ہے تو اس کے عرشے پر تمام سپاہی ترکی ٹوپیاں پہنے نہایت خوش الحانی سے عربی غزل گاتے نظر آتے ہیں ۔ یہ نظارہ بھی ان کے دل پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔


وطن سے باہر نکل کر د یار غیر میں ہم مشربی واہم نظری کا جو وسیع تر تصور ان کے ذہن میں ابھرا ، وہ آگے چل کر ایک نصب العین کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ صرف اس کے ابتدائی خدو خال ہیں۔ ان تاثرات کو لیے ہوئے اقبال لندن پہنچتے ہیں جہاں احباب (مع شیخ عبد القادر ) ان کے لئے چشم براہ تھے اور پھر ایک رات آرام کر کے اگلی صبح سے وہ اس کام میں لگ جاتے ہیں جس کی انجام دہی نے انہیں وطن سے جدا کیا تھا اور جسے وہ اپنی نگاہوں میں عبادت کی طرح مقدس سمجھتے تھے ۔ آئندہ تین سال اسی انتہاک میں گزرتے ہیں۔

 انگلستان میں اپنے سہ سالہ قیام کے دوران میں اقبال کی توجہ ہمہ تن تعلیم کے اعلی مدارج طے کرنے پر مرکوز رہی۔ کیمبرج سے بی اے کرنے کے ساتھ ہی وہ پر فیسر میک میگرٹ کی رہنمائی میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کی تدوین میں مصروف رہتے ہیں ۔ پھر مقالے کی تکمیل کے بعد اسے میونخ یو نیورسٹی میں پیش کرنے کے لئے چند ماہ جرمنی میں قیام کرتے ہیں اور وہاں جرمن زبان اور فلسفے کے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں ۔ انہوں نے جرمنی سے واپس انگلستان آکر لندن یونیورسٹی میں پر فیسر آرنلڈ کی جگہ چند مادعربی زبان و ادب کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے اور لنکنز ان میں بارایٹ لا کی تکمیل بھی کی ۔ 

 اگر ہم خواجہ حسن نظامی کے نام کیمبرج سے اقبال کے پہلے خط کو دیکھیں جو اکتوبر 1905ء کو لکھا گیا اور جس میں خواجہ نظامی کے ذریعے سے شاہ سلیمان پھلواروی سے تصوف اور وحدت الوجود کے مسائل پر قرآن مجید کے حوالے دریافت کئے گئے ہیں اور پھر انہی خواجہ نظامی کے نام لندن سے آخری خط کو دیکھیں جو 10 فروری 1908 کولکھا گیا جس میں اقبال اسلامی تہذیب و تمدن پر اپنے چند سلسلہ وارلیکچروں کی تفصیل بیان کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے میں ایک ہی لگن ان کے یہاں ملتی ہے اور وہ اسلامی علوم وادبیات کی گہرائیوں تک پہنچنے کی حسن ہے۔ 

 کیمبرج میں قیام کے دوران میں اقبال کے اس علمی انتہاک کے بارے میں دو معاصر شہادتیں پروفیسر سارلے اور ڈاکٹر نکلسن کی ملتی ہیں جو پچھیں سال بعد اپنی اپنی یادداشت کے حوالے سے اقبال کی خاموش طبعی مطالعے میں مصروفیت کا ذکر کرتے ہیں۔ خود اقبال میں سال بعد میک ٹیگرٹ پر اپنے مضمون میں اپنے نگران پروفیسر سے اپنی روزانہ ملاقاتوں اور مسائل وافکار پر تبادلہ خیال کا تذکرہ کرتے ہیں۔ پروفیسرای۔ جی براؤن، پروفیسر ڈکسن اور پروفیسر آرنلڈ سے بھی ان کی اکثر ملاقاتیں ہوتیں ۔ وہ ان اساتذہ کی تعظیم کرتے ہیں لیکن علمی مباحث کے بعد اپنی رائے بھی قائم کرتے ہیں۔ 

 عطیہ فیضی نے اپنی یاد داشتوں میں ہائیڈل برگ( جرمنی ) کی چند سوشل تقریبات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنجیدگی اور متانت کے مجھے اقبال کو کبھی کبھی بر جستہ فقرے چست کر کے محفل احباب کو گرماتے دکھایا ہے۔ 48 اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اپنے افکار میں محور بنے والا اقبال اپنے گردو پیش پر بھی گہری نگاہ رکھتا تھا اور حسب موقع اپنے تاثر کا اظہار بھی کرتا تھا۔ انگلستان میں اقبال اور شیخ عبد القادر کا 1907 ء تک تقریب دو سال ساتھ رہا۔ اس دوران میں شیخ عبد القادر، مشیر حسین قدوائی کے ہمراہ اگست تمبر 1906ء میں دار الخلافت استنبول بھی گئے اور واپسی پر انہوں نے سفر نامه ( مقام خلافت ) بھی لکھا۔ ان دوستوں کی ملاقاتوں میں گردو پیش کے حالات پر تبادلہ خیال بھی ضرور ہوتا ہوگا اور ملک وملت کے حال و مستقبل کے بارے میں غور فکر کیا جاتا ہو گا۔ عبد القادر کے نام اقبال نے ایک نظم قیام یورپ کے اختتام پر کہی تھی ۔ اس نظم کے بین السطور سے ان ملاقاتوں اور گفتگوؤں کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سوچنے والے ذہن کے لئے اس میں بہت کی ان کہی باتوں کا سراغ موجود ہے اور پھر نظم میں آئندہ کے عزائم کی ایک جھلک بھی نظر آتی ہے۔

 ہمارے سامنے یورپ کے زمانہ قیام کی باتوں کے بارے میں کوئی تفصیلی ریکارڈ موجود نہیں۔ نظم ونثر میں چند اشارے ملتے ہیں یا نظر آتی ہے۔بعد کے بیانات ہیں جو اجمال سے تفصیل کی طرف کچھ رہنمائی کر دیتے ہیں۔ اقبال کی شعری تخلیق کا سلسلہ بھی عملی جستجو کی وجہ سے محدود رہا بلکہ ایک موقع ایسا بھی آیا جب انہوں نے شعر گوئی ترک کرنے کا رادہ کر لیا۔ شیخ عبدالقادر اس واقع کو یوں بیان کرتے ہیں: 

 ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا ارادہ معصم ہو گیا ہے کہ وہ شاعری کو ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے اور جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے اسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے میں نے ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں ہے جسے ترک کرنا چاہئے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری در ماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے ۔ اس لئے ایسی مفید ، خداداد طاقت کو بیکار کرنا درست نہ ہوگا۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے ، کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے ۔ 

 اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادہ ترک شعر کو بدل دیں اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترک شعر اختیار کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی تھی کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق رائے کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لئے شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں ، وہ ان کے لئے بھی مفید ہے اور ان کے ملک وقوم کے لئے بھی ہے ۔

انہی ایام کا ایک دوسرا واقعہ اقبال کے فارسی شعر گوئی کی طرف مائل ہونے کا ہے۔ اس سے پہلے ان کا رجحان اردو شعر گوئی کی طرف تھا اور اتفاق سے کبھی کبھار فارسی بھی در آتی تھی ۔ ایک موقع پر فارسی شعر کی فرمائش پر وہ فکرخن میں مستغرق ہوئے تو اگلے روز دو تازہ فاری غزلیں تیار تھیں جو انہوں نے شیخ عبدالقادر کوزبانی سنائیں۔ شیخ صاحب اس واقعے کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 

فارسی میں شعر کہنے کی رغبت اقبال کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہوگی اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب حالات تصوف کے متعلق لکھنے کے لئے جو کتب بینی کی ، اس کو بھی ضرور اس تغیر مذاق میں داخل ہوگا ۔ اس کے علاوہ جوں ہی ان کا مطالعہ علم فلسفہ کے متعلق گہرا ہوتا گیا اور دقیق خیالات کے اظہار کو جی چاہا تو انہوں نے دیکھا کہ فارسی کے مقابلہ میں اردو کا سرمایہ بہت کم ہے اور فارسی میں کئی فقرے اور جملے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایسے ملتے ہیں جن کے مطابق اردو میں فقرے ڈھالنے آسان نہیں۔ اس لئے وہ فارسی کی طرف مائل ہو گئے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اقبال کا ذہن اس دوران میں نصب العینی زندگی کی تربیت کے سلسلے میں بھی مطالعے اور مشاہدے کے ذریعے سے ایک خاص نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب ہور ہا تھا۔ اس ذہنی تغیر کے بارے میں اقبال 1921ء میں لکھتے ہیں۔ 

اس زمانے میں سب سے زیادہ بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و مکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا۔ اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان بنا دیا۔

 وہ کون سی ایسی بات تھی جس نے اقبال کو مسلمان بنا دیا ؟ کیا وہ پہلے مسلمان نہیں تھے ؟ اقبال یقینا پہلے بھی ایک مسلمان تھے ، ان کروڑوں کھاتے پیتے مسلمانوں کی طرح جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن جس بات نے انہیں بیچ بیچ کا مسلمان بنادیا وہ اسلام کی حقیقی روح اور اس کا اجتماعی نصب العین تھا جو یورپ کی نسلی وملکی و قومیت اور مادیت والہاد کے ہلاکت خیز ماحول میں رہتے ہوئے ان پر منکشف ہوا۔ یہ تقریب 1907ء کے اوائل کی بات ہے جب انہوں نے اس امر کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور مارچ 1907ء میں یہ قلبی واردات اس عزم وارادے کے ساتھ ظاہر ہوئی۔

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شررفشاں ہو گی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

اقبال کے اس ذہنی انقلاب کو تین جہتوں سے دیکھا جا سکتا ہے

1- اپنے تحقیقی مقالے ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقا کی تیاری کے دوران میں انہیں فارسی کی شعری روایت کے گہرے مطالعے کا موقع ملا۔ جہاں وہ فارسی شاعری کے دل آویز اسلوب سے متاثر ہوئے وہاں اس کے اندر پوشیدہ بعض افکار سے متنبہ بھی ہوئے جو تصوف کا جامہ پہن کر مسحور کن انداز میں شریعت حقہ سے متصادم تھے ۔ اقبال کو تصوف سے گہرا لگاؤ تھا اور وحدت الوجود کےتصور سے بھی وہ متاثر تھے ۔ 

اس مطالعے نے انہیں تصوف اور وحدت الوجود کے تصور کے بارے میں شک میں ڈال دیا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ تصوف کا اسلام کی تعلیمات اور قرآن سے کس حد تک علاقہ ہے نیز مروجہ تصوف کی تعمیر و تشکیل میں مجموعیت مسیحیت ، بدھ مت، ویدانت وغیرہ نے کسی حد تک حصہ لیا ہے۔ فلسفہ مجسم کے اس مطالعے و تجزیے نے آگے چل کر اقبال کے ہاں " نجم " اور " مجمعیت" کی ایک ایسی فکری و شعری اصطلاح کو وضع کیا جسے وہ عرب کیا عربیت" کے مقابلے میں استعمال کرتے ہیں۔ یا بتدا تھی اس ذہنی کشمکش کی جو چند سال بعد اسرار ورموز میں دستور العمل کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اقبال اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نفی خودی کا رجحان تصوف میں غیر اسلامی عجمی اثرات کا نتیجہ ہے جس نے شعر و ادب کے راستے داخل ہو کر ملت اسلامیہ کے نحطاط وزوال میں حصہ لیا۔

2 مغرب کے مادی فلسفوں اور علم الحیات کے نئے نظریوں نے الحاد کی جن راہوں کو کشادہ کیا اور کلیسائی نظام سیادت ( پاپائیت ) کے زوال ، سیکولر ازم کے فروغ اور اس کے نتیجے میں وطنی قومیت کا جو تصور وہاں ابھرا ، وہ نوع انسانی کی بربادی کا پیش خیمہ تھا۔ صنعتی انقلاب نے یورپ میں تعمیر وترقی کی رفتار کو تیز کیا اور ان استعماری طاقتوں نے مشرق ( ایشیا و افریقہ ) کی پسماندہ اقوام کو حکوم بنانا اور ان کے قدرتی ، معدنی وسائل پر قبضہ جمانا شروع کیا۔ پھر اس استعماری لوٹ کھسوٹ میں خودان طاقتوں میں رقابت و مسابقت شروع ہو گئی اور یہی بات مغربی تہذیب اور نظام سیاست کی ہلاکت کی تمہید بن کر سامنے آگئی ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جنگ عظیم کی تیاریاں زور شور سے ہو رہی تھیں ۔ اقبال یورپ میں بیٹھے اس منظر کا بھی مشاہدہ کر رہے تھے ۔ مارچ 1907 ء کی غزل کے یہ اشعار اسی مشاہدے کا نتیجہ کہے جا سکتے ہیں:

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا


تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، نا پائیدار ہو گا

اقبال سفر مغرب سے پہلے وطنی قومیت کے تصور سے متاثر تھے ۔ اب وہ اس کے سخت خلاف ہو گئے ۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے " وطن ( بحیثیت ایک سیاسی تصور “ لکھ کر اس تصور کی قباحتیں بھی بیان کر دیں اور عالمگیر انسانی اتحاد کے لئے اسلام کے تصور قومی کو مستحسن قرار دیا۔ دوسری جگہ فرمایا۔

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا

بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے 

3 -ایشیا و افریقہ کے وسیع و عریض خطوں میں پھیلا ہوا اسلامی ممالک کا حصار یورپ کی استعماری طاقتوں کی زد پر تھا۔ بعض ممالک محکومی کی زنجیروں میں جکڑے جاچکے تھے بعض برائے نام آزاد تھے لیکن استعماری طاقتوں کی شازشوں کا شکار ہورہے تھے۔ وہاں کی نوجوان تعلیم یا فی نسل مغربی تہذیب اور وطنی قومیت سے متاثر ہوکر نفاق و افتراق میں مبتلا ہوری تھی ۔ یورپ ، ایشیا اور افریقہ میں پھیلی ہوئی عثمانی سلطنت یورپ کی استعماری طاقتوں کا خصوصی ہدف تھی ۔ زار روس اسے یورپ کا مرد بیمار، قرار دے چکا تھا اور اس کے حصے بخرے کرنے کی سازشیں ہو رہی تھیں ۔ ان مایوس کن حالات میں بعض ممالک میں ردعمل کے طور پر میائی تحریکیں اپنا کام کر رہی تھیں ۔ 

خصوصاً عرب میں وہابی ، شمالی افریقہ میں سنی تحریک احیائے دین کے جذبے سے سرشار تھیں ۔ الجزائر میں امیر عبدالقادر مصر میں اعرابی پاشا اور سوڈان میں مہدی سوڈانی انیسویں صدی میں جہاد حریت کے نشان قرار دیئے جاچکے تھے۔ جہاد اور قربانی وسرفروشی کی یہ روایت خوش آئند مستقبل کی نشاندہی کر رہی تھی ۔ اتحاد عا اتحاد عالم اسلامی کا تصور ابھر رہا تھا۔ سید جمال الدین افغانی اس روح بیداری کے ایک بڑے نمائندے تھے جوزندگی بھر مختلف ملکوں میں گھوم پھر کر ان بکھری ہوئی تحریکوں میں رابطے کی ایک صورت پیدا کرتے رہے۔ 

اتحاد اسلامی کی ایک علامت عثمانی خلافت کی صورت استنبول میں موجود تھی ۔ سلطان عبدالحمید ثانی اتحاد اسلامی کے اس تصور کو اپنی سلطنت کی بقا استحکام کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ انہی کی حکومت کے آخری ایام میں شیخ عبد القادر اور مشیر حسین قدوائی استنبول گئے۔ استنبول سے واپسی پر دارالخلافت کے حالات اور مرکز خلافت کے مسائل بھی گفتگو کا موضوع بنے ہوں گے اور احیائی تحریکوں کا تذکرہ بھی کسی نہ کسی شکل میں ہوا ہو گا۔ اس پس منظر میں اقبال کے وہ اشعار جو انہوں نے مارچ 1907ء میں کہے محض شعری الہام ہی نہیں بلکہ حالات سے آگاہی کا نتیجہ بھی کہے جا سکتے ہیں:


بنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خاموشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا


اس طرح وہ ذہنی انقلاب جس کی ابتدا آغاز سفر سے ہوئی تھی تکمیل کو پہنچا۔ اقبال نے وطنی قومیت کے خول سے نکل کر وسیع تر انسانی اتحاد کے لئے مسلم قومیت کے نظریے کو اپنایا، جو رنگ ونسل کی جغرافیائی حدود سے ماورٹی ہو کر مشرق و مغرب کے انسانوں کو ایک عالمگیر وحدت کا راستہ دکھاتا ہے۔ 

لندن میں اپنے قیام کے آخری سال اقبال نے اسلامی تہذیب و تمدن پر لیکچروں کا جوسلسلہ شروع کیا ان کے موضوعات یہ تھے۔ اسلامی تصوف ، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر اسلامی جمہوریت ، اسلام اور عقل انسانی 53 ان کا ایک مقالہ Political" "Thoughtin Islam سوشیالوجیکل ریویو (لندن) میں شائع ہوا۔ ان کا پی ۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ بھی 1908ء میں لوزاک کمپنی لندن نے شائع کیا یہ اقبال کی دوسری مطبوعہ تصنیف ہے جو انگریزی نثر میں ہے۔

Post a Comment

0 Comments